انا کی تسکین

وہ ہر اس بڑی دکان کا‘ اتا پتا جانتا تھا‘ جن کا صرف نام ہی تھا‘ لیکن وہاں سامان دو نمبر ملتا تھا۔ یہ ہی نہیں‘ وہ ان کی اصولی عادتوں سے بھی آگاہ تھا۔ رشوت‘ بابو کا اصولی حق ہے‘ اور اس کی ادائیگی کے بغیر‘ سائل کی مراد پوری نہیں ہو سکتی۔ یہاں قدرے جبری صورت ملتی ہے۔ بڑی دوکان بھی‘ پہلے سوال کی طرح‘ لازمی کے درجے پر فائز ہے۔ بیگمی فرمان ہو‘ یا دفتری فرمائش‘ اس بڑی دکان کا رخ کرنا‘ مجبور شخص کی مجبوری ہو جاتی ہے۔ مانگ کے تحت‘ اس دکان کے مالک اور کارکنوں کا‘ مزاج بھی دفتری اور بیگمی ہو جاتا ہے۔ مال دو نمبر‘ مزاج شاہانہ‘ یہ حیرت سے خالی نہیں-

سوال یہ تھا‘ کہ دو نمبری‘ اے پلس کے درجے پر کیوں فائز ہو جاتا ہے۔ دوکان کی تزئین وآرائش میں‘ کوئی کسر باقی نہیں ہوتی۔ ہر چیر‘ شوکیسوں میں سجی سجائی نظر آتی ہے۔ مال کی غازہ کاری پر‘ پورا پورا زور دیا گیا ہوتا ہے۔ مال کو دیکھتے ہی‘ منہ سے پانی کی نہریں جاری ہو جاتی ہیں۔ ٹرن آوٹ ہی‘ عزت اور منگ کا سبب بنتا ہے۔ شکم دوست‘ شکم نواز‘ اس حسن قاتل پر‘ مر مٹتے ہیں۔ ناچاہتے ہوئے‘ مہنگے داموں خرید لیتے ہیں۔ ان بڑی دوکانوں کی پیش کش‘ دہائی کی ہوتی ہے۔ شاپر دیکھ کر‘ شاپربردار کا اسٹیٹس جان جاتے ہیں۔

جہاں سامان جاتا ہے‘ وہ شاپر‘ اور شاپر میں موجود ڈبا‘ ان کے بلند مرتبے کی‘ نشان دہی کر دیتا ہے۔ بناؤ سنگار میں‘ معمولی معمولی چیزوں کو بھی‘ نظر میں رکھا گیا ہوتا ہے۔ اسی طور سے‘ دو نمبری اے پلس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر بناؤ سنگار کی کوئی معنویت نہ ہو‘ تو دلہن کو سجانے کے لیے‘ سو جتن کیوں کیے جائیں۔

وہ جانتا تھا‘ اس نظریاتی شہر و معاشرہ میں‘ کوئی کام بلا دیے‘ نہیں ہو سکتا۔ سفارش کی عزت اپنی جگہ‘ لیکن مطلوبہ میرٹ کے لیے‘ ادائیگی کی اپنی ہی بات ہے۔ ادائیگی کے ساتھ‘ خود سے یا فرمائشی تحائف کی اپنی ہی حیثیت ہوتی ہے۔ پیٹ‘ ان سب سے بازی لے جاتا ہے۔ بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘ کھلانے پلانے کی صورت میں‘ فائل کی بلند پروازی پر‘ شاہین بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔

وہ اعتباری شخص تھا۔ وہ برسوں سے‘ یہ ہی کام کرتا چلا آ رہا تھا۔ سائل اور دفاتر کا عملہ‘ مطمن تھا۔ وہ اطراف میں معاملہ طے کر لیتا تھا۔ وہ کتنا رکھتا ہے‘ اور کتنا نہیں رکھتا‘ کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ وہ سوغات اور کھانے کے پیسے بھی‘ شمار کر لیتا تھا۔ اگر وہ ان سے کسی ایک کی ڈنڈی مار لیتا‘ تو یہ اس کی اپنی حکمت عملی تھی۔ صاف ظاہر ہے‘ اس بچت کے لیے‘ سو طرح کے حربے‘ استعمال کرتا ہو گا۔ بہت کم اتفاق ہوا ہو گا کہ وہ کھانا بچا پایا ہو گا۔

پچھلے کچھ سالوں سے‘ اس نے کھانا خود ہی لازمی کر دیا تھا۔ جہاں کھانے کی بچت ممکن ہوتی‘ وہاں بھی‘ کھانا ضرور کھلاتا۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی‘ پہلے وہ خود بھی ساتھ کھاتا تھا‘ لیکن اب وہ اپنے لیے‘ محض دال روٹی منگواتا۔ اس نے چھوٹے اور درمیانے ہوٹلوں کو طلاق دے دی۔ جب بھی رخ کرتا‘ تو بڑے اور معروف ہوٹل کا رخ کرتا۔ اس بابو کی خودی کو تقویت میسر آتی۔ خودی بلند ہو جانے کے سبب‘ معاوضے میں کمی کر دیتا اورممکنہ جلدی میں کام کروا دیتا۔

عصمت پکوان ہاؤس سے‘ کھانا‘ کھانا‘ ہر ایرے غیرے کے بس کا روگ نہ تھا۔ یہ ہوٹل‘ ایک سیاسی شخصیت کا تھا۔ کسی کو اس کی جانب میلی نظروں سے دیکھنے کی‘ جرآت نہ تھی۔ کھانے تو خوب صورت ہوتے ہی تھے‘ لیکن اس کے برتن اور سروس کا‘ کوئی جواب ہی نہ تھا۔ علاقے کے بالائی طبقے‘ پیٹ پوجا کے لیے‘ عصمت پکوان ہاؤس کا رخ کرتے۔ اس سے جہاں مصالحے اور چٹخارے دار پکوان میسر آتے‘ وہاں عموم اور خصوص میں موجود گیپ کی وضاحت بھی ہو جاتی۔ عموم جو سڑکی کھانا کھاتے تھے‘ انہیں اپنی اوقات میں رہنے کا سلیقہ آ جاتا۔

کسی کو یہ معلوم ہی نہ تھا‘ یہاں مردہ بکروں‘ چھتروں اور گائے بھینسوں کے‘ انتہائی خفیہ انداز سے‘ پکوان چڑھتے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ‘ ہوٹل کے منیجر سے چوکی دار تک کو‘ اس کی خبر نہ تھی‘ مگر شرافت‘ اس کی خبر رکھتا تھا۔ اس کی زبان تک یہ بات نہ آتی تھی۔ ہاں‘ اس نے منیجر سے مک مکا کر رکھا تھا‘ جس کی وجہ سے‘ اسے اوروں سے‘ کم دام ادا کرنا پڑتے تھے۔

بیگ پائے‘ تو دور دراز تک‘ اپنا شہرہ رکھتے تھے۔ وہاں سے‘ جو ایک بار کھا لیتا‘ پھر بار بار کام چھوڑ کر وہاں آتا۔ لذت میں‘ وہ اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ اچھا خاصا بڑا ہوٹل ہونے کے باوجود‘ وہاں جگہ نہ ملتی۔ اس بھیڑ کے باوجود‘ لوگ باہر پڑے بنچوں پر‘ کھانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ گاہگ تلخ کلامی کر سکتے تھے‘ لیکن ملازم سے مالک تک‘ برداشت اور تحمل سے کام لیتے تھے۔ بیگ صاحب بھلے اور شریف آدمی تھے‘ لیکن ریٹ میں رو رعایت کو‘ گناہ کبیرہ جانتے تھے۔ سری پائے‘ عصمت پکوان ہاؤس میسر کرتا تھا۔ بیگ صاحب کے فرشتوں کو بھی‘ علم نہیں تھا کہ یہ چھوٹے بڑے پائے‘ مردہ جانوروں کے ہیں۔ شرافت یہاں ہی سے‘ بابو بادشاہوں کی صحت بناتا تھا۔ شرافت کیا‘ زمانہ جانتا تھا کہ سپلائی‘ عصمت پکوان ہاؤس سے آتی ہے۔

لال ہوٹل‘ تیسرے نمبر پر تھا۔ شوشا تو بڑی تھی‘ لیکن دام‘ عصمت پکوان ہاؤس سے کم تھے۔ جب بجٹ کی کمی آتی‘ تو شرافت بڑے طریقے سے‘ ان ماتحت افسروں کو یہاں لے آتا تھا۔ انصاف کی بات یہ ہے‘ کہ ان کے کھانوں کا ذائقہ بھی‘ اپنی نوعیت کا ہوتا تھا۔ شرافت کے‘ ہوٹل کے مالک سے بھی ہیلو ہائے تھی۔ وہ اس کے ساتھ مستقل گاہک ہونے کے باعث خصوصی رعایت برتتے تھے۔ شرافت جانتا تھا‘ کہ عصمت پکوان ہاؤس کے ڈرم میں پھینکے کھانے کو‘ خصوصی نکھار کے ساتھ یہاں سرو کیا جاتا ہے۔ براتوں میں لوگ‘ کھانا بڑی بدسلیقگی کے ساتھ کھاتے ہیں۔ کھانے کی توہین‘ تقریبوں میں ہی ہوتی ہے۔ لال ہوٹل کے مالک جاوید صاحب کے بڑے بیٹے‘ شرف بدسلیقہ سے کھائی گئی بوٹیوں کو‘ بڑے طریقہ سے لے آتے تھے۔ وہی توہین کی زد میں آنے والا کھانا‘ احترام اور سلیقہ سے شرفا کی خدمت میں‘ بڑی عزت کے ساتھ پیش کر دیا جاتا۔ شرافت کے علم میں کھانے کی عزت افزائی سے متعلق معلومات موجود تھیں۔

سالے فرائض کی ادئیگی کے بھی‘ دام اٹھاتے ہیں۔ حرام کھاتے ہیں۔ ان کے جو ہتھے چڑھ جاتا ہے‘ اسے چھیل کر رکھ دیتے ہیں۔ گریب لوگوں پر بھی‘ ترس نہیں کھاتے۔ سائل لانے والوں کی تو ان کی نظر میں رائی بھر عزت نہیں۔ دام لے کر بھی‘ احسان جتاتے ہیں۔ احسان ہی کیا‘ دھتکارتے بھی ہیں۔ شرافت دیر تک سوچتا رہا۔ بابو صابر کا طرز عمل‘ اسے کچکوکے لگاتا رہا۔ وہ بے آب ماہی کی طرح‘ دیر تک چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر اس نے طے کیا‘ کہ وہ ہر معاملے کے بابو کو کھانا ضرور کھلائے۔ حرام تو پہلے کماتے ہیں۔ وہ حرا م کا کھانا کھلا کر‘ انہیں ڈبل حرامی بنانے کا چارہ کرے گا۔ اس سوچ نے‘ شاید اس کی انا کو تسکین بخش دی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی‘ کہ وہ تھوڑی ہی دیر بعد‘ گہری نیند میں چلا گیا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 175629 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.