دھرتی ماں

انسان اپنی ذات میں کچھ بھی ہو اسے اپنی شناخت اور تعارف کے لئے چند حوالوں کے ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔۔۔۔ پیدائش کے فوری بعد یہ حوالہ اس کی ماں ہوتی ہے اور بعد میں اس کا باپ۔دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں ان کو یعنی ماں باپ کو اتنی اہمیت حاصل نہیں کہ شناخت کے لئے ان کا حوالہ ضروری سمجھا جائے۔ ایسے ممالک میں آپ کو ایک شناختی نمبر فراہم کردیا جاتا ہے جس کے ساتھ آپ کی دوسری معلومات محفوظ کردی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ ایک حوالہ ایسا ہے جس کو ساری دنیا میں کہیں بھی نظرانداز نہیں کیا جاتا ۔۔۔۔۔ اور نہ کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور وہ ہے آپ کا ملک، آپ کا وطن، آپ کی دھرتی ۔۔۔۔۔ آپ کسی نئی جگہ جائیں آپ سے پہلا سوال ہی یہ ہوگا کہ آپ کون ہیں یعنی آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ ۔۔۔۔۔ اور یہ حوالہ آپ کی شخصیت کے تاثر میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

اور کیوں نہ ہو آپ کا دیس، آپ کی دھرتی، یہ بھی تو ماں ہی کی طرح ہے ۔۔۔۔۔ جو آپ کو اپنے سینے پہ پالتی ہے ۔۔۔۔۔ آپ کو ساری عمر کھلاتی پلاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اپنے خزانے آپ پہ نچھاور کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ کو آپ کے پیروں کے نیچے زمین فراہم کرتی ہے جس سے آپ پوری دینا کے سامنے پورے قد سے کھڑے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو اپنا نام دیتی ہے جو آپ کی پہچان بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور جب آپ مرتے ہیں اور آپ کے پیارے آپ سے منہ موڑ لیتے ہیں تو یہ آپ کو اپنی آغوش میں پناہ دیتی ہے۔

جو لوگ اپنی ماں کی قدر نہیں کرتے وہ دنیا میں کبھی سرخرو نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔۔ اور اگر وقتی اور ظاہری طور پر دنیا میں کچھ کامیابی حاصل کر بھی لیں تو اطمینان قلب سے محروم ہی رہتے ہیں ۔

آج ہمارا نام دنیا کی بدترین قوموں میں لیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔ آخر کیوں؟ اس کا جواب کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ “ہم نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کو اپنی دھرتی ماں پہ ترجیح دی ہے“ ۔۔۔۔۔ آج اس دھرتی کا یہ حال ہماری اس سے بےحسی کا نتیجہ ہے جب تک ہم اپنی دھرتی کو اس کا جائز مقام نہیں دیں گے ۔۔۔۔ اپنی مفاد پر اس کے مفاد کو فوقیت نہیں دیں گے ہم اسی طرح دنیا بھر میں ذلیل و خوار رہیں گے ۔۔۔۔۔۔ آج اس دھرتی کا حال یہ ہے کہ اس کے نوجوان بچے جو اس کا مستقبل ہیں، وہ اپنی دھرتی ماں کو چھوڑ کر پرائی ماں کی آغوش کے سپنے اپنی آنکھوں میں سجائے اس کے تعبیر کے حصول کے لئے کوشاں ہیں ۔۔۔۔۔ جس کے لئے وہ اپنی دھرتی کے تمام تر حاصل شدہ وسائل کو قربان کرنے کے لئے بھی تیار ہیں ۔
حق ہے تیری ذات کا تجھ پر مگر ریاض
بھلا کے دھرتی ماں کو پرسکون رہے گا؟
Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 10 Articles with 5511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.