خواتین پر بڑھتے ہوئے تشدد کی دوسری بڑی وجہ

گزشتہ یوم دوستوں کے ہمراہ کافی گھومنے پھر نے کے بعد واپسی پر تھکاوٹ دور کرنے کیلئے دودھ پتی کو دِل چا ہاسو ہم دودھ پتی کیلئے ایک ایسے ہوٹل کی طرف چل نکلے جس کی حال ہی میں ایک دوسرے دوست کے منہ سے بڑی تعریف سنی تھی یہ ہوٹل ایک سڑک کے کنارے بس سٹیند پر ایک دیہاتی سے مگر صاف ستھرے ماحول میں واقع تھاجہاں سے کھانے پینے کے بعد جب ہم واپس چلنے لگے تو سٹاپ پرمسافر اتارنے کیلئے ایک بس آرُکی جِس سے ٹریفک کی روانی میں تھوڑی دشواری پیش آرہی تھی اس لئے ہم اس کے چلنے کے انتظار میں وہیں رُک گئے اتنے میں اس بس سے ایک خاتون مسافر نیچے اُتریں جس نے پھٹا پرانا سا لباس،پاؤں میں ٹوٹی ہوئی قینچی چپل اور سر پرپیوند لگا دو پٹہ اوڑ ھ رکھا تھا جبکہ ہاتھ میں ایک دس سالہ بچے کا بازو تھا جس کے دونوں ہاتھ کُہنیوں تک جل کر سیاہ ہوئے ہوئے تھے جن سے مسلسل پیپ بہنے کے سبب اُوپر گندی مکھیاں بھِن بھِنا رہی تھیں جسے دیکھتے ہی میرے قدم اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی بجائے اس عورت کی طرف اُٹھ گئے میرے اُس کے قریب پہنچتے تک میرے دیگر دو دوست بھی یہ کہتے ہوئے مجھ تک پہنچ گئے کہ خان صاحب سواری اِدھر ہے آپ کِدھر جا رہے ہیں؟ مگر جب اُس عورت سے مجھے مخاطب ہوتے ہوئے دیکھا تو پاس آکر خاموش کھڑے ہوگئے ،میں نے عورت سے پوچھا کہ اس بچے کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ ہے؟جواب ملا کہ یہ میرا بیٹا ہے یہ سُن کر میں نے ایک ہی سانس میں کافی سارے سوالات کر دیئے جس پر وہ عورت گھبراکرکافی تلخ لیجے میں بولیں کہ تُم ہو کون اور کیا چاہتے ہو؟ میں نے اس خاتون کی اس بات کا بُرا محسوس کئے بغیر بڑے اخلاق سے اِسے تعارف کروایا تو جواب ملا کہ تیرے جیسے جرنلسٹ میری اس حالت کو پہلے ہی بہت کیش کروا چکے ہیں،اور روتے ہوئے اُوپر کی طرف منع کرکے آسمان کا سینہ بھی پھاڑ دینے والی مظلومیت بھری آواز میں زور سے چیخ کربولیں کہ اے خدا تو انصاف کیوں نہیں کرتا ہم غریبوں کا تیرے سوا کوئی نہیں مجھے بچا لے مجھے بچا لے،

یہ سب دیکھ سُن کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اتنے میں میراایک دوست آگے بڑھا اور میرے متعلق اُسے کافی تسلی دیتے ہوئے کہنے لگاکہ آؤ خان صاحب جو پوچھنا ہے پوچھ لو ،خیرمیں نے اس بار ایک ہی سانس میں کافی سارے سوالات کرنے کی بجائے اُن سے ایک ہی سوال پوچھا کہ آپ مجھے اپنے یا اپنے شوہر کے کاروبار سے لے کر اس بچے کے ہاتھوں کی اس حالت اور میرے سوال پر اس طرح چیخ و پکار تک کی بِلا خوف وخطر مکمل سٹوری سنائیں،جس پر اُس خاتون نے انسانیت کی روح تڑپا دینے والی آپ بیتی یہ سنائی کہ میں 107ڈی گاؤں کی رہائشی ہوں اور ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں میری ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں جن کے بچپن میں ہی میرے شوہر انتقال کر گئے تھے اور اب کچھ ہی عرصہ قبل میں نے اپنی بیٹی کی شادی کرنی تھی جس کیلئے میں بہت دیر تک کسی ایسے گھر کی تلاش میں رہی جو مجھ سے جہیز کا مطالبہ نہ کرے مگر ناکام ٹھہرنے پر میں نے اپنی بیٹی کو جہیز دینے کیلئے علاقہ کے ایک بڑے زمیندار سے جہیز کی بھِیک مانگی تو اُس نے مجھے بھیک دینے کی بجائے قرض لینے کا مشورہ دیااور میرے اس قرض کی واپسی کے سوال پر اُس نے کہا کہ میرا ایک اینٹیں نکالنے والا بھٹہ بھی ہے جس پر کام کرکے آپ اپنا یہ قرض اُتار سکتی ہیں میرے اُس زمیندار کے اس مشورے پر آمادہ ہو جانے کی صورت میں اُس نے مجھ سے خالی دستایزات پر دستخط انگوٹھے وغیرہ کرواتے ہوئے مجھے پچاس ہزار روپے قرض دے دیئے جس کے عوض اُس زمیندار کے بھٹہ پر کام کرتے ہوئے مجھے آج تقریباً تین سال گزر گئے ہیں مگر وہ قرض نہیں اُترسکا تھا کہ اب کام کاج کے دوران میرے ساتھ کام کرتے ہوئے میرا یہ بچہ پاؤں پھسلنے سے بھٹہ میں گر کر بری طرح جھلس گیا جس کے پرائیویٹ علاج کیلئے تو میرے پاس پیسے نہیں تھے اس لئے میں اس کو ایک سرکاری ہسپتال لے گئی جہاں سے واپسی پر دوا کی بجائے ایک ایسا شخص ملا جِس نے اپنا جرنلسٹ کا تعارف کرواتے ہوئے میری مدد کرنے کا کہہ کر مجھ سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد ڈاکٹروں کو میری شکایت لگا دی کہ فلاں عورت آپ لوگوں کے خلاف ہمیں یہ کہہ رہی تھی جس پر ایک نرس میرے پیچھے بھاگی اور اُس نے مجھے ایک دو تھپڑ رسید کرنے کے بعد آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ لیتے ہوئے مجھے ہسپتال سے نکال دیا جہاں سے روتے دھوتے جب میں گھر پہنچی تو دروازے پہ اپنے حاکم بھٹہ مالک زمیندار کو پایا جس نے مجھے انتہائی غلیظ قسم کی گالیاں دیتے ہوئے کہا کہ ابھی اور اسی وقت میری رقم میرے ہاتھ تھماؤ اور جاؤپریس رپورٹروں کے پاس جو کروانا ہے کروا لو،یہ سب دیکھ و سُن کر میں وہاں بے ہوش ہوکر گر پڑی اور جب ہوش آیا تو وہ زمیندار وہاں سے غائب تھا اور میرا بیٹا وہاں کھڑا رو رہا تھا ،اس دِن کے بعد انسان مجھے درندے محسوس ہونے لگے ،اور اب میں کسی کو بھی کچھ بتانے سے ڈرتی ہوں یہ سُن کر میں نے کہا کہ پانچوں اُنگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں آپ کیا چاہتی ہیں ،مجھے بتائیں،جس پر اُس خاتون نے ایک سسکی بھری آواز میں کہا کہ مُردوں کی کوئی خواہش نہیں ہوتی مگر جو زِندہ ہیں اُنہیں ہر پل مرنے سے بچانے کیلئے میں جہیز جیسی فرسودہ اور غیر مذہبی رسم کا خاتمہ چاہتی ہوں جس کی وجہ سے آج میری اور میرے جیسی نا جانے کتنی ہی مائیں اپنی آزادی کھو چکی ہیں ، اپنے گُردے بیچ چکی ہیں،بیوہ ہو چکی ہیں ،موت کے منہ میں جا چکی ہیں،اور نہ جانے کتنی ہی بیٹیاں اپنے والدین کے گھروں میں بیٹھی اس جہیز کی ہی وجہ سے بوڑھی ہو رہی ہیں -

خیر یہ سب سنتے ہوئے میں نے اُس عورت کو اپنے ساتھ بٹھایا اورایک دوسرے پرائیویٹ ہسپتال سے میڈیسن وغیرہ دلوانے کے بعد اُسے گھر تو چھوڑ دیا مگر خود رات گئے تک یہی سوچتا رہا کہ میں قلم کی طاقت رکھنے کے باوجود کتنا بے بس ہو ں جو پارلیمنٹ تک یہ آواز پہنچا کر اُنہیں ایک ایسا بِل منظور کرنے پر قائل بھی نہیں کر سکتا جس میں جہیز لینے اور دینے کو ایک سنگین جرم قرار دیا جا سکے ،جوکہ خواتین پر آئے روز بڑھتے ہوئے تشدد کی دوسری بڑی وجہ بن چُکا ہے کیونکہ ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس نے ہمیں اپنے جگر کا ٹکڑا یعنی کہ بیٹی ہی دیدے دی اُس نے آپ سے چھپایا ہی کیا ہے، اگر ہمیں یہ سمجھ آجائے اور ہم مال ودولت کی بجائے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صرف انسانیت سے محبت شروع کردیں توہمارا یہ وطن یقیناًوادیِ جنت بن جائے ،اﷲ ربُ لعزت ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(فی ایمان ِﷲ) ۔

Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 37777 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.