تعلیمی ایمر جنسی وقت کا تقاضا

تحریر : نورالہدیٰ شاہینؔ

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تعلیمی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ جی ڈی پی کے چار فیصد تعلیم کیلئے مختص کرینگے، ساتھ ہی تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا خوش کن اعلان بھی کر دیا ہے۔واضح رہے کہ چار فیصد بھی اقوام متحدہ کی تجویز کردہ شرح سے کم ہے ۔دعا ہے کہ دوسرے اعلانات کی طرح یہ بھی صرف اعلان تک ہی محدود نہ رہے بلکہ خدا کرے کہ جس جوش و جذبے کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا اسی طرح برق رفتاری کے ساتھ اس کو عملی جامہ بھی پہنائے، مشرف دور حکومت میں ایک وزیر محترم، جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ق) کے گود میں جا بیٹھے، اسی دوران وفاقی وزارتوں پر بھی فائز رہے، علاوہ ازیں پرویز مشرف کے خصوصی دوستوں کی فہرست میں بھی شامل تھے ،موصوف جہاں بھی جاتے بڑے تگڑے،موٹے اور بلند و بانگ اعلانات کر کہ رفو چکر ہو جاتے، پھر ہواں یوں کہ لوگوں نے ان کا نام وزیر اعلانات رکھ دیا۔ان دنوں نوازشریف اینڈ کمپنی جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے ، کمانڈر صاحب مکے لہرا لہرا کر ’’میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں‘‘کے نعرے لگا رہے تھے ۔ آج وہی فرعون وقت اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگا ہے ۔اوران کا وہی وزیر و خصوصی مشیر میاں محمد نواز شریف کے بھی مشیر خاص ہیں۔ اب خدا جانے اس کی وفاداریاں کس کے پلڑے میں جائیں گی ۔

تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ روایتی اعلانات سے ہٹ کرکچھ عملی بنیادی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔یہ امر بھی بجا ہے کہ نوازلیگ نے انتخابات سے پہلے جو اعلانات اور وعدے عوام کے ساتھ کیے تھے، وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے، اور نہ ہی ان بنیادی مسائل کی طرف کوئی خاص توجہ دی جارہی ہے۔جس کی ایک واضح مثال توانائی کا بحران ہے، جو ختم ہونے کے بجائے دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے، جبکہ دوسری طرف متعلقہ وزیراگلے انتخابات میں پھر سے عوام کو بے وقوف بنانے کا پلان کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں کہ ــــ’’ آئندہ انتخابات میں جب ووٹ لینے جائنگے تولوڈشیڈنگ بھی ختم ہوگئی ہوگی۔‘‘ دوسری طرف ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔حکومت نے سامراجی قوتوں کے دباؤ میں آکر قوم کو مزید دلدل میں دھکیلنے کی ٹھان لی ہے۔

یہ انتہائی خوش آئند امرہے کہ بالآخر ہمارے رہنماؤں کوبھی یہ بات سمجھ میں آ گئی، کہ شرح تعلیم میں اضافہ بیساکھیوں اور خیرات سے نہیں بلکہ ٹھوس منصوبہ بندی اورتعلیم کے شعبے میں وسیع تر سرمایہ کاری کے ذریعے ممکن ہے۔انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں آج تک جی ڈی پی کا صرف دو فیصدسے بھی کم تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہے جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ نے تمام ترقی پذیر ممالک کو اپنے جی ڈی پی یعنی قومی شرح پیداوار کا پانچ فیصد تعلیم کیلئے مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔اکثر و بیشتر ممالک اس تجویز پر عمل پیرا ہیں جو کہ تعلیمی شعبے میں انتہائی تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہیں۔پاکستان کے بطن سے جنم لینے والا بنگلہ دیش بھی اس معاملے میں ہم سے آگے نکل گیاہے ۔

ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پڑوسی ملک انڈیانے2009میں شعبہ تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا3.2 ,فیصد، 2010 میں3.3 ،جبکہ2011میں،3.2 فیصد خرچ کیا۔ ایران نے2009 میں4.5 ،2010 میں4.3،2011 میں4.1،جبکہ 2012 میں3.7فیصد خرچ کیا۔اسرائیل نے سال 2009میں 5.8 ،2010 میں 5.6، جبکہ2011 میں بھی 5.6 فیصد صرف کیا۔ملائشیا نے2009 میں6 فیصد2010 میں 5.1،اور 2011 میں 5.9 فیصد صرف کیا۔نیپال نے2009 او2010 میں 4.7 فیصدصرف کیا۔جنوبی افریقہ نے 2009 میں 5.5 جبکہ2010 میں6 فیصد خرچ کیا۔ تاجکستان نے 2009 میں4.1 فیصد2010 میں4فیصد جبکہ2011 میں3.9 فیصد خرچ کیا۔اب آتے ہیں پاکستان کی طرف اپنا اعمال نامہ ذرا کھول کر دیکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے جی ڈی پی کا کتنا فیصد تعلیم پر خرچ کیا۔ اس طرح دوسرے ممالک کے اعداد و شمار پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو کم و بیش سارے ممالک اپنے تعلیمی بجٹ میں ہر سال اضافے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں ،ہمارے یہاں چونکہ الٹی گنگا بہتی ہے تو ہر سال کمی کی جاتی ہے۔اس کا اندازہ آپ ان اعداد و شمار سے لگا سکتے ہیں۔پاکستان نے 2009میں2.6 فیصد،2010 میں 2.3 فیصد2011 میں2.2 فیصد،2012 میں2.1 فیصدجبکہ2013میں انتہائی شرمناک حد تک کم کر کہ 1.8فیصد کر دیا۔

نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آج تک ہماری شرح تعلیم 58فیصد سے آگے نہ بڑھ سکی۔آج بھی ہمارے بچے تعلیمی اداروں میں کم ،کچرا کنڈیوں اور ورکشاپوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد ویڈیو گیمز سنٹر اور منی سینما زیادہ ، جبکہ پرائمری تعلیمی ادارے خال خال نظر آرہے ہیں۔ہائی اسکولوں سے زیادہ شیشہ کیفے ملیں گے، جامعات و کالجز دوربین سے ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔جو کالجز اور جامعات قائم ہیں،وہ عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کا صرف ایک فیصد یونیورسٹی لیول تک پہنچ پاتا ہے، باقی پرائمری ، مڈل، سیکنڈری، ہائی یا پھر انٹر میڈیٹ، تک پہنچتے پہنچتے تعلیمی سلسلے کو خیر باد کہہ جاتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ، ناقابل برداشت فیسیں ودیگر اخراجات ، کیونکہ دور دراز کے طلبہ کو اعلی تعلیم کیلئے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے ،وہ عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔

تعلیم کا شعبہ ہو یا دوسرے شعبہ ہائے زندگی ، بیرونی امداد و خیرات پر انحصار کیے بیٹھے ہیں۔یو ایس ایڈ اور دوسرے عالمی اداروں کے آگے بھیگ منگوں کی طرح دست درازی کرتے پھر رہے ہیں۔ جو کچھ خیرات ملتا ہے وہ پاکستان نہیں پہنچتا بلکہ سیدھا سوئس بنکوں میں بنے ہمارے رہنماؤں کے اکاونٹ میں منتقل کر دیا جاتا ہے ۔عالمی برادری میں اس وقت ہمارے حصے میں احساس کمتری و شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ دنیا ہمیں جاہل قوم اور ناکام ریاست قرار دیکر ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ ہم کبھی لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے نام پر اربوں جھونک دیتے ہیں، کبھی پیلی ٹیکسی کیلئے خزانہ کھول دیا جاتا ہے،تو کبھی یوتھ لون سکیم کے نام پر سو ارب روپے داؤ پر لگا دیتے ہیں۔یہ سب اپنی جگہ ٹھیک لیکن اگر اتنا سرمایہ تعلیم کے شعبے میں لگائیں تو شاید یہ سب نیلی پیلی سکیموں کی ضرورت بھی نہ پڑے۔

Noor Ul Huda Shaheen
About the Author: Noor Ul Huda Shaheen Read More Articles by Noor Ul Huda Shaheen: 6 Articles with 4353 views Meri Zindagi Ka Maqsad Tery Deen ki Sarfarazi
Mai Isi Leye Mujahid Mai Leye Namazi
.. View More