گمشدہ شوہر کی ادھوری بازیافت

نریندر مودی کی اہلیہ جسودابین کی 45سال کی تپسیا آخر کو رنگ لائی۔ ہر چند کہ نہ ان کو شوہر کا سکھ ملا ہے اور نہ اس کا گھرملا جو ہرشادی شدہ عورت کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے۔لیکن ان کو تواس سے بھی خوشی ہوئی ہوگی کہ آخر شوہر کا نام تو مل گیا، شوہر نے ان کے وجود کو اپنے سے وابستہ تسلیم تو کرلیا۔
ان کی شادی جس وقت نریندر مودی سے ہوئی ، وہ صرف 17سال کی تھیں۔ ایسی کم عمر لڑکی نہ جانے کتنے سپنے لئے بیاہ کر مائکہ سے سسرال جاتی ہے اوران سپنوں کو سچ کرنے کئے اپنے وجود کو شوہر کے سپرد کردیتی ہے۔ایسے ہی کچھ خواب جسودا بین نے بھی دیکھے ہونگے مگر افسوس کہ ان کے سارے خواب تین ماہ میں ہی بکھرگئے۔ مستقبل سے بے فکر انہوں نے یہ تین ماہ ہنسی خوشی اور شوہر کے ساتھ شیر و شکر ہوکر گزارے۔ نہ کبھی کوئی تنازعہ، نہ کوئی تلخی ۔جدائی کا اندیشہ کیا ہوتا۔ گمر وائے قسمت، ایک دن نریندر مودی ان کو بے یار ومددگار چھوڑ کر چلتے بنے۔ کم عمری کے باوجود جسودابین نے شکست نہیں مانی۔انہوں نے ثابت قدمی سے تعلیم مکمل کی اور پھر اسی ریاست کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھانے لگیں ۔ وہ دوسال قبل ہی ریٹائر ہوئی ہیں۔ کسی شادی شدہ خاتون کے لئے شوہر کی ایسی طویل بے وفائی ، ایسی جدائی کہ ،موجود ہے ، معلوم ہے ، مگر پا نہیں سکتی، ایسا عظیم کرب ہے،جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

نریندر مودی کو ایک عدالتی حکم کی بدولت اس بار اپنے نامزدگی فارم میں زوجہ کا نام درج کرنا پڑا ورنہ وہ یہ خانہ خالی ہی چھوڑ دیتے تھے۔ بیوی سے ان کی اس بے التفاتی کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے وہ آر ایس ایس کے کارکن بن گئے، جس کے لئے غیر شادی شدہ ہونا شرط ہے۔ اب اگر انہوں نے سنگھ میں اپنے آقاؤں سے اپنی شادی کو چھپایا تو غلط بیانی کی اور اگر ان کے آقاؤں نے ان کے شادی شدہ ہونے کے علم کے باوجود ان کو گھر واپس نہیں بھیجا اورایک نوجوان لڑکی کی امنگوں، آرزوؤں اور خوشیوں کو ملیا میٹ ہونے دیا اور اپنے ایک کارکن کوبیوی کیحق تلفی سے نہیں روکا تو وہ عورت ذات پر ظلم کے مرتکب ہوئے۔
مودی کی انتخابی مہم کے دوران یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ وہ بڑی صفائی کے ساتھ غلط بیانی کا ہنر جانتے ہیں ۔ جو شخص اپنی غلط بیانی سے اپنی شادی کے بارے میں سنگھ کے لیڈروں کو گمراہ کر کے ان کی آنکھ کا تارہ بن سکتا ہے، اس کے لئے یہ کونسا مشکل کام ہے کہ پوری قوم کو مغالطے میں ڈال دے، جیسا کہ وہ کررہے ہیں۔ لیکن اگر صورت دوسری ہے، کہ سنگھ نے یہ جانتے بوجھتے کہ وہ شادی شدہ ہیں ان کو جسودا بین سے عہدوفا نبھانے کی تاکید نہیں تو یہ رویہ سنگھ کی حکمت کے عین مطابق ہے۔ ملک میں ہندتووا کی لہراٹھانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں نہ جانے کتنی عورتوں کا سہاگ اجڑگیا، کتنے بچے یتیم ہوگئے اور کتنے گھر ویران ہوئے۔ جسودا بین کی آرزوؤں کا خون ان کے لئے کیا معنی رکھ سکتا ہے۔ جسودا بین ہندستان کی بیٹی ہے اس لئے ہماری بہن بھی ہوئی۔سنگھ کی تنگ دلی اور شوہر کی سنگ دلی سے ان کو جو ازیت پہنچی اس پر اظہار ہمدردی اور شوہر کی اس ادھوری ہی سہی، بازیافت پر ان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔سنگھی ان ’آدرش وادیوں‘ کے مقابلہ میں جسودا بین لاکھ درجہ بہتر ہیں جو آج بھی اپنے بے وفا شوہرکی خیرمناتی پھرتی ہیں انتخابی مہم میں اس کی کامیابی کے لئے چاردھام کے چکر لگاتی پھر رہی ہیں۔

اگر وہ مسلمان ہوتیں؟
اسلام نے عورت ذات کو جو شرف بخشا اور جو حقوق دئے ہیں ان کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ عورت کو کمتر سمجھا جاتا تھا۔ قرآن نے اعلان کیا ہم نے عورت اور مرد کو ایک ہی جان سے پیدا کیا۔گویا عورت اور مرد ایک ہی جان کے دو الگ الگ مظہر ہیں۔ قرآن نے بیوی کے حقوق کھول کھول کر بیان کئے ہیں اور عورت کو یہ حق دیا ہے کہ شوہر اگر اس سے بے التفاتی برتے، تو اس سے گلو خلاصی حاصل کرلے۔ سورہ بقرہ کی آیت 221سے 242تک عورتوں کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔ درمیان میں آیت 238 میں اچانک نماز کی حفاظت اور حالت جنگ میں نماز کے اہتمام کا ذکرآگیا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے بیان کے درمیان میں نماز کا یہ ذکر ازدواجی زرشتوں کے احکام کی اہمیت کو اور بڑھا دیتے ہیں کہ ان پر عمل بھی نماز کی ہی طرح فرض کے درجہ میں ہے اور ان سے چشم پوشی کی بازپرس بھی ہوگی۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے اسلام نے عورتوں سے ساتھ حددرجہ حسن سلوک کا حکم دیا اور تنگ کئے جانے کی صورت میں گلو خلاصی حاصل کرلینے کا حق بھی دیا ہے۔ ہمارے جو ہم وطن اسلام کے نظام رحمت کو ملک کے لئے خطرہ اورامت مسلمہ کو بوجھ قراردیتے ہیں،اور خود اپنے عمل سے عورت ذات کے لئے شقاوت کا وہ نمونہ پیش کرتے ہیں،جو مودی اور ان کے سنگھی آقاؤں نے جسودا بین کے تعلق سے پیش کیا ہے، وہ غور کریں کہ کونسا رویہ سماج کے لئے بہتر ہے۔ ہندتووا یا اسلام؟اگر جسودا بین کا تعلق مسلم سماج سے ہوتا تو ان کو یوں پوری زندگی سہاگن ہوتے ہوئے بھی بیوہ کی طرح نہیں گزارنا پڑتا اور وہ شوہر سے زریعہ عدالت اپنے حقوق حاصل کرسکتی تھیں یا علیحدگی لے سکتی تھیں۔

مختار انصاری اور اخترالایمان
بھگوا امیدواروں کے مقابلے سیکولر ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کے لئے دو قابل ذکر خبریں آئی ہیں۔جناب مختارانصاری بنارس سے اور جناب اخترالایمان بہار کی کشن گنج سیٹ پر مقابلہ سے ہٹ گئے ہیں۔ مسٹرایمان کو، جو بڑے فعال رکن اسمبلی ہیں اور حال ہی میں جے ڈی (یو) میں شامل ہوئے ہیں، نتیش کمار نے مولانااسرارالحق کے مقابلے میں اتارا تھا۔ سابق پارلیمانی الیکشن میں مولانا بہار سے کامیاب ہونے والے کانگریس کے واحدممبر تھے اور تعلیم کے میدان میں بیش بہا خدمات کی بدولت وہاں عوام میں مقبول ہوئے۔ اخترالایمان کے مقابلے سے ہٹ جانے سے جے ڈی یو حیران اور بھاجپا پریشان ہے کیونکہ دو ممتاز مسلمان لیڈروں کے میدان میں ہونے سے کامیابی بھاجپا کو ہی ملتی۔

مسٹر مختارانصاری (قومی ایکتا دل) نے مودی کے مقابلے سیکولر ووٹوں کی تقسیم روکنے کے لئے بنارسسے چناؤ لڑنے کا ارادہ ترک کردیا ہے، حالانکہ وہ ایک مضبوط امیدار سمجھے جاتے تھے۔ 2009میں ان کو ایک لاکھ 85ہزار ووٹ ملے تھے اور صرف 17ووٹ سے مرلی منوہر جوشی سے ہارے تھے۔دہلی اسمبلی چناؤکے بعد راہل گاندھی نے کہا تھا کہ کانگریس کو کچھ سبق عام آدمی پارٹی سے لینا ہوگا۔ ہمارا خیال ہے کانگریس کو اور اس کے ساتھ دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو کچھ سبق مختار انصاری اور اخترالایمان سے بھی لینا چاہئے۔کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ مودی کا مقابلہ سیدھے کیجریوال سے ہوجائے اور دونوں میں سے کسی ایک غبارے کی ہوا نکل جائے۔

کیجریوال نے مختار انصاری کے اس اقدام پر خوشی ظاہر کی ہے ۔ یقینا انصاری کے ہٹ جانے سے کیجریوال کی پوزیشن مودی کے مقابلے مضبوط ہوئی ہے۔ لیکن کیا کیجریوال خود انصاری کی اس بلا طلب پہل سے سبق لیتے ہوئے ایسا ہی اقدام لکھنؤ میں کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں جہاں ان کے امیدوار جاوید جعفری کی موجودگی بھاجپا صدر راج ناتھ سنگھ کی راہ آسان کردی ہے۔ اگر کیجریوال کے نزدیک یہ اہم ہے کہ مودی کے مقابلے میں سیکولر ووٹ بکھرنے نہ پائیں ،تو راج ناتھ کے مقابلے میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ مودی تو بس ایک مہرہ ہیں، پس پشت چہرہ تو راج ناتھ سنگھ کا ہی ہے۔نئے اور پرانے سارے اتحادی،مودی کے مقابلے میں، جواپنے آگے کسی کی چلنے نہیں دیتے، راج ناتھ سنگھ جیسے لیڈر کو وزیراعظم دیکھنا چاہیں گے۔ ایک خبر یہ ہے مودی کی انتخابی مہم کی کمان پوری طرح آر ایس ایس نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ ان کے پروگرام اور تقریریں یا تو مودی خود طے کرتے ہیں یا سنگھ طے کرتا ہے اور پارٹی کو پتہ ہی چل پاتا۔دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر این ڈی اے سرکار بننے کی نوبت آتی ہے تو اس پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے آر ایس ایس مودی کے بجائے کسی ایسے لیڈر کو آگے بڑھائے گا جو اس کی اشاروں پرچلے۔ گجرات میں مودی کا رویہ سنگھ پریوار کے لئے کچھ خوش کن نہیں رہا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی کا یہ بیان کہ مودی کی ہوا نہیں ، بھاجپا کی ہے، اور شتروگھن سنہا کی اس پر تائید اورپارٹی امور پر سشما سوراج کی کھلی تنقیدسے اشارہ ملتا ہے کہ الیکشن کے بعد پارٹی میں کوئی طوفان آنے والا ہے۔

ماؤ دہشت گردی
بھاجپا کی زیرحکومت ریاست چھتیس گڑھ میں ماؤنوازوں کے دہشت گرد حملے بدستور جاری ہیں۔ حال ہی میں بستر اور بیجاپور میں ایک وین اور ایک ایمبولینس کو نشانہ بنایا گیا، جس میں پانچ ٹیچرس سمیت 14؍افراد مارے گئے۔ ان ہلاکتوں پرممنوعہ دہشت گرد تنظیم’ سی پی آئی(ماؤ نواز)‘ کے ایک ذمہ دار لیڈر نے ایک طویل بیان جاری کرکے اظہار افسوس کیا ہے اورکہا ہے کہ ان کو غلطی سے نشانہ بنایا گیا۔ بیان میں مرنے والوں کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو جانیں گئیں ،ان کی تلافی تو ممکن نہیں لیکن ہمیں اس کا سخت افسوس ضرورہے۔ہم اس کے لئے معافی مانگتے ہیں اورآئندہ احتیاط برتی جائیگی۔

سیاسی مقاصد کے لئے لوگوں پر جان لیواحملے، چاہے ارادتاً ہوں یا غیرارادتاً انتہائی افسوسناک اور لائق مذمت ہیں۔ چھتیس کڑھ میں واضح طور پر یہ تحریک اس لئے پنپ رہی ہے کہ ریاستی حکومت آدی باسیوں کا استحصال روکنے میں ناکام رہی ہے ۔ سرکاری رویہ سے مایوس آدی باسیوں میں شدت پسندی کو قدم جمانے کا موقع مل گیا ہے۔ اگر حکمت سے کام لیا جائے تو اس کو روکا جاسکتا ہے۔ فلپائن میں گزشتہ چاردہائیوں سے جاری ایک مسلح تحریک کو ختم کرنے کے لئے وہاں کی حکومت نے تھک ہار کر مذاکرات کا راستہ اختیار کیا اور مورو لبریشن فرنٹ سے ایک امن معاہدہ کرلیا ہے۔ چھتیس گڑھ سرکار کو اس سے سبق لینا چاہئے۔

مظفرنگرمیں ووٹنگ
ایک خبر یہ ہے کہ مظفرنگر اور شاملی کے عارضی کمپوں میں مقیم فساد متاثرین نے پولیس کی نگرانی اپنے گاؤں جاکر ووٹ ڈالے۔ ان میں سے کئی لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھے، مگر بغیر کسی رکاوٹ ووٹ سب کو ڈالنے دئے گئے ۔ پولنگ کے دوران کچھ لوگ اپنے گھروں تک بھی ہو آئے۔ ان کے پڑوسیوں نے ، جن کے خوف سے یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے سے ڈر رہے ہیں، روائتی انداز میں ہاتھ جوڑسلام کیا۔یہ ایک خوش آئند علامت ہے۔

امید ہے کہ جن لوگوں نے ہندوجاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان یہ آگ لگائی، وہ چناؤ کے بعد بے تعلق ہوجائیں گے۔ اس لئے ضرورت ہے سبھی خیر پسند اور امن پسند لوگوں کوکوشش کریں کہ اس خطے میں صدیوں سے مقیم ہندد اور مسلم باشندوں کے درمیان اعتماد بحال ہو۔ خیر سگالی کے جذبہ کو فروغ دینے کے لئے اگر کچھ مقدمے باہم معاہدہ کرکے اور آئندہ کے لئے کوئی شر نہ کرنے کی ضمانت پر واپس لئے جاسکتے ہیں ،تو اس کی پہل ہونی چاہئے۔ ہمارا تجربہ ہے اس طرح کے مقدموں کی پیروی مظلوم طبقے کی طرف سے ممکن نہیں ہوتی۔مقدمات یونہی ختم ہوجاتے ہیں ۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے پولیس اور استغاثہ کی سازش سے مظلوموں کو ہی مجرم قراردیدیا جاتا ہے۔ اس لئے مقدموں پر جو اصرار ہورہا ہے ، اس پر ازسرنوغور ہونا چاہئے۔

خواجہ سراؤں میں خوشی
سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے خواجہ سراؤں میں خوشی کی لہر ہے۔ اس فیصلے کا ایک اثر یہ ہوگا کہ آپ آئندہ جب کوئی سرکاری فارم بھریں گے تو اس میں جنس کے خانے میں آپ سے صرف یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ آپ مرد ہیں یاعورت ہیں بلکہ یہ بھی پوچھا جائیگا کہ کیا آپ ہجڑے ہیں؟ اس لئے یہ فیصلہ مٹھی بھر خواجہ سراؤں کیلئے تو باعث افتخار ہوگامگر کثیر آبادی کے لئے باعث آزار بھی ہوگا۔ یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ ان کے لئے بسوں اور میٹرو میں مخصوص سیٹوں پر لوگ اسی طرح بے شرمی سے بیٹھ جایا کریں گے جس طرح اب ضعیفوں اور عورتوں کی سیٹوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور اٹھنے کو تیار نہیں ہوتے یا وہ خالی پڑی رہا کریں گیں۔

خواجہ سراؤں کو انگریزوں نے جرائم پیشہ گروہ قراردیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ شکایات ہیں کہ خواجہ سرا اپنی برادری میں اضافہ کے لئے ان بچوں اور لڑکوں کو جو ان کے چنگل میں پھنس جاتیہیں، غیرقانونی طور سے آپریشن کرکے جنسی طور سے ناکارہ کردیتے ہیں۔شکایت صحیح یا غلط، اتنا ضرور ہے کہ بعض خواجہ سرا شریف النفس بھی ہوتے ہیں اور مختلف پیشے اختیار کرکے کھاتے کماتے ہیں۔ اس فیصلے سے ہم جنس پرستوں کے بھی حوصلے بلند ہوگئے ہیں حالانکہ ان کا معاملہ قطعی مختلف ہے۔ خواجہ سرا ہونا کسی کی مجبوری ہوسکتا ہے، لیکن ہم جنس پرستی ایک غیر فطری اور غلیظ رویہ ہے جو ہمارے سماج میں گناہ اور کلنک سمجھا جاتا ہے ۔عدالت کا کوئی فیصلہ ہم جنس پرستی کے رویہ کو سماج میں قابل قبول نہیں بناسکتا۔ (ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.