مذاکرات کامیابی کی طرف گامزن

ایک بار پھر مذاکرات کے حوالے سے تمام خدشات اور افواہوں نے دم توڑ دیا ہے، کیونکہ طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ فوج اور حکومت میں ہلکے پھلکے تناﺅ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے مذاکرات کے تعطل کی افواہیں پھیلائی جارہی تھیں، مذاکرات کے مخالفین اس قسم کی افواہیں ایک عرصے سے پھیلارہے ہیں، لیکن ہر بار مذاکرات کے طے شدہ مراحل کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے ہےں۔ اب کی بار مذاکرات کے تعطل کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہوں کا وزیر داخلہ چودھری نثار نے یہ بیان دے کر گلا گھونٹ دیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ڈیڈ لاک کا تاثر درست نہیں، مذاکرات میں کوئی تعطل نہیں ہے۔ تنقید کے تیر پھینکنے والے یاد رکھیں کہ دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ کئی کئی ہفتے کوئی دھماکا نہیں ہوتا، یہ حکومت کی کامیابی ہے۔ اسلام آباد سبزی منڈی واقعہ سے طالبان نے لاتعلقی کا اعلان کیا، بلکہ انہوں نے اسے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی قرار دیا ہے۔ یہ بہت بڑی مثبت پیش رفت ہے۔ حکومت کا ایک ہی ایجنڈہ ہے اور وہ ہے ملک میں امن اور آئین کی بالادستی قائم ہوسکے۔ اس بارے میں تمام سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ملک وقوم کے مفاد میں اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ بعض ملکی اور غیر ملکی طاقتیں مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ فوج کے حوالے سے وزیرداخلہ چودھری نثار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فوج اور حکومت مل کر مذاکراتی عمل کوآگے لے جار ہے ہیں، دونوں میں اختلاف رائے تو ہوسکتا ہے، لیکن پالیسی پرکوئی اختلاف نہیں ہے۔ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں، فوج کی100 فیصد حمایت حاصل نہ ہوتی تو دہشتگردی کے حوالے سے حکومت اتنی بڑی کامیابی حاصل نہ کر پاتی۔ میں مطمئن ہوں دونوں اطراف سے قبلہ درست ہے، فوج اور سول قیادت میں تھوڑا اختلاف ضرور پیداہوا، تاہم اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔ فوج پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا، حکومت، سیاسی لیڈر شپ جب ایک پیج پر ہوں گے تو ہم یہ جنگ جیت سکیں گے۔ فوج کو اعتماد میں لے کر فیصلے کررہے ہیں، قیدیوں کی رہائی پر بھی فوج کو اعتماد میں لیا اور خفیہ اداروں کی مشاورت سے غیر جنگجو قیدیوں کو رہا کیا گیا، طالبان نے عسکری قیدیوں کی رہائی کامطالبہ نہیں کیا۔ طالبان کے جن غیر عسکری قیدیوں کو چھوڑا گیا وہ فوج کی تحویل میں تھے۔ 19 غیرعسکری قیدی اب تک رہا ہوئے ہیں، ان کی رہائی فوج سے طویل مشاورت کے بعد ہی عمل میں آئی۔ اب مزید 13 غیر عسکری قیدی بھی فوجی کی رضامندی کے بعد آئندہ چند دنوں میں رہا ہوجائیں گے۔

دوسری جانب طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رابطہ کار مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ مذاکراتی عمل میں کوئی تعطل نہیں، مذاکرات بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ طالبان کے تمام گروپ مذاکرات کے حامی ہیں، ان میں کوئی اختلاف نہیں اور سب ایک ہی چھتری تلے اکٹھے ہیں۔ ان کے حکومت اور طالبان شوریٰ دونوں سے رابطے ہیں، ماضی میں بھی مذاکرات کے تعطل کی خبریں گردش کرتی رہیں ہیں، جو بے بنیاد ثابت ہوئی ہیں۔ انہیں حکومت کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کوئی علم نہیں، البتہ دونوں کمیٹیوں کے ایک دو دن میں ملاقات کا امکان ہے، جس میں قیدیوں کی رہائی اور طالبان شوریٰ سے براہ راست مذاکرات کے دوسرے دور کے لیے جگہ کے تعین پر بات ہو گی۔ کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ انہیں حکومت کی جانب سے رہا کیے گئے قیدیوں کی فہرست نہیں ملی۔ وہ طالبان پر دباﺅ ڈالیں گے کہ وہ پروفیسر اجمل خان، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی و سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادوں اور دیگر غیر عسکری قیدیوں کو رہا کر یں۔ مولانا یوسف شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے علی حیدر گیلانی اور شہباز تاثیر کی رہائی کا باضابطہ مطالبہ نہیں کیا گیا۔ طالبان کی آپسی چپقلش کو بنیاد بنا کر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی طالبان ترجمان کی وضاحت سے دم توڑ گئی ہیں۔ ترجمان کالعدم تحریک طالبان شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ میڈیا پر چلنے والے بعض عناصر تحریک طالبان کے درمیان معمولی تلخی کو بنیاد بنا کر پر وپیگنڈہ مہم میں مصروف ہیں، ہم اس بات کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وزیرستان میں جاری دو گروپوں کے درمیان لڑائی سے پوری تحریک کا کوئی تعلق نہیں ہے، صرف اس علاقے میں کچھ ساتھیوں کے درمیان غلط فہمی کی وجہ سے تلخی پیدا ہوئی تھی، جس کو TTP کی مرکزی شوری نے فوری طور پر مداخلت کر کے حل کر دیا، حکومت کے ساتھ مذاکرات اور جنگ بندی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان، حکومت اور مذاکراتی کمیٹیوں کی مذاکرات کے حوالے سے وضاحت آجانے کے بعد مذاکرات میں تعطل کے پروپیگنڈے کی کوئی حقیقت نہیں ہے، حالات یہ بتا رہے ہیں کہ مذاکرات کا عمل بہتر طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے، جہاں حکومت مذاکرات میں بھرپور دلچسپی لے رہی ہے، وہیں طالبان بھی مذاکرات کو کامیاب کرنے کے خوہاں نظر آتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے جنگ بندی ختم ہونے کے بعد خود ہی اس میں اضافہ کرنا اور اب تک کسی بھی حملے کا ارتکاب نہ کرنا طالبان کی مذاکرات میں دلچسپی کی واضح دلیل ہے۔ جبکہ مذاکرات میں حکومت کی دلچسپی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ19 قیدیوں کو رہا کرچکی ہے، اگرچہ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کی فہرست سے ان رہا ہونے والوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ طالبان کی اس وضاحت کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے فہرست میں شامل 12 سے 13 لوگوں کو رہا کرنے کا کہا گیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ طالبانی کمیٹی کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ جب وہ مذاکرات کے لیے دوبارہ بیٹھیں گے تو اس سے پہلے ان رہا کیے جانے والے لوگوں کی فہرست دے دی جائے گی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان حکومت مذاکرات اب حتمی اور آخری مرحلے کی طرف کامیابی کے ساتھ جا رہے ہیں اور ان کی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔ ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے مذاکرات کا مینڈیٹ ملنے کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے مذاکرات کے لیے جس سنجیدگی کا اظہار کیا گیا، وہ کوئی مخفی نہیں ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی کے قیام کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولا اور اس کے نتیجے میں جو جنگ بندی ہوئی اس سے مذاکراتی عمل کو تقویت ملی۔ اگرچہ اس دوران بعض واقعات کی وجہ سے اس مذاکراتی عمل کو بعض حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن وزیر اعظم پاکستان اور ان کی حکومت نے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے میں ہی بہتری سمجھی اور اس عمل کو آگے بڑھایا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے یقیناً عوام کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں، مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ جنگ دس سال پرانی ہو چکی ہے اور اس میں خاصی پیچیدگیاں اور مصلحتیں کارفرما ہیں، اس لیے ان کی تکمیل میں کچھ زیادہ وقت لگ سکتا ہے، تاہم یہ بات طے ہے کہ حکومت کو اس مسئلے کو بات چیت ہی کے ذریعے حل کرنا ہے۔ مذاکرات کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو مذاکراتی کمیٹیوں کی زبان بندی سے مشروط کیا جائے، زبان بندی نہ ہونے سے افواہیں جنم لیتی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ اور دیگر اہم افراد کے مطابق حکومت اور طالبان کے مابین مذاکراتی عمل میں کسی قسم کا تعطل نہیں آیا، لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی، طالبان رابطہ کار کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی کمیٹی کے مابین رابطے کا فقدان ضرور ہے۔ فریقین میں رابطے کا فقدان مذاکرات کے لیے نقصان دہ ہے، اگر دونوں کمیٹیوں میں آپس میں مستقل رابطہ رہے تو بہت سے مسائل جلد حل ہوسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ پیر کے روز طالبان نے جنگ بندی میں توسیع کرکے مذاکرات کو مزید کامیابی کا موقع دیا ہے۔ذرائع کے مطابق نامعلوم مقام پر ہونے والے طالبان شوریٰ کے اجلاس میں طالبان دھڑے سیز فائر پر آمادہ ہوگئے ہیں، جس کا باقاعدہ اعلان ترجمان شاہد اللہ شاہد کریں گے۔طالبان شوریٰ اجلاس وزیرستان کے نامعلوم مقام پر نائب امیر شیخ خالد حقانی کے زیر صدارت ہوا، جس میں اہم کمانڈر شریک ہوئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان کی شوریٰ کے اہم اجلاس میں مختلف گروپوں نے حکومت کی جانب سے غیر عسکری قیدیوں کی عدم رہائی اور امن زون قائم نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.