استاد کی بیمار طالبہ کے لیے عظیم قربانی

انسان سے انسانیت تک کا سفر قربانیوں اور ایثار کے کٹھن راستوں سے ہو کر گزرتا ہے اور دیکھا جائے تو انسان کو فی زمانہ جتنی انسانیت کی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ ایسے میں اگر کہیں بے غرض اور سچے ایثار کی کہانی جنم لیتی ہے تو یہ احساس دلاتی ہے کہ انسانیت ہر دورمیں زندہ تھی اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔
 

image


وائس آف امریکہ کے مطابق گزشتہ دنوں لندن کے اخبارات میں شدید بیمار کم سن طالبہ عالیہ احمد علی کی جان بچانے والے استاد کی بے لوث قربانی کی روداد شائع ہوئی جو نا تو عالیہ کے ہم زبان ہیں اور نا ہی ہم مذہب اور نا ہی عالیہ کو پہلے سے جانتے تھے۔ لیکن انسانیت کے مضبوط رشتے پر یقین رکھنے والے استاد 'رے کو' نے اپنا ایک گردہ عطیہ کر کے 13 سالہ عالیہ احمد کی جان بچا لی ہے۔

53 سالہ رے کو نے یہ فیصلہ اس وقت کیا جب شدید بیمار عالیہ احمد کو موسم ِگرما میں ڈائلیسسز کے لیے چھٹیاں درکار تھیں۔

عالیہ احمد کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور hydrocephalus نامی بیماری (دماغ میں پانی بھر جانا) کی وجہ سےعالیہ کی سیکھنے اور سمجھنے میں صلاحیتیں شدید متاثر ہو رہی تھیں۔ ان حالات میں عالیہ کو ایک گ ±ردے کے عطیہ کی اشد ضرورت تھی۔

عالیہ مشرقی لندن میں نیو ہیم کے 'رائل ڈوکس کمیونٹی اسکول' میں زیر ِتعلیم ہے جہاں مسٹر کو خصوصی ضروریات کے رابطہ ِکار کے فرائض انجام دہتے ہیں۔ عالیہ کی والدہ نے جب مسٹر رے کو سے عالیہ کی چھٹی کی درخواست کی تو انہوں نے بنا کسی تردد کے پہلا جملہ یہ کہا کہ کیا وہ عالیہ کی بیماری کے حوالے سے کسی قسم کی مدد کر سکتے ہیں؟

مسٹر رے خود بھی صاحب ِاولاد ہیں اور انہوں نے ایک ماں کا دکھ محسوس کر لیا تھا۔ ان کا اگلا جملہ عالیہ کی والدہ کے لیے قطعی غیر متوقع تھا۔ کیا وہ اپنا نام عطیہ کنندگان کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں؟

مسٹر رے کو نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ڈونر بننے کا مطلب وہ اچھی طرح سے جانتے تھے۔ یہ ممکن تھا کہ انہیں آگے پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑے۔ وہ گردے کی پیوند کاری کے عمل کے مضمرات اور اس کے اثرات سے پوری طرح سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
 

image

انہوں نے بتایا کہ وہ ایک فیصلے کی گھڑی تھی جب انھوں نے بائبل کی ایک آیت میں پڑھا کہ شاید تمہیں کسی ایسے ہی موقع کے لیے پیدا کیا گیا ہو، بس اسی لمحہ میرا ارادہ اور بھی مضبوط ہو گیا کہ میرا فیصلہ بالکل درست ہے۔

مسٹر رے نے کہا کہ جب انھوں نے عالیہ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ بے اختیار آگے بڑھ کر میرے گلے سے لگ گئی اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا اس لمحے کو یاد کر کے میں اب بھی آبدیدہ ہو جاتا ہوں۔

مسٹر کو اور عالیہ اس کے بعد ڈاکٹروں کی مشاورت اور مختلف بلڈ ٹیسٹ کے مراحل سے گزرے جس کے بعد ڈاکٹروں نے یہ خوشخبری سنائی کہ مسٹر رے کا، اگرچہ عالیہ سے کوئی رشتہ نہیں،اس کے باوجود ان کا گردہ عالیہ کے لیے موزوں ہے۔ جبکہ کہا جاتا ہے کہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ انجان لوگوں کے گردے آپس میں میچ کر جائیں۔

عالیہ اور مسٹر کو کا آپریشن فروری میں'لندن گریٹ آرمونڈ اسٹریٹ اسپتال' میں ہوا اور ان دنوں عالیہ اور مسٹر رے دونوں تیزی سے صحتیاب ہو رہے ہیں جو ایسٹر کی تعطیلات کے بعد دوبارہ سے اسکول جانا شروع کر سکیں گے۔

عالیہ کے والد احمد علی نے ذرائع کو بتایا کہ ان کے خاندان کے لیے مسٹر رے ایک جان بچانے والے مسیحا اور ہیرو ہیں۔ وہ ایک باکمال انسان ہیں جنھوں نے اپنے ایک گردے کا تحفہ دے کر عالیہ کو نئی زندگی دی ہے۔ ان کا شکریہ الفاظ میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہمارے خاندان کے ایک رکن بن گئے ہیں جن کی اس عظیم قربانی کا قرض ہم زندگی بھر نہیں اتار سکیں گے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

A teacher has been described as ‘a hero and a lifesaver’ after he donated one of his kidneys to a seriously ill pupil from Stratford. The father of 13-year-old Alya Ahmed Ali said Ray Coe has given his daughter a ‘second chance at life’ and is ‘an amazing man’ after a successful transplant at Great Ormond Street Hospital.