ذرا سنبھل کے۔۔یہ گھر سب کا ہے

بساطِ عالم کی ہر سطح پر نت نئے کھیل کھیلے جارہے ہیں، شطرنج کے مشاق کھلاڑی ہرلمحہ کامل مستعدی سے اپنے مہروں کے ہمراہ نئی مہم جوئی کیلئے دھمکتے ہیں ،اور پھر چشم ِفلک کو ایک نقشہ زوال اور دوسرا وقوع پذیر نظر آتاہے،ہر صبح ایک نئی کھانی اور ہر شام کو ایک پرانا منصوبہ دم توڑتا نظر آتاہے ،کشمکش اور اتارچڑھاؤ کی اس انسانی بستی میں کئی زندہ تابندہ ہستیوں اور نظیروں کو لمحوں میں موت کے گھاٹ اترنے اور کئی مردہ جسموں میں نئی جان پڑنے کے نظارے نگاہِ عبرت کومل رہے ہیں ،بہت کم حادثات و واقعات پر کبھی کوئی غور کرکے اپنے من اور چلن کو اسکے تناظر میں دیکھنے کی زحمت کرتاہے ۔
پاکستان میں ملکی سالمیت اور قوم کی خدمت کا سیاسی اور انتخابی نعروں میں تو خوب چرچاہوتاہے ،عملاً اقتدارکی ڈولی سے بغلگیر ہونے والے کو کبھی مادر وطن اور قوم ومملکت کی فکر دامنگیر نہیں رہی ،کرسی تک پہنچنے کیلئے ہرخطرہ مول لیاجاتا اور ہر طرح سے جان لڑائی جاتی ہے اور پھر اسے گنوانے کیلئے کسی قیمت پر آمادگی اور رضامندی نہیں ہوتی ۔باورد ی آمر ہوں یا پھر سول مطلق العنان حاکم ،توسیع پسندی اسکا شیوہ ہوتاہے، اور کوئی اگلا پچھلے سے سبق نہیں سیکھتا، سیکھناہے تو بس یہی، کہ دوبارہ موقع ملے اور رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے ۔

آج کے شریف حکمراں تیسری مرتبہ جمہور کے کندھوں پر سوار ہوکر آسمان ِاقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اب بھی حسب سابق اسکی معراج پر پہنچنے کیلئے ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے ‘‘ گنگنارہے ہیں ۔ملک کو اقوام عالم میں باعزت مقام دلانے کا خواب مشرف نے بھی دیکھاتھا اور اپنے قلیل حصۂ اقتدار میں اسے چار چاند لگانے کا نعرہ شریف بھی لگارہے ہیں ،کامیابی کی دعا بھی نہیں کرسکتے کہ گذشتہ’’ باریوں ــ‘‘کا ریکارڈ قابل رشک تو کیا ،لائقِ ذکر بھی نہیں ہے ،ستاروں پر کمند ڈالنے کے عزم کو کندھوں پر ستارے سجانے والوں سے بھی خطرہ ہے، اور غلطیاں پہلے بھی صرف چھڑی والوں کی نہ تھیں،اور اب بھی اس سے ملتی جلتی لگتی ہیں ،سمجھوتوں کے بادشاہ اور بیساکھیوں کے بے دریغ استعمال کے ماہر سابق رئیس جمہور سے بھی مدد لی جارہی ہے، لگتاہے سانپ کے ڈسے ہوئے کو پھر کوئی سانپ نما رسی دہلیز پر پڑی نظر آئی ہے ، قدرت موقعے ضرور دیتی ہے ،مگر موقعوں کی بارش نہیں کرتی اور اس بنجر زمیں پر تو شاید بارش سے بھی عقل وخرد کی کوئی فصل نہیں اُگے گی ۔دیکھیں ماضی میں بازی ہارنے والے کی قسمت نے آج بازی پلٹ دی ہے اور اب بازیگر اپنے مجرم کے کٹہرے میں کھڑا ہے ،مضبوط بیک گراونڈ کے حامل بازیگر کو کسی معذرت اور ندامت کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ،ادھر انتقام کا نامزد امیدوار شش وپنج میں ہے اور پیچ وتاب کھارہا ہے، جس سے جلاوطنی سے سبق سیکھنے کے ان کے دعوے اور مداحوں کے زعم کو شدید دھچکا لگ گیا ہے۔

ہمیں تو بہرحال شریف حکمرانوں کا دماغ اسی طرح اپنی سوچ سوچنے اور دل اسی نشۂ اقتدار سے مخمور لگ رہاہے ،سابق میں مقتدر قوتوں کے منظور نظر ہونے کے ناطے تاجداری کے اعزاز کو وہ بدستور اپنی ذہانت اور فراست خیال کرتاہے اور خطے او رملک کے حوالے سے وہ اپنی پرانی ذاتی ترجیحات اور فرسودہ روایات پر پھرسے عمل پیراہے ،سیاسی حلقہ بندیوں کی اسی ماحول نے ان کی سوچ کو اس روش پر بنائے رکھاہے، جس میں انہوں نے آنکھ کھولی اور جس کے سائے میں انہوں نے سیاسی زندگی کے ایام طفولیت گذارے ہیں، خطے میں لڑی جانے والی حالیہ جنگ میں ناحق شمولیت کی کوتاہ پالیسیوں کے نتیجے میں داخلی امن اوربیرونی تعلقات کیلئے مقتدر قوتوں کا خودسر فارمولا ان حدود کو چھورہاہے کہ اب شریف حکمرانوں کیلئے اس کوہاتھ دینے اور ساتھ چھوڑنے میں کسی ایک راہ کا انتخاب بھی آسان نہیں ،تابع محض رہ کراپنے تشخص پرآنچ نہ آنے دینا بھی دشوار ۔۔۔ حاوی ہوکر اپنی سلامتی خطرے میں ڈالنا بھی گھاٹے کا سوداہے ،، بھٹونے اسی دوراہے پر آکر، اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرلئے تھے اور اس کے داماد کو حالات نے اسی صورت حال میں پتلی گلی سے نکلنے کا ہنر سکھایا ، پر نواز شریف کی باڈی لینگویج میں اس حوالے سے دانشمندی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ، اگریہ سچ ہے کہ انہیں ماضی میں مشیروں نے تباہی کے دہانے پر پہنچایاتھا ،تو اس مرتبہ بھی انہیں مشیروں کے سبب ان پر اس طرح کی افتاد آئے گی۔

عمران خان کے موہوم خطرے کے سامنے بندباندھنے کیلئے وہ اپنے روایتی قد کا ٹھ کو بری طرح پامال کرتے ہوئے اسکی چوکھٹ پر جاگرنے کو سیاسی یا اخلاقی برتری سمجھ رہاہے اور اقتدار کے بند ربانٹ میں حقیقی اور جعلی مینڈیٹ اور علاقائی صورت حال کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھکر موجودہ حکمرانوں نے پھر عدم توازن اور عدم استحکام کی بنیاد رکھ دی ہے اور اب وہ دیوارِ کج، غلط سمت میں اونچی ہورہی ہے جوکسی بھی وقت گر کر خود ان کے زخموں کو بھی تازہ کرسکتی ہے، نیز کئی دوسرے المیے بھی جنم لے سکتی ہے ۔

مولانا فضل الرحمن کو زیرک اور ذہین سیاستداں ہونے کی سند مفت میں نہیں ملی ،ان کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنے مکتبہ ٔفکر کے روایات کے امین بھی ہیں، مگرخطے اور ملک کی بدلتی ہوئی صورت حال پران کی گہری نظر ہوتی ہے، چنانچہ ہر وقت درست فیصلے کرنے میں وہ گرد اڑانے والوں اور آنکھیں دکھانے والوں میں سے کسی کی بھی پر واہ نہیں کرتے ،یہی وجہ ہے کہ کتنے طوفان آئے اور کیا لاوے پکے، مگر کیچڑ اچھالاجاتارہااور وہ باوقار چال چلتے ہوئے اپنی ناؤ ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوئے، وہ ماضی میں بھی بائیں بازو کی شناخت رکھنے والوں کی طرف دھکیلے گئے، تو انہوں نے اپنا قبلہ نہیں بدلا،بلکہ وہ ان بلاکوں سے بالاتر سوچتے رہے اور اپنی عزت اور قوت بچائے رکھنے کیلئے نئی راہوں اور ہمراہوں سے رہ گذر کی حد تک سمجھوتہ کیا۔

قربتوں اور فاصلوں کیلئے مولانا پر مفاد پرستی کا لیبل چسپا ں کرنے والے ان کی ہسٹری کو نظرِ انصاف سے دیکھنے کی اھلیت پیدا کریں، یا پھر ذاتی پر خاش کی بناء پر انصاف کا خون نہ ہونے دیں ،’’شریفوں ‘‘کے سامنے سرنگوں ہونے کا مولانا سے ناحق تقاضا نہ کیا جائے ، جو انکے سیاسی مسلک میں ناممکن ہے۔ ملک و ملت کی نازک صورت حال کے پیش نظر غیرمشروط حمایت میں پہل کرنے کے بڑے پن کا بھی میڈیا اور سیاسی حلقے خیر مقدم تو کیا کرتے، کھلے عام مذاق اڑاتے اور حکمراں بننے کی راہ پر گامزن شریف برادراں کی پارٹی نے خیبر پختونخوا،بلوچستان اور وفاق میں مولانا کو چکمہ دینے اور نیچا دکھانے کی ماضی کی روایت برقرار رکھی ،ہم پھربھی اقتدار کے حقیقی مالکوں اور ظاہری علامتوں کو اپنی دانست میں درست سمت کا پتہ دینے کی کوشش کریں گے اور تمام تر خلوص وبے غرضی سے عرض کریں گے کہ غیر جمہوری روایتوں کی حوصلہ شکنی کا آغاز اپنی ذات اور عمل سے کریں ، سسٹم کے سرپر لٹکے ہوئے خطرات کیلئے مگر مچھ کے آنسوں بہانے کی بجائے جمہور کو اختیار وانصاف دلانے والے مولانا کی قدر کیجئے، جنہوں نے مذہب ،سیاست اور زندگی کے دیگر شعبوں میں تشددکا عنصر اور تسلط کے جراثیم در آنے کوہمیشہ کیلئے بروقت بھانپ لیا اور اس کے سامنے کامیاب منصوبہ بندی کے ساتھ بند باندھا ،آج اس ملک میں جس قدر بھی سکون یا بہتری کا ماحول ہے ،اس میں مولانا کا بہت بڑا کردار ہے ،جس کو کئی ملک دشمن اور دین مخالف لابیاں مکدر کرنے کی ناپاک کوششیں کررہی ہیں ۔

اھل اقتدار کا اپنا بھلا بھی اسی میں ہے کہ مولانا کے فکر ی اعتدال ،قوت فیصلہ اور صلاحیتِ عمل سے فائدہ اٹھائیں اور سنبھل جائیں ، ریاست وخطے ،اور عالم اسلام کیا، عالم انسانیت کوبھی معتدل ، متوازن اور متحمل مزاج شخصیات کی شدیدضرورت ہے، قوموں میں آئے روز اعلی دماغ پیدا نہیں ہوتا ، نہ قدرت ہر باصلاحیت کو شہرت وتاثیر کی ان بلندیوں پر پہنچنے دیتی ہے، یہا ں کاہر عالی دماغ اور بلند نظر اس دھر تی کا سپوت ہے اور یہ گھر بھی اب ایک دو سے نہیں سنبھالا جائے گا، سو اپنا او رگھر کا خیال رکھیئے ۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814277 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More