انگریزی فیل

میں اور اسلم‘ ایک ساتھ‘ ایک ہی سکول میں‘ پڑھتے تھے۔ ہمارا بڑا یارانہ تھا۔ ہم ایک دوسرے کے ہاں‘ اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ اسلم بلاشبہ‘ بڑا محنتی طالب علم تھا‘ لیکن غیر معمولی ذہین نہیں تھا۔ اس کے برعکس‘ مجھے ذہین طلبا میں شمار کیا جاتا تھا۔ استاد کے منہ سے نکلی بات‘ میرے حافظے میں بیٹھ جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں‘ کہ میں گھر آ کر پڑھتا نہیں تھا۔ پڑھا ہوا سبق‘ گھر آ کر ضرور دھراتا‘ بلکہ اسے زبانی لکھتا بھی تھا۔ مجھے کئی بار‘ اساتذہ نے شاباش بھی دی تھی۔ اسلم کو شاید ہی‘ کبھی کسی استاد سے‘ شاباش ملی ہو گی۔ ہاں رٹابازی میں‘ میں بالکل نکما تھا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ رٹا بازی سے‘ مجھے گھن سی آتی تھی۔ میرے برعکس‘ اسلم رٹابازی میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ انگریزی کے سوا‘ میں دوسرے مضامین میں‘ اس سے زیادہ نمبر حاصل کرتا۔ انگریزی سے‘ میری جان جاتی تھی۔ انگریزی ناپسندیدہ مضمون ہو کر بھی‘ میں اسے زیادہ وقت دیتا۔ کئی بار سوچتا‘ کہ ماسٹر انگریزی پڑھا کر‘ شاید مجھے صدر کنیڈی کی سیٹ پر بیٹھانا چاہتے ہیں۔

اسلم رٹے کے بل بوتے پر‘ میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن لے کر‘ پاس ہو گیا۔ میں نے‘ انگریزی کے سوا‘ دوسرے مضامین میں‘ اسلم سے کہیں بڑھ کر‘ نمبر حاصل کیے‘ لیکن انگریزی میں‘ انیس نمبر سے زیادہ حاصل نہ کر سکا۔ بدقسمتی دیکھیے‘ دوسرے مضامین میں‘ معقول نمبر حاصل کرنے کے باوجود‘ فیل قرار دے دیا گیا۔ والد صاحب نے‘ ناصرف جھڑکیں دیں‘ بلکہ پہنٹی بھی لگائی۔ مجھے جھڑکوں اور بہنٹی کا سرے سے ملال نہیں۔ وہ سچے تھے‘ اگر میں میٹرک میں کامیاب ہو جاتا‘ تو میری زندگی بن جاتی۔ مجھے اصل ملال یہ رہا‘ کہ میں پڑھ لکھ کر بھی‘ ان پڑھوں میں شمار ہوا۔

والد صاحب نے‘ دوبارہ امتحان دینے پر‘ بڑا زور دیا‘ لیکن میرا اصرار تھا‘ جب تک انگریزی کورس میں شامل ہے‘ میں دوبارہ امتحان نہیں دوں گا۔ والد صاحب میرے اس موقف پر‘ تاؤ میں آ جاتے اور مارنے کے لیے آگے بڑھتے‘ تو والدہ آڑے آ جاتیں۔ وہ غریب سر پکڑ کر بیٹھ جاتے‘ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ میں کیا جانو‘ کہ انگریزی تو جنرل ایوب بھی‘ ختم نہیں کر سکتا تھا‘ وہ خود انگریزی بولتا تھا۔ اسے کیا پڑی‘ کہ میری خاطر‘ انگریزی مضمون سکولوں سے ختم کرا دے۔ اسلم میٹرک میں پاس ہو جانے کے بعد‘ کسی دفتر میں بابو بھرتی ہو گیا۔

والد صاحب مجھے ایک خرادیے کے پاس چھوڑ آئے۔ انہوں نے اسے کہا‘ ٹھوک کر کام لو۔ ان کا خیال تھا‘ کہ ملوکڑا سا ہوں‘ محنت سے تنگ آ کر‘ دوبارہ امتحان دینے پر‘ تیار ہو جاؤں گا۔ میں نے ٹھان لی‘ کہ محنت کر لوں گا‘ لیکن انگریزی کے خاتمے تک‘ دوبارہ امتحان نہیں دوں گا۔ بات تو بڑی شرم والی تھی‘ کہ اسلم جو میرا ہم جماعت تھا‘ اجلا لباس پہن کر‘ دفتر جاتا اور میں‘ میلا کچیلا لباس اور قنچی چپل پہن کر مزدوری کے لیے جاتا۔

شریف خرادیے نے‘ ایک وقت میں‘ کئی شوق پال رکھے تھے۔ بال بچے دار ہو کر‘ اس کے‘ کئی عورتوں سے مراسم تھے۔ اس کے علاوہ بھی‘ تانک جھانک اور ٹھرک سے باز نہ آتا۔ ہر عورت سے‘ ایک ہی ڈائیلاگ بولتا: قسم لے لو‘ تمہارے سوا‘ میری زندگی میں کوئی نہیں۔ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو۔ اس کی پہلی اور آخری محبت‘ کوئی بھی نہ تھی۔ وہ ابھی جوان اور صحت مند تھا‘ اس لیے‘ کسی کو‘ اس کی آخری محبت کہنا‘ کھلی حماقت تھی۔

اطوار یہ ہی بتاتے‘ کہ ابھی تو آغاز محبت ہے۔ وہ اس میدان میں قناعت کے قائل نہ تھا۔ مجھے ان کے پیام بر ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ فرمائشی اشیا بھی‘ میں پنچا کر آتا تھا۔ انہوں نے تاکید کر رکھی تھی‘ کسی دوسری کا ذکر نہیں کرنا۔ ان کے گھر بھی سودا سلف پنچانا‘ میرے فرائض میں داخل تھا۔ بیگم صاحب نے کئی بار کریدا‘ میں نے کبھی‘ کسی معاملے کا اشارہ تک نہ دیا۔ اس کے صلہ میں‘ جسے میں اعزازیہ سمجھتا ہوں‘ عطا فرماتے۔ دوسرے کام سیکھنے والوں میں سے‘ میں انہیں بہت عزیز تھا۔

شریف صاحب کے دوستوں میں‘ دو تین پینے کا بھی شغل رکھتے تھے۔ سب شاگردوں کو چھٹی ہو جاتی‘ لیکن مجھے کام وغیرہ کے لیے‘ روک لیتے۔ کھانے چیزیں کی چیز بچ رہتی تھیں‘ ان سب پر میں ہاتھ صاف کرتا۔ شام کے بعد‘ وہ مل بیٹھتے‘ اور ایک دو پیک بھی لگاتے۔ ان میں ایک صاحب جلد بہک جاتے۔ خمار میں تو سب ہی ہوتے‘ لیکن وہ کچھ زیادہ ہی اوور ہو جاتے۔ ہر قسم کی باتیں کرتے۔ بہت سی باتیں خیالی ہوتیں۔

ایک صاحب‘ سیاست سے دل چسپی رکھتے تھے۔ وہاں دری پر بیٹھے بیٹھے اکبراعظم بن جاتے۔ باقی سب انہیں جی حضور‘ جی سرکار کہتے۔ تالی بجاتے‘ میں تالی کی آواز سن کر‘ حاضر ہو جاتا۔ مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرماتے‘ خادم خاص! انارکلی سے کہہ دو‘ ہم اس کا گانا سننے کے لیے بےتاب ہیں۔ میں باہر آ کر فلم مغل اعظم کا یہ گانا۔۔۔۔۔۔۔ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔۔۔۔۔۔۔ گراموں فون پر لگا دیتا۔ سب جھومنے لگتے۔ ان کی حالت‘ بڑی عجیب اور مضحکہ خیز ہو جاتی۔

شریف صاحب‘ اپنے جدید و قدیم معاشقوں کی داستانیں‘ چسکے لے لے کر سناتے۔ ان داستانوں میں جنسی واہیاتیاں بھی شامل کرتے جاتے۔

ایک صاحب‘ قماربازی کا شوق رکھتے تھے۔ ان کی ہر کہانی کا انجام یہ ہی ہوتا‘ کہ بازی سو فی صد میری تھی‘ لیکن فلاں پتہ دغا دے گیا‘ ورنہ ہم سب نوٹوں کھیلتے۔ انہیں ہر بار یقین ہوتا‘ کہ اگلی بازی ان کی ہی رہے گی۔ پھر وہ نوٹوں میں زبانی کھیلتے۔ بڑے بڑے منصوبے بناتے۔ بدقسمتی دیکھیے‘ ایک بار بھی‘ جیت ان کا مقدر نہ بنی۔ ہمت والے تھے‘ جیت کی امید میں‘ اگلی بار بھی میدان میں اترتے۔

شریف صاحب کے ساتھ‘ میں پورے سات سال رہا۔ ایک دن‘ پتا چلا کہ وہ دنیا سے کنارہ کر گیے ہیں۔ ان کی دکان اور سامان پر‘ ان کے سالوں نے قبضہ کر لیا۔ ہم سب شاگرد پیشہ لوگوں کو‘ چلتا کیا گیا۔ اس کے بعد میں نے‘ کئی اس ہنر سے متعلق لوگوں کے ساتھ‘ کام کیا۔ شریف صاحب کے ساتھ کام کا جو مزا ملا تھا‘ کسی اور کے ہاں سے نہ مل سکا۔ سب سڑیل اور ٹوٹ ٹوٹ کر پڑنے والے تھے۔ اکنی اکنی کا حساب کرتے تھے۔ اپنا کھانا‘ لوازمات کے ساتھ منگواتے تھے لیکن ہمارے لیے‘ بس ٹول پورا کرتے۔ کھاتے وقت ہم میں سے کوئی‘ ان کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ اجرت بھی رو رو کر ادا کرتے۔ کئی بار جی چاہا‘ کہ اس پیشے کو چھوڑ کر‘ کوئی اور پیشہ اختیار کر لوں‘ یا اپنا کام شروع کر دوں۔ ہر نئے کام کے لیے‘ رقم درکار ہوتی ہے‘ لیکن میرے پاس تو کچھ بھی نہ تھا۔ اگر ابا زندہ ہوتے‘ وہ ضرور کچھ ناکچھ کرتے۔ اسلم بڑا بابو بن چکا تھا اور مجھے انگریزی لے ڈوبی تھی۔ پتا نہیں‘ اور کتنے لوگ ہوں گے‘ جنہیں انگریزی نے‘ کسی کام کا نہیں چھوڑا ہو گا‘ وہ بھی میری طرح‘ دنیا کے دھکوں کی زد میں ہوں گے۔

یقین مانیے‘ میں نے آج تک کسی لڑکی سے جائز یا ناجائز تعلقات استوار نہیں کیے۔ کسی لڑکی نے‘ مجھے کبھی لفٹ نہیں کرائی۔ یہ بات بھی سچی ہے‘ کہ میں نے کسی لڑکی کو‘ اپنی ماں بہن نہیں سمجھا۔ اس کے باوجود‘ تانک جھانک اور ٹھرک میرا محبوب مشغلہ ہے۔

تاش کے بارہ پتے‘ میرا پیچھا کرتے رہتے ہیں اور میں‘ شکیل کے ہاں‘ چلا جاتا ہوں رات گیے تک‘ لطف اندوز ہوتا ہوں۔ فری میں کھیلی جانے والی‘ ایک دو بازیاں بھی لگا لیتا ہوں۔ میں اکیلا ہی نہیں‘ دیکھنے والے اور لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہم چھوٹی موٹی شرطیں لگا کر‘ اپنا رانجھا رانجھا راضی کر لیتے ہیں۔

شراب پینے سے‘ مجھے کوئی دل چسپی نہیں۔ ہاں شرابیوں کی لذیز باتیں‘ سننے کے لیے کمال صاحب کے ہاں چلا جاتا ہوں۔ ان سب کی خدمت کرتا ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ وہ مجھے اپنا آدمی سمجھتے ہیں۔ کھانے پینے کا چھوڑا ہوا سامان‘ میرے حوالے کر دینے میں بخل نہیں کرتے اور نہ ہی برا محسوس کرتے ہیں۔

جب میں شراب نہیں پیتا‘ تو لوگ مجھے شرابی کیوں سمجھتے ہیں۔ جوا کھیلنے سے‘ میرا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں‘ اس کے باوجود مجھے جواری کیوں سمجھا جاتا ہے۔ کسی لڑکی نے مجھ سے تعلق استوار ہی نہیں کیا۔ میں بھی‘ گرہ کی کم زوری کے باعث‘ کسی حسینہ سے‘ معاشقہ نہیں کر سکا۔ معمولی تانک جھانک یا رسمی سا ٹھرک بھورنے کے سبب‘ علاقہ میں ذلیل و رسوا ہو گیا ہوں۔ کوئی مجھے شریف آدمی‘ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں اور اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ‘ دینے کے لیے تیار نہیں۔ کنواری تو دور کی بات‘ کوئی طلاق یافتہ یا بیوہ بھی‘ میرے ساتھ نکاح کو‘ شجر ممنوعہ خیال کرتی ہے۔

سوچتا ہوں‘ مجھے اس حال تک‘ کس نے پنچایا ہے؟ میں خود اس کا ذمہ دار ہوں‘ یا یہ سب‘ انگریزی کا کیا دھرا ہے؟ انگریزی کو لازمی مضمون بنانے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ کون سا‘ ہر کسی نے‘ غیر ممالک میں سفیر بن کر جانا ہوتا ہے۔ بازار کا کام کب انگریزی کے ساتھ چلتا ہے۔ کورٹ کچری اور دفاتر میں کام کب انگریزی میں چلتے ہیں۔ کچری میں‘ مباحث مقامی زبان میں ہوتی ہے۔ بس لکھائی‘ انگریزی میں ہوتی ہے۔ انگریزی میں لکھے جانے کے سبب‘ کئی کئی دن فصیلہ ملنے میں لگ جاتے ہیں۔ غیروں کی زبان ہونے کے باعث‘ کئی نکتے نکل آتے ہیں‘ اور اس طرح‘ کوئی بات اٹل قرار نہیں پاتی۔ اپیلو اپیلی ہی کی گھمن گھیریوں میں‘ مسائل پھنسے رہتے ہیں۔ اسلم جو‘ رٹے باز تھا‘ بڑا بابو بنا بیٹھا ہے۔ رعب جمانے کے لیے‘ گلابی ارو بولتا ہے۔ میں اس کی اصل حقیقت سے آگاہ ہوں۔ میں کچھ بھی کہتا رہوں‘ محض بکواس ہو گا۔ لوگ بات کو نہیں‘ بات کرنے والے‘ اور اس کی حیثیت کو دیکھتے ہیں۔

سماج نے‘ شریف صاحب سے لوگوں کو‘ کیوں ڈھیل دے رکھی۔ سماج میں‘ ہنر کے لیے‘ اس سے لوگ ہی تو استاد ہیں۔ میں اپنی صفائی میں‘ کچھ بھی کہتا رہوں‘ کوئی نہیں مانے گا۔ مجھ سے انگریزی کے مارے‘ سماج کے دو نمبری ہی رہیں گے۔ انہیں کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے گا۔ کرسی پر بیٹھے لوگوں کی دو نمبری‘ کسی کو نظر نہیں آتی۔ لوگ اس کی حیثیت کو دیکھیں گے۔ رشوت‘ بےایمانی‘ ہیرا پھیری اور خوری‘ ان کی کرسی یا کرسی والے سے انسلاک‘ کے پیٹ میں چلا جائے گا۔ کتنا بھی غلط ہوتا رہے‘ انگریزی کا دامن نہیں چھوڑا جائے گا۔ انگریزی ذہانیں نگلتی رہے گی‘ اور کوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔ میں یا مجھ سے‘ انگریز فیل‘ کچھ بھی کر لیں‘ بیوی‘ ان کے نصیب سے‘ باہر رہے گی-

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 174154 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.