کاروبار میں ترقی کا راز

میری شروع سے یہی خواہش تھی کہ میں بزنس مین بنوں۔ نوکری کرنا میرے مزاج کے خلاف ہے۔اس لیے میں نے کاروبار کو ہی اپنا پیشہ چنا۔ بزنس پلان تو میرے پاس بہت بڑے بڑے ہیں ۔لیکن سرمایہ اتنا نہیں کہ کوئی بہت بڑا کاروبار کر سکوں اس لیے جو تھوڑا بہت تھا وہ لگا کر میں نے مرغیاں خرید لیں۔کیونکہ یہ بھی بزنس پلان کا حصہ ہے کہ شروع میں سرمایہ زیادہ انویسٹ نہیں کرنا چاہئے۔اس لیے میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ کاروبار شروع کیے ابھی چند دن ہی گذرے ہونگے کہ مجھے احساس ہوا کہ میرے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہوگیا ہے۔وہ یہ کہ مرغیاں میں نے دیسی خریدی تھیں لیکن۔۔۔! پہلی ہی بارش میں بھیگ کر وہ ساری کی ساری فارمی ہو گئیں۔جیسے جیسے اُن کا رنگ اُتر رہا تھا، ایسے ایسے میرے نصیب پانی میں بہہ رہے تھے۔ خیر زندگی کا پہلا تجربہ تھا اس لیے مجھے اس بات کا کوئی دکھ نہیں پہنچا۔

اب میرا ٹارگٹ فوڈ چین تھا۔ میں نے اپنے بزنس کی پہلی برانچ کا آغاز پکوڑوں کی دوکان سے کیا۔ پہلے دن میں نے ساری کی ساری پروڈکشن لوگوں کو فری میں ٹیسٹ کروائی تاکہ کاروبار کا نام بن سکے۔ دوسرے دن سے ڈسکاؤنٹ سکیم شروع کی گئی ۔ یعنی دس روپے کے پکوڑے خریدنے پر ایک فیصد، بیس پر دو اور تیس پر تین فیصد تک ڈسکاؤنٹ دیا جائے گا۔ اسی طرح جو سو روپے کے پکوڑے خریدے کا اُسے پورا دس فیصد ڈسکاؤنٹ ملے گا۔دوسرے دن کا آغاز بہت اچھا رہا۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر دو سو روپے کا مال بک چکا گیا۔اُس کے بعد مارکیٹ میں مندی کا رجحا ن رہا پھر شام کے وقت کافی تیزی آگئی اور یوں پورے دن کی سیل چھ سو تیرا روپے تک پہنچ گئی۔لیکن جب میں نے خرچے کا حساب لگایا تو وہ ساڑھے آٹھ سو روپے تھا۔ کاروبار تو نام ہی نفع نقصان کاہے ۔ اس میں یہ سب تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔ اگلے دن میں پہلے سے بھی زیادہ پر امید اور پر عزم تھا۔شروع کے تین چار گھنٹے تو مکھیاں اُڑاتے ہی گذر گئے۔ اُس کے بعد وقفے وقفے سے کوئی میرا جاننے والا ، میرا دوست ، دور کا کوئی رشتہ دار جو بھی آیا۔ مجھے نئے کاروبار کی مبارک باد دی ، دو چار پکوڑے اُٹھا کر منہ میں ڈالے اور آگے بڑھ گیا۔اُس روز مجھے پورے نو سو پچانوے روپے کا نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔

اب میں نے سوچ لیا تھا کہ کوئی ایسا کاروبار کروں جس میں صرف نفع ہی نفع ہو نقصان نہ اُٹھانا پڑے۔ ویسے بھی اب میں کاروبار کا کافی تجربہ حاصل کر چکا تھا اور اسے ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔اپنے تجربے کی بنیاد پر میں نے کپڑے کا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا۔ بازار کے بارونق حصے میں ایک چھوٹی سی دوکان کرائے پر حاصل کی اور کچھ دوستوں اور رشتہ داروں سے اُدھار رقم لے کر لیڈیز ورائٹی رکھ لی۔ ماشااﷲ کام میری توقع سے بھی زیادہ چل پڑا ۔ الحمدﷲ اسی کاروبار سے کماکر میں نے دو تین سال کے اندر نہ صرف تمام قرض کی رقم واپس کی بلکہ مزید مال کاروبار میں ڈال دیا۔چار پانچ سال کے اندر میں نے محسوس کیا کہ اب یہ دوکان چھوٹی پڑ گئی ہے۔جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے گاہکوں کو دوکان کے باہر ہی کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔ اب اُسی بازار میں میری پہلے سے کہیں زیادہ بڑی اور کھلی دوکان تھی ۔ اب میں اکیلا نہیں تھا بلکہ میں نے چار ملازم بھی رکھ لیے تھے۔ گاہکو ں کو زیادہ تر وہی ڈیل کرتے تھے۔ میں تو بس گلے پر بیٹھا پیسے ہی وصول کرتا تھا۔

میں اپنے کاروبار کی ترقی پر بہت خوش تھا۔ پہلے دوکان کرائے پر تھی لیکن اب میں اُس کا مالک بن چکا تھا۔ اس دوکان کے علاوہ شہر کے بارونق علاقے میں ایک پلاٹ بھی میری ملکیت تھا۔جب دو سال کے بعد میں نے اس پلاٹ کو بیچا تو اُس نے کافی پرافٹ دیا ۔ اتنا کہ جتنا میں نے پورے سال میں کپڑے کے کاروبار سے کمایا تھا۔ کچھ ہی ماہ کے بعد میں نے ایک اور پلاٹ خرید کر بیچ دیا اُس نے بھی مجھے کافی فائدہ دیا۔ اب میں نے کپڑے کے کاروبار کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کی خریدو فروخت کا کا م بھی شروع کر دیا تھا۔دوکان کو کم وقت ملنے کی وجہ سے اُس کی سیل میں کمی آنے لگی۔ اس لیے میں نے اپنے ایک اعتباری اور ایماندار رشتہ دار کو اس کی دیکھ بھال کے لیے رکھ لیا ۔ اور خود پراپرٹی کے کاروبار میں لگ گیا ۔ میں شام کو دوکان پر جا کر اُس سے پورے دن کی سیل کا حسا ب لے لیتا اور یوں یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا۔ پھر اچانک پراپرٹی کی قیمتیں بہت زیادہ گرنے کی وجہ سے اس کاروبار میں نقصان ہونا شروع ہو گیا ۔ اب میں نے سوچا کہ کچھ عرصہ اس کاروبار سے دور رہا جائے کیونکہ مجھ میں مسلسل نقصان پرداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی۔

میں نے اپنی پوری توجہ پھر سے کپڑے کے کاروبار میں مرکوز کر لی ۔ لیکن اب پہلے کی طرح گاہکوں کا تانتا نہیں تھا۔مال تو بہت پڑا تھا لیکن وہ سب کا سب آؤٹ آف فیشن ہو چکا تھا۔ نیا مال خریدنے کے لیے اتنی رقم نہیں بچی تھی اور اوپر سے جن سے اُدھار مال اُٹھایا ہوا تھا وہ بھی روز چکر لگانے لگے تھے۔ جن لوگوں سے میں نے لینا تھا وہ کہیں نظر ہی نہیں آتے تھے۔ اُن کے گھروں میں جاتا تو پتا چلتا کہ وہ تو ادھار چکا چکے ہیں ۔تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ جس اعتباری رشتہ دار کے حوالے دوکان کی گئی تھی وہی لے کر ہڑپ کرتا رہا تھا۔یہی نہیں بلکہ گلے سے کیش بھی کم ہونے کے شواہد ملے تھے۔میں بری طرح پھنس چکا تھا۔اگر کاروبار کو ختم کرتا تو بہت زیادہ نقصان اُٹھانا پڑتا ۔ لیکن اس کی بہتری کے لیے مجھے مزید سرمایہ چاہئے تھا جو دینے کے لیے اب کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ ملازموں کی تنخواہیں تک پوری نہیں ہو رہی تھیں۔ آؤٹ آف فیشن ہونے والا سارے کا سارا مال میں نے اونے پونے سیل لگا کر بیچ ڈالا۔ کاروبار میں نئے سرے سے جان ڈالنے کے لیے میں نے وہ دوکان بھی فروخت کر دی جسے میں نے اسی کاروبار سے کما کر خریدہ تھا۔ اورو ہی رقم پھر سے اسی کاروبار میں لگا دی۔ اب میں اپنی ہی دوکان پر کرائے دار تھا۔

میرے سارے گاہک میرے سامنے والی دوکان پر شفٹ ہو چکے تھے۔ وہ دوکان کسی غیر کی نہیں،میرے رشتہ دار کی ہی تھی۔ میرے پاس جو بھی آتا وہ یا تو اُدھار کی بات کرتا یا پھر پرانے ڈیزائن اور ورائٹی کم ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر چلا جاتا۔ دوکان کا کرایہ ، بجلی کا بل، گھر کے اخراجات اور بچوں کی فیس پوری کرنا مشکل ہی نہیں ،نا ممکن ہو چکا تھا۔کاروبار جس قدر تیزی سے اوپر اُٹھا تھا اُسی تیزی نیچے آگرا۔ میرا بال بال قرضے میں جکڑا جا چکا تھا۔مجبوراً اس کاروبار کو خیر باد کہنا پڑا۔جو کچھ بچا تھا وہ جن کا دینا تھا اُنہیں دیا اورگھر آکر بیٹھ گیا۔ اتنے بڑے نقصان کے باوجود میرے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ سب سے پہلے میں نے اپنی اُن غلطیوں کا جائزہ لیا جن کی وجہ سے میں آسمان سے زمین پر گرا تھا۔ انسان غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے۔ میں نے بھی بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ سب سے بڑی بات کہ دوسروں پر اعتبار اور انحصار پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔اب میں نہ تو کسی پر اعتبار کروں گا اور نہ ہی انحصار۔ اب میں جب بھی مرغیا ں خریدوں گا تو اُنہیں پانی میں بھگو کر تسلی کر لوں گا کہ ان پر رنگ تو نہیں چڑھایا گیا۔

Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 99723 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.