لوک سبھا انتخابات اور اپیلیں

انتخابات کے موقع پر رائے دہندگان سے اپیل ایک عام بات ہے۔حسب سابق مسلم مجلس مشاورت کی جانب سے اس کے صدر ڈاکٹر ظفرالا سلام خاں نے حال ہی میں جو اپیل جاری کی ہے اس میں بھی بنیادی بات وہی کہی گئی ہے جو مولانا ارشد مدنی ، جناب سیداحمد بخاری اور ملک و ملت کی بہی خواہ بعض دیگر شخصیات اور جماعتوں نے کہی ہے۔ مودی کی سربراہی میں بھاجپا کی جارحانہ انتخابی مہم کا اس کو ردعمل سمجھنا چاہئے کہ ہر طرف سے ایک ہی پکار سنائی دے رہی ہے- ’آمریت کو شکست دیجئے ، سیکولرزم کو تقویت پہنچائے‘۔ لیکن یہ مقصد حاصل کیسے ہو، اس میں رائے کا اختلاف ہے۔

عام مشاہدہ ہے کہ اکثر علاقائی پارٹیاں، جو سیکولر ہونے کا دعوا کرتی ہیں، سیاسی فائدے کے لئے جارحانہ ہندتووا کے علمبردار وں سے ہاتھ ملا لیتی ہیں۔ چنانچہ یوپی میں ملائم سنگھ یادو نے بابری مسجد کے قاتل کلیان سنگھ سے دوستی کرلی تھی ۔ مایاوتی نے 2002 میں گجرات کی مسلم کشی کے بعد اسمبلی الیکشن کے موقع پر گجرات جاکر مودی کی انتخابی مہم میں حصہ لیااور اب بھی یہ اعلان کرنے سے انکار کردیا کہ آئندہ لوک سبھا الیکشن کے بعد وہ ان ڈی اے میں شامل نہیں ہوجائیں گیں۔ گجرات مسلم کشی کے بعد نتیش کمار بھی مودی کے گن گاچکے ہیں۔ ان کی پارٹی نے اسمبلی الیکشن میں اپنے امیداور کھڑے کرکے اس بات کو یقینی بنایا کہ مودی سے ناراض ووٹ تقسیم ہوجائیں اور بہارسے آبسنے والے رائے دہندگان کے ووٹ کانگریس کو نہ ملیں۔ البتہ لالو یادو نے ہمیشہ دوٹوک بات کہی اورسنگھیوں کے ساتھ کبھی ہاتھ نہیں ملایا۔ ایسا ہی معاملہ آسام میں یوڈی ایف اور کیرالہ میں مسلم لیگ کا بھی ہے۔ یہ پارٹیاں اپنے اپنے حلقہ اثر میں اپنی سماجی خدمات کی وجہ سے عوامی اپیل رکھتی ہیں اور سبھی فرقوں میں مقبول ہیں۔ اگرچہ چند سال قبل جماعت اسلامی کے آشیرواد سے قومی سطح پر ویلفئر پارٹی کھڑی کی گئی ہے مگر اس کا کوئی ذکر حالیہ لوک سبھا الیکشن میں سنائی نہیں دیا، حالانکہ اس کی شناخت ایک سیکولر پارٹی کی حیثیت سے ہوتی ہے۔وجہ اس کی شاید یہ ہے جن لوگوں کے ہاتھوں میں اس کی زمام کار ہے وہ دانشوربھی ہیں اور مخلص بھی ہیں مگر بنیادی طور ان کا خمیرسیاسی نہیں ۔ ان کی صفوں میں اب نہ کوئی محمد مسلم ہے اورنہ شفیع مونس، جن کی سیاسی سمجھ بوجھ بہت گہری تھی۔ مشاورت نے اپنی اپیل میں کانگریس کے ساتھ لالو یاد کی آرجے ڈی، کیرالہ میں مسلم لیگ اور اصام میں یوڈی ایف کے حمایت کی ہے جو سب سیکولر ہیں
لیکن ملّی تنظیموں اور شخصیات کی طرف سے جو اپیلیں ہوئی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ واویلا میڈیا اور سیاسی حلقوں میں محترم سیداحمد بخاری کی اپیل پر مچا ہے۔ گزشتہ جمعہ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے اپیل کی تمام سیکولر ذہن والے رائے دہندگان کو متحد ہوکر کانگریس، آر جے ڈی اور ممتا بنرجی کو ووٹ کرنا چاہئے تاکہ ملک کو جارحانہ ہندوفرقہ پرستی سے محفوظ رکھا جائے، جس کی قیادت نریندر مودی کررہے ہیں۔ اس اپیل پر زیادہ توجہ شاید اس لئے گئی کہ اس سے قبل وہ سونیا گاندھی سے ملاقات کرچکے تھے۔دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بخاری صاحب جامع مسجد دہلی کے امام بھی ہیں اور ایمرجنسی کے دور سے کانگریس مخالف رہنے کے بعد پہلی مرتبہ جامع مسجد کے امام نے کانگریس کی حمایت کی۔ سیاسی حلقوں اور میڈیا میں جامع مسجد اس لئے اہم ہے کہ اس جامع مسجد کی میناروں سے ہی ایمرجنسی کے دوران، جب ہر طرف موت کا سناٹا چھایا ہواتھا، جمہوری اقدار کی بقا کے لئے پہلی آواز گونجی تھی، جس نے پورے ملک کی سیاسی فضا میں ایک طلاطم برپا کردیا تھا۔ سابق امام سید عبداﷲ بخاری ؒ کی یہ آواز صرف مسلم اقلیت کے لئے نہیں ابھری تھی، بلکہ پوری قوم کے دل کی آواز تھی اور ملک کی جمہوری آئینی نظام کے بقا کے لئے ایک غیر معمولی جرأتمندانہ اقدام تھا۔ ان کی آوازقومی مفاد میں بھی اور فرقہ ورانہ نہیں تھیم جس کا احترام اوراعتراف پورے ملک نے کیا تھا۔ موجودہ امام سید احمد بخاری کی اپیل بھی اسی کی بازگشت ہے۔ انہوں نے صرف مسلمانوں کو نہیں پکارا ۔نہ یہ اپیل مسجد کے ممبر سے بھی جاری کی بلکہ ایک پریس کانفرنس میں جاری کی اورپوری قوم کے نام جاری کی۔

بھاجپا نے سیکولر برادران وطن پر اس اپیل کا توڑ کرنے کے لئے اس کو فرقہ روانہ رنگ دے دیا اور اس کے ردعمل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ یہ دھمکی بھی دی کہ سونیا گاندھی کی بخاری صاحب سے ملاقات اور اس کے بعد سیکولر ووٹوں کے متحد ہوجانے اپیل کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا جائیگا ، مگر اس میں کیونکہ انتخابی ضابطہ کی کوئی خلاف ورزی نہیں تھی، اس لئے اس دھمکی پرعمل نہیں کیا گیا۔ بھاجپا کی دیدہ دلیری دیکھئے، خود اس کی صفوں میں رام دیو، اوما بھارتی اور آدتیہ ناتھ، سر ی سری اور نجانے کتنے نام نہاد سادھو سنت ہے، مگر اس کو اعتراض اس پر ہے کہ سونیا ایک امام سے کیوں ملیں؟ شاید تکلیف اس بات سے ہے ان دونوں کا تعلق اقلیتی فرقوں (عیسائی اور مسلم ) سے ہے اور بھاجپا اقلیت دشمن ہندوؤں کی بالادستی چاہتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے جن رائے دہندگان کو اس ملک کا آئینی اور جمہوری نظام عزیز ہے ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ جارحانہ ہندوفرقہ پرستی کے علمبرداروں کے خلاف ووٹ کریں اور شکست دیں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو تمام مسلم تنظیموں اور شخصیات نے اپنی اپیلوں میں ابھارا ہے۔

عام آدمی پارٹی
البتہ ’عام آدمی پارٹی‘ کی موجودگی اور بشمول مشاورت بعض مسلم تنظیموں کی طرف سے اس کے حق میں اپیل سے صالح فکر رائے دہندگان کے ذہنوں میں ایک ابہام پیدا ہورہا ہے۔ اس پارٹی کے لیڈروں کی تلون مزاجی اور دہلی میں اقتدار سے فرار نے اس کو ناقابل بھروسہ بنادیا ہے۔ دہلی میں تو یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ اگر 1984کے سکھ مخالف فساد کی جانچ کے لئے کیجریوال سرکار جانچ کمیشن بنانے کی سفارش کرسکتی تھی تو پھر بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی جانچ کا مطالبہ کیوں مسترد کردیا اور مظفرنگر کے واقعات پر پارٹی خاموش کیوں رہی؟ نیز یہ کہ اپنے امیداور اس طرح کیوں کھڑے کررہی ہے جس سے فائدہ بھاجپا کو پہنچے؟ مثلاً لکھنؤ میں جاوید جعفری کو کھڑا جانا تاکہ جعفری ایک مسلم فرقہ کے ووٹوں کو راغب کرلیں اور راجناتھ سنگھ کا راستہ صاف ہوجائے۔ بیشک کیجریوال نے بنارس سے مودی کے خلاف پرچہ داخل کیا ہے ، مگر یہ بھی رائے دہندگان کو مغالطہ دینے کا حربہ نظرآتا ہے کیونکہ وہ خود وہاں موجود نہیں اورنہ ان کی انتخابی مہم ایسی چل رہی ہے جس مودی سے مقابلے کے لئے مطلوب ہے۔ زیادہ زیادہ یہ ہو گا کہ سیکولر ووٹ بٹ جائے گا جس کا فائدہ مودی کو پہنچ جائیگا۔ہمیں یہ بھی نہیں بھول جانا چاہئے کہ انا ہزارے کی جس کرپشن مخالف مہم سے اس پارٹی کا جنم ہوا اس کی پشت پر بھی آرایس ایس تھی ، اور یہ پارٹی بھی علاقائی پارٹیوں کی طرح سیکولر ووٹوں کو تقسیم کررہی ہے۔ اس لئے ناقابل بھروسہ ہے۔

ایک ہی راستہ
ہمارے خیال سے صاف ذہن رائے دہندگان، خصوصاً مسلم رائے دہندگان کو انہی خطوط پر اپنے ووٹ کا فیصلہ کرنا چاہئے جن کی نشاندہی جناب سید احمد بخاری اور ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے کی ہے اور ذات برادری ، مسلک و فرقہ سے بلند ہوکر ملک کے مجموعی قومی مفاد میں ووٹ کرنا چاہئے۔

بھاجپا کا انتخابی منشور
یہ تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کسی سیاسی پارٹی نے اپنا انتخابی منشور اس دن جاری کیا جب پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہورہی تھی۔ اس منشور پر تبصر ہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید جمیل نے بجا طور پر لکھا ہے کہ اس نے مودی کے ’ترقی ‘کے ایجنڈے کے غبارے کی ہوا نکال دی ہے اور فرقہ پرستی کے جس ایجنڈے کوآگے کیا ہے اس کے نتیجہ میں ملک بھر میں فتنہ و فساد، اقلیتوں میں اضطراب، فرقہ ورانہتنازعات اور دہشت کے ماحول کی داغ بیل پڑ گئی ہے۔ یہ تبصرہ اس لئے درست ہے کہ منشور میں یکساں سول کوڈ، اجودھیا میں مسجد کی جگہ پر مندر اور جموں و کشمیرکے ہند سے الحاق کی بنیاد دفعہ 370کو پھر نشانہ بنایا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں گائے اور اس کی نسل سے فرسود پیار کا راگ پھر الاپا گیا ہے اور اس کو زرعی معیشت کی اہم کڑی بتایا گیا ہے حالانکہ عرصہ ہوا بیلوں سے چلنے والے رہٹ ،گاڑیوں اور ہلوں کا زمانہ ختم ہوا۔ ان کی جگہ ٹریکٹر، ٹرالی، واٹر پمپ اوردیگر مشینوں کا دورآگیا۔ دودھ کے لئے بھی گائے پر بھیس کو ترجیح دی جاتی ہے۔گائے کا معاملہ صرف مذہبی جذباتی رہ گیا ہے۔

خطرناک ارادہ
منشور میں یہ خطرنا ک اعلان بھی کیا گیا ہے نیوکلیائی اسلحہ کے استعمال پہلے نہ کرنے کے اصولی موقف پر نظر ثانی کی جائیگی ، جس کا مقصد پڑوسی ممالک کو دھونس دینا ہے۔ خارجہ پالیسی سے یہ جارحانہ چھیڑ چھاڑ دیگر عالمی طاقتوں سے رشتوں میں گھٹاس پیدا کریگی۔

مودی کے وعدے
منشورجاری کرتے ہوئے مودی نے تین مغالطہ آمیزیقین دہانیاں کرائی ہیں۔ اپنے لئے کچھ نہیں کرونگا، جو ذمہ داری سپرد ہوگی وہ پوری لگن اور محنت سے ادا کرونگا، اوربری نیت سے کچھ نہیں کرونگا۔ ہمارے یہاں جو شخص ایک بار وزیر اعلا بن جاتا ہے اس کو اپنے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ رہائش، نوکر ، چاکر، علاج معالجہ اور گھر کے لئے معقول خرچ سرکاری خزانے سے ملتا ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے وہ جوکچھ بھی کرتے ہیں پوری لگن، محنت اور چابکدستی سے کرتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے 2002میں کردکھایا۔پہلے گودھرا ہوا اور پھر پورا گجرات بے بس گجراتی مسلمانوں کے لئے قتل گاہ بن گیا۔جو چاہاہوا، مگر ان کی خلاف کوئی ثبوب عدالت تک نہیں پہنچا۔ رہا نیت کا سوال تو بھاجپا اور سنگھ کی نیت کیا ہے وہ اس منشور سے ظاہر ہے۔ وہ اقلیتوں کے ان کے اس آئینی حق سے محروم کردینا چاہتی ہے جس کے تحت ان کے عائلی معاملات ان کے قانون شریعت سے طے ہوتے ہیں۔ اسی کا نام یکساں سول کوڈہے۔ آئین کی دفعہ 370کو کالعدم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وادی میں غیر کشمیریوں کے جابسنے کا راستہ کھل جائے تاکہ وہاں کو آبادی کا تناسب حسب مرضی بدلا جاسکے۔اور رام مندر کا نعرہ اس لئے لگایا جارہا ہے 1992کی طرح پھر ملک بھر میں فساد بھڑکیں اور مودی پورے ملک میں گجرات کو دوہرا سکیں۔

ایک اندازہ
ہمیں اس میں کوئی شک نظر نہیں آتا کہ اربوں روپیہ خرچ کرکے بھلے ہی پورے ملک میں مودی کی ہوا بنانے کی کوشش کی گئی ہو، مگر وہ وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ البتہ اگر این ڈی اے کی سرکار بنی تو ان کو وزیرداخلہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ صورت بھی کم تباہ کن نہ ہوگی۔

افغانستان میں چناؤ
گزشتہ ہفتہ ، 5مارچ، افغانستان میں بالغ رائے دہی کے اصول پر صدارتی چناؤ ہوا۔ مقابلہ آٹھ امیدواروں کے درمیان ہے جن میں ایک خاتون حبیبہ سروہی بھی ہیں جو بامیان صوبے کی گورنر رہ چکی ہیں۔ خبروں کے مطابق اصل مقابلہ سابق وزیر خارجہ عبد اﷲ عبداﷲ اور اشرف غنی آصف زئی کے درمیان ہے۔خود کش حملوں کی دھمکی ، سردی اور بارش کے باوجود رائے دہندگان کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ بعض سنٹروں پر بیلٹ پیپر کم پڑ گئے اورمزید آجانے تک عورتوں اور مردوں نے صبر کے ساتھ دیر تک قطاروں میں انتظار کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب ملک میں اقتدار کی منتقلی پرامن رائے دہیسے ہوگی۔اندازہ یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں کسی کو مقررہ 50 فیصد ووٹ نہیں ملیں گے اور دوسرے دور کی پولنگ بھی ہوگی۔ جس کی وجہ سے نتائج مئی تک آئیں گے۔ جنگ و جدل کے مارے اس خطے کے لئے یہ خوشگوار تبدیلی ہے اور اس سے دیگر ممالک کو بھی سبق لینا چاہئے جو جمہوریت کے قائل نہیں ہیں۔

کریمیا اور یوکرین
یوکرین میں عرصہ سے بدامنی چل رہی ہے۔ اس دوران روس کی شہ پر اس کی ایک ریاست کریمیا میں ریفرنڈم کا ڈرامہ رچا گیا اور اس کے نتیجہ کا حوالہ دیکر روس نے اس کو اپنے اندر جذب کرلیا۔ جس سے روس اور مغربی طاقتوں میں ایک مرتبہ پھر سر د جنگ چھڑ گئی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے ریفرنڈم کے ذریعہ ایک ملک سے الگ ہوکر دوسرے ملک میں ضم ہوجانے کی ہندستان نے بھی تائید کردی ہے۔ اس کا اثر ملک میں جاری ایسی ہی تحریکا ت پر کیا پڑتا ہے؟ دیکھنا ہوگا۔

حکیم سیف الدین کا انتقال
سعودی سفر سے واپسی پر اطلاع ملی کہ ملک کے ممتاز یونانی طبیب پدم شری حکیم سیف الدین احمد کا 11مارچ کو ان کے آبائی شہر میرٹھ میں انتقال ہوگیا۔ان کی عمر 88سال تھی ۔ وہ متحدہ ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کی زریں علامت تھے ۔نہایت خوش اخلاق، ملنسار اور خورد نواز بزرگ تھے۔ان کے والد ماجد حکیم فصیح الدین رنج ؔاور دادا حکیم محمودا لحق اپنے دور کی بڑی ممتاز شخصیات گزری ہیں۔ چند ماہ قبل سیدعاصم علی سبزواری اور اب حکیم سیف صاحب کی وفات سے میرٹھ اس نسل کے خالی ہوگیا جس نے آزادی سے قبل اور اس کے بعد کے پرآشوب دور میں اپنے اپنے طریقے سے عوام کی خدمت کی۔ ہم مرحوم کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور ان کے صاحبزادگان ڈاکٹر سراج الدین ،ڈاکٹر معراج الدین اور تمام متعلقین سے تعزیت پیش کرتے ہیں۔(ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.