جمہوریت کا پنگا

جانے بیٹھے بیٹھے سقراط کو کیا سوجی کے جمہوریت کا تصور پیش کر ڈالا۔۔ خود تو زہر کا پیالا پی کے پرلوگ سدھار گئے ۔ اور ہمیں عذاب نا تمام میں مبتلا کر گئے ۔۔سقراط کو کیا کوسنا اصل بس کی گانٹھ ارسطو میاں ھیں ۔ وہ ایسے کے بار بار فرار کے باوجود جب یونان کے شہنشاہ فیلقوس عرف فلپ نے ارسطو کی جان نا چھوڑی اور ان کو سکندر اعظم کا اتالیق یعنی استاد مقرر کردیا۔۔ تب سکندر اعظم کے والد محترم کی دھونس اور زبردستی سے تنگ ارسطو میاں کو استاد سقراط کا وہ جمہوری فلسفہ یاد آیا کہ جس میں نظام حکومت کیسی ایک شخص کے ھاتھ میں نہیں بلکہ کئی فرعونوں کے ھاتھ میں ھوتا ھے ۔۔

ارسطو انسانی فلاح کا خواہاں تھا ؟؟؟وہ تو فرد واحد کی طاقت سے ناراض تھا۔۔ارسطو میاں ٹہرے آذاد منش سیلانی طبیعت کے مالک ۔ایتھنز کی گلیوں کے تھڑے باز۔۔عام آدمی ،محل کی نشست و برخاست ان کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ۔۔سکندر اعظم ایک کثرت کرنے والا کوڑھ مغز پہلوان تھا۔۔ارسطو کی فلسفیانہ گفتگو اس کے سر سے گزر جاتی ۔۔ارسطو میاں اکثر موقعہ پا کر محل سے فرار اختیار کرتے ھر بار شہنشاہ فلپ اپنے ھرکاروں کے ذریعے ارسطو کو ڈھونڈ نکالتا اور پھر سے میاں ارسطو قید ھوجاتے۔۔ارسطو کو ایتھنز کی گلیاں بازار یاد آتے پر جان کے خوف سے وہ بادل نخواستہ سکندر کی تربیت میں لگ جاتے۔۔ارسطو کے والد بزرگوار مقدونیہ کے بادشاہ کے طبیب تھے۔باپ کے منہ سے بھی شاھی بدماشیوں کے قصیے سن رکھے تھے۔۔طیب کا خاندانی پیشہ اس لیئے اختیار نا کیا کہ بادشاھوں کے منہ نا لگنا پڑے۔۔.........ارسطو ملوکیت کے نقصانات سے آشنا تھا۔۔محل میں رہ کر اسے آمریت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ارسطو پر بادشاہت کے تمام رموز عیاں ھو چکے تھے۔۔جن میں عام آدمی کے لیئے آسودگی کے کوئی گنجائش نہ تھی۔ارسطو بارے بتاتا چلوں حضرت 384 قبل مسح تھریس کے شہر سٹیگیرا میں پیدا ھوئے۔۔اٹھارہ سال کی عمر میں افلاطون کے مدرسہ اکیڈمی میں داخلہ لیا۔

(لفظ مدرسہ پر طالبان آئزیشن کا گمان ھو تو اسے درسگاہ پڑھا جائے۔)٠ 20 سال تک اکاڈمی میں زیر تعلیم رھنے کے بعد ارسطو نے افلاطون کی وفات کے بعد ایتھنز کو خیر آباد کہا اور چند سالوں کی آوارہ گردی کو اختیتام یوں بخشا کے اپنے ایک عزیز دوست کی بیٹی کے عشق میں مبتلا ھو کر شادی کر لی ۔۔یوں اپنے جگری یار کے داماد ھو گئے اور پرانی دوستی خراب کر ڈالی۔۔گو وہ لڑکی دوست کی منہ بولی بیٹی تھی۔۔زوجہ کے مرنے کے بعد ایک خوبرو عورت کو داشتہ کی ذمہ داری سونپ دی۔۔ اسی نیک خاتون کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ھوا،جیس کا نام نقوماجیہ رکھا۔۔ارسطو کی کتاب الاخلاق کا نام اسی لڑکے کے نام پر ھے۔۔داشتہ سے پیدا بیٹے کے نام پر کتاب الاخلاق کا نام رکھنا ظاہر کرتا ھے کے ارسطو میاں اخلاقیات کی بلندیوں پر فائز تھے ۔۔خیر بات ھو رہی تھی سکندر کی ۔۔جو فیلقوس یعنی ابا جی کے مرنے کے بعد ٣٤٠ قبل مسح میں تخت نشین ھوا۔۔سکندر چونکہ خود پرست تھا اس لیئے اس نے ارسطو سے ککھ نہ سیکھا۔۔ارسطو اور سکندر کی ذہنی ھم آہنگی کے لیئے پنجابی کی مثال ھے کہ ،،بھیجو مج تھلے جاندا کٹے تھلے،،برٹریندرسل لکھتا ھے کہ ارسطو اور سکندر دو متضاد شخصیتوں کے مالک تھے ۔ان میں کسی بھی جگہ اشتراک و ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔۔ سکندر کے ابا حضور کے مرنے کے بعد ارسطو کی جان چھوٹ گئی۔۔ارسطو نے موقعہ غنیمت جانا اور ایک عدد مدرسہ کھول لیا جس کا نام LYCEUM لئیسم رکھا۔ارسطو کے شاگردوں کو رواقیئین پکارا جاتا تھا۔۔جیسے راویئن،پنجابیئن۔محمڈن،،

ارسطو کتاب الاخلاق باب ١٨میں لکھتا ھے انسانوں کے درمیان تو دوستی ھو سکتی ھے لیکن انسان اور خدا کے درمیان دوستی ممکن نہیں۔کیوں کہ خدا بندوں سے بہت دور ورا ء الورا ھے،ارسطو کائینات کو ازلی قرار دیتا ھے،مذھب کو غیر ضروری سمجھنے والا ارسطو ھی جمہوریت کا بانی ھے۔۔حکمائے قدیم میں سقراط،افلاطون اور ارسطو نہ ھوتے تو آج تہذیب و تمدن اور اخلاقیات ناپید ھوتے،اس کے باوجود ارسطو میاں نے جمہوریت کو بہترین نظام حکومت قرار دے کر اس کا پہلا تفصیلی تصور پیش کیا،،،،جمہوریت جس میں علامہ اقبال اور افتیخار افی کا ووٹ ہم وزن اور برابر ھوتا ھے ؟ جمہوریت جس میں شعبدہ باز سیاستدان لالچ کی ڈگڈگی بجا کر غرض مندوں سے ووٹ لیتے ھیں۔۔اور بدلے میں بجلی پانی گیس کے ساتھ ساتھ غیرت عزت ناموس بھی چھین لیتے ھیں ۔۔میں جمہوریت کے خلاف ہرگز نہیں بلکہ ایسے طرز حکومت کے حق میں ھوں جس سے عام پاکستانی کو عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی مل سکے۔۔حقے کی چلم میں جب راکھ پھنس جائے تو بابا آواز لگاتا ھے اوئے شیدے پتر چلم کو پنگا دے ،شیدا چلم اٹھا کر نیچے سے ایک تنکا دو چار بار چلم میں پھیرتا ھے چلم دھک اٹھتی ھے اور بابے کو حقہ چھکنے کا مزہ آجاتا ھے ۔۔چلم عوام پنگا جمہوریت ،،اب معلوم یہ کرنا ھے کہ حقہ چھکنے والا بابا کون ھے اور پنگا دینے والا شیدا کون؟؟؟؟الله پاکستانی عوام کو آسانیاں عطا فرمائے اور حکمرانوں کو آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین۔
iftikhar ahmad usmani
About the Author: iftikhar ahmad usmani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.