قیمتی سرمایہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز قارئین کرام۔۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہماری ویب پر یہ میرا دوسرا مضمون ہے۔ پہلا مضمون ہم نیک کیسے بنیں؟؟ کے نام سے تھا۔ آج میں ایک ایسے عنوان پر بات کرنا چاہتا ہوں جس پر شاید آج کے دور میں بات کرنے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔وہ موضوع یہ ہے کہ ہماری اس زندگی کی قیمتی شے کیا ہے؟ ہمارا سرمایہ حیات کیا ہے؟، یہ مال و دولت یہ بنگلے یہ گاڑیاں؟ یہ جائداد یا کچھ اور ایسا ہے جو ان سب سے زیادہ قیمتی ہے؟ جب ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ قیمتی چیز یہ دنیا کا مال و دولت نہیں جسے ہم سب سے چھپا چھپا کر سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں، جس کی حفاظت ہم اپنی جان سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں کیونکہ اللہ پاک کا فرمان ہے
یَوْمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾ اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیۡمٍ ﴿ؕ۸۹﴾
جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے، مگر وہ جو اللّٰہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر ۔
اور اللہ پاک فرماتا ہے
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا
بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے فردوس کے باغ ان کی مہمانی ہے۔
یعنی سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ایمان ہے۔

وہ ایمان جس کی فکر ہم نعوذباللہ اپنے موبائل جتنی بھی نہیں کرتے۔ وہ ایمان جس کے ضائع ہونے کا اور چھن جانے کا ہمیں کوئی ڈر نہیں رہا۔

افسوس صد افسوس کہ آج ہم اس چوراہے پر کھڑے ہیں کہ ہماری بیٹی اور بیٹے کے ایمان کا ہمیں احساس تک نہیں کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کر رہے ہیں یا نہیں؟ بلکہ ہم خود اپنی اولادوں کو افلاطون اور ارسطو کا فلسفہ پڑھانے کیلئے ایسے سکولز کالجز اور یونیورسٹیز میں چھوڑ کے آتے ہیں جہاں بچپن میں پڑھے ایمان مجمل اور مفصل کو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔ جہاں افکار کو ملکوتی بلندی کی بجائے شہوت زدہ پستی دی جاتی ہے۔ اور یاد رکھئے ایسے ماحول میں پل کر جوان ہونے والا بچہ یا بچی نہ تو اپنے والدین کا فرمانبردار ہو سکتا ہے اور نہ کسی پاکیزہ اور شاندار معاشرے کا عزت دار فرد بننے لائق رہتا ہے۔ کیونکہ جس بچے کو آپ نے رب ذوالجلال کی پہچان نہیں کروائی تو وہ آپ کو کیسے پہچانے گا؟ جو بندہ حقوق اللہ پر جری ہو سکتا ہے اس کے سامنے ایک انسان کے حقوق کو پامال کرنا کون سا اچھنبے کی بات ہو سکتی ہے؟

میری یہ عادت ہے کہ میں صرف تنقید کر کے اپنی راہ نہیں لیتا بلکہ اصلاح کے جذبے کے تحت کوئی تجویز اور مشورہ بھی ضرور دیتا ہوں۔۔۔۔ اگر پسند آئے اور مناسب لگے تو عمل کیجئے گا ورنہ ہمیں بات پہنچا دینے کا حکم تھا سو وہ ہم نے کر دیا۔۔۔۔

مشورہ یہ ہے کہ آج سے یہ سوچئے کہ آپ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو قیامت کے دن کس حال میں دیکھنا چاہتے ہیں؟ جنتی یا خدا نا خواستہ جہنمی؟ اگر جنتی دیکحنا چاہتے ہیں تو آج اور ابھی سے اپنے اور اپنے اہل عیال کے ایمان کی فکر کریں۔۔۔۔ ان کو روز اسلام اور ایمان کے بارے میں اپڈیٹ کرتے رہیں۔۔۔ کیونکہ روز نئے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں پتہ نیں اپ کا بچہ کس فتنے کا شکار ہو جائے؟ جیسے آپ اپنے کمپیوٹر کی حفاظت کے لئے انسٹال کئے گئے انٹی وائرس کو اپڈیٹ کرتے رہتے ہیں اسی طرح اپنے بچوں کے ایمان کو ڈیلی اور ویکلی بیسز پہ اپڈیٹ کرتے رہیں۔ اور یہ سب کرنے کیلئے آپ کے پاس بھی اسلامی معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کے پاس علم کا یہ خزانہ ہے تو اپنی اولاد میں منتقل کریں اور اگر نہیں تو جیسے ان کیلئے کھانے پینے اور پہننے کی اشیاء خرید کر لاتے ہیں ویسے ہی علم بھی اور ایمان کی حفاظت کا زہن بھی ان کو دیجئے۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا
دعاؤں کا طالب
محمد سجاد انجم

Muhammad sajjad anjum
About the Author: Muhammad sajjad anjum Read More Articles by Muhammad sajjad anjum: 5 Articles with 7640 views I Am a Translator from Urdu To arabic...
.. View More