جمہوری ملک میں اسلامی روایات اور سیکولرزم کے تحفظ کی ضرورت

ملک کی تاریخ رہی ہے کہ مغل بادشاہوں نے عد ل و انصاف کے ساتھ حکومت کی اور رعایا کو منصفانہ طریقے سے نظامِ حکومت میں حقوق دیئے۔ان کے دور میں فرقہ پرستی پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی، اسی لیے ہندستان امن و سکوں کا گہوارہ تھا۔ ۱۶۰۰ء میں تاجر کی حیثیت سے آنے والے تن کے گورے من کے کالوں نے سازشوں کے تانے بانے بن کر مغلوں کو اقتدار سے دور کرنے میں کامیاب رہے۔ اس دور میں انگریز کی پالیسی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘کی بنیاد پر داخلی ماحول گرمایا گیا اور ملک میں آزادی کی صبح کو طلوع ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ تاہم اس میں بھی سیدھانشانہ مسلمان ہی رہے۔

خلافت تحریک جو آزادی کی ایک اہم تحریک گردانی جاتی ہے۔ آزادی کے ضمن میں اس کی کدوکاوش کو تو مانا جاسکتا ہے لیکن اس تحریک نے گاندھی کے ایما پر ۱۹۲۱ء میں تحریک گاؤ کشی کی جو حمایت کی اس کا راست تعلق شعائر اسلامی سے دستبرداری سے تھا۔ جس کی بازگشت موجودہ پارلیمانی الیکشن میں مودی کے ذریعے سُنی جارہی ہے۔ اس شخص نے ذبیحۂ اسلامی پر اپنی حکومت بننے پر پابندی کی جو بات کی ہے یہ اس بات کا الٹی میٹم ہے کہ مسلم شعائر کی حرمت پامال کی جائے گی۔مودی کی تجویز کوسیکولرافراد بالخصوص مسلم کمیونٹی نے مسترد کردیا اس تناظر میں یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ آزادی کے درمیاں بعض مسلم کہلانے والوں نے ذبیحہ سے دست برداری کا جو اعلان جاری کیا تھا وہ سراسر غیر اسلامی عمل تھا۔

۱۹۲۱ء میں محبینِ مشرکین نے بعض شکم پرست مولویوں سے من چاہا فتویٰ لے کر خوشنودیِ مشرکین کے لیے ذبح کو ترک کرنے کی حمایت میں ماحول سازگار کرنے کی کوشش کی۔ اس دور میں ’’مِرہ دین پارۂ ناں نہیں‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگانے والے ایک مصلح قوم شاہ امام احمد رضاخان محدث بریلوی (متوفی۱۹۲۱ء) نے ایامِ علالت میں شعائر اسلامی کی حمایت میں فتویٰ جاری کر کے پورے ملک میں فرقہ پرستوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا اور یہ ذہن دیا تھا کہ ہم اسلامی شعائر کی حرمت کے لیے کوئی سودا نہیں کرسکتے۔ وہ آزادی نہیں جو اسلامی شعائر کے ترک سے حاصل ہو۔ شریعت کی پامالی سے ملنے والی آزادی غلامی سے بدتر ہے۔

امام احمد رضا کی خدماتِ دینی کا اہم باب شعائر شرکیہ کی مذمت اور مشرکین کی چالوں سے قوم کو باخبر کرنا ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے برادرانِ وطن سے حسنِ سلوک کے معاملے کا روادار رہا ہے۔ لیکن ایسا اتحاد جو غیرتِ دیں دے کر کیا جائے وہ قوم کی موت ہوتا ہے، کے مصداق غیرت و حمیت دیں کے سوداگروں نے جب مشرکین کی محبت میں دینی اصولوں کی دھجیاں بکھیرنے کی کوشش کی تو آپ نے ان کی سازشوں کی قلعی ایسے دور میں کھولی جب کہ سامنے سے انگریز وار کر رہے تھے اور اتحاد کے پردے میں مشرکین کے نشانے پر مسلمان تھے،تفصیلات کے لیے کتاب ’’المحجۃالمؤتمنۃ فی آیۃالممتحنۃ‘‘ از اعلیٰ حضرت اور ’’النور‘‘ از پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاری و ’’فاضل بریلوی اورترک موالات‘‘از پروفیسر محمد مسعود احمد نقشبندی کا مطالعہ کریں۔

دنیا نے دیکھا کہ انگریز نے جب حکومت ہندیوں کو لوٹائی تو انھیں تخت و تاج سے دور پھینک دیا گیا جن سے اقتدار چھینا گیا تھا۔ ان مسلمانوں پر مشرکین مسلط کر دیئے گئے۔ پھر نفرتوں کی فضا ایسی ہموار کی گئی کہ گاہ بہ گاہ مسلمانوں کے لہو سے ہولی کھیلی جاتی رہی تا کہ مسلمان اقتدار کی طرف نہ لوٹ سکے۔ حاکم نہ بنے بلکہ ہمیشہ محکوم ہی رہے۔ اور اربابِ شرک ان کے اوپر مسلط رہیں۔ انھیں جذبات کی تکمیل کے لیے کبھی بھاگلپور میں خونِ مسلم کو پانی سے سستا سمجھا گیا تو کبھی گجرات میں لاشوں کے انبار لگائے گئے۔ اور انھیں جذبات کی تکمیل کے لیے کہ اب پورے ملک کے مسلمانوں کو مذہبی آزادی سے محروم کر کے آگے کی ایک دو صدی تک مزید محکوم بنائے رکھنے کے لیے گجرات کارڈ پورے ملک پر مسلط کرنے کی بات کی اور کہی جا رہی ہے۔ اسی کی تازہ مثال ذبیحہ کے خلاف مودی کے عزائم ہیں ۔ جب آغاز کا اشارہ ایسا ہے تو آگے کے عزائم کیسے ہوں گے؟

فرقہ پرستوں کی فکری تربیت ایک صدی پیش تر شروع کی جا چکی تھی۔ ملک کے لیے قربانی مسلمانوں نے دی، آزادی کی خاطر انقلاب کا نعرہ مسلمانوں نے بلند کیا، انگریز سے آزادی ملی، اربابِ شرک نے محکوم بنانے کی تگ و دو کی۔ چند ٹکوں کے عہدوں سے مسلمانوں کے زخموں کو نہیں بھرا جاسکتاتھا۔ ایک عہدۂ وزارتِ تعلیم مسلمانوں کی خدمات کے اعتراف کو کافی نہ تھا۔ مشرکین کی ہاں میں ہاں ملانے والے؛ مسلمانوں کو کچھ نہ دے سکے۔ وہ دیتے بھی کیا؟ وہ تو اسلام دشمن لیڈروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی تھے۔ اگر انھیں قومی وقار عزیز ہوتا تو آج مسلمانوں کو ریزرویشن کے لیے تگ ودو نہیں کرنی پڑتی۔ تعلیم کے شعبے میں مسلمان کم تر نہیں رہتے؛ جسٹس سچر کو آئینہ دکھانے کی ہرگز نوبت نہیں آتی۔

مسلمانوں نے ہر زخم جھیلے۔ ۱۹۲۱ء میں ترک موالات کا طوفان علی گڑھ کو تو ہِلا دینے میں کامیاب تھا لیکن بنارس ہندویونیورسٹی کا بال بیکا نہ ہوا۔ مسلم طلبا کا تعلیمی اور اساتذہ کا معاشی نقصان ہوا۔ ہندو یونیورسٹی ترقی کی راہ پر گامزن رہی۔ برسوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جمود کا شکار رہی۔ اس درمیان مسلمان زخموں سے نڈھال ہو کر تعلیمی میدان میں شکست خوردہ سے رہے اور مشرک آگے بڑھتے رہے۔ یہ المیہ ہے ہمارا۔ فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کو اس قدر کچلا کہ انگریزی عہد شاید شرما جائے۔’’ریزرویشن تحریک‘‘ چلنے والے مخلص بھائیوں کو تحریک جاری کرنے کے اسباب سمجھنے کے لیے ’’تحریک ترک موالات‘‘ پر غور کرنا ہوگا اور ۹۵؍ سالہ تاریخ کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا تا کہ اعترافِ حقیقت کے ساتھ اپنوں کی طرف سے دیئے گئے زخموں کا ادراک آسان رہے۔اور حال کے شامیانے میں ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ آسان رہے۔

ابھی اسلامی شعائروروایات اور آزادیِ مسلم نشانے پر ہے۔ جمہوری طریقے سے باطن کے گندے اقتدار کے خواہاں ہیں۔ انھیں ناکام بنانا ہو تو سیکولر ووٹوں کو تقسیم کے عمل سے بچانا قومی ذمہ داری ہے۔ یادرکھیں! ملک کا اقتدار مسلم ووٹ سے نتیجہ کو پہنچتا ہے، اس لیے مسلم ووٹوں کو تقسیم کے عمل سے بچا کر سیکولر امیدوار کا ساتھ دیں اوردشمنانِ شعائرِ اسلامی کو گھر کا راستہ دکھا دیں تاکہ مسلمانوں کے لہو سے ہاتھوں کو رنگیں کرنے والوں کے اقتدار کے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکیں ؛ ملک کی سا لمیت کو کوئی آندھی ہِلا نہ سکے اور فرعونی ذہنیت اپنے انجام کو پہنچے اور پھر سر نہ اٹھا سکے۔ اس کے لیے بیداری شرط ہے جس کے بطن سے انقلاب کی صبح یقینا نمودار ہو گی اور ملک کے سیکولر کردار کو نشانہ بنانے والے بھیانک انجام کو پہنچیں گے۔

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.