معاشرے کا جو ہرِ خیر

پاکستان میں8اکتوبر 2005کا زلزلہ آیا تو حکومتی سطح پر کی جانے والی کوششوں کا ہدف دنیا بھر کے ممالک ، غیر ملکی این جی اوز اور ڈونر ایجنسیوں سے زیادہ سے زیادہ امدادکی وصولی تھا ۔ دنیا بھر سے آفت زدگان کے لئے ہر طرح کی امداد ی اشیاء پاکستان بھجوائی گئیں ۔ مگر امدادی اشیاء کی تقسیم میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے یہ اشیائے ضرورت کھلے عام بکتی رہیں ۔ یہی وجہ سے کہ جب 2010 میں سیلاب آیا تو حکومتی ساکھ اور دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ زلزلہ زدگان کی امدادی اشیاء میں کی جانے والی خردبرد بھی غیر ملکی امداد میں کمی کا باعث بنی۔2005 کے زلزلہ کے دوران ایک طرف کرپشن کی داستانیں تھیں تو دوسری طرف جذبہ اخوت کی صورت پاکستانی قوم کا انوکھا روپ دکھائی دیا۔ مختلف تنظیموں نے میڈیا کے ذریعے جب عوام الناس کو زلزلہ زد گان کی مدد کے لئے پکارا تو پاکستانی قوم نے رقوم کی فراہمی کے علاوہ مختلف اداروں ، این جی اوز ، تعلیمی اداروں، حتیٰ کہ گلی محلے کی سطح پر بھی اشیائے ضروریات کے ڈھیر لگا دئیے ۔ اسکے ساتھ ہی ہر طبقہ اور شعبہ سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات اور نوجوانوں نے آفت زدہ علاقوں کا رخ کیااور افرادی قوت کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا ۔ مغربی میڈیا اپنے تمام تر تعصب کے باوجود پاکستانی عوام کے جذ بہ اخوت کو سراہے بغیر نہ رہ سکا۔ پاکستانی قوم کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ عطیات اور خیرات کرنے والی قوم گردانا جاتا ہے۔ گو اسلام میں زکوۃ کی صورت میں سال بھر کی زائد آمدنی میں غریبوں کا حصہ مقرر ہے۔ مگر اپنی روحانی آسودگی کے لئے ہرطبقہ کے لوگ سال بھر اپنی استطاعت کے مطابق صدقات و عطیات کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اداروں ،تنظیموں، مسجدوں اور خانقاہوں کے حاصل کردہ چندوں اور عطیات کا تخمینہ لاکھوں کروڑوں میں ہو تا ہے۔

آج پاکستان بھر میں قومی، صوبائی اور علاقائی سطح پر چلنے والے سماجی بہبود کے بہت سے خیراتی ادارے عوام کے انہی عطیات کے مرہون منت ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کا سب سے شفاف اور قابل اعتماد ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایدھی ایمبولینس سروس کا آغاز ہندوستان کی سینٹ جونز ایمبولینس سروس کے متباد ل کے طور پر کیا گیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایدھی ایمبولینس سروس 1000,000 افراد کو ہرسال ہسپتال پہنچاتی ہے ۔ نادار مرد و خواتین ،بے سہارا بچے، قیدی ،مہاجر ہوں یا ذہنی مریض۔۔۔۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے سماجی اور عوامی بہبود کی خدمات کا دائر کار بے حد وسیع ہے۔ یہ سب عبدالستار ایدھی نے عوام کے عطیات و صدقات کی مدد سے ممکن بنایا۔ شوکت خانم میموریل ہسپتال عوامی عطیات سے چلنے والا ایسا ادارہ ہے جس کی ساکھ اور افادیت عمران خان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس ہسپتال کا قیام اور بعد ازاں کامیابی سے چلائے رکھنا عوام الناس کے اسی جذبہ خیر کامرہون منت ہے۔اسی طرح ـ"اخوت "کے حوالے سے ڈاکٹر امجدثاقب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ غریب اور ضرورت مند افراد کے لئے سو د سے پاک قرضوں کا اجراء ممکن بنا کر اب تک 40 ہزار خاندانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا چکا ہے۔ 2001 میں فقط 10 ہزار روپے قرض کے اجراء سے آغاز ہونے والے اس ادارے کی ساکھ کا عالم یہ ہے کہ پاکستان کی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائینسز (LUMS) اور امریکی یونیورسٹی Southern New Hampshire میں" اخوت ماڈل" نصاب کا حصہ ہے۔

جماعت اسلامی کی سرپرستی میں چلنے والے بہت سے ہسپتال اور اسکولز اپنے کاروباری پہلو سے قطع نظر مستحق افراد کے لئے سو فیصد رعائیتی خدمات اور سہولیات فراہم کرتے ہیں ۔ اسی طرح خاندان کے افراد کی مالی امداد سے شروع کیے گئے شریف ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلنے والا" شریف میڈیکل سٹی " دیگر طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ غریب افراد کو ڈائیلسز جیسے مہنگے علاج کی مفت سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ تو فقط چند نام ہیں ۔ ملک بھر میں سینکڑوں خیراتی ادارے انسانی فلاح کے کاموں میں دن رات مصروف ہیں ۔ یتیم خانے ہوں ، گورنمنٹ ہسپتال ،جیلیں یا پاگل خانے ۔۔۔۔ صاحب حیثیت افرا د کی طرف سے لاکھوں افراد کے لئے تین وقت کھانے کا انتظام ہوتا ہے۔ زیادہ تر افراد گمنام ہیں اور اپنے نام کی تشہیر تک نہیں کرتے۔

عطیات فقط روپے پیسوں کے مرہون منت نہیں۔ ہمارے ہاں خون کے عطیات جمع کرنے کے بہت سے ادارے موجود ہیں جن سے منسلک لاکھوں افراد باقاعدگی سے خون عطیہ کرتے ہیں ۔ بہت سے بڑے ناموں سے قطع نظر،لاہور کے چند نوجوانوں نے "بلڈ سٹریم "کے نام سے موبائل نیٹ ورک بنا رکھا ہے اور فقط ایک فون کال پر مطلوبہ گروپ کا خون دینے کے لیے رضا کار حاضر ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بہت سے افراد تعلیمی اداروں میں رضاکارانہ تدریس کے فرائَض سرانجام دیتے ہیں ۔ بہت سے ڈاکٹر حضرات باقاعدگی سے خیراتی ہسپتالوں اور دودراز علاقوں میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں حکومتی سطح پر بھی بیت المال جیسے کئی ادارے اور اسکیمیں موجود ہیں جو زکوۃ کی مد میں حاصل کی گئی رقوم کی مدد سے غریب عوام کی بہتری کے لئے کام کر رہے ہیں۔ گو حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ادارے انتظامی ڈھانچے، و سائل اور فنڈز کی فروانی کی وجہ سے زیادہ بہتر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ مگر درحقیقت حکومتی اداروں میں غیر شفافیت کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان اداروں کی کارکردگی اور ساکھ متاثر رہتی ہے۔ سیاسی تقرریوں اورسربراہان کی سیاسی وابستگی کی وجہ سے بھی عطیات کی تقسیم میں سیاست اور اقربا پروری کے عناصر غالب رہتے ہیں۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہی کی مثال لیجئے۔ بلاشبہ لاکھوں مستحق خواتین اس سے مستفید ہو چکی ہیں مگر ایک نقطہ نظریہ بھی ہے کہ قومی خزانے کی مدد سے شروع کی گئی اس سکیم کا نام برسراقتدارحکومتی جماعت کی شہید لیڈر سے منسوب کرکے اس کا حلقہ اثر محدود کر دیا گیا ہے۔اگرچہ اصل مقاصد یہ نہ بھی ہوں تب بھی نام ہی سے گمان ہو تاہے کہ غالباً یہ امدادی پروگرام فقط پی پی پی کے سیاسی اور نظریاتی وابستگان کے لئے ہے۔سیاسی اور حکومتی جماعتوں کو سماجی بہبود کے پروگرام اور اسکیمیں ضرورمتعارف کروانی چاہیں ۔ اگر ان کی مدد سے ووٹ بنک مضبوط کرنا اور ساکھ بہتر بنانا مقصود ہو تب بھی ظاہری طور پر ان میں قومی رنگ نظر آنا چاہیے نہ کہ سیاسی و علاقائی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عطیات و چندہ کی تقسیم کے طریقے کار کو شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ مضبوط اور مربوط بھی بنایا جائے اور معاشرے کے اس جوہر خیر کو کمیونٹی اورگروہی سطح پر مربوط کیا جائے۔ حکومت یا سیاسی جماعتوں کی طرف سے اداروں کے قیام اور غریبوں کو فنڈ زکی تقسیم سے قطع نظرہم گلی ،محلے یا علاقے کی سطح پر یہ کام زیادہ اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں مہنگائی کے بوجھ نے جس طرح اچھے بھلے کھاتے پیتے گھرانوں کو سفید پوشی کی زندگی گذارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ قابل رحم بھی ہے اور قابل افسوس بھی ہے۔بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی ہے۔ جب لوگ اپنی بنیادی ضروریات بھی جائز طریقوں سے پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو وہ ناجائز ذرائع کا سہارا لیتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے کام کرنے والے اداروں ، دفاتر،تعلیمی اداروں ، گلی ،محلے یا علاقے کی سطح پر رضاکارانہ طور پر عطیات و چندہ جمع کرنے کی باقاعدہ کمیٹیاں بنا کر اپنے ارد گرد گلی محلے اور دفاتر کے ضرورت مندوں کی مدد کریں۔بالکل اسی طرح غریب اور ضرورت مندوں کی تدریس ،علاج معالجہ اور دیگر ضروریات کو بھی مل جل کر کی گئی کوششوں سے زیادہ بہتر طریقے سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ فلاح و بہبود اور خیراتی کاموں کے لیے رسمی اداروں اور انتظامی ڈھانچے کی ضرورت نہیں ۔فقط ذرا ساوقت صرف کرکے اس کام کی بخوبی انجام دہی کی جاسکتی ہے۔ کمیو نٹی لیول پر کیے جانے والے یہ کام بارش کے قطرے ثابت ہو کر ملک و قوم کی بہبود و ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25271 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.