خواتین کی آزادی مگر کیسے؟

بھلا اس مسلمہ حقیقت سے کس کو انکار ہوسکتاہے کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے اپنی آمد کے بعد سے ہی پورے عالم میں ایک ایسا انقلاب پیدا کیا جس کے ذریعہ عجمی وعربی، گورے اورکالے ، مردو زن الغرض تمام کے تمام انسان خواہ وہ دنیا کہ کسی بھی خطے یا گوشے میں زندگی گزارہے ہوں یکساں طور سے مستفید ہوئے، کیا یہ اسلام کا ہی کارنامہ نہیں تھاکہ آمد اسلام سے قبل عرب میں بچیوں کی پیدائش کو باعث شرم وعار تصور کیا جاتا تھا اور جب کسی گھر میں بنت حواجیسے ہی جنم لیتی اور آنکھیں کھولتی تو اسے اس کا باپ ہی نہایت ہی شقاوت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ( شرم وعار سے بچنے کے خاطر منوں مٹی تلے زندہ ہی درگور کردیتا تھا )جس کا بیان قرآن پاک میں کچھ اس طرح سے ہے ( جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا اور غصے سے تمتما اٹھتا اور وہ شرم کے باعث لوگوں سے نظریں بچانے لگتا کہ کہیں اسے بیٹی کا باپ نہ تصور کیا جائے ) لیکن اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی اس جاہلیت کو دور کیا اورخواتین کو باعث زحمت نہیں بلکہ باعث رحمت قرار دیا نیزخواتین کو بھی اس کی زندگی جینے کا پورا پوراحق دیا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ حدود وقیود اور شرائط بھی مقرر کئے جیسے پردے کا حکم اپنے خاوند کی اطلاعت شعاری وغیرہ۔لیکن آج کا ہمارا موجودہ معاشرہ جو اپنے آپ کو نئی تہذیب وثقافت کا علمبردار اورنئے ایجادات انکشافات کا پیروکار تصورکرتاہے اسے اس اسلامی معاشرے میں اوراسلامی نظام زندگی میں نعوذ باﷲ نہ جانے کیوں اورکیسے کمی اورخامی بلکہ کچھ جھول سا نظر آنے لگا ہے اور اس سے یہ آواز یں بلند ہونے لگی ہیں کہ آج کے معاشرے میں یعنی ہمارے اسلامی اور مشرقی معاشرے میں خواتین کو مساوات ، آزادی، اختیارات، حقوق وغیرہ حاصل نہیں ہیں۔ حقیقتاً ان کے ان سنہرے نعروں کے پیچھے اور ان کے پس پشت ان کے اذہان میں کوئی نہ کوئی چورچھپا ہے اب خواہ وہ چور بے حیائی، بے پردگی کو فروغ دینے کا ہویا پھر اپنی خواہشات نفسانیہ کی تکمیل کا کیوں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں حسن وعشق کی ریل پیل ہوگی وہاں اسکے متوالے اور شیدائیوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہوگی اور جہاں سر عام اور سر شام بازار حسن اپنی تمام تر رعنائیوں ودلفریبیوں کا نظارہ پیش کرے گا تو پھر لوگ ان حسین نظاروں سے اپنے دلوں کے شراروں کو ضرور لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرائیں گے جن کے نتائج تو اپنی بھیانک صورتوں میں ضرور نظرآئیں گے اورآتے ہیں جو کہ ہم آج اخبارات ورسائل میں خواتین کے ساتھ عصمت دری اور زیادتی جیسی خبروں کی شکل میں مسلسل پڑھتے ہیں اور پڑھ رہے ہیں۔پھر کیسے اور کیوں کر بچے گی عزت نسواں اور کیوں نہ مارا جائے گا عزت نسواں پر شب خوں یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جو درحقیقت ٹھنڈے ذہن ودماغ کے ساتھ سوچنے اور غور فکر کرنے کے ہیں کیوں کہ دنیاکہ تمام مذاہب کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی وہ دین اور وہ مذہب ہے جس نے ہر شخص کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، عجمی ہو یا عربی، کالا ہو یا پھر گورا یکساں اور مکمل حقوق فراہم کیا ہے اوریہ بتایا بھی ہے کہ کسی عجمی کو کسی عربی پر یا کسی عربی کو کسی عجمی پر یا کسی گورے کو کسی کالے پر یا کسی کالے کو کسی گورے پر ہرگز ہرگز فضیلت وبرتری حاصل نہیں اگر کسی کو کوئی فضلیت یا برتری حاصل ہے تو وہ تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ پھر یہ نعرہ دینا کہ دین اسلام میں عورتیں محصور ہیں انہیں مکمل طور پر اپنی مرضی کی زندگی جینے کے حقوق حاصل نہیں ہیں یہ سراسر فضول ہے،انہیں پراپرٹی میں برابر کا حصہ نہیں ملتاہے یہ بات اور یہ سوال بھی فضول ہے۔ یہاں میرا مقصد اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا ہے کہ ابھی حالیہ دنوں میں ہی برطانیہ میں خواتین کے ساتھ عدم مساوات کے موضوع پر بڑا ہی شور وواویلا مچایاگیا اوریہ کہا گیاکہ عورتیں آج پوری دنیا میں عدم مساوات کی شکار ہیں حتی کہ اس پر برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے پوری دنیا میں ایک مہم چلانے کا بھی فیصلہ کرلیا کہ وہ اس مقصد سے پوری دنیا میں ایک مہم چلائیں گے انہوں نے کہاکہ برطانیہ اس مقصد کیلئے قومی آمدنی کے 0.7 فیصد اقوام متحدہ کی امداد کی فراہمی کا ہدف پورا کرنے کی وجہ سے حاصل ہونے والی ساکھ سے کام لیتے ہوئے خواتین پر جنسی تشدد، پراپرٹی رائٹس جیسے معاملات پیش کرے گا۔ وزیر اعظم نے 2015 کے بعد کے برسوں کیلئے ترقیاتی ترجیحات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطح کے پینل کی مشترکہ صدارت کی جسے گزشتہ سال صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کا نام دیا گیا تھا اور جو کہ ان 12 کلیدی اہداف میں سے ایک ہے بین الاقوامی برادری جس پر زور دے گی۔ پینل کی رپورٹ میں اہداف کے حوالے سے مثالیں دی گئی ہیں اقوام متحدہ جن کو اختیار کرسکتا ہے جس میں لڑکیوں اور خواتین پرہر طرح کے تشدد کا خاتمہ، بچپن کی شادیوں کا خاتمہ، خواتین کیلئے وراثتی املاک کے حصول کے حوالے سے خواتین کے مساوی حقوق کو یقینی بنانا اور سیاست، معیشت اور عوامی زندگی میں خواتین کے خلاف امتیاز کو ختم کرنا شامل ہیں یہ تو ہیں برطانوی وزیر اعظم کے خیالات۔لیکن یہ بھی بتاتا چلوں کہ جو اقدار اورجوطریقہ اسلام نے اپنے ماننے والوں اور اپنے پیروکاروں کیلئے مقررکئے ہیں اور جونظام زندگی اسلام نے اپنے ماننے والوں کو عطا کیاہے اس سے اعلیٰ وافضل طریقہ بھی کوئی مذہب اپنے پیرو کارو ں کوکیا دے سکتاہے ؟ہر گز ہر گز نہیں اورقیامت کی صبح تک نہیں کیوں کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو دین ابدی و سرمدی ہونے کا طرہ امتیاز حاصل ہے جس کے بارے میں خود قرآن پاک میں اﷲ عز وجل نے ارشاد فرمایاہے آج میں نے تمہارے لئے اپنا دین مکمل کردیا اوراپنی نعمت تم پر تمام کردی اور میں نے اپنی رضا کو تمہارے لئے دین اسلام کے ساتھ لازم کردیا یہ ہے اسلام کا واضح پیغام جس کے بعد ہمارے لئے اس دنیا میں کسی دوسرے مذاہب کو ا پنا نے کی اوراس کے طریقوں کو اپنا شیوہ بنانے کی ہرگز ہرگز کوئی اجازت نہیں تو بھلا مغربی طرز زندگی اور مغربی نظام حیات تو دور کی بات جو سراپا برائیوں ، خرابیوں اورفسادات کا مجموعہ ہیں۔کو کیونکر اپنایا جاسکتا ہے۔

M A TABASSUM
About the Author: M A TABASSUM Read More Articles by M A TABASSUM: 159 Articles with 152513 views m a tabassum
central president
columnist council of pakistan(ccp)
.. View More