مرحوم الخیر یونیورسٹی کی یاد میں

الخیر یونیورسٹی ایک ادارا نہیں بلکہ ایک سوچ تھی۔ اور سوچ بڑی ھی سادا تھی پیسہ کماؤ اور خوب کماؤ۔ نوے کی دھائی میں راولپنڈی اور اسلام اباد کے گلی محلے الخیر یونیورسٹی کے کیمپسس سے بھرے ھوئے تھے۔ گلی محلے میں اسکول ھو یا نہ ھو، الخیر یونیورسٹی کا ۱۰۰* ۱۰۰ فٹ کا ایک کیمپس ضرور مل جاتا تھا۔ داخلے کے لیے بھی کوئی خاص وقت اور تحلیم مقرر نہیں تھی ۔ طالب علم سارا سال کسی وقت بھی ، دن ، دوپہر اور رات کو داخلہ لے سکتے تھے۔ ماسٹر پروگرام (ایم اے) میں داخلے کے لیے بی اے کا ھونا، ایک بنیادی اور فطری شرط ھوتی ھے تاھم الخیر یونیورسٹی نےفروغ تعلیم کے لیے اس شرط میں بھی نرمی رکھی ھوئی تھی۔ طالب علم اگر بی اے میں فیل بھی ھے تو الخیر یونیورسٹی اس کو ایم اے پروگرام میں داخلہ دے دیتی تھی اور یوں طالب علم کو ایم اے کیساتھ ساتھ بی اے پاس کرنے کے گر بھی سکھاتی تھی۔

الخیر یونیورسٹی ھر طرح کی ڈگری ایشو کرتی تھی تاھم جیسے ھر یونیورسٹی کی کوئی نہ کوئی اسپیلایزیشن ھوتی ھے، اسی طرح الخیر یونیورسٹی کی بھی ایک اسپیلایزیشن تھی اور وو تھی، کمپوٹر ساینس کی ڈگری۔ دس سال کے قلیل عرصے میں ، پاکستان میں الخیر یونیورسٹی جیسی درجنوں مزید یونییورسٹیاں کھل گیں اور انہوں نے مایکروسافٹ ورڈ میں پروگرامنگ کرنے والے کثیر مقدار میں سافٹ ویر انجنیرز پیدا کیے۔

یہ سافٹ ویر انجنیرز دنیا کی ھر شے بنا سکتے تھے علاوا سافٹ ویر کے۔ ان انجنیرز کو لوپ اور پوانٹرز نہ کبھی کلاس روم میں سمجھ میں اے تھے اور نہ ھی اگلے دس سال میں سمجھ انے کی کوی امید تھی۔ تاھم ھر پروفیشنل کی طرح یہ انجنیرز، اپنی صلاحیتوں کو اپنے پروفیشن یحنی سافٹ ویر بنانے میں استحمال کرنا چاھتے تھے۔ اپنی انہی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے یہ انجنیرز سافٹ ویر کمپنوں میں حصول جاب کے متمنی نظر اتے تھے۔ سافٹ کمپنیوں کے مالکان بھی، باقی مالکان کی طرح بڑے سیانی طبحیت کے ھوتے ھیں۔ وو ان گریجوایٹس کو جاب تو دے دیتے تھے تاھم ساتھ میں یہ بھی کہ دیتے تھے کہ انجنیر صاحب، کمپنی کے پاس سب کچھ ھے سواے کمپوٹر کے۔ اس لیے اپ اپنا کمپیوٹر ساتھ لے ایے اور کل ھی جاب جواین کر لیجیے۔ کمپنی اپ کو انٹرنیٹ کی سہولت مفت میں مہیا کرے گی تاھم تنخواہ ابھی نہی دے سکتی ۔ آپ پانچ چھ مہینے کام کیجیے ، اس دوران کمپنی کی حالت بھی بہتر ھو جائے گی اور اپ کو بھی سوی دھاگہ کا استعمال یعنی پروگرامنگ آجائے گی تو پھر آپ کی تنخواہ بمعہ بونس لگا دی جائے گی۔

اس دھائی میں، ھایر ایجوکیشن کمیشن نے الخیر اور اس جیسی درجنوں یونیورسٹیوں کو بند کردیا۔ بظاھرا تو ھایر ایجوکیشن کمیشن نے ان یونیورسٹیوں کو بند کیا ھے لیکن حقیقتا یہ یونیورسٹیاں اپنی طبعی موت کے بہت قریب تھیں۔ اب الخیر یونیورسٹی کے بےشمار کیمپس تو اس دنیا میں رھے، البتہ مرتے مرتے وو اپنی سوچ پاکستان کی پبلک یونیورسٹیوں کو منتقل کر گیے ۔ آج پاکستان کی بڑی بڑی پبلک یونیورسٹیاں بھی الخیر یونیورسٹی کی سوچ یعنی پیسہ کماؤ اور خوب کماؤ, پر گامزن ھیں۔ اس عمل کے دوران اگرطالب علم نے کوی تحلیم بھی حاصل کر لی تو وو اس کا مقدر۔
naveed choudary
About the Author: naveed choudary Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.