اسلام لڑکیوں کی تعلیم کاہرگزمخالف نہیں مگر․․․․․

 اُف! یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم

اسلام جس طرح صنف لطیف کو دیگر حقوق بخشنے میں بالکل عادلانہ بلکہ فیاضانہ مزاج رکھتا ہے، ویسے ہی اس کے تعلیمی حقوق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ عملی سطح پر انھیں عطا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہے۔لیکن جہاں تک بات ہے خواتین کے موجودہ نظام تعلیم جو مغرب سے درآمد کردہ ہے اور جو دراصل مغرب کی فکر گستاخ کا عکاس، خاتون مشرق کو لیلائے مغرب کی طرح ہوس پیشہ نگاہوں کی لذت اندوزی کا سامان بنانے کی ہمہ گیر اور گھناؤنی سازش اور اس کی چادر عصمت وعفت کو تار تار کرنے کی شیطانی چال ہے، اس کی مذہب اسلام تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا، نیز عقل دانا بھی اس سے پناہ مانگتی ہوئی نظر آتی ہے۔یہ مغربی ہوس کاروں کی خود غرضی ہے کہ انھوں نے عورتوں سے ’’حق مادری‘‘ بھی وصول کیا اور ’’فرائض پدری‘‘ کے ادا کرنے پر بھی ان بے چاریوں کو مجبور کیا، پھر جب انھوں نے اپنی ذمہ داری کا بوجھ عورتوں پر لادنے کی ٹھان لی، تو ایسا نظام تعلیم وضع کیا،جس میں عورتوں کو مرد بنانے کی پوری صلاحیت موجود ہو، پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے خوب ارشاد فرمایا کہ: ’’تین افراد ایسے ہیں، جو کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے‘‘ اور ان تینوں میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:عورتوں میں سے مرد(مجمع الزوائد، ج:4، ص:327)دریافت کیاگیا: ’’عورتوں میں سے مرد سے کون لوگ مراد ہیں؟‘‘ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ عورتیں، جو مردوں کی مماثلت اختیار کریں‘‘ جیساکہ بخاری کی روایت ہے: علماء نے ایسی عورتوں کو جو مردوں والی تعلیم وتربیت اختیار کرتی ہیں اور پھر عملی زندگی میں مردوں کی ہم صف ہونا چاہتی ہیں، اسی وعید کا مصداق قرار دیا ہے۔

مخلوط تعلیم میں یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ ابتدائی عمر، جس میں بچے صنفی جذبات سے عاری ہوتے ہیں اور ان میں ایسے احساسات پیدا نہیں ہوتے، مخلوط تعلیم کی گنجائش ہے اورآٹھ، نو سال کی عمر تک ابتدائی درجات کی تعلیم میں تعلیم گاہ کا اشتراک رکھا جاسکتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے بے شعور بچوں کو غیرمحرم عورتوں کے پاس آمد ورفت کی اجازت دی ہے۔ لیکن جب بچوں میں جنسی شعور پیدا ہونے لگے اور ایک حد تک بھی (کلی طور پر نہ سہی) ان میں صنفی جذبات کی پہچان ہوجائے، تو ایک ساتھ ان کی تعلیم، آگ اور بارود کو ایک جگہ جمع کرنے کی مانند ہے اور اس کا اعتراف (گودیر سے سہی) آج یورپ وامریکہ کے بڑے بڑے ماہرین نفسیات وحیاتیاتِ بشری کررہے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے لکھا ہے کہ عورت اور مرد میں کشش جنسی بالکل طبعی اور فطری ہے اور دونوں جب باہم ملیں گے اور کوئی مانع نہیں ہوگا، تو رگڑسے یکبارگی بجلی کا پیدا ہوجانا یقینی ہے۔

اسلام کا نقطۂ نظر اس حوالے سے بالکل واضح، بے غبار، ٹھوس اور سخت ہے کہ ایک مرد یا عورت کے لیے کسی غیرمحرم کے ساتھ مل بیٹھنا کجا ،ایک دوسرے کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنے کی بھی قطعاً گنجائش نہیں،پھر اسلام کا یہ نظریہ کسی خاص شعبہ حیات سے متعلق نہیں بلکہ سن شعور کو پہنچنے کے بعد سے تاحیات اس کا یہی حکم ہے؛ چنانچہ جب ہم اہل علم خواتین اسلام کی تاریخ اور ان کی تعلیم وتربیت کے طریقوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد میمون میں خود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس بات کا غایت درجہ اہتمام فرماتے کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں اختلاط کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے تاکہ یہ شیطان کی طرف سے کسی غلط کاری کی تحریک کا باعث نہ ہو۔ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو خلط ملط دیکھا، تو عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’پیچھے ہٹ جاؤ! تمہارا بیچ راستے پر چلنا مناسب نہیں لب راہ چلا کرو‘‘۔(سنن ابی داؤد،ج:2، ص:714)آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کے ادوار میں بھی عورتوں کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے عدم اختلاط کا خصوصی اہتمام رہا۔

غور کیجیے کہ مخلوط تعلیم گاہوں میں جہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ایک ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہوں، پھر دونوں کی نشست گاہیں بھی ایک ساتھ ہوں اور ان سب پر طرفہ یہ کہ سارا سراپا ’’انا البرق‘‘ کا منظر پیش کررہا ہو،تو کیا فریق مقابل اپنے ذوقِ دید اور شوقِ نظارہ کو صبر وشکیبائی کا رہین رکھے گا یا بے تابانہ اپنی نگاہوں کی تشنگی دور کرنے کی سوچے گا؟اور شیطان ایسے موقعوں پر کبھی نہیں چوکتاجب اس کا شکار پوری طرح اس کے قبضے میں آجائے۔چنانچہ معاملہ صرف دید ہی تک محدود رہ جائے، یہ ناممکن ہے، وہاں تک پہنچ کر دم لیتا ہے، جس کے بیان سے ناطقہ سربہ گریباں اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے اور اس قسم کے حادثات کوئی ضروری نہیں کہ یونیورسٹیز اور کالجز کے احاطوں ہی میں رونما ہوں؛ بلکہ رسل ورسائل اورآئے دن کے مشاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کالجز کے کلاس روم، شہروں کے پارک اور پبلک مقامات تک کی بھی کوئی قید نہیں ہے ؂
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

ایسے پر آشوب اورہلاکت خیز ماحول میں بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے، اور لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی روشن خیال بنانے کا مخلوط طریقۂ کار ہی برقرار رہا، تو ہرنیاطلوع ہونے والا سورج بنتِ حوا کی عزت وناموس کی پامالی کی خبرنو لے کرآئے گا اور پھر دنیا بہ چشم عبرت نگاہ دیکھے گی کہ وہ مقامات، جو انسان کو تہذیب وشائستگی اور انسانیت کا درس دینے، قوم ووطن کے خادم اور معاشرے کے معزز وکامیاب افراد تیار کرنے کے لیے منتخب کیے گئے تھے؛ محض حیوانیت اور شہوت رانی وہوس کاری کے اڈے بن کر رہ جائینگے۔ (الاماشاء اﷲ)

خواتین کو تعلیم دی جائے، اسلام قطعاً اس کی مخالفت نہیں کرتا؛ بلکہ اسلام تو اس کی حد درجہ تاکید کرتا ہے،لیکن یہ ملحوظ رہے کہ ان کی تعلیم وہی ہو، جو ان کی فطرت، ان کی لیاقت اور ان کی قوتِ فکر وادراک کے مناسب ہو اور ان کی عفت کی حفاظت میں ممدومعاون ہو، نہ کہ ایسی تعلیم جو انھیں زمرۂ نسواں ہی سے خارج کردے اور شیاطین والانس کی درندگی کی بھینٹ چڑھا دے، اﷲ تعالیٰ صحیح فہم کی توفیق بخشے۔ (آمین)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 671890 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More