عوام بڑی اچھی ہے

آپ کا پروگرام بہت اچھا ہے لیکن میری سمجھ میں یہ بات بچپن سے لے کر آج تک نہیں آئی کہ سیاست دانوں کو ہی نشانہ کیوں بنایا جاتاہے۔ اگرہم عوام اپنے آپ کو نشانے پر رکھتے اور ہر تیرکا رُخ اپنی طرف کرتے تو ہم ٹھیک ہوگئے ہوتے اور پھر ہمیں نہ پولیس اچھی کی ضرورت ہوتی نہ اچھے حکمرانوں کی۔
ہم ہر وقت کہتے ہیں پولیس اچھی نہیں حکمران اچھے نہیں ۔بس اچھا حکمران مل جائے تو یہ عوام بڑی اچھی ہے ۔

یہ ملاوٹ کرنے والی وہ بھی دوائیوں میں اور اُس سے بڑا گناہ اور جرم کہ جان بچانے والی دوائی میں ملاوٹ ۔کھانے کی چیزوں میں ملاوٹ ۔ سڑک کمزور بنائی چلو برداشت کرلیا کہ گاڑی خراب ہوگی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر لیکن پُل کمزور بنایا اﷲ تو بہ کیادُنیا میں ایسی کوئی قوم ہے۔ پل ٹوٹے تو کیا ہوتاہے یہ تو سب جانتے ہیں رشوت لینا کم تو لنا بے انصافی وغیرہ یہ تو عام بات ہے یہ تو گنا ہ اور جرم ماناہی نہیں جاتا ۔

بات لیڈر کی نہیں بات یہ ہے کہ ہم خدا سے ڈرتے نہیں اور حضورﷺ کا کہنا نہیں مانتے ۔بس زبانی محبت کہ ہم آپ ﷺ پر جان قربان کرتے ہیں ایک بات ہی آپ ﷺ کی مان لوکہ غصہّ نہیں کرنا تو ہمارے گھر اور گھرسے باہر کے آدھے مسلّے تو حل ہوگئے۔ غصہّ ایک جگہ دس مسلّے پیدا کردیتا ہے ۔

آ پ سیاسی لیڈروں کو چھوڑ کر اپنے بچوں کی اصلاح پر زیادہ سے زیادہ پروگرام کریں ۔ کیوں کہ بچوں کی تربیت تو آپ کرسکتے ہیں کہ وہ پنیری کی طرح ہوتے ہیں جہاں لگائیں گے وہاں تناور درخت بن جائے گا ۔سڑک کنارے لگائیں یاباغ میں ۔ ہر وقت آپ کی نگرانی میں رہنا چاہیے ۔ہم نے بچوں کو تو سڑکوں پر چھوڑ دیاہے ۔آوارہ گھومیں یاگاڑیوں میں گھومیں یاسڑکوں پر کاروبار کریں۔ اورہم بڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ وہ یہ کر رہے ہیں وہ کررہے ہیں ۔

حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کبھی ٹھیک ہوہی نہیں سکتے 40سال کے بعد عادتیں بدلنا ناممکن سی بات ہے ۔کیا طنزوں کے تیر چلا کرآپ نے ان سب کو سیدھے راستے پر چلا لیا۔

یہی وقت اپنے بچوں کی تربیت پر صرف کیاہوتا توآج ہمارے بچے اور جوان ساری ساری رات دن ویڈیوگیمز، فیس بُک اور انڑنیٹ پر تفریح نہ کرتے ۔ اُٹھ کر خود پانی تو پی نہیں سکتے ۔ موبائیل پر SMSمیسج کرتے ان کی انگلیاں کس رفتار سے چلتی ہیں اور زبان اس سے بھی تیز رفتار سے چلتی ہے ۔

باپ کمانے میں مصروف ماں گھر کے کام میں مصروف اور بچے عیش میں مصروف ۔کیا یہ موبائیل پکڑنے والے ہاتھ دُشمن کے خلاف بندوق اُٹھا سکیں گے ؟اتنی سُست قوم ہر وقت بیٹھی رہتی ہے عام طور پر ۔
جو لوگ لندن امریکہ سے آتے ہیں وہ حیران پریشان ہوکر یہاں کے لوگوں کو دیکھتے ہیں ۔ رات دیر سے سونا صبح دیرسے اُٹھنا نہ کوئی کھانے کاوقت ۔ہر وقت بیٹھے کھیلتے رہو یاٹی وی دیکھتے رہو۔

ماں اکیلی کھانا بنارہی ہے لیکن مجال ہے جو کبھی بیٹی کو خیال آیا ہوکہ میں ماں کے ساتھ کا م کروادوں ۔کسی کو نماز کی ہوش نہیں ۔ امریکہ سے آنے والے نماز پڑھ رہے ہیں ۔ قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔اور اسلامی ملک میں رہنے والوں کو نماز نہیں آتی ۔ نہ کبھی ماں باپ نے ان کو بتایا نہ ٹی وی نے ان کی تربیت کے لیے کوئی پُر دل چسپ پروگرام بنا یا جس میں وہ ہلکے پھلکے انداز میں سب کچھ سیکھ جائیں۔

مذہبی اور تفریحی چینل الگ الگ کردیے ۔ تفریح کو چھوڑ کر واعظ کون سنے گا ۔

جس طرح کھانا کے ۔میک اپ کے پروگرام اور خبریں سناسنا کر ۔ہمیں اس کا عادی بنا دیا ہے اسی طرح بچوں کے پروگرام دکھا دکھا کر بچوں کو راہ راست پر لاسکتے ہیں ۔ 3سے 6بچے تک بچوں کے پروگرام دکھائیں ۔ خبروں کے علاوہ جیسے چینلز کا او ر کوئی فرض ہے ہی نہیں ۔ آ پ ان موضوع پر کیوں نہیں بولتے۔

ہم کہتے ہیں امریکہ ہمیں دھوکا دے رہا ہے ۔ ہم خود آپس میں ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے ہیں کوئی بندہ ایمان داری سے کا م کررہا ہے ؟

ڈاکٹر جو مفت علاج کرنے کی بات کرتے ہیں وہ بھاری فیس لے کر بھی علاج صحیع نہیں کرتے ۔ کوئی ٹھیکے دار مکا ن صحیح نہیں بناتا ۔ درزی سے کپڑے لینے جاؤ تو دل۔۔۔۔ورک شاپ والا گاڑی کتنی ایمانداری سے ٹھیک کرتاہے ؟استاد پڑھاتا جیساہے وہ سب جانتے ہیں ۔

ہم کتنی اچھی قوم ہیں کہ کبھی ایمان داری سے جائداد تقسیم نہیں کی ۔

بچپن سے چھینے کی عادت ایسی پڑتی ہے کہ بڑے ہوکر جائداد چھین لیتے ہیں ۔ چھوٹے ہوں تو کھانے کی چیزیں دوسرے بہن بھائیوں کی لے لیں ۔پھر کپڑے لے کر چلے جانا پھر مکان دوکان لے لینا بہن بھائیوں کی ۔ (ہم اُدھار لے کر واپس نہیں کرتے)

کیسی قو م ہے۔ بل نہ دینا ، ٹیکس نہ دینا ، زکوۃ نہ دینا ، پھر قرض لے کر واپس نہ کرنا ۔ اتنی صفات ہیں اس قو م کی کہ کیا کیا بیان کروں ۔ اوپر سے آپ سب لوگ صدیوں سے یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ قوم بڑی اچھی ہے بس لیڈر چاہیے ۔

ہمیں ڈنڈے کی ضرورت ہے ۔لیڈرکی نہیں۔ باہرجاکر ہم فوراً سب کچھ سیکھ جاتے ہیں ۔

اس قوم کو سنوارنے کیلئے زیادہ سے زیادہ پروگرام کریں ۔ اس خوش فہمی سے قوم کو نکالیں۔ کہ لیڈر برُے ہیں قوم بڑ ی اچھی ہے۔

کوئی پیر صاحب بن کر لوٹ رہے ہیں کوئی ڈاکٹر بن کر ۔ سبزی والا لوٹ رہاہے۔ کپڑے لینے جاؤ یاگھر کی دوسری ضرورت کی چیزیں ۔ہرکوئی لوٹنے بیٹھا ہے ۔ ہم بچوں کو بھو ل گئے ہیں ۔ سونے چاندی اور دوسری قیمتی چیزوں کی ہم ہر وقت حفاظت کرتے ہیں لیکن اپنی اولاد کوہم نے زمانے کے بدلنے حالت پر چھوڑ دیاہے وہ جدھر چاہیں نکل جائیں جو چاہیں بن جائیں ۔کیا 10 سے 20سال کی عمر بچے کو آزاد چھوڑنے کی ہوتی ہے ؟

امریکہ ، اسرائیل ، انڈیا روس مختلف مذاہب کے لوگ ہمارے ملک کو برباد کرنے کیلئے ایک ہوگئے ہیں لیکن ہم ایک نہیں ہورہے جو قوم اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کرسکتی ۔وہ (اﷲ نہ کرے )اگر اس ملک کو کچھ ہوگیا تو کیا وہ آزادی حاصل کرا سکے گی۔

ہماری قوم کے ہاتھوں میں موبائیل پکڑا دیاہے ۔(اچھا کھلونا ہے )۔ماں باپ بچے ایک دوسرے سے بے نیاز ۔بجلی گئی تو بجلی کے بارے میں SMSشروع بجلی آگئی تو ٹی وی کمپیوٹر زندہ باد ۔ یہ نسل پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرے گی ۔ جو سارا دن بیٹھی رہتی ہے ۔میں نہیں جانتی کہ اس خط کو کہاں پھینک دیاجائے گا ۔میں تو اپنا فرض پورا کیاہے کہ میں اتنا ہی کرسکتی ہوں ۔ تھوڑا بہت لکھ دوں آگے آپ تو بہت کچھ کرسکتے ہیں کہ لوگ آپ کی بات سنتے ہیں ۔

ہمارے ہر پروگرام کا مقصد صرف جگت بازی ہی بن گیاہے جو زیادہ لوگوں کرہنسالے گا اسی کا پروگرام کامیاب ہے ۔

ہر بات کوہنسی میں اُڑا دیتے ہیں ۔ مردہ ذہن کی نشانیاں ہیں ۔جب لوگ ایسی باتوں پر ہنس رہے ہوتے ہیں تو میں بڑی پریشان ہوتی ہوں کہ یہ بات تو شرمندہ ہونے والی ہے ۔پریشان ہونے والی ہے کہ ہم ایسی قوم ہیں ۔ کبھی اس بات پر ہنسنے کی بجائے غور ،فکر کرنا چاہیے ۔ انقلاب کی ہر طرف بات ہے ۔ہر بندہ یہ سوچ لے کہ میں نے اپنا فرض ایمانداری سے ادا کرناہے کسی کو بھی دھوکہ نہیں دینا ۔میرے ہاتھ اورزبان سے کسی کا دل نہ دکھی ہو ۔زکوۃ،ٹیکس ،بل وغیرہ ادا کرنے ہیں ۔ لو بھئی انقلاب آگیا اور جولوگ پاکستان میں ان باتوں پر عمل کررہے ہیں وہ بغیر انقلاب اوراچھے لیڈر کے بغیر بھی ان باتوں پر عمل کر رہے ہیں ۔ تو کیا ہی اچھا ہوہم سب ان باتوں پر عمل کرنا شرو ع کردیں۔

ہم نہ جانے کس انقلاب کی باتیں کررہے ہیں ۔ انقلاب تو14سو سال پہلے آچکا اب ہمیں صرف حضورﷺپاک کی باتوں پر عمل کرنا ہے ۔اور جس طرح ہمارے نبی حضرت محمد ﷺبغیر خون بہائے انقلاب لے آئے تھے ۔ اسی طرح ہمیں بھی بغیر خون بہائے اپنے ذہنوں میں انقلاب لے کرآنا ہے ۔

انقلاب تو ہونا ہی ذہن کے بدلنے کانام ہے ۔یہ جو خونی انقلاب ہے وہ تو وقتی بات ہے جیسے ہی قتل وغارت ختم ہوا اور انقلابی کمزور ہوئے پھر وہی جرائم کی بھر مار ۔

حضور ﷺپاک نے ذہن بدلے تھے ۔ کتنی افسوس کی بات ہے ہم مسلمان ہوکر خونی انقلاب کی باتیں کرتے ہیں ۔جولوگ آج بھی دل سے حضور ﷺ سے محبت کرتے ہیں ۔وہ ان برُے حالات میں بھی برُی عادتیں نہیں اپناتے ۔وہ جانتے ہیں کہ کوئی دیکھے یانہ دیکھے اﷲ تو دیکھ رہاہے۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی لوگ بندوں سے کیوں ڈرتے ہیں ان سے چھُپ کر غلط کام کرتے ہیں ۔ اﷲ نے نہیں ڈرتے۔ اﷲ دیکھتاہے تو دیکھتا رہے۔ حالانکہ اصل سزا اور جزا تو اﷲ نے دینی ہے۔ جس دن ہم نے اﷲ سے ڈرنا شروع کردیا۔ اُس دن ہی انقلاب آجانا ہے اور ہم نے خود بخود راہِ راست پر آ جانا ہے ۔

Humera Sajid
About the Author: Humera Sajid Read More Articles by Humera Sajid: 8 Articles with 5385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.