عاملوں او ر پیروں کے خلاف قوانین کب بنیں گے؟

روشنی و تاریکی ،نیکی وبدی، خیر وشر،اسلام وکفر،حق وباطل، رحمان وشیطان کی طاقتیں کائنات میں اپنا اپنا کا م کررہی ہیں کہیں پر انسانیت کی بھلائی یا اچھائی کا بول بالا،اسلام کی سربلندی ،حق کی حقانیت اور رحمان کی رحمانیت کا رفرما ہے تو کہیں برائی کے پھیلاؤ، کفر کی حکومت ،باطل کی یلغار اور شیطان کی شیطانیت کا کھلے عام پرچار جاری ہے ۔ہر دو قوتیں ایک دوسرے کے خلاف سر پیکار ہیں کبھی خیر کا پلہ بھاری دکھائی دیتا ہے تو کبھی شر کی شرانگیزیاں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تاریکی کی بھینٹ چڑھاتی محسوس ہوتی ہیں اور اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ حق دب گیا ہے اور باطل چھا گیا ہے ۔لیکن یہ سب وقتی اور عارضی عمل ہوتا ہے اور بالآخر جیت اور فتح سچ اور خیر کی ہوتی ہے۔شیطانی قوتیں طاغوتی،سفلی ،غلاظت اور تاریکی کاسہارا لے کر دنیا میں شر پھیلانے پر کمر بستہ ہیں اور ان کی سب سے بڑی مثال ہمارے معاشرے بالخصوص ارض پاکستان میں عامل وپیر لوگ ہیں یہ جعلی ہوں یا اصلی۔ یہ لوگوں کو سیدھے راستے سے بھٹکا کر انہیں ایسے پر پیچ اور پر خم راستوں پہ ڈال دیتے ہیں جہا ں سے انسان Point of no returnپر پہنچ جاتا ہے ۔دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ایمان کی روحانی طاقت پر گندگی اور غلاظت کا لیپ چڑھالیتا ہے اور پھر انسان ایسے قبیح عمل کرنے پر تل جاتا ہے کہ اس پر سے انسان ہونے کا گمان بھی ختم ہوجاتا ہے۔

تازہ ترین مثال اسلام آباد کے علاقے میں ندیم نامی بد بخت نے ایک جعلی عامل اور پیر کے ہتھکنڈوں کا شکار ہو کر اپنی سگی بہن کی گود اجاڑدی۔ اس کے چار لخت جگر کو اپنی شیطانی اور سفلی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی۔اور چار میں سے دو کو بد بخت نے ذبخ کر دیا جبکہ تیسرے کو شدید زخمی اور چوتھا اپنی جان بچا کر فرار ہوگیا اسی طرح ملتان میں ایک جعلی پیر کے باتوں میں آکر خزانہ کی تلاش میں ایک لالچی شخص ذیشان نے اپنے گھر کو کھود ڈالا نتیجہ خود ہی اسکی بھینٹ چڑھ گیا ۔جعلی عامل اور پیروں کے اس قسم کے واقعات سے تاریخ بھر ی پڑی ہے ۔لوگ اﷲ پر توکل اور بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے کمزور ایمان کی بنا پر ان غلیظ اور گندگی میں لپٹے لوگوں کی غیر انسانی خواہشات کا آلہ کا ربن جاتے ہیں ۔شارٹ کٹ کے چکر میں اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ۔یہ ہزاروں کی تعداد میں گلی محلوں میں ،سٹرکوں کے کناروں مزارات کی گزر گاہوں اور قرب وجواہر میں بیٹھے دھڑلے سے سب کو بیٹا دے رہے ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگ بھی ان کے آستانوں کے چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں اور یہ سب کو ہرا ہرا ہی دکھا رہے ہوتے ہیں۔خواتین کی عصمت اور عزت سے کھلواڑ کرنا ان کا روز کا معمول بنتا جارہا ہے لیکن کوئی ایکشن نہیں اور اخبارات ان کے سیاہ کرتوتوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں چینلز چیخ کر ان کا پردہ فاش کررہے ہوتے ہیں لیکن کوئی تبدیلی نہیں ہوتی کہیں پر قانون کی عمل داری دکھائی نہیں دیتی ان کے بارے میں کوئی قانون بنتا دکھائی نہیں دیتا۔ قانون کی آنکھ پر بندھی پٹی مزید دبیزہوجاتی ہے ان کیلئے سزا کاکوئی واضح قانون نہیں ۔عوام کے منتخب نمائندہ اس پر گنگ ہیں ان کے دماغ اور زبان پر تالے ہیں۔اپنے روایتی اندازمیں حادثہ ہونے کے بعد ہمارے ادارے حرکت میں آتے حالانکہ یہ سب پہلے سے ان کی ناک تلے ہورہا ہوتا ہے۔ بس اس کا انتظار ہورہا ہوتا ہے کہ کب کوئیmishape ہو۔ڈی سی او ملتان نے گرم جوشی دکھاتے ہوئے چھاپے مار کر کچھ لوگوں کو گرفتار تو کرلیا ہے۔مگر ان کا کیا کیا جائے گا۔کوئی خبر نہیں۔یعنی اگر عوام کی خوش قسمتی سے کوئی عامل پیر پکڑا بھی جاتا ہے تو قانون بے بس دکھائی دیتا ہے ۔دوچار ماہ کی قید کے بعد پھر وہی ناسور لوگ پہلے سے زیادہ جوش وخروش سے عوام کے جان ومال اور عزتوں کو لوٹ رہے ہیں آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ان کے بارے میں واضح اور غیر مبہم قوانین کب بنیں گے کب تک معصوم جانیں ان کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی کب تک ماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں گی کب تک بہنوں سے ان کے بھائی چھینے جاتے رہیں گے ۔کب تک آدم خور دو دو سال کی قید کاٹ کر پھر سے زندہ اور مردہ لوگوں کو کھانے کیلئے آزاد کئے جاتے رہیں گے ؟زندہ انسانوں کی سیکیورٹی تو دور کی بات قبروں میں موجود مردہ اجسام بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں۔عوا م کو روٹی ،کپڑا مکان، بجلی پانی گیس تو نہیں دیا جاسکتا ہے کم از کم اسے سکون سے ایمان واطمینان سے جینے کا حق دے دیاجائے۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192055 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More