حضرت میاں محمد سلطان علی چشتی قدس سرہ العزیز

تحریر : ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی

ایک انسان جو سلیم العقل ، حلیم الطبع اور منکسرالمزاج ہونے کے ساتھ حد درجے کا پارسا ،عبادت گذار اور شب زندہ دار ہو ،شریعت کا راز دان اور طریقت کا ترجمان ہو ،جس کے دل میں غلبہ اسلام کی دھن ہو ،جس کے دماغ میں مسلک اہلِ سنت کی لگن ہو ،جس کے سینے میں خدمت خلق کا جذبہ موجزن ہو ،نہایت سادہ اور ستھرا لباس زیب تن ہو ،ماحول پر روحانی پھبن ہواور محفل رنگ ِچمن ہو۔ ان صفات کے پھولوں کے ایک گلدستے کا نام حضرت میاں سلطان علی چشتی رحِمہ اﷲ تعالیٰ ہے۔آپ عظیم مصلح، جلیل القدر صوفی ،اور حکیم ِحاذق تھے آپ بہت زیرک اور دانا تھے آپ کی فراست مؤمنانہ تیر بہدف تھی ،آپ ایک صاحب کرامت ولی تھے ،آج کے جدید دور میں آپ قرون اولی کے مسلمانوں کی ایک چلتی پھرتی تصویر تھے۔ آپ ایک ایسے روحانی پیشواتھے ہزاروں عقیدت مندجن کی حسیں یادیں اپنے سینوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ آپ شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحِمہ اﷲ تعالیٰ قائد اہلسنت حضرت مولانا شاہ احمد نورانی رحِمہ اﷲ تعالیٰ اورحافظ الحدیث حضرت پیر سید محمد جلال الدین شاہ نقشبندی قادری رحِمہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مل کر جمیعت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے نظام مصطفےٰ ﷺ کے نفاذ اور مقام مصطفےٰ ﷺ کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے ۔آپ کی ولادت 1925 ؁ ء میں ضلع منڈی بہاؤالدین کے ایک گاؤں چورنڈشریف میں ہوئی ۔آپ کا تعلق جنجوعہ فیملی سے ہے جو کئی پشتو ں سے چورنڈ شریف میں آباد ہے آپ کے والد محترم میاں احمد دین ایک حادثے میں شہید ہو گئے ۔آپ کے آباؤ اجداد کا پیشہ چاہ سازی تھا آپ اپنے چچوں کے ہمراہ چاہ سازی کے سلسلے میں آزاد کشمیر میں کھڑی شریف چلے گئے ۔قدرت کا یہ حسین انتخاب تھا کہ چاہ سازی کے ساتھ ساتھ آپ کو سوز و سازِ حجازی اور دربار عالیہ کھڑی شریف کی فضاء دلنواز ی میسر آ گئی ۔آپ نے وہاں ایک درویش کامل سے سیف الملوک سبقا ًپڑھنا شروع کر دی عجیب منظر تھا دربار عالیہ کھڑی شریف میں عارف کھڑی شریف رحمہ اﷲ تعالیٰ کے اسرار و رموز کی فضاؤں میں حضرت میاں محمد سلطان علی صاحب کو روحانی بالیدگی میسر آرہی تھی ۔سیف الملوک کی تشریحات بھی سمجھتے اور اشعار بھی یاد فرماتے ۔یہاں تک کہ تیرہ سال کی عمر میں آپ تقریبا تین چوتھائی سیف الملوک زبانی یاد کر چکے تھے ۔یہ انسان کی عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں انسان شاہراہ حیات کے ایسے چوک میں کھڑاہوتا ہے جہاں سے وہ کسی ٹریک کو بھی اختیار کر سکتا ہے راستے کے اس انتخاب پر پوری زندگانی کی کامرانی اور ناکامی کا مدار ہوتا ہے۔ انسان جب بالغ ہوتے ہی مکلف ہوتا ہے تو شیطان اسے اغوا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے قبلہ میاں صاحب کی یہ خوش بختی ہے کہ آپ نے ابھرتی جوانی کا یہ موسم، ولایت کے سائبان کے نیچے گذارا ۔ویسے بھی آپ اپنی زندگی کی صبح صادق ہی سے بڑے سعادت مزاج تھے ۔بچپن میں جب آپ کی عمر ابھی پانچ چھ سال تھی اس وقت سے ہی آپ کے پاس آپ کے بستے میں۵۰۰ دانوں والی تسبیح ہوا کرتی تھی آپ کے ہم عمر بتاتے ہیں کہ جب ہم گلی ڈنڈا کھیلتے تھے تو میاں صاحب بیٹھ کے تسبیح پڑھتے رہتے تھے ۔آپ نے بچپن بھی بچوں کی طرح لہو و لہب میں نہیں بلکہ حسن ادب میں گذارا ۔جب بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے تو آپ تسبیح ودرود میں مصروف ہو تے ۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ کے شباب کی کلی جب کھل رہی تھی تو شبنم ذکر الہی کی تازگی میں کھل رہی تھی ۔ آپ کے لخت جگر صاحبزادہ محمد حق نواز چشتی نے فقیر کو بتایا کہ میں نے چند سال پہلے قبلہ والد گرامی سے پوچھا کہ آپ اس وقت کیا پڑھتے تھے آپ نے فرمایا پہلے میں 12000 مرتبہ کلمہ شریف اور پھر24000مرتبہ کلمہ شریف روزانہ کا وظیفہ تھا آپ اپنے طبعی تقدس کے ہمراہ تلاش مرشد میں سر گرداں تھے کہ حضرت خواجہ غلام سرور چشتی آف چکوڑی شریف کے حکم پر گہوارۂ تصوُّف گولڑہ حاضر ہوئے اور حضرت قبلہ بابوجی سرکار قدس سرہ العزیزہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے ۔اس کے بعد آپ نے ایک طویل عرصہ گولڑہ شریف میں قیام فرمایا اور سلو ک کے منازل طے کرتے رہے تقریبا ۱۹۵۷؁ ء میں واپس اپنے گاؤں چورنڈ شریف آئے اور گاؤں کے شمال میں ۲ کنال جگہ پر ڈیرہ لگالیا اس مقام پر آپ نے عالی شان مسجد ،مدرسہ مطب ،مہمان خانہ ،اور روحانی تربیتی مرکز قائم کیا اسی مقام پر اب آپ کی آخری آرام گاہ بنی ۔یہاں رہ کر آپ نے مزید مجاہدے کیے آپ ہمہ وقت عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے یہاں تک کہ دنیا کی آلودگیوں اور الائشوں سے دور رہ کر اپنے رب سے لو لگانے کا عجیب منظر لوگوں نے دیکھا ایک مرتبہ آپ نے چالیس روز کا چلہ فرمایا اس دوران ایک چھٹانک جو کی روٹی روزانہ آپ کی غذا تھی جب چلہ ختم ہوا تو آپ نے خوشی میں اﷲ تعالیٰ کے شکر کی ادائیگی کے لیے محفل کا انعقاد کیا اس موقع پر آپ نے اپنے خادم بابا محمد عبد المجید کو حکم دیا کہ میری چلہ گاہ میں مصلیٰ پر کپڑے میں باندھی ہوئی کوئی چیز ہے وہ لے آؤ۔کپڑے کو کھولا گیا تو اکتالیس روٹیاں تھیں دو تین روٹیوں سے کشمش جتنا تناول کیا ہوا تھا باقی روٹیاں اسی کی اسی طرح پڑی ہوئی تھیں ۔پھر وہ روٹیاں شرکاء محفل میں ایک ایک لقمہ کر کے تقسیم کر دی گئیں اس سے ان کے تجرد اور باطنی روشنی کا انداز لگایا جا سکتا ہے کہ دن بھر کے لیئے جو ایک چھٹانک جو کے آٹے کی روٹی دی جاتی تھی آپ وہ بھی تناول نہیں کرتے تھے اور ایسے ہی چالیس روز گذار دئیے حضرت صاحبزادہ محمد حق نواز چشتی صاحب بتاتے ہیں کہ چند سال پہلے میں نے قبلہ میاں صاحب سے پوچھا کہ انسان کتنے دن کھانے کے بغیر گذارہ کر سکتاہے تو آپ نے مسکرا کے فرمایا کہ چالیس دن تو نکال سکتا ہے ۔نفس کشی اور خواہشات نفسانیہ کو کچلنے کاجو کورس تصوف میں لازم قرار دیا جاتا ہے آپ نے باقاعدہ وہ منازل طے کیں۔ آپ بڑے خشوع و خضوع سے نماز اداکرتے تھے ۔نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وہ بلند مقام بخشا کہ پوری زندگی میں آپ کی نماز کبھی قضا نہیں ہوئی ۔آپ نے ساری زندگی مسجد میں جا کر نماز پڑھی یہاں تک کہ حیات مستعا ر کے آخری دن بھی نماز فجر مسجد ہی میں ادا فرمائی ۔تقریبا 50 سال پہلے ایک موقع پر آپ کو شدید بخار ہو ا جس کی وجہ سے آپ پر غشی طاری ہو گئی جو سات دنوں تک طاری رہی مگر قدرت کا خاص کرم یہ تھا کہ جب نماز کا وقت آتا غشی سے افاقہ ہو جاتا تیمم کے لئے اشارہ فرماتے پھر اشارے سے نماز ادا فرماتے جب نماز مکمل فرما لیتے تو حسب سابق پھر غشی طاری ہو جاتی ۔ فرمایا کرتے تھے کہ میرے رب کا مجھ پر کتنا کرم ہے کہ اس نے بے ہوشی میں بھی مجھے نماز کی توفیق بخشی ہے ۔آپ نے2002 ء کے اوائل میں پہلی مرتبہ حج ادا کیا اس کے بعد اﷲ تعالی نے 7,8 مرتبہ حاضری کا شرف عطا فرمایا ۔آپ کے اندر حد درجے کا ذوق بندگی اور کمال انداز کا عشق رسول اﷲ ﷺ جلوہ گر تھا ۔ محفل میں بیٹھے بیٹھے کئی مرتبہ سر جھکا دیتے تھے اور لبیک یا رسول اﷲ ﷺ کا بڑے ادب اور محبت سے تلفظ فرماتے تھے ۔ سادا ت کرام کی بہت توقیر کرتے تھے ایک مرتبہ میں ایک سید صاحب تشریف لائے اور لوگوں سے اپنے لئے تعاون کی اپیل کی قبلہ میاں صاحب نے بعد میں انہیں بلایا کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے کہ آپ نے لوگوں سے تعاون کی اپیل کی ہے تو وہ سید صاحب کہنے لگے کہ میں نے فلاں بندے کے 35 پینتیس ہزار دینے ہیں میں اس کا ملازم ہوں میں انہیں اپنے پیسے دوں گاتو خلاصی ہو سکتی ہے ۔ میاں صاحب 35 ہزار لیکر سید صاحب کے ہمراہ اس شخص کے گھر گئے تو 25 ہزار میں معاملہ طے پا گیا ۔ میاں صاحب نے اس شخص کو 25 ہزار روپے دیئے اور دس ہزار روپے سید صاحب کو دیئے اور کہا کہ یہ آپ کا کرایہ ہے آپ اپنا سامان یہاں سے لے جائیں سید زادہ مجھے اس طرح مانگتا اچھا نہیں لگتا ۔آپ ایک حقیقی علم دوست انسان تھے ،تصوف ،فقہ اور طب کی بہت سی کتابیں آپ کے زیر مطالعہ تھیں ۔آپ نے 1963 ؁ ء میں اپنے ڈیرے پر دارالعلوم کی بنیاد رکھی جس میں حفظ اور درس نظامی کی تعلیم شروع کروائی یہ وہی موقع تھا جب چلہ سے باہر آئے تھے اور حافظ الحدیث حضرت پیر سید محمد جلال الدین شاہ نقشبندی قادری کو دعوت دی اور انہوں نے دارالعلوم کا افتتاح کیا میرے نزدیک آپ کے اوصاف و کمالات میں یہ وصف بڑا ممتاز وصف ہے ۔آج بہت سے لوگ اہل علم یا اہل تقوی ہوتے ہیں مگر ان کی اولادیں محروم رہ جاتی ہیں اس کا ایک سبب یہ ہوتا ہے بعض علماء و مشائخ اپنی اولاد کے لاڈ کودیکھتے ہیں جس کا نتیجہ محرومی میں نکلتا ہے اور جب کسی کا اکلوتا بیٹا ہو تو پھر اس کا صاحب علم و تقوی بننا بہت مشکل ہوتا ہے بالخصوص جب وہ اکلوتا بھی ہو اور کسی بڑی شخصیت کا بیٹا بھی ہو ۔ مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ حضرت مولانا قاری محمد حق نواز چشتی صاحب قبلہ میاں صاحب کے اکلوتے بیٹے ہیں میاں صاحب کو بڑھاپے کا مسئلہ بھی تھا اس کے باوجود علم دین کے حصول کے راستے میں محمد حق نواز صاحب کا اکلوتا ہونا یا بہت لاڈلا ہونا رکاوٹ نہیں بن سکا ۔انہیں سکول حفظ ،تجوید و قرأت کی تعلیم دلوائی اور پھر تفصیلاً درس نظامی کی تعلیم دلوانے کیلئے کشمیر ،لیہ ،ملتان ، بھکھی شریف دور دراز علاقوں میں ماہر اساتذہ کے پاس بھیجا ۔ اپنے بڑھاپے اور علالت کے باوجود چودہ سال تک اپنے اکلوتے بیٹے کا فراق صرف اس لئے بر داشت کیا کہ وہ اﷲ تعالی کی رضا کی خاطر ایک متبحر عالم دین بن جائے۔پھر میاں صاحب کی یہ تربیت اور کاوش رنگ لائی میری دیکھی ہوئی کائنات میں کوئی دوسری ایسی مثال نہیں ملتی کسی پیر طریقت ، عالم دین نے اپنے اکلوتے بیٹے کو اتنے سالوں تک دور رکھ کے یوں دینی تعلیم دلوائی ہو اور اسکے بیٹے نے یوں تعلیم وتربیت پائی ہو ۔نہ صاحبزادگی کا خمار ہو اور نہ ہی بد عملی کا غبار ہوحضرت مولانا حق نواز چشتی صاحب میرے کلاس فیلوہیں ۔ آپ نے 1979ء سے درس نظامی پڑھنا شروع کیا ۔1987 ء میں مرکزی محمدیہ نو ریہ رضویہ بھکھی شریف میں وہ میرے ہم سبق بنے اسی وقت سے میری قبلہ میاں صاحب سے شناسائی ہوئی۔ 1993 ء میں ہم بھکھی شریف سے دورہ حدیث شریف مکمل کرکے فارغ التحصیل ہوئے ۔ مجھے یہ بخوبی علم ہے کہ انہوں نے کتنی محنت سے پڑھا اور نہایت محقق عالم ِدین بنے ۔ قبلہ میاں صاحب نے اپنے لخت جگر کو صرف زیور علم سے آراستہ ہی نہیں کیابلکہ انہیں نورانیت کے حصول کیلئے اصول بھی بتا دیئے ۔اس سلسلے میں مولانا حق نواز چشتی صاحب نے مجھے بتایا کہ قبلہ میاں صاحب نے طلب علم کے لیے مجھے چند ہدایات دیں۔آپ نے فرمایا !(1 )اگر علم دین پڑھ کر اس کو ذریعہ معاش بنانا ہے تو واپس چلے جاؤاور کوئی اور فن سیکھ لومیں نے تمہیں علم دین اﷲ تعالی کی رضا کیلئے پڑھنے بھیجا ہے ذریعہ معاش کیلئے نہیں ۔

(2 )ماہانہ جو خرچہ مجھے دیتے تھے تو فرماتے تھے ہم تجھے دین کا طالب علم سمجھ کر یہ پیسے دیتے ہیں لاڈ پیار کے لئے نہیں ۔(3 )ایک مرتبہ فرمایابیٹا یہ گندم کی گہائی جاری ہے دیکھوبھوسے کا ڈھیر اونچا ہے یا گندم کے دانوں کا ،میں نے عرض کیابھوسے کا ۔فرمایاکھاد ، پانی اور ساری کوشش ہم نے گندم کے دانوں کے لئے کی تھی یا بھوسے کیلئے میں نے عرض کیاگندم کے دانوں کیلئے ۔فرمایا بیٹا دین مثل دانے کے ہے دنیامثل بھوسے کے ہے۔ تم ساری کوشش دین سنوارنے کے لئے کرتے رہو دنیا مثل بھوسے کے ہے خود بخود دوڑتی چلی آئے گی ۔(4)جب مجھے بھکھی شریف داخل کروانے لگے تو میرے ماموں مولانا محمد اکرم صاحب نے کہا کہ میں حق نواز کے کھانے کا انتظام بھکھی شریف مہمان خانے میں کروا دوں گاتو آپ نے فرمایا نہیں طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ مہمان والا کھانا نہ ہو بلکہ جہاں دوسرے طالب علم کھائیں وہاں ہی یہ بھی کھائے ۔بچپن ہی سے آپ پر روحانی رنگ غالب تھا آپ کی عمر ابھی چھ سال تھی بارش ہو رہی تھی آپ کی خالہ محترمہ نے آپ سے کہاکہ صحن سے ہانڈی اٹھا کے لے آؤ میاں صاحب نے صحن میں کھڑے ہو کے کہا کہ اے اﷲ بارش کو روک میں ہانڈی اٹھا لوں تو گھر میں بارش رک گئی اور گاؤں میں بارش ہوتی رہی میاں صاحب خشک کپڑوں میں ہانڈی اٹھا کر لے آئے ۔اپنے گاؤں چورنڈ شریف میں گلی سے گذر رہے تھے ایک گھر کے دروازے سے ایک بچی باہر آئی آپ نے پوچھاکہ آپ کس کی ہو تو اس نے اپنے والد صاحب کا نام لیا دوسری بچی آئی تو اس سے پوچھا کہ تم کس کی ہو تو اس نے بھی اس شخص کا نام لیا تیسری بچی سامنے آئی تو اس سے پوچھا کہ تم کس کی ہو تو اس نے بھی اسی شخص کا نام لیا اتنے میں چوتھی بچی آگئی آپ نے کہا کہ تم کس کی ہو اس نے بھی اسی کا شخص کا نام لیا اتفاق یہ تھا کہ وہ ایک ہی آدمی کی بیٹیاں تھیں جس کی اولاد نرینہ نہیں تھی آپ نے ان چاروں سے کہا تم چاروں بہنیں ہو تمھارا کوئی بھائی نہیں ان بچیوں نے کہا کہ نہیں ہمارا کوئی بھائی نہیں آپ نے ان بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا اپنے والد اور اپنی امی جان کو بتا دینا کہ میں نے رب سے تمھارے لیے ایک بھائی مانگ لیا ہے اﷲ کے فضل سے ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور بعد میں اور بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔مولانا محمد حق نواز بتاتے ہیں کہ ایک خاتون کی شادی کو 16 سال گذر چکے تھے اس کے ہاں اولاد نہیں تھی۔وہ میاں صاحب کے ڈیرے پر آگئی اور رو پڑی آپ نے کہا کہ روتی کیوں ہے میں نے بتایا کہ یہ بتاتی ہے کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہے اور اب ڈاکٹر حضرات نے رپورٹس چیک کر کے بتا دیا ہے کہ تمھارے اندر سے بچے کی تولید کا سارا نظام ختم ہو چکا ہے اب اولاد کا کوئی امکان نہیں ہے یہ سنتے ہی میاں صاحب کی طبعیت میں جلال آگیا آپ نے اس خاتون کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی فرمایا اولاد دینا اﷲ تعالیٰ کے بس میں ہے ڈاکٹروں کے بس میں نہیں ہے چنانچہ اس عورت کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جو اب نویں کلاس میں پڑھتا ہے ۔مولانا محمد حق نواز صاحب بتاتے ہیں کہ ہماری مرغی کے انڈوں سے چوبیس چوزے نکلے لیکن مرغی مر گئی اور چھوٹے چھوٹے چوزے بے سہارا ہو گئے مرغی انہیں اکٹھا کر کے اپنے پروں میں لیتی تھی مگر مرغی کے مر جانے کے بعد وہ سب پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر چوں چوں کرتے پھررہے تھے ۔اور ہمارا مرغ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کر رہا تھا میاں صاحب مرغ کے پاس گئے فرمایا جن بچوں کی ماں فوت ہو جائے تو پھر باپ ان کی نگہبانی کرتا ہے مرغ نے فورا مرغیوں کی طرح پر پھیلائے اور کک کک کرنا شروع کر دی اور چوزوں کو اپنے پروں کے نیچے جمع کیا ۔اس وقت سے اس مرغ نے مرغیوں کی طرح چوزوں کی پرورش کے لیے ڈیوٹی دی ۔حضرت پیر سید شبیر حسین شاہ صاحب خطیب پاہڑیانوالی کہتے ہیں کہ جب بھی میں میاں صاحب کے پاس جاتاتو آپ کے پاس کافی دیر بیٹھتا آپ چائے پلاتے ۔ایک دن مجھے بہت جلدی تھی میں دل میں سوچتا جارہا تھا کہ آج اگر مجھے جاتے ہی میاں صاحب مل گئے تو میں نے دوائی لے کر فورا واپس ہو جانا ہے کہتے ہیں جب میں ڈیرے پر پہنچا تو ڈیرے کی گلی والا موڑ مڑ ا تو دیکھاکہ میاں صاحب دور سے ہی مجھے دیکھ کر اندر تشریف لے گئے میں نے کہا کہ اب تو بہت دیر ہو جائے گئی ایک بار میاں صاحب اٹھ گئے ہیں پتہ نہیں اب کتنی دیر بعد واپس آئیں سے جب میں میاں صاحب کی نششت کے قریب پہنچا توآپ اندر سے باہر تشریف لے آئے میری دوائی ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی مجھے دیکھ کر کہا کہ آج تمہیں بہت جلدی یہ دوائی لو اور چلے جاؤ ۔آپ پر ایک وقت ایسا بھی آیا کشف میں اتنا عروج تھا ۔مخفی امور واضح اور روشن ہوگئے جس چیز کے بارے میں پوچھا جاتا بتا دیتے جس شخص کے بارے میں پوچھا جاتا بتا دیتے کہ وہ کہاں ہے گھڑی دیکھے بغیر ٹائم بالکل صحیح بتا دیتے ۔آپ بڑے رقیق القلب اور خدا ترس انسان تھے فلاح انسانیت اور خدمت خلق کا جذبہ آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ڈیرہ میاں صاحب ایک مکمل اسلامی O N,G, (Non Governament Organization)کی حیثیت رکھتا ہے جہاں تعلیم اور ضروریات زندگی مفت فراہم کی جاتی ہیں لوگ مسائل کو حل کروانے کے لئے میاں صاحب کی طرف متوجہ ہوتے تھے اکثر مریضوں کا سالہاسال تک مفت علاج کیا جاتا ،کئی لوگوں کو بلا سود قرضے فراہم کئے جاتے ، کئی یتیم بچوں کی کفالت کی جاتی ، کئی بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کئے جاتے ۔ اگر رات کو عشاء کے بعد فجر سے پہلے چار چار مرتبہ بھی میاں صاحب کو کسی مریض کی مدد کیلئے اٹھنا پڑا ہے تو آپ خندہ پیشانی سے اٹھتے اور صرف ڈیرے پر آنے والوں کو ہی نہیں بلکہ دور دراز جا کر مریضوں کے گھروں میں رات کے سناٹوں میں طبی مدد فراہم کرتے ۔ اپنے مدرسہ اور مسجد کے علاوہ کئی مساجد تعمیر کروائیں مگر کسی سے کبھی فنڈ کا سوال نہیں کیا ۔خدمت خلق کا جذبہ اتنا تھا کہ ایک مرتبہ آپ کے محلے کی ایک کتیا کو کسی نے اتنا مارا کہ اس کے جبڑے توڑ دیئے شام کو آپ نے پوچھا کہ آج اس کتیا کے بھونکنے کی آواز نہیں آرہی بتایا گیا کہ فلاں نے اس کو بڑا سخت مارا ہے اور وہ ادھموئی ہو گئی ہے جبڑے ٹوٹ گئے ہیں اور اب بھونکنے کی طاقت نہیں رہی تو آپ نے فورا اس کیلئے دلیا پکوایا بڑے سے برتن میں ڈال کر جہاں وہ زخمی پڑی تھی وہاں پہنچے اور برتن اونچا کر کے اس کے منہ کے ساتھ لگا دیا اس نے اس برتن سے دلیا کھایاجتنے دنوں تک وہ کتیا چلنے پھرنے ،خود کھانے پینے کے قابل نہیں ہوئی اس کو کھلاتے پلاتے اور یہ فرماتے تھے کہ یہ بھی میرے رب کی مخلوق ہے ۔

میں نے جب یہ واقعہ سنا تو میری توجہ فوراً حدیث مصطفیٰ ﷺ کی طرف گئی۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرِۃَ رَضِیْ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قالَ بَیْنَا رجلٌ یَمشِیْ فَاشْتَدَّ عَلَیْہِ الْعَطَشُ فَنَزَلَ بِئْرًافَشَرِبَ مِنْہَا ثُمَّ خَرَجَ فَاِذَا ھُوَ بکلب یلھث یاکل الثری من العطش فقال لقد بلغ ھذا مثل الذی بلغ بی فملاخفہ ثم امکسہ بفیہ ثم رقی فسقی الکلب فشکر اﷲ لہ قالوا یارسول اﷲ وان لنا فی البہائم اجرا قال فی کل کبد رطبۃ اجر
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا اسی اثنا میں کہ ایک بندہ چل رہا تھا اسے شدید پیاس لگ گئی وہ کنویں میں اترا اور اس سے پانی پیا پھر باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے ہانپ رہا تھا اور گیلی مٹی کو زبان لگا رہا تھا ۔اس بندے نے دل میں سوچا کہ اسے بھی میری طرح پیاس لگی ہوئی ہے مگر یہ کنویں میں اتر کر پانی نہیں پی سکتا وہ کنویں میں اترا اپنا موزا پانی سے بھر کر منہ میں موزا پکڑ کر کنویں کی دیوار پر چڑھ کر باہر نکلا اور کتے کو پانی پلایا اﷲ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو قبول کر کے اس کے گناہ بخش دیئے صحابہ نے پوچھا یا رسول اﷲ ﷺ کیا ہمارے لیے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک میں بھی اجر ہے تو آپﷺ نے فرمایا ہر وہ جانور جس میں تر کلیجہ موجود ہے اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر اجر ملتا ہے ۔
بخاری شریف حدیث نمبر 2363

میں 1987 سے لے کر وصال تک بار ہا آپ سے ملا مختلف مواقع پر مختلف موضوعات پر آپ سے گفتگو ہوتی ۔میرا یہ فیصلہ ہے کہ قبلہ میاں صاحب ان عظیم لوگوں میں سے تھے جن سے ملاقات کے وقت بندے کو زبان کے الفاظ اور دل کے خیالات دونوں کو کنٹرول کرنا پڑتا تھا ۔خوشبوئیں بانٹنے اور روشنیاں بکھیرنے والے یہ عظیم انسان 13 مارچ 2014 اور 11 جمادی اولی 1435 ھ کو جمعرات کے دن داعی اجل کو لبیک کہہ گئے آپ کے وصال کی خبر غم سے پورا علاقہ سوگوار ہو گیا ۔ ایک مرتبہ آپ حالت احرام میں تھے فرمایا اچھا ہے بندہ جن کپڑوں میں رب کے حضوریہاں حاضر ہوتا ہے انہیں میں ہی سفر آخرت میں بھی حاضر ہو جائے ۔چنانچہ آپ کو کفن کے لیے احرام کی چادریں پہنائی گئیں ۔رات 9 بجے کے قریب گورنمنٹ ہائی سکول چورنڈ کے گراؤند میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔نماز جنازہ کی امامت حضرت پیر سید محمد شاہ چشتی سیالوی آستانہ عالیہ بھلوٹ شریف نے پڑھائی ۔آپ کے جانشین حضرت صاحبزادہ محمد حق نواز چشتی نے لوگوں کے جم غفیر سے مختصر مگر جامع خطاب کیا ۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ میاں صاحب کے درجات بلند کرے اور آپ کے لخت جگر کو آپ کا حقیقی جانشین بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔قبلہ میاں صاحب کا ختم چہلم 20 اپریل بروز اتوار دن 12 بجے چورنڈ شریف میں ہو گا ۔
اس پہ کیسا سرور کونین کا فیضان تھا
سادگی میں مسند اسلاف کا سلطان تھا
جلوہ گر تھی اس کے سینے میں ضیاء صوفیاء
چشتیہ مکتب کا وہ اک گوہر ذیشان تھا
اس کا ڈیرہ بے سہاروں کے لیے جائے قرار
دردمندوں کے لیے درد کا درمان تھا
وہ ندائے اہل سنت وہ نوائے معرفت
اپنی ہستی کے لیے وہ آپ ہی پہچان تھا
اس کی باتوں میں تجلی اس کے لفظوں میں چراغ
منفرد تھی سوچ اس کی مستند فرمان تھا
زندگی بھر اس کی توجہ کا نشیمن تھا یہی
مسجدیں تھیں مدرسہ تھا مصحف وقرآن تھا
جب بھی دیکھا میں نے اس کو میں نے دیکھا اس طرح
چشم پر نم ،قلبِ خاشع کلمہِ احسان تھا
شعر آصف کیا بتائے ان کی ہستی کا عروج
وہ فدائے مصطفےٰ ﷺ تھا بندہ رحمٰن تھا

S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 105434 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More