یہ سنگھارکے کارخانے

اب بَنّو کالی ہو یا گوری شادی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ بَنّو کا بَنّا چاہے جیسا ہو، اب حور کے پہلو میں لنگور والی کسی مثال کا وجود نہیں۔ حُسن کو نکھارنے کے کارخانے گلی گلی قائم ہیں۔ حسن کے کارخانوں کی بھٹی میں جس کسی کو بھی ڈالیے ایسا روپ نکھر کر سامنے آتا ہے کہ یقین ہی نہیں آتا یہ وہی چہرہ تھا۔

بھٹی میں اپنا آپ خوب صورت بنانے کی خاطر خود کو جھونک دینے کی شرط فقط صنف نازک ہونا ہی نہیں، مرد و زن میں فرق کے ہم نہیں قائل، برابری کا زمانہ ہے۔ سو سب ہی خود پر حسن کے کارخانوں کا ہنر آزماتے ہیں۔
گنجا پن دور کیجیے
جھانوے جیسے بالوں کو نرم و ملائم اور چمک دار بنائیے
چہرے کے بالوں کو ختم کروائیے
موٹاپے کو کہیے بائے بائے
سلون کے ساتھ جم کی سہولت بھی موجود ہے
کیا ہوا اگر ماں باپ کی طرف سے سانولی رنگت آپ کو ورثے میں ملی ہے۔
اب گوری رنگت خواب نہیں۔
فقط جیب میں پیسہ ہونا ضروری ہے۔
”پیسہ پھینک تماشا دیکھ“ شاید یہ مثال موجودہ دور میں سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔
اب یہ مت کہیے گا کہ ہاں ہاں ایسا ہے، کیوں کہ ہمیں علم ہے کہ ایسا ہی ہے۔

بیوٹی پارلر ہوں یا مین اینڈ وومن سیلونز، یہ ”دکان“ شہر کے ہر گلی محلے میں ایک نہ ایک تو آپ کو نظر آہی جائے گی۔

خوب صورت نظر آنا ہر ایک، خاص طور پر خواتین، کا حق ہے اور اس کے لیے جتن کرنا بھی معیوب نہیں۔ لیکن اپنے آپ کو کسی بھی ”نیم حکیم خطرہ جان“ کے حوالے کردینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ ایک شخص آپ کے چہرے پر لگانے والی کریم کے نام کا صحیح تلفظ ادا کرنے کا بھی اہل نہیں، وہ بھلا ان اجزائے ترکیبی سے کس طرح واقف ہوسکتا ہے جو اس کریم کی بناوٹ میں استعمال کیے گئے ہیں؟

میڈیا نے خوب صورت چہرے دکھائے اور انسان کے اچھے ہونے نہ ہونے کا معیار اس کا ظاہر ٹھہرا۔ خوب سے خوب تر نظر آنے کی خواہش میں ہوا کچھ یوں کہ گھر کے بجٹ میں سے جو پیسے ضروریات پوری کرنے یا کتاب خریدنے سمیت کسی مثبت سرگرمی کے لیے مختص ہوتے تھے، وہ نت نئی کریموں، شیمپوز اور پرفیومز کی مد میں خرچ ہونے لگے۔

مزید کچھ پیسوں کی گنجائش نکلی تو وہ سنگھار کے کارخانوں کے سپرد کردیے گئے۔ سو اس کاروبار سے وابستہ افراد کی چاندی ہوگئی۔

اس کاروبار نے جہاں ترقی کی وہیں نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ، ایک خبر کے مطابق، صرف کراچی میں 20 ہزار سے زائد بیوٹی پارلر قائم ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے بیوٹی پارلر کھولنے کے لیے قواعد بنائے گئے ہیں نہ کوئی طریقہئ کار وضع کیا گیا ہے۔ اجازت اور لائسنس کا بھی کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی تربیت رکھنے والے افراد بھی یہ کاروبار بلا روک ٹوک کر رہے ہیں۔ کراچی میں قائم ان سنگھار کے کارخانوں میں ایک لاکھ سے زاید خواتین اور مرد کام کرتے ہیں، جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے، جب کہ صرف تین ہزار بیوٹی پارلر رجسٹرڈ ہیں اور صوبائی حکومت ان سے ٹیکسٹ بھی وصول کر رہی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ انسانی جِلد جیسے حساس عضو کے لیے سرکاری سطح پرتین ماہ کا بیوٹیشن کورس کرایا جاتا ہے اور یہ کورس سندھ ٹیکنیکل بورڈ کرواتا ہے۔ اس کورس کی مدت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری حکومت کی نظر میں فولادی مشینوں کے متعلق کورسز اور انسانی جلد کے متعلق کورس میں کوئی فرق نہیں۔

تین ماہ کا بیوٹیشن کورس کرنے کے بعد یہ افراد اپنا کاروبار شروع کردیتے ہیں یا کسی اور بیوٹی پارلر میں کام کرتے ہوئے انسانی جلد پر ”تجربات“ کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

سنگھار کے ان کارخانوں میں کام کرنے والے غیرتربیت یافتہ عملے اور غیرمعیاری مصنوعات کے استعمال کے اثرات کا اندازہ تیزی سے بڑھتے ہوئے جلدی امراض سے لگایا جاسکتا ہے۔ جلدی امراض کے اسپتال میں روز تقریباً 20 ایسے مریض آتے ہیں جو ان بیوٹی پارلرز، سیلونز سے متاثر ہوئے ہوتے ہیں۔

خواتین کے چہرے پر بالوں کا بڑھ جانا اور غیرمعیاری کریموں کے استعمال کی وجہ سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی جلد کا جھلس جانا عام مسئلہ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر شخص بالخصوص خواتین جاذب نظر دکھائی دینا چاہتی ہیں، جو ان کا حق ہے اور اس کے لیے، خاص کر تقریبات میں شرکت کی خاطر یا اہم مواقع پر، بیوٹی پارلرز کا رخ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی اس شعبے سے خواتین کی بھاری تعداد سمیت لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ عورتوں کے لیے یہ ایک ایسا ذریعہ معاش ہے جس کے ذریعے وہ گھر بیٹھے بھی اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرسکتی ہیں، مگر اس معاملے کے اور بھی پہلو ہیں۔

ہمارے معاشرے میں کسی انسان کے اچھے اور برے ہونے کا پیمانہ اس کے پاس موجود دولت اور ظاہری خدوخال کو بنالیا گیا ہے۔ اس دوڑ میں خواتین بلاشبہہ حدود سے تجاوز کرگئی ہیں۔ بیٹی اگر معمولی شکل و صورت کی ہو تو بعض مائیں اسے جاذب نظر بنانے کے لیے مختلف طریقے اپنانے پر اکساتی ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ کیسے کیسے اچھے شریف گھرانوں کی خواتین بھی بیوٹی پارلر میں خود کو اور اپنی بیٹیوں کو بنا ہچکچاہٹ کے بیوٹیشنز کے سپرد کردیتی ہیں۔ پارلرز میں اب اس بات کا رواج ہوچکا ہے کہ کسٹمرز آتے ہی وہ مختصر لباس زیب تن کریں گی جوکہ پارلر میں ان کے لیے رکھا گیا ہے۔ یہ لباس ناقابل بیان حد تک غیر شائستہ ہوتا ہے جب کہ بعض پارلرز میں جگہ جگہ کیمرے بھی نصب ہوتے ہیں۔ حجاب لینے والی خواتین ہوں یا بے پردہ بی بیاں، پارلر میں جاکر یہ لباس پہننا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ایسے کتنے ہی کیسز سامنے آئے ہیں کہ جن میں جسم کی ویکسنگ کے دوران خواتین کی ویڈیوز بنالی گئیں، جس سے یہ خواتین خود بھی آگاہ نہیں ہوتیں۔ بعد میں ان وڈیوز کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

ایسے کتنے ہی بیوٹی پارلر اور سیلونز ہیں جو غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور جسم فروشی کے دھندے سے لے کر خواتین کی قابل اعتراض ویڈیوز بنانے اور اغوا جیسے گھناؤنے فعل تک کے مرتکب ہیں۔ حکومت سے تو کسی خیر کی توقع ہی نہیں لیکن ہماری خواتین کو آخر کیا ہوا ہے؟

اصراف اور اقدار کا نوحہ اپنی جگہ، مگر انسانی صحت ایسا معاملہ ہے جس کے تحفظ پر کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ بیوٹی پارلرز کے حوالے سے قواعدوضوابط اور قوانین بنائے اور ان کا موثر اطلاق کرے۔ حکومت کوئی اقدام کرتی ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ خوب صورت نظر آنے کی خواہش ہوس کا روپ کیوں دھار چکی ہے، جس کی نذر ہمارا پیسہ بھی ہو رہا ہے اور صحت بھی۔ بیوٹی پارلروں میں تراشے ہوئے میک اپ سے لتھڑے چہروں کی دن بہ دن بڑھتی تعداد کیا یہ نہیں بتاتی کہ محض ظاہر کے حسن کو معیار بناکر ہم مجموعی طور پر بدصورت ہوتے جارہے ہیں؟

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 279360 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.