موجودہ نظام تعلیم کے خدواخال

عرفان اﷲ چمکنی

اقوام عالم کی سربلندی اور فلاح وبہبود کا انحصار موجودہ نسل کی صحیح تعلیم وتربیت پر ہے ،اس لیے مسلما نوں کی ملی وجود ،قومی تشخص اور ملکی استحکام کا دارومدار بھی اس بات پر ہے کہ ہمیں جو اصول وضوابط اور تہذیب وتمدن ورثہ میں ملے ہیں انہیں من وعن نئی نسل کے سپر د کریں اور مستقبل کے ورثا ء کو اس مقام پر فائز کردیا جائے ۔

اس حقیقت کے بعد طلبا ء کو یہ احساس کرنا ضروری ہے کہ جب انسان اپنے حقیر سے حقیر اندوختہ کے لیے بھی امین ومحافظ تلاش کرتا ہے تو اسلاف کی سونپی ہوئی دینی وراثت وامانت تو یقینا اس سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے نئی نسل کے اذہا ن میں راسخ کردیا جائے تاکہ وہ تحقیق واکتشافات کے اس دور میں ملکی انتظام کو کامیا بی کے ساتھ چلانے کے لیے اسلامی تعلیما ت کو راہنما بنائے ۔

اس کے برعکس آدم سمتھ کے معاشی نظریات کے مطابق تعلیم دے کر کیمو نیسٹ نوجوان تیا ر کرکے یہ امید رکھنا اور کارل مارکس کے معاشی افکار پر مبنی نظام تعلیم سے سرمایہ دارانہ ذہنیت کے حامل معاشی مفکرین پید اکرنے کی آس لگائے رکھنا غلط ہے ۔

پاکستا ن اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت ہے ، اس نظریاتی ریاست میں اسلامی نظام حیا ت کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام تعلیم کا نفاذ ایک طبعی تقاضا تھا ،لیکن افسوس ایسا کرنے سے مسلسل انحراف کیا گیا ۔
گنواں دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا نے زمین پر آسما ں سے ہم کو دے مارا
ہائے وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سہ پارا

اسی طرح نئی نسل دو طبقوں میں تقسیم ہوگئی ،ایک طبقے نے سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی راہ لی ،اور دوسرے طبقے نے دینی درسگاہوں کا رخ اختیا ر کیا ،دونوں طبقے ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے اور آپس میں نفرت بھی بڑھتی گئی ،چاہے تو یہ تھا کہ یہاں انگریز کے نظام تعلیم کی پیدا کردہ تفریق ختم کرنے کے لیے اسلامی نظام تعلیم رائج کردیا جاتا مگر ایسا بھی نہیں ہوسکا ،اسی طرح دینی مدارس کے طلبہ صرف مسجدوں اور مدرسوں تک محدود ہوکر رہ گئے ،کیونکہ وہ حلا ل وحرام کے قوانین سے آگاہ ہوتے ہیں ،اخلاقی وروحانی اقدار سیکھتے ہیں ،لیکن زاعت ،تجارت اور صنعت وحرفت سے نا واقف اور تاریخ وجغرافیہ اور معاشرتی سائنسی علوم سے نا آشنا ہوتے ہیں اس لیے یہ لوگ حکومتی مشینری میں نہیں آسکتے ۔

طلباء کا دوسرا طبقہ جو فنی اور سائنسی علوم کا علم تو رکھتا ہے لیکن دین سے بالکل بہرے ہوتے ہیں ،عرصہ سے یہی طبقہ عدالت وحکومت سنبھال لیتا ہے ،طلباء کے دونوں طبقوں میں نظریاتی جنگ بلا انقطاع جاری ہے ،ان کے ذہن ودماغ میں خلا ء پید ا کیا جارہا ہے ،انگریز اور ان کے حاشیہ برداروں کے اس منصوبے کو خاک میں ملانے کی صرف ایک صورت ہے کہ فنی علوم پڑھنے والے طلبہ کو مدارس عربیہ کے طلبہ سے ملا دیا جائے تاکہ ضروریات دین سیکھے اور مدارس عربیہ کے طلبہ عصر جدید کے مسائل سمجھے ،اس طرح دونوں طبقوں کے درمیان جو اجنبیت اور غیریت پائی جاتی ہے وہ دور ہوجائے گی ،آخر کا ر ان حساس اور اسلام سے گہری وابستگی رکھنے والے طالبعلموں کو آپس میں بیٹھ کر ملت اسلامیہ اس خطرنا ک حالت کو بنظر غایر جائزہ لینا ہوگا اور دونوں مختلف النظر طلبہ کو آپس میں مل جل کر اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ کے لیے بہتر کردار ادا کرنا ہوگا ،اسی طرح ان لوگوں کے لیے بھی راہ ہموار ہوتی چلی جائے گی جو اس ملک میں اسلامی نظام حیا ت برپا کرنا چاہتے ہیں ،تاکہ ایسا نظام تعلیم مرتب کردیا جائے جس میں تعلیم یافتہ ڈاکٹر اور انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ محدث ومفسر اور فقیہ بھی ہونگے ۔

Rizwan Peshawari
About the Author: Rizwan Peshawari Read More Articles by Rizwan Peshawari: 162 Articles with 189648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.