سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندیاں

گزشتہ انتخابات میں 216 پارٹیوں نے الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹریشن کرائی تھی، ان میں سے بیشتر پارٹیاں وہ ہیں جنہوں نے کسی دوسری پارٹی سے جنم لیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی ہزاروں ایسی جماعتیں موجود ہیں جو الیکشن کمیشن کے پاس تو رجسٹرڈ نہیں مگر اخباری صفحات پر پوری آب وتاب سے فعال ہیں۔
ہمارے ہاں جس تیزی سے جماعتیں بنتی ہیں، اسی اسپیڈ سے گروپنگ کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ اس وقت سب سے پرانی جماعت مسلم لیگ ہے، اس کی بنیاد 1906ء میں رکھی گئی تھی مگر کچھ عرصے بعد یہ جناح گروپ اور سرشفیع گروپ میں بٹ گئی۔ بات یہاں تک بڑھ گئی کہ ایک بار مسلم لیگ نے تمام مسلم جماعتوں کا اجلاس بلایا تاکہ حکومت کو مسلمانوں کی طاقت دکھائی جاسکے، عین اسی تاریخ کو کانگریس نے بھی آل پارٹیز کانفرنس بلالی۔ ساری مسلم جماعتیں مسلم لیگ کے اجلاس میں شریک ہوئیں، جبکہ صرف ایک مسلم جماعت کانگریس کے ساتھ جاکر بیٹھی اور وہ جناح مسلم لیگ تھی۔ عبدالمجید سالک نے اپنی کتاب ’’سرگزشت‘‘ میں اس پر تفصیل سے لکھا ہے۔ سالک اور غلام رسول مہر کی کوششوں ہی سے مسلم لیگ کے دونوں دھڑے متحد ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد 14دسمبر 1947ء کو کراچی کے خالق دینا ہال میں قائداعظم محمد علی جناح کے زیرصدارت اجلاس ہوا، جس میں انڈیا مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ کو الگ الگ کرنے کی منظوری دی گئی۔ یوں مسلم لیگ کی پاکستان میں باقاعدہ طور پر بنیاد ڈالی گئی۔ یہ جماعت روزاوّل سے حکمرانوں کے ہاتھوں کھلونا بنی رہی ہے۔ آمروں نے بھی اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جب ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو انہیں سیاسی چہرے کی ضرورت پڑی، اس مقصد کے لیے انہوں نے 1962ء میں مسلم لیگیوں کا ایک کنونشن بلایا، جس میں مسلم لیگ کا ایوب خان سے ’’عقد‘‘ کردیاگیا۔ جو لیگی بطور احتجاج اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے، انہوں نے خواجہ ناظم الدین کی قیادت میں کونسل لیگ بنالی۔ ضیاء الحق اور مشرف نے بھی مسلم لیگ کو جیب کی گھڑی بنائے رکھا۔ آج اتنی مسلم لیگیں بن چکی ہیں کہ ان کے نام یاد رکھنا مشکل ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹو نے 1967ء میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔ ان کی زندگی میں بھی کچھ لوگ ’’باغی‘‘ ہوئے مگر کھل کر سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکے۔ بھٹو کو پھانسی لگتے ہی ان کے قریبی ساتھی بھٹو خاندان کا ساتھ چھوڑگئے۔ کئی ایک نے چھوٹے موٹے گروپ بنائے مگر اس وقت پیپلزپارٹی میں سب سے بڑی بغاوت سابق وزیراعلیٰ غلام مصطفی جتوئی کی طرف سے دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے 1986ء میں نیشنل پیپلزپارٹی کے نام سے جماعت قائم کی، جس میں حنیف رامے اور حامد رضاگیلانی وغیرہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے بڑے صاحبزادے میرمرتضیٰ بھٹو نے بے نظیر سے ناراض ہوکر پیپلزپارٹی (شہید بھٹو) کے نام سے الگ جماعت بنائی، جو آج کل ان کی بیوہ غنویٰ بھٹو کی قیادت میں سرگرم ہے۔ اسی طرح ممتاز بھٹو نے بھی پی پی چھوڑکر اپنا فرنٹ بنالیا۔

متحدہ قومی موومنٹ ملک کی چوتھی بڑی جماعت ہے۔ مضبوط تنظیمی ڈسپلن رکھنے والی یہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ اس میں پہلی دراڑ الطاف حسین کے قریبی ساتھی آفاق احمد کی مہاجر قومی موومنٹ(حقیقی) کے ذریعے پڑی۔ پچھلے دنوں لندن میں پارٹی کے باغی ارکان نے عمران فاروق گروپ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ ایک اور ناراض رکن سلیم شہزاد کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بھی کوئی گروپ بنانے جارہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی دھڑے بندی کا شکار ہے، ایک طرف ولی خان کے صاحبزادے اسفندیار ولی خان ہیں تو دوسری طرف ولی خان کی بیوہ بیگم نسیم ولی ہیں، جنہوں نے باچاخان کے نام سے الگ گروپ قائم کرلیا ہے۔ دیگر قوم پرست جماعتوں کا بھی یہی حال ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں ایک درجن سے زاید دھڑوں میں تقسیم ہیں۔

مذہبی جماعتیں بھی خود کو ٹوٹ پھوٹ سے نہیں بچاسکیں۔ جماعت اسلامی کو 1951ء کے ماچھی گوٹھ اجتماع نے بڑے بحران میں مبتلا کردیا تھا، اس دوران کئی نامور لوگ جماعت سے الگ ہوگئے، ان میں سے ایک ڈاکٹر اسراراحمد بھی تھے، جنہوں نے بعد میں تنظیم اسلامی کے نام سے جماعت قائم کی۔ 1993ء کا اسلامی فرنٹ بھی جماعت اسلامی کو راس نہیں آیا۔ انتخابات کے بعد جماعت اسلامی سے ناراض ارکان نے تحریک اسلامی کے نام سے الگ جماعت قائم کرلی۔ جماعت اسلامی سے الگ ہونے والے یہ دونوں دھڑے پوری طرح فعال ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام دراصل جمعیت علمائے ہند کا تسلسل ہے۔ ان دنوں یہ جماعت بھی جے یو آئی (فضل الرحمن گروپ)، جے یو آئی (سمیع الحق گروپ) کے ناموں سے فعال ہے۔ جمعیت علمائے پاکستان بھی ملک کی پرانی سیاسی جماعت ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی اور عبدالستار خان نیازی میں اختلافات ہوئے تو دونوں کے نام پر گروپ بن گئے، نیازی صاحب کی وفات کے ساتھ ہی ان کا گروپ ختم ہوگیا جبکہ نورانی میاں کے بعد ان کی پارٹی شدید دھڑے بندی کا شکار ہے۔ ایک بڑا گروپ صاحبزادہ ابوالخیر نے سنبھال رکھا ہے، درمیان میں ایک آدھ اور گروپ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اہل حدیث مکتب فکر کی جماعتیں بھی تقسیم درتقسیم کے مرحلے سے گزررہی ہیں۔

محض ایک کالم میں سیاسی جماعتوں کی ٹوٹ پھوٹ کا مکمل جائزہ پیش کرنا ممکن نہیں، اشاروں سے کام چلانے کی کوشش کی ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب کیا ہے؟ جو لوگ کسی جماعت سے الگ ہوکر اپنی جماعت بناتے ہیں ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ وہ اصولوں کی خاطر الگ ہوئے ہیں، جبکہ بسا اوقات جماعتوں میں دھڑے بندیوں کے پیچھے اصولی اختلافات نہیں بلکہ شخصیات کا ٹکراؤ کارفرما ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے مگر پھر اس کی گنجایش بہرحال ہے۔ اگر کسی شخص کو اپنی قیادت یا جماعت پر اعتماد نہیں رہا تو اسے الگ ہونے اور نئی جماعت تشکیل دینے کا پورا پورا حق حاصل ہے، بس شرط یہ ہے کہ وہ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ایک اور ڈرامابازی بھی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پارٹی کے اندر ہی گروپ بناکر قیادت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ نہ تو پارٹی کو چھوڑتے ہیں اور نہ پارٹی کو کام کرنے دیتے ہیں۔ فارورڈ بلاک کی یہ سیاست پیپلزپارٹی کا تحفہ ہے۔ مشرف نے اپنے وزیراعظم کو منتخب کرانے کے لیے فیصل صالح حیات کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی کا فارورڈ بلاک بنوایا تھا۔ ان دنوں تحریک انصاف کو بھی خیبرپختونخوا میں اسی طرح کے فارورڈبلاک کا سامنا ہے۔ اس طرح کی گروپنگ تو سیدھا سیدھا مذاق اور بلیک میلنگ ہے۔ مسلم لیگ میں ہم خیال کے نام سے قائم ہونے والے اسی طرح کے گروپ نے چودھری برادران کے غبارے سے ہوا نکالی تھی۔ پارٹیوں میں شفاف انتخابات، دستور کی سختی سے پابندی اور ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام سے پارٹیاں روزروز کی تقسیم سے بہت حد تک بچ سکتی ہیں۔ جن ملکوں میں پارٹیاں دھڑے بندیوں سے محفوظ رہتی ہیں، ان میں اصولوں پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کو بھی کچھ سوچنا چاہیے۔

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 101007 views i am a working journalist ,.. View More