حکمران دولت کیسے بناتے ہیں

حکمرانوں کی مرضی کے مطابق قوانین کی تشکیل اور عوام کو نقصان پہنچا کر منافع ہی منافع کمایا جاتا ہے۔ حکمران اسی طرح دولت سمیٹتے ہیں۔ عالمی بنک نے اس بارے میں ایک رپورٹ حال ہی میں شائع کی ہے، جس میں تیونس کا جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ حکمراں کس طرح دولت بناتے ہیں۔ جمہوری ملکوں کے حکمران بھی قومی دولت لوٹنے میں بادشاہوں کی طرح ہیں۔ ،بادشاہت اور دولت و ثروت کا چولی دامن کا ساتھ ہے- جہاں شاہ ہوگا وہاں شاہی خزانہ بھی ہوگا- ہاں یہ ضرور ہے کہ مختلف شاہی خزانوں کا موازنہ کیا جائے تو کوئی نسبتاً چھوٹا ہوگا، کوئی بڑا اور کوئی بہت بڑا۔ لیکن چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، خزانہ بہرحال خزانہ ہی ہوتاہے اور دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کر سکتا ہے- موقر امریکی جریدے "فوربز"نیشاہی مقام و مرتبہ رکھنے والے دنیا کے امیر ترین افراد کے بارے میں ایک رپورٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار کی مدد سے دنیا کے بعض شاہی خزانوں کی وسعت کااندازہ لگایا جا سکتا ہے- اس فہرست میں دنیا بھر کے 15مالدار ترین حکمرانوں کو شامل کیا گیا ہے- سال گزشتہ اس فہرست میں شامل بعض فرمانرواؤں کے لیے مشکلات لے کر آیا اور وہ ٹیکس بچانے سے لے کر پارلیمنٹ توڑے جانے تک مختلف تنازعات کا شکار ہوئے لیکن اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر ان 15شاہی شخصیات کی دولت میں صرف ایک سال کے دوران 36 ارب ڈالر کا ناقابل یقین اضافہ ہوا- گزشتہ سال ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 131ارب ڈالر لگایا گیا تھا ،مالدار ترین شاہی شخصیات میں تھائی لینڈ کے بادشاہ بھوی بول ایدلیا ویج سرفہرست ہیں، جن کی دولت کا موجودہ تخمینہ 35 ارب ڈالر ہے. چھ سو سال قدیم بادشاہت کے وارث سلطان حسن البلقیہ مراکش کے شاہ محمد ششم ,مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیت متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابو ظہبی کے حکمراں شیخ خلیفہ بن زاید آل نیہان ,دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم الجسنٹن اسٹین نامی چھوٹی سی یورپی خود مختار ریاست کے فرمانروا شہزادہ ہینزایڈم دوئم شامل ہیں۔ شہزادہ ہینز ایڈم کی دولت کا سب سے بڑا ذریعہ "ایل جی ٹی بینک" ہے، جسے گزشتہ 70برس سے ان کا خاندان چلا رہا ہے لیکن آ ج کل اس بینک کو ٹیکس چوری میں مدد دینے کیاسکینڈل کا سامنا ہے- الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ بینک امیر کھاتے داروں کو اپنا کالا دھن چھپانے میں مدد دیتا ہے- خود مختار ریاست مونا کو کا رقبہ نیویارک کے سینٹرل پارک کے برابر ہے- لیکن اس کے حکمران شہزادہ البرٹ دوم کا شمار دنیا کے امیرترین فرمانرواؤں میں ہوتا ہے- ان کے اثاثوں کی مالیت1.4ارب ڈالر بتائی جاتی ہے - ان کی دولت کا بڑا حصہ بیش قیمت جائیداد پر مشتمل ہے بن علی کے خاندان نے اسی طریقے سے دولت کمائی۔ تیونس میں یہ سب کچھ کیسے ہوا، یہ بات عالمی بینک نے اپنے ایک مطالعاتی جائزے میں بتائی ہے۔ آمر حکمران زین العابدین بن علی 1987 سے لے کر 2011 تک تیونس میں سیاہ و سفید کے مالک رہے اور پھر 14 جنوری 2011 کو بھاگ کر سعودی عرب چلے گئے۔حال ہی میں جاری ہونے والے اس جائزے کو ’آل اِن دی فیملی‘ یعنی ’سب کچھ خاندان میں ہی‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس جائزے کے مرتبین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تیونس کے نجی کاروباری شعبے کی آمدنی کا بیس فیصد سے زیادہ حصہ سابق حکمران زین العابدین بن علی کے خاندان کو جاتا تھا۔ ایک آمر حکمران کیسے اتنی دولت جمع کر پاتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے اس جائزے میں شمالی افریقی ملک تیونس کو مثال بنایا گیا ہے لیکن جائزے کے مرتبین میں سے ایک انتونیو نوکیفورا کے مطابق اسی طرح کے ڈھانچے پوری دْنیا میں موجود ہیں۔اس جائزے کے لیے تیونس کی ایسی 220 کمپنیوں کو جانچا گیا، جنہیں جنوری 2011 میں بن علی کا تختہ الٹے جانے کے بعد ریاستی نگرانی میں لے لیا گیا تھا۔ آمر بن علی کے خاندان نے اپنی توجہ صرف ایسے شعبوں پر مرکوز کی، جو زیادہ سے زیادہ منافع دیتے تھے۔ ان شعبوں میں کام کرنے والے افراد کی تعداد ملک بھر میں برسرِ روزگار افراد کی کْل تعداد کا صرف ایک فیصد بنتی تھی لیکن ان سے نجی شعبے کی کْل آمدنی کا اکیس فیصد حاصل کیا جاتا تھا۔ عالمی بینک کے جائزے کے مطابق حکمران خاندان نے ٹیلی مواصلات، ٹرانسپورٹ اور پراپرٹی کے شعبوں کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور وہ ان شعبوں میں قیمتوں کا تعین اپنی من مرضی کے مطابق کیا کرتا تھا۔ ماہر اقتصادیات انتونیو نوکیفورا عالمی بینک سے وابستہ ہیں۔انتیونیو نوکیفورا بتاتے ہیں کہ ’اس طرح سے مختلف شعبوں پر اجارہ داری قائم ہوتی چلی گئی اور یہ کمپنیاں ایسی تھیں، جو بے انتہا منافع بخش تھیں‘۔ جب بن علی کے خاندان کا اقتدار ختم ہوا تو تیونس حکومت کے اندازوں کے مطابق یہ خاندان تیرہ ارب ڈالر کا مالک تھا۔دوسری طرف عوام سراسر گھاٹے میں رہے کیونکہ اکثر حالات میں یہ ممکن ہی نہیں رہا تھا کہ حکمران خاندان کی کمپنیوں سے کوئی چیز خریدے بغیر وہ اپنے روز مرہ معمولات کو آگے بڑھا سکیں۔ نوکیفورا کے مطابق ’دیکھا جائے تو بظاہر اس خاندان نے کوئی غیر قانونی کام بھی نہیں کیا تھا‘۔ وہ بتاتے ہیں:’’بن علی اور اْن کے خاندان کے افراد نے بس یہ کیا کہ پہلے سے موجود قواعد و ضوابط کو ہوشیاری کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔‘‘البتہ 1993 میں سرمایہ کاری کے حوالے سے جو قانون منظور ہوا، وہ عین اس خاندان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے وضع کیا گیا تھا۔ پچیس ایسے نئے فرمان جاری کیے گئے، جن کے نتیجے میں نئی کمپنیوں کے لیے منڈیوں میں قدم رکھنا مشکل بنا دیا گیا۔ عوام کو لیکن یہ بتایا گیا کہ ان ضوابط کا مقصد صارفین کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ماہر اقتصادیات نوکیفورا کے خیال میں تیونس میں سیاسی تبدیلی کے سلسلے میں بنیادی کردار اْس خلیج نے ادا کیا، جو معیشت تک رسائی رکھنے والی شخصیات اور عوام کی بہت بڑی تعداد کے درمیان حائل ہو گئی تھی۔ نوکیفورا کہتے ہیں کہ جن ڈھانچوں کی بدولت بن علی نے دولت جمع کی، وہ تیونس میں آج بھی موجود ہیں اور ایسے میں پھر سے پرانے حالات کا لَوٹ کر آ جانا خارج از امکان نہیں ہے۔ چودہ جنوری 2011 کو تیونس میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں ایک شخص نے ایک بینر اٹھا رکھا ہے، جس پر لکھا ہے، ’بن علی نکل جاؤ‘، اْسی روز بن علی نے ملک چھوڑ دیا۔تاہم تیونس کے آجرین کی تنظیم کی خاتون سربراہ وداد بوشماوی خبردار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایسے میں تمام کامیاب آجرین کو ہی شک و شبے کی نگاہ سے دیکھنا درست نہیں ہو گا۔ وہ کہتی ہیں:’’بن علی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، جسے ہمیں قبول کرنا ہو گا۔‘‘ وہ کہتی ہیں، اب اہم یہ ہے کہ تعمیری سوچ اپنائی جائے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے۔دیکھا جائے تو تیونس واحد ایسا ملک نہیں ہے بلکہ خطّے کے دیگر ممالک میں بھی، جہاں عوام حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ایسے ہی ڈھانچے موجود ہیں۔ انتونیو نوکیفورا زور دے کر کہتے ہیں:’’عرب دنیا میں یہ ایک عمومی مسئلہ ہیں۔‘‘ماہر اقتصادیات نوکیفورا کے مطابق ’اقربا پروری اور اس سے فائدہ اٹھانے والے مقتدر طبقے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں موجود ہیں، مثلاً روس یا پھر یوکرائن میں بھی‘۔ نوکیفورا نے اعلان کیا کہ عرب دنیا کے دیگر ملکوں کے اقتصادی ڈھانچوں کے بارے میں بھی ایک ایسا ہی مطالعاتی جائزہ آئندہ شائع کیا جائے گا۔یہ بات تیونس ہی کی نہیں ہے، مصر کے آمر مطلق حسنی مبارک جیسے مرسی کی جمہوری حکومت ختم کرکے فوج نے تحفظ دے رکھا ہے، ایک ایسا آمر ہے جس نے مصری عوام کی دولت کو بیدریغ لوٹا ہے۔ اس کی دولت کا آج بھی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ حسنی مبارک دنیاکے امیرترین شخصیت ہیں؟ اس بارے میں فوربز میگزین میں دنیا کے جن ارب پتی افراد کی فہرست شائع کی تھی ، اس میں حسنی مبارک کا نام شامل نہیں تھا۔ فوربز کے مطابق دنیا کی امیرترین شخصت میکسیکو کے کارلوس ہیں جن کی دولت کا تخمینہ ساڑھے 53 ارب ڈالر ہے ، جب کہ مائیکروسافٹ کے بل گیٹس 53 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھے۔اس فہرست میں چوتھے اور پانچویں نمبر پر بھارتی شخصیات تھیں ، ایک ایسے ملک کے ارب پتی،جہاں غریبوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔حسنی مبارک کی دولت کا انداہ 70 ارب ڈالر تک لگایا جارہاہے، جو دنیا کے امیر ترین شخص کارلوس سے تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ افریقہ ڈاٹ کام نے دعویٰ کیا ہے کہ حسنی مبارک دنیا کے امیر ترین انسان ہیں۔برطانوی اخبار گارجین نے لکھاہے کہ 82 سالہ حسنی مبار ک کے 70 ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ اور کئی دوسرے ممالک کی تجوریوں میں محفوظ پڑے ہیں۔ نیویارک،لندن اور کیلی فورنیا کے شہر بیورلی ہلز میں ان کی بیش قیمت جائیدادیں بھی ہیں،اخبار کا کہناہے کہ انہوں نے یہ دولت اپنے 30 سالہ دوراقتدار میں مصری خزانے سے لوٹی ہے۔الجزیرہ ٹیلی ویڑن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ زیادہ تر مصری باشندوں کا خیال ہے کہ ملک کی قومی دولت سے صرف حسنی مبارک اوران کے خاندان کو فائدہ پہنچاہے اورکچھ ثمرات ان کاروباری افراد نے سمیٹے ہیں جو حسنی مبارک کے قریب تھے۔مصر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی دو ڈالر روزانہ سے کم ہے اور وہ غربت و افلاس کی زندگی گذار رہے ہیں۔ حسنی مبارک کے دور حکومت میں مصر میں بے روزگاری کی سطح بہت بلند تھی۔ لوگ غربت کی وجہ ملکی دولت کی لوٹ گھسوٹ ،اور رشوت خوری کو قرار دیتے تھے۔ قاہرہ کی سڑکوں پر صدر حسنی مبارک کی اقتدار سے برطرفی کے لیے بڑے بڑے مظاہروں میں حکومت پر لگائے جانے والے الزامات میں کرپشن بھی شامل تھی۔ الجزیرہ ٹیلی ویڑن کے مطابق مصری صدر اور ان کے خاندان کے پاس نقد دولت کا تخمینہ 40 سے 70 ارب ڈالر تک ہے۔ جس سے ایک ایسی ریاست کی تصویرابھرتی ہے جہاں قومی دولت کو سیاسی قوت کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔پریس ٹی وی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حسنی مبارک کی زیادہ تردولت سوئٹرزلینڈ اور برطانیہ کے بینکوں میں خفیہ اکاؤنٹس میں چھپائی گئی ہے۔ جو آج بھی اس خاندان کے کام آ رہی ہے۔ ایک عربی اخبار الخبر کی رپورٹ میں بتایاگیا تھا کہ صدر مبارک کے بیٹے کمال اور علا ارب پتی ہیں اوروسطی لندن کے انتہائی مہنگے علاقے میں قیمتی جائیدادوں کے مالک ہیں۔اخبار نے اپنے مضمون میں کئی ایسی مغربی کمپنیوں کے نام شامل کیے جن میں حسنی مبارک کے خاندان کی شراکت داری ہے۔ایک اندازے کے مطابق کمپنیاں انہیں سالانہ 15 کروڑ ڈالر ادا کرتی ہیں۔اخبار گارجین نے مشرق وسطیٰ امور کے پروفیسر کرسٹوفر ڈیوڈسن کے حوالے سے لکھا تھا کہ عرب کی خلیجی ریاستوں میں کسی غیر ملکی کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے مقامی باشندوں کا 51 فی صد حصہ رکھنا پڑتا ہے، جب کہ مصر میں غیر ملکی 20 فی صد مقامی شیئرز کے ساتھ کاروبارکا آغاز کرسکتے ہیں۔ 20 ممتاز مصری شخصیات کے ایک گروپ نے پبلک پراسیکیوٹر کو ایک درخواست بھی دی تھی کہ حکمران خاندان کی دولت کے بارے میں زبان زدعام کہانیوں کی تحقیقات کرے اوریہ جائزہ لے کہ اپنے 30 سالہ دوراقتدار میں مبارک کا خاندان کس طرح اربوں ڈالر اکھٹے کرنے میں کامیاب ہوا۔ماہرین کا کہناہے کہ وہ دولت جو اپنی جائز ضرورتوں سے زیادہو، اس کے اصل حق دار محروم طبقات ہیں۔ اور اس دولت کو خوشیاں باٹنے کے لیے اسی طرح استعمال کرنا چاہیے ۔ پاکستان کا شمار بھی ان بدقسمت ملکوں میں کیا جاتا ہے، جہاں حکمران خاندانوں کی دولت کی نہ کوئی حد ہے نہ حساب ، جس ملک میں 38 سالوں میں 6 لاکھ 69 ہزار 819 بااثر افراد کے 256 ارب روپے سے زاید مالیت کے قرضے معاف کردیے جاتے ہوں۔ تو ظاہر ہے پھر ایک عام شہری کے ذہن میں سوال تو ابھرے گا ناکہ آخر ایسا کیوں؟ آخر ان امیر خاندانوں اور حکمرانوں سے تعلق رکھے والوں کے قرض ہی کیوں معاف کیئے جاتے ہیں۔ یہ فرق کیوں ہے؟یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ آخر وہ کونسے عوامل ہیں جن کی بنا پر ارکان اسمبلی کے اثاثے اتنی جلدی بڑھ جاتے ہیں۔ ایک بیوکریٹ نے یہ واقعہ لکھا کہ مارشل لا لگانے کے بعد اختیارات ہتھیانے کے کچھ عرصے بعد آغا حسن عابدی ایوب خان کو ملے اور مشورہ دیا کہ وہ ابوظہبی کے حکمران شیخ زید بن سلطان کو شکار کی دعو ت دیں۔ ’’ ابوظہبی کہاں ہے؟ ‘‘ایوب خان نے قدرے حیران ہوکر پوچھا …’’یہ ایک چھوٹی سی ریاست ہے لیکن بہت جلد اہمیت اختیار کرلے گی کیونکہ وہاں تیل نکل رہا ہے۔ایوب خان آغا حسن صاحب کی فہم و فراست کا مداح تھا۔ چنانچہ شیخ زید کو شکار کی دعوت دی گئی جو اتفاق سے کراچی آیا ہوا تھا چونکہ اس وقت شیخ کے پاس اپنا جہاز نہیں تھا اس لئے پی آئی اے کا فوکر چارٹر کیا گیا جب جہاز سکھر کیلئے اڑا تو PAF کے دوسپر جیٹ اس کو ESCORT کررہے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق شیخ اس قدر مسحور ہوا کہ کھڑکیوں سے کبھی ایک جہاز کو دیکھتا تھا اور کبھی دوسرے کو شکار کے بعد وہ ٹرین ٹر بیٹھ کر رحیم یار خان آیا اور کریم داد گجر کے ہاں ٹھہرا۔ تلور کا شکار کرتے ہوئے اس نے ریت کا ایک بہت بڑا ٹیلا دیکھا۔ بولا ’’ کریم داد! دیکھ لینا ایک دن میں یہاں عالیشان محل بنواؤنگا۔ میرے پاس ایک ایسا ’’ فلیٹ‘‘ ہوگا جس میں دنیا کا ہر بڑا جہاز ہوگا چنانچہ وہی ہوا رحیم یار خان میں شیخ محل کا شمار دنیا کے چند بڑے محلات میں ہوتا ہے۔اس کے خاندان کے پاس چھبیس جہازوں کا بیڑا ہے جس میں جمبو سے لیکر ائر بس،C130 اور ہیلی کاپٹروں کی کثیر تعداد موجود ہے۔اب یہ لوگ کسی حکمران کو ملنے نہیں جاتے بلکہ حاکم ان سے درِ دولت پہ دستک دیتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے ملک کو جس طرح لوٹا ہے، اس سے بعض ’’جیالے‘‘ اب بھی انکار کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات سب کو پتہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے سوئس حکام سے باضابطہ طور پر مطالبہ کیا تھا کہ 1997میں تحقیقات کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کا انتہائی قیمتی ہیروں کا ہار جس کی مالیت 23 لاکھ 23 ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے اور اسکے علاوہ دیگر زیورات جو کہ ضبط کر لئے گئے تھے۔ یہ اب واپس کر دیئے جائیں! اصل حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے ان زیورات کی واپسی کے لئے سوئس حکام سے رابطہ ہوا تھا۔ جس کی تصدیق سوئس حکام نے بھی کی تھی۔ ماضی میں زرداری صاحب کے جن لاکھوں ڈالرز کا تذکرہ ہوتا رہا ہے کہ یہ دولت سوئس بینکوں میں پڑی ہے یہ قومی خزانے سے خیانت اور دیگر بدعنوانیوں کے حربوں سے حاصل کر کے بیرونِ ملک منتقل کر دی گئی تھی۔۔۔ اب اس دولت کا وجود سوئٹزرلینڈ کے کسی بھی بینک میں ہے یا نہیں یہ ایک سربستہ راز ہے۔ کیونکہ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنرخود سوئٹزرلینڈ جا کر زرداری صاحب کے تمام مالی امور کے حوالے سے پڑی دستاویزات اپنا سفارتی استحقاق استعمال کر کے واپس برطانیہ لے آئے تھے اور برطانیہ کے مختلف بینکوں اور دیگر آف شور کمپنیز میں یہ تمام کا تمام سرمایہ محفوظ کروا دیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت جو حزب اختلاف کے زمانے میں لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے کا مطالبہ کرتی تھی اب اس مطالبے سے آنکھیں چراتی ہے۔ قومی خزانے میں خیانت ہوئی اور پھر اس مشہور مقدمے پر قوم کا بے پناہ سرمایہ بھی خرچ ہوا۔۔۔ لیکن اس سارے کھیل کا جو نتیجہ نکلا وہ ساری قوم کے سامنے ہے یعنی صدارتی استحقاق ’’کرپشن‘‘ پر حاوی رہا اور ’’کرپشن‘‘ آخرکار جیت گئی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہوں یا رینٹل راجہ پرویز اشرف، یا امین فہیم سب ہی اس حمام میں ننگے ہیں۔ نہ تو زرداری صاحب کا کسی نے احتساب کیا ہے اور نہ ہی بیرونِ ملک سے ان کی دولت پاکستان واپس لائی جا سکی۔ ماضی میں آصف علی زرداری کے حوالے سے لندن میں ’’سرے محل‘‘ جس کی مالیت چار ملین ڈالر تھی اس کا بھی بہت چرچا رہا۔لیکن اب اس کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ 2003 میں سوئٹزرلینڈ کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور وہ پاکستان کو 11.5 ملین ڈالر واپس کریں۔ زرداری صاحب کو ماضی میں ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ بھی کہا جاتا رہا۔ بین الاقوامی بزنس مین اور امریکی معیشت کے ماہر Raymond W. Bakerکی کتاب Capitalism\’s Achilles Heel جو کہ دنیا کے مختلف ممالک کے حکمرانوں کی دولت کے حوالے سے بے پناہ معلومات پر مبنی ہے اس کتاب میں صفحہ 76 سے لے کر 87 تک پورے کا پورا حصہ پاکستان کے حکمرانوں کی بیرونِ ملک جائیدادوں اور اثاثوں کے بارے میں ہے جس میں خاص طور پر سابق صدر آصف علی زرداری، میاں نوازشریف اور پاکستان کے جرنیلوں کی دولت کے بارے میں تفصیلات درج ہیں۔ آج تک پاکستان سے کسی نے بھی Raymond W. Baker کی اس کتاب میں پاکستان کے حکمرانوں کے حوالے سے ان کی جائیدادوں اور اثاثوں کی فراہم کردہ تفصیلات کو غلط ثابت نہیں کیا۔ اسی کتاب کی تفصیلات کے مطابق آصف علی زرداری کے سوئٹزرلینڈ کے 7 سے زائد مختلف بینکوں میں ذاتی اکاؤنٹس تھے اور اس کے علاوہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ میں انتہائی قیمتی جائیدادیں بھی موجود ہیں۔ 14 سے زائد برطانوی ورجن آئس لینڈ کی مختلف کمپنیز میں ان کی جائیدادیں اور دیگر اثاثے موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حکمرانوں نے آخر برطانیہ، امریکہ، فرانس اور سوئٹزرلینڈ میں بے پناہ دولت اور اثاثے کس طرح بنائے ؟ یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ آخر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لئے کتنی دولت درکار ہوتی ہے؟ آج دولت پر قبضہ صرف اور صرف محض چند خاندانوں کا ہے اور ساتھ ہی ہوسِ اقتدار بھی ہے۔ کل ہم اقتدار میں تھے اور اب ہمارے بچے اقتدار میں آئیں گے۔ یہ اس معاشرے کی بدقسمتی ہے ۔ کسی نے کبھی نہیں پوچھا کہ اتنی دولت کہاں لے کر جاؤ گے؟امیرحکمرانوں کی فہرست میں دوملکائیں بھی شامل ہیں- ہالینڈ کی ملکہ بیٹرکس دولت و ثروت کے معاملے میں 14مشہور ہیں۔ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم بھی دولت مند حکمرانوں میں شامل ہیں۔ یہ اس کے علاوہ ہے کہ شاہی اشیا ، مثلاً تاج برطانیہ میں جڑے ہیرے جواہرات، بکنگھم پیلیس جیسے محلات کو برطانوی قوم کا ورثہ قرار دیا جاتا ہے۔ امیر ترین فرمانرواؤں کی فہرست میں ایک ایسی شخصیت بھی شمار کی جاتی ہے ، جو کسی ریاست کی حکمران نہیں مگر پھر بھی شاہی مقام و مرتبے کی حامل ہے- یہ اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا شہزادہ کریم آغاخان ہیں۔ ان کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب ڈالر بتائی جاتی ہے-15امیر ترین حکمرانوں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو کئی دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں مثلاً یہ کہ ایک طرف تو اقوام عالم کی صفوں میں ایک ارب سے زائد مسلمان نہایت پسماندہ اور غربت زدہ دکھائی دیتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے حکمران دولت و ثروت کے معاملے میں مغربی ملکوں میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے- بیشتر مسلم فرمانروا اسراف بے جا کا چلتا پھرتا اشتہار دکھائی دیتے ہیں- کوئی شاندار محلات پر دولت لٹا رہاہے تو کسی نے تعیشات اور تفریح کو ہی زندگی کامقصد بنا لیاہے- نہ تو انھوں نے مستقبل کا سوچا ہے اور نہ ہی جدید دور میں میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس اہم شعبے میں سرمایہ کاری کی ہے،نہ کسی نے کوئی عظیم الشان لائبریری قائم کی ہے نہ کوئی ایسا سائنسی ادارہ بنایا کہ جو عالمی برادری سے اپنا لوہا منوا سکے-دولت کی اصل قدر اور قیمت اور اس کے صحیح استعمال کی اہمیت سے بھی وہی واقف ہوتے ہیں جو محنت کے بل بوتے پر دولت کماتے ہیں۔ جبکہ بیشتر حکمرانوں کو مالی وسائل محض ورثے میں ملے ہیں اور شائد اسی لیے وہ "Easy Come Easy Go" کا جیتا جاگتا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 383699 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More