الاستشراق و المستشرقین-آغاز و ارتقاء

'Orientalism'لاطینی لفظ 'Oriens'(Rising)اوریونانی لفظ'He'oros'(The Direction Of The Rising Sun) سے نکلا ہے۔یہ (Occident)کی ضد ہے۔ اب یورپ میں 'Orientalism'کی جگہ لفظ ’ایشین اسٹڈیز‘ (Asian Studies)کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انگریزی زبان میں ’شرق‘ کے لیے 'Orient'، ’استشراق ‘ کے لیے'Orientalism' اور مستشرقین کے لیے 'Orientalists'کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

عربی زبان میں اس کا ترجمہ ’استشراق‘سے کیا گیا ہے۔اس کا سہ حرفی مادہ ’شرق‘ ہے، جس کا مطلب ’روشنی‘اور ’چمک ‘ ہے۔ لفظ ’شرق‘ کو جب باب استفعال کے وزن پر لایا جائے تو’ ا، س، ت‘ کے اضافے سے ’استشراق ‘ بن جاتا ہے اور اس میں طلب کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ گویا ’استشراق ‘ سے مراد مشرق کی طلب ہے۔ عربی لغات کی رو سے مشرق کی یہ طلب علوم شرق، آداب، لغات اور ادیان تک محدود ہے۔

مغرب کے رہنے والے علماءاورمفکرین جب مشرقی علوم و فنون کو اپنی تحقیق و تفتیش کا مرکز و محور بناتے ہیں تو اسے استشراق کہا جاتا ہے۔ جدید لغات میں بھی اس کا یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ ورڈ ویب انگلش ڈکشنری کے مطابق:
’ایشیائی ثقافت اور زبانوں کے عالمانہ مطالعے کا نام استشراق ہے‘۔
عربی زبان کی لغت’ المنجد ‘کے مطابق:
’العالم باللغات والاٰداب والعلوم الشرقیة والاسم الاستشراق‘۔
’مشرقی زبانوں ، آداب اور علوم کے عالم کو مستشرق کہا جاتا ہے اور اس علم کا نام استشراق ہے۔‘

ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب نے لکھا ہے :
”استشراق، کفار اور اہل کتاب کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے مختلف موضوعات مثلاً عقائد و شریعت، ثقافت، تہذیب، تاریخ اور نظامِ حکومت سے متعلق کی گئی تحقیق اور مطالعہ کا نام ہے جس کا مقصد اسلامی مشرق پر اپنی نسلی و ثقافتی برتری کے زعم میں مسلمانوں پر اہلِ مغرب کا تسلّط قائم رکھنے کے لیے ان کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنا ہے“۔

علی بن ابراہیم النملہ کہتے ہیں:
” میرے نزدیک مستشرقین سے مراد وہ غیر مسلم دانش ور حضرات ہیں ( چاہے مشرق سے ہوں یا مغرب سے ) جومسلمانوں کے فرہنگ اعتقادات اور آداب و رسوم کے بارے میں تحقیق کریں، خواہ وہ مسلمان مشرقی ہوں یا مغربی اور عربی ہوں یا عجمی“۔(علی بن ابراہیم النملة،دراسات الاستشراق(

تحریک ِ استشراق کا آغاز
مستشرقین کی تحریک کا آغاز کب ہوا؟اس سلسلے میں مختلف آراءملتی ہیں:
اے جے آربر ی(Arthur John Arberry, 1905-1979)کے مطابق مستشراق(Orientalist) کا استعمال پہلی بار1638ءمیں یونانی کلیسا کے ایک پادری کے لیے ہوا۔

میکسم روڈنسن (Maxime Rodinson,1915-2004)کے مطابق استشراق کا لفظ انگریزی زبان میں1838ءمیں داخل ہوا اور فرانس کی کلاسیکی لغت میں اس کا اندراج 1799ءمیں ہوا۔

بعض حضرات کے نزدیک اس تحریک کا آغاز’ ویانا‘ میں کلیسا کی کانفرنس(1312) کے دوران ہوااور اس میں یہ طے پایا کہ یورپ کی جامعات میں عربی، عبرانی اور سریانی زبان کی تدریس کے لیے پیرس اور یورپ کی طرز پر چیئرز قائم کی جائیں۔

بعض محققین کے نزدیک یہ تحریک دسویں صدی میں اس وقت شروع ہوئی جب بعض مغرب کے راہب اندلس پہنچے ۔ان میں جربرٹ ڈی اوریلیک (Jerbert d' Aurillac,946-1003)(فرانسیسی راہب)، پیٹر (Peter,1093-1156) اور جیراڈگریمون(Gerardde Germone, 1114-1187) کا نام قابلِ ذکر ہے ۔اول الذکر وہاں کی جامعات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد999ءسے1003ءتک پوپ سلویسٹرثانی(Pope Silvester II) کے نام سے پاپائے روم کے منصب پر فائز رہا۔

بعض اہلِ علم کے مطابق اس کا آغاز 1269ءمیں ہوا جب قشتالہ (Castile)کے شاہ الفانسو دہم(King Alfonso, 1221-1284) نے1269 میں مرسیا (Murcia) میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ادارہ قائم کیا اور مسلم ، عیسائی اور یہودی علماءکو ترجمے اور تصنیف و تالیف کا کام سونپا۔

اسی طرح بعض کے نزدیک اس تحریک کا بانی پطرس محترم (Peter The Venerable,1092-1156) تھا،جو (ClunyFrance) کا رہنے والا تھا۔اس نے اسلامی علوم کے تراجم کے لیے مختلف علماءپر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس میں مشہور انگریزی عالم رابرٹ آف کیٹن(Robert Of Ketton,1110-1160) بھی تھا۔ اس نے قرآن مجید کا پہلا لاطینی ترجمہ 1143ءمیں کیا، جس کا مقدمہ پطرس نے لکھا تھا۔یہ پہلی بار 1543ءمیں شائع ہوا تھا۔

مستشرقین کی قسمیں
گزشتہ کئی صدیوں سے مختلف مستشرقین اسلام اور اس کی تعلیمات کے سلسلے میں تحقیق وتصنیف میں مشغول ہیں ۔ ان کو نظریات و افکار اور فطرت کی بنیاد پر درج ذیل قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

۱-سلیم الفطرت مستشرقین
بعض سلیم الفطرت مستشرقین ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو فطرت کے قریب پایا اور اسے آسمانی ہدایت سمجھ کر اللہ تعالی کے سامنے سرتسلیم خم کر گئے اور اسلام لے آئے۔پھر ان کی پوری زندگی اسلام کے مطابق گزری اور انہوں نے مستشرقین کی جانب سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا دنداں شکن جواب دیا۔جیسے شیخ عبداللہ (William Henry Quilliam, 1856-1932)،رسل ویب(Mohammed Alexander Russell Webb(1846-1916) Books: 1.Why I Became a Muslim 2.An Outline of Islamic Faith 3.The Five Pillars of Practice 4.Islam in Its Philosophic Aspect 5.Polygamy and the Purdah 6.Popular Errors Refuted 7.The Muslim Defensive Wars 8.The American Islamic Propaganda)،ابوبکر سراج الدین(Martin Lings,(1909-2005)Books: 1.Muhammad:His Life Based On The Earliest 2.Splendors of Qur'an Calligraphy And Illumination (2005)3.Mecca: From Before Genesis Until Now (2004).4 A Sufi saint of the twentieth century: Shaikh Ahmad al-°Alawi, his spiritual heritage and legacy (Islamic Texts Society, 1993)،ناصر الدین دینیہ(Alphonse-Etienne Dinet,1861-1929)،رحمت اللہ الفاروق(Lord Hadly Alfaruque,1855-1935)،علامہ محمد اسد(Sylvius Leopold Weiss,1900-1992)،ڈاکٹر عمر رالف ایرنفلس(Dr. Baron Omar Rolfvon Ehrenfels,1901-1980)، خالد شیلڈرک(Bertram William Sheldrake,1800)،مریم جمیلہ(Margaret Marks,1934-2002) وغیرہ۔

۲- تحقیق و تصنیف کے شائق مستشرقین
مستشرقین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کا بنیادی مقصد صرف علمی میدان میںتحقیق و تصنیف کرنا اوراس سے عوام الناس کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ایسے لوگوں نے تیرہویں صدی کے بعد مشرق سے علم و ادب کے ذخیرے کو ترجمہ کر کے مغرب میں پہنچایا۔ ان کو اسلام سے کوئی دشمنی اور عداوت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے مسلمانوں کے مختلف ممالک کے علمی مراکز میں جا کر قرآن و حدیث ، فقہ ،تاریخ اور دیگر علمی کتابوں پر ریسرچ کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے مردہ اقوام کی گم شدہ تاریخ کی چھان بین کی ۔آثارِ قدیمہ کی مدد سے ان کے قدیم رسوم و رواج،زبان وادب کا بغور مطالعہ کیا اور نتائج اخذ کیے۔ اسلام و عربی لٹریچر کے تحفظ کے لیے بڑی کوششیں کیں اور اپنی علمی تحقیق کے نتیجہ میں سینکڑوں یادگار کتابیں مسلمانوں کو دی ۔ان کتابوں میں ’نجوم الفرقان فی اطراف القرآن (1842)اورالمعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی(1936) ‘اہم ہیں۔ اوّل الذکر کو ’فلوجل الامانی‘(Gustav Leberecht Flugel,1802-1870) نے لکھا تھا۔اس کتاب سے محمد فواد الباقینے ’المعجم المفہرس لالفاظ القراٰن‘لکھتے وقت استفادہ کیا تھا۔ثانی الذکر کے مولف الدکتور ایونسک (A.J.Wensinck)ہیں۔دیگر مستشرقین میں البرٹ اعظم (Albert Azam, 1293-1335)،ریمنڈ لول(Reymond LOl,1235-1315)،میجل اسکاٹ (M.Scot)،گوستاولیبون(Gustave Le Bon,1841–1931,The Crowd: A Study of the Popular Mind)،توماس ایڈورڈ (Thomas Edwards,1652-1721,A Discourse against Extemporary Prayer)اور راجر بیکن (R.Bacon)وغیرہ مشہور ہوئے۔

۳- اسلام دشمن اور تعصب پرست مستشرقین
مستشرقین کا یہ طبقہ ان متعصب یہودی اور عیسائی محققین پر مشتمل ہے، جن کا بنیادی مقصد صرف اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے عقائد و نظریات کے فروغ کے لیے وقف کر دی اور مشرق سے جو بھی مفید چیزیں اخذ کی گئی ہیں ان کو علمی دیانت کے برخلاف ،ان کے ماخذ و مصادر کو پوشیدہ رکھ کر انہیں مغرب سے منسوب کردیا ۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں :
”یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان بارود، قطب نما، الکحل، عینک اور دیگر بیسیوں اشیاءکے موجد تھے، لیکن بقول رابرٹ بریفالٹ مورخین یورپ نے عربوں کی ہر ایجاد اور انکشاف کا سہرا اس یورپی کے سر باندھ دیا ہے جس نے پہلے پہل اس کا ذکر کیا تھا۔ مثلاً قطب نما کی ایجاد ایک فرضی شخص فلویوگوجہ کی طرف منسوب کر دی۔’ولے ناف کے آرنلڈ‘ کو الکحل اور بیکن کو بارود کا موجد بنا دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعض اوقات عربوں کی تصانیف پر اپنا نام بطور مصنف جڑ دیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لفظ جیبر(Geber)کے تحت ایک مترجم کا نام دیا ہوا ہے ، جس نے اسلام کے مشہور ماہر کیمیا داں جابر بن حیان کے ایک لاطینی ترجمے کو اپنی تصنیف بنا لیا تھا۔ یہی حرکت سلرنو کالج کے پرنسپل قسطنطین افریقی (1060)نے بھی کی تھی کہ ابن الجزار کی ’زادالمسافر‘کا لاطینی ترجمہ’Viaticum‘کے عنوان سے کیا اور اس پر اپنا نام بطور مصنف لکھ دیا۔“

۴-مفاد پرست مستشرقین
مستشرقین کی یہ وہ قسم ہے جن کے پیشِ نظر کوئی اعلیٰ علمی مقاصد نہیں ہوتا ،بلکہ وہ مادی مفادات، عہدوں، سستی شہرت اور دنیاوی مال و دولت کے لالچ میں اس میدان میں قدم رکھتے ہیں اورچوں کہ اہلِ مغرب مسلمانوں کے خلاف کی گئی تحقیق کو، چاہے وہ کتنی ہی غیر معیاری، بے بنیاد اور علمی و عقلی لحاظ سے پست ہی کیوں نہ ہو، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ اس وجہ سے ایسے لوگ ہمیشہ ان چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ اہل مغرب سے اپنے مفادات سمیٹ سکیں۔ اس طرح کے لوگوں میں ہندوستان کے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین وغیرہ بھی شامل ہیں۔

علمی معیار کے اعتبار سے مستشرقین کی اقسام
مولانا شبلی نعمانی نے مستشرقین کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے :
۱- عربی زبان و ادب ، تاریخ اسلام اور اس کے ماخذ سے ناواقف مستشرقین، جن کی معلومات براہ راست نہیں ہوتیں، بلکہ وہ تراجم سے مدد لیتے ہیں اورقیاسات و مفرضوں سے کام لیتے ہیں۔
۲- وہ مستشرقین جو عربی زبان وادب ،تاریخ،فلسفہ اسلام سے تو واقف ہوتے ہیں، مگر مذہبی لٹریچر اور فنون مثلاً اسماءالرجال، روایت و درایت کے اصولوں، قدیم ادب اور روایات سے واقف نہیں ہوتے۔
۳-و ہ مستشرقین جو اسلامی علوم اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کر چکے ہوتے ہیں، لیکن اپنے مذہبی تعصبات کو دل سے نہیں نکال سکے۔ وہ اسلامی علوم کے بارے میں تعصب، تنگ نظری اور کذب و افترا سے کام لیتے ہیں۔(شبلی نعمانی،سیرة النبی:1/65)

مستشرقین کے مقاصد
چھٹی صدی میلادی تک مستشرقین کو اسلام اور مسلمانوںسے کوئی مطلب نہ تھا۔وہ صرف تجارتی تعلقات کی بنیاد پر مشرقی ممالک میں آتے تھے اوران کے حالات،رسوم ورواج،تجارتی اشیاءاور عوام الناس کے رہن سہن کو جاننے یا سمجھنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کو قلم بند بھی کرتے تھے۔اس میں ہیردوس نامی (Herodotus,(c.484–425BC),The History )مورخ بہت مشہور ہوا،جس کو مغرب میں ’بابائے تاریخ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے عراق،شام،مصر اور جزیرة العرب کا سفر کیا اور وہاں کے حالات لکھے۔

ساتویں صدی کے آغاز سے مستشرقین کی اسلام دشمنی کا آغاز ہوتا ہے ۔دین ِ اسلام جب اندلس پھر فرانس کی سرحد تک پہنچ گیا تو یورپ اور اہلِ کلیسہ جن میں مستشرقین بھی شامل تھے، اس سے خطرہ محسوس کرنے لگے اور انہوں نے اسلام پر اعتراضات کرنے شروع کیے ۔

سب سے پہلے جان آف دمشق (John of Damascus,675-749) نے اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف نفرت اور دشمنی کا آغاز کیا، اسلام کو وثنی (Pagah) مذہب قرار دیا اور کعبہ کو بت سے تعبیر کیا۔اس نے اسلام مخالف دو کتابیں (محاورة مع المسلم،ارشادات النصاریٰ فی جدل المسلمین ) لکھیں۔دوسرا شخص ثیوفانس بزانسی ہے جس کی کتاب کا نام زندگانی محمد ہے۔ اس میں وہ لکھتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ آپ نے اسلامی تعلیمات کو شام کے یہودیوں اور عیسائی علماءسے حاصل کیا تھا اور آپ کے پیروکار بھی آپ کو مسیحِ موعود مانتے ہیں۔پھر جان آف دمشق کے دیگر پیروں نے ان ہی بنیادوں پر اسلام کے خلاف لٹریچر تیار کیا اور پھر یہی ان کے لیے ازمنہ وسطیٰ سے لے کر مغربی نشاة ثانیہ اور پھر بیسویں صدی تک مرجع وماخذبنے رہے۔

مستشرقین کے مقاصد زیادہ تر منفی ہیںاوریہ لوگ ان مقاصد کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اسلام اور اس کی تعلیمات کا صرف تحقیقی مطالعہ کرنا نہیں ہے بلکہ ان تعلیمات کو شکوک و شبہات سے دھندلاکرنا، مسلمانوں کو گم راہ کرنا اور غیر مسلم لوگوں کے سامنے اسلام کا منفی تصور پیش کر کے انہیں اسلام قبول کرنے سے روکنا ہے۔اس کے علاوہ ان کے چند بڑے مقاصد درج ذیل ہیں۔

۱-مسیحیت کی تبلیغ و اشاعت
اسلام انتہائی سرعت سے عرب کے علاقے سے نکل کر دنیا کے ایک بڑے حصے پر چھا گیا تھا اس لیے یہود و نصاریٰ کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اسلام اسی رفتار سے پھیلتا رہاتو ایک دن ان کے دین کا خاتمہ ہو جائے گاتو انھوں نے سوچا کہ ایک طرف اسلامی تعلیمات میں شکوک وشبہات کے بیج ڈالے جائیں اور اسے ناقص اور ناکام قرار دیا جائے۔ دوسری طرف یہودیوں اور عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے سے روکا جائے اور تمام دنیا میں اپنے مذہب کی تبلیغ کی جائے۔

اپنے مقصد کی کام یابی کے لیے انھوں نے پادریوں کی تربیت کی اور مسلم ممالک سے اسلامی علوم کی کتابیں جمع کر کے ان میں سے ایسی کم زوریاں تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات،خاندان، ازدواج، قرآن مجید،نزول ِوحی، احکام، احادیث،فقہ، سیرت صحابہ ،غلامی اور جہاد وغیرہ کو ہدف بنایا اور ان میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ان موضوعات پر باقاعدہ کتابیں لکھیں گئیں۔ ساتھ ہی مسلمانوں میں اتحاد اور اخوت کو ختم کر کے ان میں مختلف نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات کو ابھارنا چاہا۔

اسلام کی مخالفت انہوں نے اس لیے بھی کی کہ عوام میں یہ تاثر دیا جا سکے کہ مسیحیت ہی واحد صحیح دین ہے اور اسلام اس کا شدید دشمن ہے۔امتِ مسلمہ ایک وحشی قوم ہے جس میں صرف جسمانی و نفسانی خواہشات پر توجہ دی جاتی ہے اور اس کا کوئی اخلاقی و روحانی نظام نہیں ہے۔ ۲-اقتصادی و معاشی استحکام
اہلِ مغرب نے مشرقی ممالک کی سائنسی و تکنیکی مہارت حاصل کرنے، اپنے معاشی مفادات، اور تجارتی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے عربی زبان اور اسلامی تہذیب وثقافت کا مطالعہ کیا۔ساتھ ہی ان لوگوں نے تجارتی و معاشی طور پر بھی مسلمانوں کو کم زور کرنا چاہا اور تجارت کے نام پر ان کے قدرتی ذخائر سے خام مال کو کم سے کم قیمت پر خرید ا تاکہ ان کی معیشت کم زور ہوجائے اور وہ ترقی نہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں ہر قسم کے غیر اخلاقی حربے استعمال کیے گئے اور آزادی، انصاف اور رحم و مروت کے تمام اصولوں کو فراموش کر دیا گیا۔ جس کا اعتراف ایک انگریز ادیب’سڈنی لو‘ (Sir Sidney James Mark Low,1857–1932)نے ان الفاظ میں کیا ہے :
”مغرب کی عیسائی حکومتیں کئی سالوں سے اممِ شرقیہ کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہیں اس کی وجہ سے یہ حکومتیں چوروں کے اس گروہ کے ساتھ کتنی مشابہت رکھتی ہیں جو پرسکون آبادیوں میں داخل ہوتے ہیں، ان آبادیوں کے کم زور مکینوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ یہ حکومتیں ان قوموں کے حقوق پامال کر رہی ہیں جو آگے بڑ ھنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ اس ظلم کی وجہ کیا ہے جو ان کم زوروں کے خلاف روا رکھا جا رہا ہے۔ کتوں جیسے اس لالچ کا جواز کیا ہے کہ ان قوموں کے پاس جو کچھ ہے وہ ان سے چھیننے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ عیسائی قوتیں اپنے اس عمل سے اس دعویٰ کی تائید کر رہی ہیں کہ طاقت ور کو حق پہنچتا ہے کہ وہ کم زوروں کے حقوق غصب کریں۔“

۳-سیاسی و استعماری استحکام
اہلِ مغرب اور مستشرقین نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے صلیبی جنگوں کا بھی سہارا لیا جس کی وجہ سے مجموعی طورپر دس صلیبی جنگیں (1099-1464)ہوئیں۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے شمالی افریقہ میںاپنی کالونیاں بسائیں اور ان پر اپنا تسلّط قائم رکھنے کے لیے سفارت خانوں کے بہانے سے مختلف مراکز بنائے جو بعد میں سیاسی امور میں بھی مداخلت کرنے لگے ۔ساتھ ہی ساتھ ان پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے وہاں کی تاریخی و جغرافیائی حالات، عادت واطوار،رہن سہن،اخلاق و کردار اور عقائد و افکار کا مطالعہ کیا اور ان کم زور پہلووں کو تلاش کیا کہ جہاں سے انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔ مستشرقین میں سے بلاشر(Régis Blachère,1900–1973)،نولدکے (Theodor Nöldeke,1836–1930,Das Leben Mohammeds (1863)) ویلام اور مکیسون اس قسم کے اہداف کے علمبردار ہیں۔

مستشرقین کو خطرہ اس بات کا تھا کہ اگر اسلام ایک بڑی طاقت بن کر اس دنیا میں ابھر جائے توہمارا وجود ختم ہو جائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو مختلف چھوٹے چھوٹے ملکوں اور ٹکڑیوںمیں تقسیم کیا جائے۔اس طرح سے بعض استعماری ممالک جیسے روس ،فرانس، اٹلی ،امریکہ اور برطانیہ نے مسلم ممالک کے حصے بخرے کر کے آپس میں بانٹ لیے۔

جرمن مفکر پاول شمٹ (Paul Schmidt)نے اپنی کتاب میں تین چیزوں کو مسلمانوں کی شان وشوکت کا سبب قرار دیتے ہوئے ان پر قابو پانے اور ختم کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے :
۱- دین اسلام، اس کے عقائد اور اس کے نظامِ اخلاق میں مختلف نسلوں، رنگوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو’رشتہ اخوّت‘ سے استوار کرنے کی صلاحیت۔
۲- ممالک اسلامیہ کے طبعی وسائل۔
۳-مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی عددی قوت۔

چناں چہ وہ مسلمانوں کی قوت و طاقت کی اصل بنیادوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :
” اگر یہ تینوں قوتیں جمع ہو گئیں، مسلمان عقیدے کی بنا پر بھائی بھائی بن گئے اور انھوں نے اپنے طبعی وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنا شروع کر دیا، تو اسلام ایک ایسی مہیب قوت بن کرابھرے گا جس سے یورپ کی تباہی اور تمام دنیا کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔“

۴-علمی استحکام
اہلِ مغرب اور مستشرقین کو اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر علم ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو جنگ و جدال کے ذریعے سے ختم کرنا، ناممکن نہ سہی لیکن مشکل ضرور ہے۔ اس لیے انھوں نے اب اپنے منصوبوں میں تبدیلی کی اورتعلیم کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں پر حملے شروع کیے۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف طریقے اختیار کیے۔

ایک طرف اپنے اہلِ علم کو مسلمانوں کے علوم و فنون سیکھنے پر لگایا تو دوسری طرف مسلمانوں میںان کے افکارونظریات کو دھندلانے کی کوشش کی ۔اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے قرآن و حدیث،فقہ اورتاریخ وغیرہ کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا۔اس میںان لوگوں نے تحریف و تبدیل سے کام لیا ،ان کو مختلف ماہ ناموں، میگزینس اوراخبارات و رسائل)ایشین میگزین(Asian Magazine,1787) ،مجلة الجمعیة الآسیویة المکیة(1843)،الجمعیة الشرقیة الامریکیة(1844)،العالم الاسلامی (The Muslim World,1911)میں شائع کرایا۔مختلف جگہوں پر کانفرنسیں منعقد کیں اورمختلف انسائیکلوپیڈیاز(The Encyclopaedia Of Islam(First Edition 1913-1938),Shorter Encyclopaedia Of Islam,Encyclopaedia Of Religion And Ethices By James Hastings(12 Volumes,1908-1927),Encyclopaedia Of Social Sciences(15 Volumes,First Edition 1930) etc.)تیار کیں اوران سب کو ’اسلامک اسٹڈیز ‘ کے تحت رکھا گیا۔یہ نام بھی مغرب ہی کا دیا ہوا ہے۔

مستشرقین نے اپنے مقصد کے حصو ل کے لیے حکومتوں کی مدد سے سوسائٹی، اسکول ،کالج اوریونیورسٹیاں قائم کیں۔جن میں اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم دی جاتی ہے اور تحقیق و تصنیف کا بھی کام ہوتا ہے۔سب سے پہلے ہالینڈ نے اپنے مقبوضہ جزائر شرقی میں ایک ’ایشیاٹک سوسائٹی‘ (1778)کی بنیاد ڈالی۔اس کی تقلید میں انگریزوں نے ’کلکتہ جنرل ایشیاٹک سوسائٹی‘(1784) اور بنگال میں بنگال ایشیاٹک سوسائٹی(1788) کی بنیاد ڈالی ۔ لندن میں ’رائل ایشیاٹک سوسائٹی‘ قائم ہوئی ۔ارکانِ حکومت فرانس نے1795 میں ’زندہ السنہ مشرقیة‘ (عربی ،فارسی اور ترکی)کے لیے ایک درس گاہ قائم کی ۔اس صدی میں ایڈورڈ ویلیملین (Edward William Lane,1801-1876)،ایڈورڈ ہنری پامر(Edward Henry Palmer,1840-1882) اور سررچرڈ برٹن(Sir Richard Francis Burten,1821-1890) وغیرہ مشہور ہوئے۔

یورپ میں بھی مستشرقین نے اسلام کو سمجھنے کے لیے ’اسلامک اسٹڈیز‘ کے مختلف انسٹی ٹیوٹ،سینٹرس اورمراکز قائم کیے۔جیسےUnitedStates:(Oriental Institute, Chicago, part of the University of Chicago).England:(Oriental Institute, Oxford, part of the University of Oxford).Continental Europe:(1. Oriental Institute in Sarajevo, a research institute in Sarajevo,Bosnia.2. Oriental Institute, ASCR, part of the Academy of Sciences of the Czech Republic in Prague.3. Pontifical Oriental Institute, a Roman Catholic university in Rome, Italy. 4. Institut national des langues et civilisations orientales, Paris, France)Asia: 1. Oriental Institute, Maharaja Sayajirao University of Baroda, India.2. Cama Oriental Institute, Mumbai, India. 3. Oriental Institute (Vladivostok), part of the Far Eastern Federal University,Russia)

اس کے علاوہ ہارورڈ یونیورسٹی(Harward University)،کولمبیا یونیورسٹی(Columbia University)،جان ہاپکنس یونیورسٹی(John Hopkins University)،شکاگو یونیورسٹی(Chicoago University)،میشی گن یونیورسٹی(Michigun University) ، بفیلو یونیورسٹی(Buffallo University)،کیلیفورنیا یونیورسٹی (California University)،ٹورنٹو یونیورسٹی(Toronto University)،میک گل یونیورسٹی(Mcgill University)،برلن یونیورسٹی(Berlin university)،نیویارک یونیورسٹی(New Yourk University)،برسولونا یونیورسٹی(Bacelona University)،ٹیمپل یونیورسٹی(Temple university)،انڈیانا یونیورسٹی(Indiana University)،ڈیوک یونیورسٹی(Duke University) ،لندن یونیورسٹی (London University)،کیمبرج یونیورسٹی (Cambridge University)،اڈنبرہ یونیورسٹی (Adenbra University)،گلاسکو یونیورسٹی(Glasco University) ،آکسفورڈ یونیورسٹی(Oxford University)،لیدن یونیورسٹی(Leedon University)، ڈنمارک یونیورسٹی(Denmark University) اوریوٹی اے ایچ یونیورسٹی (U.T.A.H University)وغیرہ مشہور ہیں جہاں اسلامک اسٹڈیز کے شعبے قائم ہیں اور ان میںمستشرقین کے ذریعے تحقیق و تصنیف کا کام ہوتا ہے۔

مستشرقین نے اسلامی و تاریخی کتابوں کی نشرواشاعت بھی شروع کی تاکہ ان کے افکار و نظریات تیزی سے دنیا میں پھیل سکیں۔ پہلی مرتبہ اٹلی کے ’باتیتستا یا باتیستا‘ نامی فرد نے چھاپہ خانہ کی بنیاد 1568 میںڈالی ۔عربی کتابوں کی نشر و اشاعت پر خاص توجہ دی گئی۔ ابنِ سینا کی اہم ترین کتابیںیہاں سے شائع ہوئیں۔ان کتابوں کی نشر و اشاعت کا مقصد دین اسلام کو کلیساوں میں تعارف کرانا اور اس کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کی راہ ڈھونڈنا، مسلمانوں کی غیر معتبر کتابوں کو نشر کرنا، مسلمانوں کی مفید کتابوں سے فائدہ اٹھانااور مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنا، خصوصاً قرات قرآن کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف نظریوں کو اچھال کر کے مسلمانوں کو آپس میں لڑانا تھا۔

مشہور مستشرقین اور ان کی تصانیف درج ذیل ہیں۔
اے جے اربیری(Arthur John Arberry,1905-1969)(دائرة المعارف الاسلامیة،الاسلام الیوم،مقدمة لتاریخ التصوف،التصوف اور ترجمة القرآن)،الفرڈ جیوم(A.Geom)(الاسلام)،بیرن کارڈی ووکس (Baron Carrade Vaus)(انسائیکلوپیڈیا آف اسلام)،ایچ اے ار گب(Hamilton Alexander Rosskeen Gibb,1895-1971) (طریق الاسلام،الاتجاھات الحدیثة فی الاسلام،الاسلام و المجتمع الغربی)،گولڈ زیہر(Gold Zihar)(انسائیکلو پیڈیا آف اسلام،تاریخ مذھب التفسیر الاسلامی)،ایس ایم زویمر(S.M.Zweimer)(رسالہ العالم الاسلامی،الاسلام تحد لعقیدة،الاسلام)،جی فون گرنبم(G.Von.Grunbaum) (اسلام العصور الوسطیٰ،الاعیاد المحمدیة،محاولات فی شرح الاسلام المعاصر،دراسات فی تاریخ الثقافة الاسلامیة،الوحدة و التنوع فی الحضارة الاسلامیة،الاسلام)،فلپ ہٹی(Philip Khuri Hitti,1886-1978)(تاریخ العرب،تاریخ سوریا،اصل الدروز و دیانتھم)،لوئی میسگن(Louis Massignon,1883-1962) (الحلاج الصوفی الشہید فی الاسلام،انسائیکلو پیڈیا آف اسلام)،ڈی بی میکڈونلڈ(D.B.Macdonald)(انسائیکلوپیڈیا آف اسلام،تطور علم الکلام و الفقہ و النظریة الدستوریة فی الاسلام،الموقف الدینی و الحیاة فی الاسلام)،ڈی ایس مرگولیوتھ(David Samuel Margoliouth,1858-1940)(انسائیکلو پیڈیا آف اسلام،التطورات المبکرة فی الاسلام،محمد و مطلع الاسلام،الجامعة الاسلامیة)،آر اے نیکلسن(Reynold A.Nicholson,1868-1945)(انسائیکلوپیڈیا آف اسلام،متصوفو الاسلام،التاریخ الادبی للعرب)،ہنری لیمنز(Henni Lammens,1862-1937)(انسائیکلوپیڈیا آف اسلام، الاسلام،الطائف)،ویلیم بڈول(William Bedweul,1561-1632) (عربی لغت)،ایڈورڈ پوکاک(Edward Pococke,1604-1691)(عربوں کی تاریخ کا نمونہ(خلاصہ تاریخ ابوالفرج)،سر ولیم جونس(Sir William Jones,1746-1794) (انگلش ترجمہ سبع معلقات)،ہملٹن گب(Mohammad Arises)(Hamilton Alexander Rosskeen Gibb,1895-1971) ،بروکلمان (Geschite Der Arabischen Litterature)،جوزف شاخت(Joseph Schacht,1902-1969,Origins of Muhammadan Jurisprudence (1950))(انسائیکلوپیڈیا آف اسلام، انسائیکلوپیڈیا آف سوشل سائنس،اصول الفقہ الاسلامی)،ایڈورڈ سعید(Edward Said,1935–2003,Orientalism (1978)اور سائمن اوکلے (Simon Oakely)وغیرہ بہت مشہور ہوئے۔
Osama Shoaib Alig
About the Author: Osama Shoaib Alig Read More Articles by Osama Shoaib Alig: 65 Articles with 190557 views Osama Shoaib Alig is a Guest Faculty of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia, New Delhi. After getting the Degree of Almiya from Jamiatul Falah, Az.. View More