صدیقی تقویٰ ویقین کی چند نادر و نایاب مثالیں

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی چار پشتیں شرف صحابیت سے مشرف ہوئیں،یہ فضیلت اور کسی خاندان کو حاصل نہیں ہوئی

حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا اسم گرامی عبداﷲ تھا بعض مورخین نے لکھا ہے کہ والدین نے آپ کا نام عبدالکعبہ رکھا تھا اسلام لانے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم نے یہ نام بدل کر عبداﷲ رکھ دیا، آپ کی کنیت ابوبکر ہے۔آپ کے القاب میں عتیق، صدیق،اصدق الصادقین اور سید المتقین وغیرہ ہیں۔ بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے کی سعادت حضرت آپ کو نصیب ہوئی۔ آپ نے اسلام قبول بھی کیا اور اس کا اعلان بھی کیا۔(ضیاء النبی ،۲؍۲۲۸)قبول اسلام کے وقت آپ کی عمر شریف ۳۸؍ سال تھی۔ ایک بہت بڑی خصوصیت آپ کی یہ بھی ہے کہ آپ صحابہ ، آپ کے والد ابو قحافہ صحابی ، آپ کے صاحبزادے عبدالرحمن صحابی اور ان کے صاحبزادے ابو عتیق محمد صحابی یعنی آپ کی چار نسل صحابی ہیں۔یہ فضیلت اور کسی خاندان کو حاصل نہیں ہوئی۔ذیل میں آپ کے تقویٰ ویقین کے متعلق چند روایات پیش کی جارہی ہیں۔

یقین :شب معراج کی صبح بہت سے مشرکین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو کچھ خبر ہے ؟ آپ کے دوست محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں کہ انہیں رات کو بیت المقدس اور آسمان وغیرہ کی سیر کرائی گئی ہے۔ آپ نے کہا کیا واقعی وہ ایسا فرمارہے ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا ہاں وہ ایسا ہی کہہ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا۔ اگر وہ اس سے بھی زیادہ بعید از قیاس اور حیرت انگیز خبر دیں گے تو بیشک میں اس کی بھی تصدیق کروں گا۔ اور غزوۂ بدر میں آپ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن کفار مکہ کے ساتھ تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اْنہوں نے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ آپ جنگ بدر میں کئی بار میری زد میں آئے لیکن میں نے آپ سے صرف نظر کی اور آپ کو قتل نہیں کیا۔ اس کے جواب میں صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اے عبدالرحمن ! کان کھول کر سن لو کہ اگر تم میری زد میں آجاتے تو میں صرف نظر نہ کرتا بلکہ تم کو قتل کرکے موت کے گھاٹ اْتار دیتا۔

تقویٰ :حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ عرب کے مشہور تاجروں میں سے ایک تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اْنہوں نے اپنا مال جس طرح راہِ خدا میں لٹایا اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ میں نے سب لوگوں کے احسانات کا بدلہ اس دنیا میں ادا کردیا ہے لیکن ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکا ، یہ بدلہ اسے میری طرف سے اﷲ تعالیٰ میدانِ قیامت میں عطا فرمائیگا۔ ‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ خلافت کے پہلے کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ جب خلافت کا کام سر پر آپڑا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ، حضرت عبیدہ رضی اﷲ عنہ وغیرہ سرکرہ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے باہم مشورہ کرکے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کردیا تاکہ کاروبار خلافت میں خلل نہ پڑے اور وہ اپنا سارا وقت اسی کام میں لگاسکیں۔ اس وظیفہ کی مقدار مہاجرین میں سے اوسط درجے کے آدمی کے اخراجات کے حساب سے مقرر کی گئی تھی۔ ایک دفعہ امیر المومنین رضی اﷲ عنہ کی بیوی نے کوئی میٹھی چیز کھانے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے فرمایا : میرے پاس قیمت ادا کرنے کو کچھ نہیں ‘‘ بیوی نے روزانہ کے وظیفے میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر کچھ پیسے جمع کئے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’ اس تجربے سے یہ یقین ہوگیا کہ اگر ہمارا وظیفہ اتنا کم ہو جتنا تم نے روز بچایا ہے تو بھی گذارا ہوسکے گا ‘‘ یہ کہہ کر جمع شدہ رقم بیت المال میں واپس کردی اور آئندہ اتنی مقدار اپنے وظیفہ سے کم کردی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اْم المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو وصیت فرمائی کے میری وفات کے بعد بیت المال کی جو چیزیں میرے استعمال میں ہیں آنے والے خلیفہ کے سپرد کردی جائیں۔ چنانچہ ان کے بعد جب ایک اونٹنی ، ایک پیالہ ایک خادم اور ایک معمولی سا بستر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے سپرد کردیا گیا تو وہ روپڑے اور فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ ابوبکر رضی اﷲ عنہ پر رحم فرمائے۔ اْنہوں نے اپنے بعد میں آنے والے کو ( زہد و تقویٰ کی یہ مثال قائم کر کے ) مشقت میں ڈال دیا ہے۔
آں مسلماناں کہ میری کردہ اند
در شہنشاہی فقیری کردہ اند

خدمت خلق کا جذبہ :حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے نہ صرف یہ کہ اپنے تمام کام خود ہی سر انجام دینے کی کوشش کرتے بلکہ گلی محلہ والوں تک کے کام کرنے میں عار محسوس نہ فرماتے تھے ،ہمسایوں کی خدمت گزاری کا جذبہ یہاں تک تھا کہ بعض دفعہ ان کے مویشی تک چراتے اور دودھ دوہ دیتے تھے۔ جب خلیفہ ہوئے تو آپ کے پڑوس میں ایک خاتون جس کی بکری کا دودھ آپ دوہا کرتے تھے ، بہت متفکر ہوئی کہ اب ہماری بکری کا دودھ کون نکالے گا ؟ آپ کو معلوم ہوا تو فرمایا ’’ خلافت مجھے خلق خدا کی خدمت سے باز نہیں رکھ سکتی ، یہ کام اب بھی میں ہی سر انجام دیا کرونگا۔ ‘‘ ؂ سچ ہے سید القوم خادمہم سروری در دین ما خدمت گری ست

وفات شریف: ۲۲؍ جمادی الآخرہ ۱۳ھ مطابق ۲۳ ؍اگست ۶۳۴ء بروز منگل مغرب وعشاء کے درمیان ۶۳؍ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا وصیت کے مطابق آپ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آپ کو غسل دیا اور امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے نمازجنازہ پڑھائی۔سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو فنا فی الرسول کا وہ درجہ حاصل تھا کہ آپ کی وفات بھی حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا نمونہ ہے پیر کے دن حضور کی وفات اور پیر کا دن گزار کر شب میں حضرت صدیق کی وفات، حضور کے وفات کے دن شب کو چراغ میں تیل نہ تھا اور حضرت صدیق کی وفات کے وقت گھر میں کفن کے لئے پیسے نہ تھے یہ ہے فنا۔

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 671849 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More