پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان

گزرتے وقت کے ساتھ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی انسانی اسمگلنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔انسانی اسمگلنگ سے مراد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ طور پر یا دھوکا دہی کے ذریعے کسی شخص کو دوسرے ملک کی سرحد عبور کرتے ہوئے اس ملک میں داخل کرانا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اسمگلنگ ایک منظم اور بھیانک جرم ہے، اس جرم سے کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنا یا کسی قسم کی معاونت کرنا بھی جرم ہے۔ یہ ایک منظم جرم اور بڑا منافع بخش کاروبار اور پیسہ کمانے کا آسان طریقہ ہے، جس میں ایجنٹس کے پورے پورے نیٹ ورکس ملوث ہوتے ہیں۔ بہتر معاشی مستقبل، غربت کی وجہ سے اکثر لوگ بیرون ملک جانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ایجنٹس نیٹ ورکس ان کو قانونی طریقے سے باہر لے جانے کی بجائے غیر قانونی طریقوں سے سرحد عبور کرانے کا انتظام کرتے ہیں اور اس انتظام کرنے پر بھاری رقوم بھی حاصل کرتے ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملک میں داخل ہونا انتہائی مشکل اور ایک بہت اذیت ناک سفر ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ دوسرے ممالک کی سرحد عبور کرتے ہوئے مختلف طرح سے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ غیر قانونی سرحد عبور کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد راستے میں ہی یا تو گرفتار ہوجاتی ہے یا پھر سرحدی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔ کچھ لوگ مختلف ممالک میں صحرائی علاقوں سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن طویل صحرا میں پانی اور کھانے کی اشیاءکے ختم ہوجانے اور مسلسل چلنے کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ بہت سے افراد بحری جہازوں کے تہہ خانوں میں دم گھٹنے سے یا پھر پکڑے جانے کے خوف سے ایجنٹس کے ہی ہاتھوں سمندر برد کردیے جانے سے مرجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے رجحان پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری اورعدم تحفظ کے باعث انسانی اسمگلنگ کی صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے۔ دیگرجرائم کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ کاگھناو ¿نا کاروباربھی خوب پھل پھول رہاہے۔ صورت حال میں تبدیلی نہ آئی توخدشہ ہے کہ پاکستان کوملنے والی بین الاقوامی امداد میں کٹوتی کاسامنا کرنا پڑے گا۔ ان پڑھ و غریب عوام کنبے کی کفالت اوربہتر مستقبل کے لیے آئے دن انسانی اسمگلرز کا شکار بن کرنہ صرف اپنی عمر بھر کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، بلکہ دیار غیر میں صعوبتیں بھی برداشت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے جرائم میں ملوث افراد کے وسائل میں اضافہ، جبکہ ان کی روک تھام کرنے والے اداروں کے وسائل میں کمی واقع ہورہی ہے۔

بلاشبہ انسانی اسمگلنگ کا جرم پاکستان کے لیے مستقل درد سر ہے۔ گزشتہ ماہ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے پاکستان کو عالمی اداروں کی ٹیئر2واچ لسٹ میں شامل کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ بہتر ذریعہ معاش کے متلاشی نوجوانوں اور جنسی تجارت کے لیے زیادہ تر خواتین و بچوں کی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے لیے پاکستان بدستور ایک منزل مقصود، راہداری اور منبع مانا جاتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ تر ایسے افراد کی اسمگلنگ کے واقعات پیش آتے ہیں جو بہتر روزگار کی تلاش میں غیر قانونی طریقوں سے یورپ اور مشرق وسطی کے ملکوں کا سفر کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ملک میں انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان کا جغرافیہ اور کئی ممالک سے منسلک اس کی طویل سرحدیں بھی ہیں۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد 900 کلومیٹر طویل ہے، جہاں سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کی سرگرمیاں سب سے زیادہ ہیں، کیونکہ صرف تافتان کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان امیگریشن مرکز ہے اور وہ بھی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔ پاکستان میں بلوچستان سے ایران پھر ترکی اور پھر وہاں سے یونان یہ ایک روایتی راستہ رہا ہے اور جب اسمگل کیے جانے والے افراد مطلوبہ ملک میں پہنچ جاتے ہیں، بشمول یورپی ملکوں میں تو وہاں موجود ایجنٹس انھیں ان کی مرضی کی منزلوں پر بھیج دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی سرحد پر ایران میں مند بیلو کا علاقہ انسانی اسمگلروں کے زیر استعمال ہے۔ یہاں سے یہ بڑے بحری جہازوں یا کشتیوں میں مسقط جاتے ہیں اور پھر وہاں سے یہ مشرق وسطی کی ریاستوں میں نکل جاتے ہیں۔ ایران سے سالانہ تقریباً 15 ہزار جب کہ عمان سے لگ بھگ سات آٹھ ہزار پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کرکے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے۔ تاہم انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی سالانہ مجموعی تعداد کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اعدادوشمار جمع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔لیکن ملک میں انسانی اسمگلنگ کے مطلوب خطرناک ملزمان کی تعداد 4 سال میں 89 سے بڑھ کر 141 تک جاپہنچی ہے، جن کے تقریباً 8ہزار ایجنٹ ہیں، 2009سے 2014 تک 61200 افراد کو بیرون ملک جانے کی کوشش پر پاک ایران اور پاک افغان سرحد پر پکڑا گیا، جبکہ یہ لوگ 8ہزار سے زاید افراد کو مشرق وسطی، یورپی اورافریقی ممالک اسمگل کرچکے ہیں۔ انسانی اسمگلر عموماً گلستان،چمن، نوشکی، چاغی، مندبلو، پنج گور، تافتان اور تربت کے راستے استعمال کرتے ہیں۔ ایف آئی اے بعض انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کے ریڈ وارنٹ جاری کرچکاہے، ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ایف آئی اے کی ریڈ بک کے مطابق بیشتر انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں کا تعلق گجرات اور گوجرانوالہ سے ہے۔ کچھ انسانی اسمگلر سیالکوٹ، راولپنڈی ، منڈی بہاﺅ الدین اور آزاد جموں وکشمیر سے ہے۔ یہ ایجنٹ لوگوں کو انتہائی تھوڑی رقم میں دوسرے ممالک میں بھیجنے کا جھانسا دیتے ہیں اور ان سے پیسے لے کر انہیں کسی دوسرے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سرگرم عمل انسانی اسمگلر اس غیرقانونی کاروبار سے تقریباً15 کروڑ ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔

پاکستان اس غیر قانونی عمل سے شدید طورپر متاثر ہوا ہے، یہاں سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ ہوتی ہے ،بلکہ اس سرزمین کو گزرگاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بنگلا دیش،سری لنکا، برما اور انڈیا سے خواتین، بچوں اور مردوں کو غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک، ترکی، ایران اور یورپ میں اونٹوں کی دوڑ، جسم فروشی اور جبری مشقت کے لیے ہوائی، سمندری اور زمینی راستوں سے اسمگل کیا جاتا ہے۔ افغانستان کے باشندوں کو بھی مغربی اور خلیجی ممالک کی طرف اسمگل کرنے کے لیے پاکستان کو راہداری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل سرحد پر صرف چمن اور طورخم کے مقام پر دو امیگریشن پوسٹیں ہیں اور ان پر بھی محض پانچ فیصد افراد بین الاقوامی مسافر ہوتے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق یورپ میں ویزا اور امیگریشن کے نظام میں موثر تبدیلیوں کے بعد حالیہ برسوں میں اہم قانون سازی کے علاوہ امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے تعاون سے خصوصاً ہوائی اڈوں پر جدید مشینری کی تنصیب کی مدد سے جعلی سفری دستاویزات کی بنیاد پر ہوائی راستوں سے پاکستان سے انسانی اسمگلنگ کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات کا سدباب کرے ، انسانی اسمگلروں کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ملک سے بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کرے، تاکہ غریب عوام کسی دھوکے باز کے ہاتھوں اوپنا مال اور جان نہ گنوا بیٹھے۔

واضح رہے کہ انسانی اسمگلنگ اورتارکین وطن صرف پاکستان کا ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی طور پر ترک وطن کرنے والوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان عدم تعاون اور وسائل کی عدم دستیابی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ اس وقت دو سو ملین لوگ اپنا وطن ترک کرکے مہاجرین کی طرح زندگی گزار رہے ہیں، یہ انسانی آبادی کا تیسرا حصہ ہے۔ ہر35 میں سے ایک فرد نقل مکانی کی صورتحال سے دو چار ہے، ہر سال 45 ملین لوگ نقل مکانی کے عمل سے گزرتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق انسانی اسمگلنگ کا کاروبار سالانہ7 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف امریکا میں سالانہ پانچ لاکھ لوگ غیر قانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں۔ تقریباً پندرہ کروڑ لوگ وہ ہیں، جو اپنے ملکوں سے باہر کے ملکوں میں روز گار کمانے پر مجبور ہیں، جن میں سے بہت سے اس مقصد کے لیے35 ہزار ڈالر تک خرچ کرتے ہیں۔ یو ایس کا نگریس کی ریسرچ سروس کا اندازہ ہے کہ ہر سال دس لاکھ سے بیس لاکھ لوگ ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے سرحدیں پار کرتے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہوتی ہے۔ یورپی یونین میں انسانی اسمگلنگ کے سب سے زیادہ متاثرین کا تعلق رومانیہ، بلغاریہ اور ہنگری سے ہوتا ہے۔ یورپی کمیشن میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے ادارے کی رابطہ کار مائریا وسیلیادو کہتی ہیں:” ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ متاثرہ افراد کا تعلق غیر یورپی ممالک سے ہوتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، ان میں زیادہ تر یورپی یونین کے شہری ہی ہوتے ہیں،جرائم پیشہ گروہ ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور یہ کاروبار یورپی یونین کی سرحدوں کے اندر ہی ہوتا ہے اور زیادہ تر خریدنے والے بھی یورپی شہری ہی ہوتے ہیں۔“ یورپی یونین میں اعداد و شمار کے ادارے یورو اسٹیٹ کے مطابق 2013ءکے دوران انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے61 فیصد افراد کا تعلق یورپی ممالک سے تھا۔ متاثر ہونے والے سب سے زیادہ یعنی چالیس فیصد رومانیہ کے باسی تھے۔ اس کے بعد 18 فیصد کے ساتھ ہنگری کا نمبر آتا ہے، جبکہ بلغاریہ 11 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے امریکا نے چین اور روس کو دنیا کے بدترین ممالک قرار دیا ہے، جس درجہ بندی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے خلاف پابندیاں عاید کی جا سکتی ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق چین اور روس کے ساتھ ساتھ ازبکستان کو انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے بدترین درجے کے ممالک قرار دیا گیا ہے۔ انہیں ’ٹیئر تھری‘ کی نچلی ترین سطح پر رکھا گیا ہے۔ ایران، شمالی کوریا، کیوبا، سوڈان اور زمبابوے وہ دیگر ممالک ہیں جنھیں ’ٹیئر تھری‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.