علم کی اہمیت

منیل خان(جامعہ کراچی)
علم کی ضرورت دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نہایت اہم ہے ۔علم حاصل کرنا اور اس کو صحیح جگہ استعمال کرنا موجودہ معاشرے کا تقاضہ ہے۔علم سے انسان اپنی روح کو روشن کرتا ہے۔علم ہمیں تہذیب وتمدن سکھاتی ہے۔علم کی شمع ہی دورِ جدید میں ہماری ترقی کی زمانت ہے۔علم وہ سرمایا ہے جس کے حصول سے ہم اپنی تمام تر نسلوں کو جو تاریخیوں میں ڈوبنے سے بچا سکتے ہیں ۔صرف جدید علم ہی ترقی اور روشن مستقبل کی زمانت ہے۔ علم اندھیرے میں شمع کی مانند ہوتا ہے اور صاحب علم کے لئے باعث تسکین بھی ہے۔ مذہب اسلا م بھی ہمیں علم حاصل کر نے کی کی تلقین کرتا ہے ۔علم وہ قیمتی فریضہ ہے کہ جس کے حصول کے ساتھ انسان کی عقل وروح دونوں کو تسکیں ملتی ہے ایک حدیث سے روایت ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ علم حاصل کرو خواہ تمھیں علم حاصل کرنے لے لئے چین جانا پڑے۔مزہب اسلا م کے مطابق انسان اور علم کا بہت گہرہ تعلق ہے جیِسے اندھیروں کے بغیر اجالا۔پھول کے بغیر خوشبواسی طرح علم کے بغیر انسان بھی ادھوراہے۔انسا نیت کی شروعات علم سے ہوئی جب بچہ شعور حاصل کرتا ہے تو اسے بھی بذیعہ علم دنیاوی اور دینوی چیزوں سے روشناس کرایا جاتا ہے علم کی بدولت ہی انسان کو جانورون پر فوقیت حاصل ہوتی ہے اور اسی بنیاد پرانسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔

جب حضور اکرم ﷺ پر وہی نازل ہوئی تو آپ ﷺ کو سب سے پہلے اقراء کا لفظ سیکھایا گیا جس کے لغوی معنی پڑھ کے ہیں۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مذہب اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے علم کی اہمیت پر توجہ دی ۔

پاکستان میں جہالت کی ایک جھلک بہت ہی قابلِ شرم ہے۔ پوری دنیا میں خواندگی کی شرح اگر دیکھی جائے تو یورپی ممالک میں شرح کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔اسی طرح پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی شرح خواندگی ۷۴ فیصد جبکہ چین کی شرح خواندگی ۹۳ فیصد ہے جو کہ پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا۔پاکستان کی شرح خواندگی ۲۰۱۲ کے تحت ۶۹ فیصد تھی۔اس سے صاف صاف نظر آرہا کہ پاکستان میں تعلیمی مسٗلہ آج کا نہیں بلکہ ملکی قیام سے چلا آرہا ہے۔پاکستان کے محتلف شہروں میں شرح خوانگی کو دیکہا جائے تو اسلام آباد ۹۴ فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر اور پھردوسرے نمبر پر کراچی ۷۷ فیصد شرح خواندگی پر اور لاہور ۷۴ فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی رپورٹ ۲۰۱۲کے مطابق پاکستان میں ناخواندہ افراد کی شرح ۷۹فیصد ہے اور شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان نمبر دنیا میں ۱۸۰ نمبر پر آتا ہے۔پاکستان کے سرکاری خبر رساٗء ادارے اے۔پی ۔پی کے مطابق ۲۰۱۲ کی رپورٹ میں ۲۲۱ ممالک میں عوام کی تعلیمی صورتِ ہال کا جائزہ اپنی رپورٹ میں پیش کیا جس کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ ناخواندہ افراد کی عمر ۱۵ سے ۲۴ کے درمیان ہے اور اس عمر کے ۷۲ فیصد افراد زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہیں۔ مزید اس میں بتایا گیا ہے کہ۲۵ سے ۴۰ برس کے افرد میں ناخوندگی کی شرح ۵۷ فیصد اور ۴۵ سے ۵۴ برس کے افراد میں ۴۶ فیصد ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی ۵۵ سے ۶۴ برس عمر کے افراد مٰن پائی گئی۔جن میں ۶۲ فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔اور خواندگی کی شرح سب سے کم ۳۸ فیصد تھی۔

یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق شرح خواندگی کے حوالے سے پاکساتن جنوبی ایشیاء میں صرف افغانستان اور بنگلہ دیش سے اوپر رہا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ۲۰۱۲میں ۷۱ لاکھ طلبہ اسکول اور کالج جارہے تھے جن میں سے ۲۹ لاکھ بچے پرائمری اسکول اور ۲۶ لاکھ سیکینڈری اسکول اور ۱۵ لاکھ کالج یا یونیورسٹی میں زیر ِ تعلیم تھے۔

یونسکو کے مطابق اس ملک میں ۳ فیصد بچے ہی ایسے ہیں جوکالج تک پھنچتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک فیصد ہی گریجوئشن کی سطح پر تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔اسکے بر عکس پاکستان میں ۷۵ فیصد طلبہ وطالبات نے میٹرک سے قبل ہی تعلیم کو خیر ِ باد کہا۔صوبہ بلوچستان اور سندھ میں ۳ سے ۵ برس عمر کے بل ترتیب ۷۸ اور ۷۲ فیصد ہچے اسکول نہیں جاتے دوسری جانب حکومت خواندگی بڑھانے کی کوشون سے مخلص ہونے کا دعویٰ بھی کرتی رہتی ہے اور صوبہ پنجاب میں تو حکومت نے ۱۰۰ فیصدی مہم کا آغازبھی کر رکھا ہے۔پاکستان کے حکمرانون کی پالیسی اور کار کردگی تسلی بخش نظر نہیں آتی۔

ہم یہ بات تو بڑی آسانی سے بول دیتے ہیں کہ حکومت ان تمام مسئلوں کی زمہ دار ہے مگر اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان مسئلوں میں ہرشخص کا اپنا پنا ایک اہم کردار ہے ۔ اس بات پررونا تو ہے کہ اسکول نہیں ہیں کالج نہیں ہیں مگر دیکھا جائے تو جوتعلیمی ادارے موجود ہیں ان میں اکثر طالب علم بھی نہیں آتے ،لائبریاں تو بہت ہیں مگر اب ہمیں لائبریریاں کہاں یاد آتی ہیں کمپیوٹر جو آگیا ہے۔یاد رکھو جو علم کتابوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے وہ علم کبھی بھی کمپیوٹراور انٹرنیٹ سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔اگر تعلیم کی اہمیت کو سمجھا جائے ،پھر چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی ، ان تمام مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے تو علم کو پروان چڑھانا ہوگا۔انفرادی حیثیت سے ہم سب کو اپنی اپنی زمہ داری کو سمجھنا ہوگا ۔کسی پر بھی الزام لگانے سے پہلے اپنا گیریباں ضرور دیکھ لیں کے آپ کا کیا کردار رہا ہے تعلیم کے حصول کے معاملے میں جہاں حکومت ان تمام مسئلوں کی ذمہ دار ہے وہیں ہم سب بھی اس میں برابر کے کثور وار ہیں۔ اس سلسے میں علماء بھی بہتر اقدامات کر سکتے ہیں مساجد کو تعلیمی مراکز بنا کر تاکہ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی تدریس کا اہتمام کیا جا ئے ۔

Hafiza Hamna Khan
About the Author: Hafiza Hamna Khan Read More Articles by Hafiza Hamna Khan: 10 Articles with 8933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.