ذرائع ابلاغ میں ریڈیو کی اہمیت

اس میں کوئی شک نہیں کہ ذرائع ابلاغ کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ رائے عامہ کو بنانے اور بگاڑنے میں اس کا اہم کردار ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی مختلف قسمیں ہیں ۔ ایک تو وہ جو سماج میں افراد اپنے طور پر چینلز ترتیب دیتے ہیں جیسا کہ موبائل ایس ایم ایس ، فیس بک ، ٹوئیٹر ، گوگل اور یو ٹیوب وغیرہ ، دوسرا جو رائج شدہ نظام یا دستور کی حدود و قیود میں رہ کر عوام الناس کو خبر دیتا ہے اور تفریحی سہولیات یا ادبی و ثقافتی تخلیقات پیش کرنے کا موقع دیتا ہے ۔ اس میں قومی سطح پر چلنے والے ٹیلیو یژن مراکز ، ریڈیو اسٹیشنز اور رسا ئل و جرائد ہیں ۔ اول الذکر ابلاغ کے ذرائع بغیر مالی استحکام کے خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ مؤ خر الذکر پلیٹ فارمز کو ریاست کی آشیر باد اور سر پرستی حاصل ہوتی ہے۔ اشتہارات اور دیگر طرح کی مراعات سے مستفید ہوتے ہیں ۔ ان ذرائع ابلاغ میں چلنے اور شائع ہونے والی خبروں ، مضامین ، اداریوں اور تحریروں وغیرہ پر با ضابطہ کار روائی عمل میں آتی ہے ۔ اس کے لئے با قاعدہ ادارے قائم ہیں ۔ جو ترا شے اور ’’ کار روائی کیلئے متعلقہ محکموں کو تحریری احکامات ‘‘ بھیجتے ہیں ، سوشل میڈیا صرف اور صرف رائے عامہ میں گھس کر اپنا کام کرتا رہتا ہے ۔ سماجی ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اسٹیج ڈرامے اور فلمیں ،ریڈیو اور ٹی وی ڈرامے ، فلمیں ، دستاویزی فلمیں ، آڈیو کیسٹس اور سی ڈیز بھی اہم میڈیم ہیں جن کے ذریعے منفی اور مثبت تاثر عام کیا جا سکتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ وقت کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ترجیحات و ضروریات میں تبدیلی آتی رہتی ہے ۔ ان حا لات میں یہ دیکھنا ہوگا کہ عوام میں مقبول میڈیم کون سا ہے جو رائے عامہ کو مثبت سمت کی طرف گامزن کر سکتا ہے ۔۔۔۔؟

دور جدید جسے ترقی یافتہ دور بھی کہا جاتا ہے میں بھی لوگوں کو مثبت ذرائع ابلاغ میسر نہیں ہیں ۔ پرائیویٹ ریڈیو اسٹیشنز اور ٹی وی چینلز نے جو اثرات چھوڑے ہیں پاکستان کا کم اور نا خواندہ معاشرہ ان کا متحمل نہیں ہے۔ یہ اور بات کہ اس نے شعور بھی دیا ہے لیکن ان کے مضر اثرات بھی نا قابل اصلاح ہیں ۔ نجی پر نٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں زہر یلے اثرات کے پائے جانے کی اصل وجہ ر پورٹرز کی نفسیات اور اذہان کا بد عنوان ہونا ہے ۔ جو خبر اور اطلاع کو ذاتی مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے توپاکستان کا نجی میڈیا عالمی سطح پر مقابلے میں نہیں لا یا جا سکتا ۔ میڈیا کے ان نقائص کے پیش نظر جن ضرو رتوں نے جنم لے رکھا ہے ۔ ان میں ریڈیو نشریات کو جدید انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ریڈیو کے ذریعے ایسے پروگرامز پیش کئے جائیں جن کے ذریعے نسل نو کی تر بیت ہو سکے کیونکہ ریڈیو کی سماعت کا دائرہ کار اور تناسب دیگر ذرائع ابلاغ سے زیادہ ہے ۔ ٹیلی ویژن دیکھنے والے اب ریڈیو کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں ۔ سر کاری اور نجی ٹیلی ویژن چینلز نے بے ہودہ ( غیر معیاری ) قسم کے مذا کرات کا لا متناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ناظرین میں موجود حس شعور کو جگانے کی بجائے انہیں فنون لطیفہ سے ایک طرح سے دا نستاً دور رکھا جا رہا ہے ۔ ثقافتی پرو گرامز پیش کرنے کی جگہ سماعت اور حسن ذوق میں بد مزگی پیدا کرنے والے پروگرام کی بھر مار ہے ۔ اس کے بر عکس ریڈیو تفر یحی سہولیات اخلاقی تربیت ، سماجی اقدار ، ثقافتی و ادبی پروگرامز اور دوسرے اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے مو سیقی کے آ ئٹمز پیش کرنے میں مصروف ہے ۔ اس دور میں بھی لوگ ریڈیو کو اخلاقی تر بیت و درس گاہ کے طور پر لیتے ہیں ۔ سر کار کو چاہیے کہ ریڈیو نشر یات کو جدید کرنے میں بھر پور اقدامات اٹھائے اور ریڈیو کے پروگرامز کو مزید بہتر کرنے کیلئے بھی مو ٔ ثر اقدامات کرے ۔ یقینا ریڈیو اور ریڈیو کے نشر کار دیگر ذرائع ابلاغ کی نسبت اپنے معیا ر میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ۔ بشر طیکہ ان کے درمیان پیشہ و ارانہ حسد نہ پایا جاتا ہو ۔۔۔۔ !

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 46668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.