زندگی کے بہترین دن

میں اپنے نوجوانوں کو جب اپنی زندگی کے بہترین دن فضول قسم کے کاموں میں ضائع کرتے دیکھتی ہوں تو بہت دُکھ ہوتا ہے اِس عمر میں اِنسان پہاڑ توڑ سکتا ہے ۔ کیوں کہ جوش ،ولولہ اُمنگ ،ہمت ہر جیزبے بہا ہوتی ہے۔ اس عمر میں انسان کسی چیز سے نہیں ڈرتا ۔

لیکن ہم اپنے بچوں کو گلیوں میں آوارہ گردی کرتے یا سارا سارا دن ساری ساری کمپیوٹر اور موبائیل کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے دیکھتے ہیں اور کر کچھ نہیں سکتے ۔کیوں کہ جو بچے والدین کا کہنا نہیں مانتے وہ دوسروں کی بات کی کیا پرواہ کریں گے۔

اکثر پروگرام میں کہا جاتا ہے کہ آج کل کے ماں باپ بچوں کو ہر چیز دیتے ہیں لیکن اپنا وقت اُن کو نہیں دیتے بچوں سے دُور رہتے ہیں یہ بات کسی حد تک تھوڑی ٹھیک ہے کیوں کہ میں تو ایسے ہزاروں بچوں کو جانتی ہوں۔جو والدین کی بات ہی نہیں سُنتے ۔اگر سختی سے کمپیوٹر بند کرنے کو کہہ دو کہ ہر وقت اِسی کے سامنے بیٹھے اس کی پوجا نہ کرتے رہا کرو ۔ تو وہ پھر گھر سے باہر نکل جاتے ہیں۔ اور باہر کیا کچھ ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اس لیے بے بس والدین پھر جب بچے کمپیوٹر اور موبائیل وغیرہ وغیرہ کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور انہیں کھانے سونے کسی بات کا ہوش نہیں ہوتا پھر بھی والدین چُپ رہتے ہیں کہ چلو ان کے بچے باہر تو نہیں آوارہ گردی کررہے ان کی آ نکھوں کے سامنے ہیں۔

پہلے بچے جب فارغ ہوتے تو اپنی الماری صاف کرلیتے اپنی کتابیں ٹھیک کرتے۔ بعض بچے ماں کے ساتھ گھر کا کام بھی کرتے ۔ کام کرکے ٹی۔وی دیکھنے بیٹھتے یا کوئی اور تفریح کرتے لیکن یہ تب ہوتا تھا جب باپ کاڈر ہوتا کیوں کہ ماں کی پرواہ تو کوئی کرتا ہی نہیں ۔آج کل باپ نے بچوں پر رعب رکھتا چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے بچوں کا جو دل چاہتا ہے وہ کرتے ہیں اور دل تو ہر وقت کھیل تماشا کرنے کو چاہتا ہے سو آج کل کے بچے زیادہ تر جوان سب ہر وقت تفریح میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ہمارا بھی بچہ بچہ کا م کرے اور ہر وقت آرام نہ کرے تو ہم بھی دُنیا کی عظیم اور محنتی قوموں میں شمار ہونے لگیں ۔

تُم اتنا سب کچھ کمپیوٹر پر دیکھتے ہو کبھی قرآن پاک کا ترجمہ بھی کمپیوٹر پر ہی پڑھ لو ۔ حدیث پاک پڑھ لو ۔ اپنی تاریخ اسلام پڑھ لو ۔24 گھنٹو ں میں تھوڑا وقت اُس کے لیے بھی نکال لو جس نے تمہیں پیدا کیا۔ ہاتھ پاؤں آنکھیں دل ہر چیز دی اگر زبان نہ دیتا یا تُم سُن نہ سکتے یا دیکھ نہ سکتے یا چل نہ سکتے تو کیا ہوتا ۔ تُم اپنے آس پاس ایسے لوگوں کو دیکھتے ہو اور بیمار لوگوں کو بھی دیکھتے ہو۔

تو کیا ایسے لوگوں کو دیکھ کر بھی تُم اﷲ کا شُکر ادا کرنے کیلئے سجدے نہیں گرتے کہ اﷲ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں اس آزمائش میں نہیں ڈالا اور جن کو ڈالا ہے اُن کو بہت دے اور اُن کو صحت دے ۔

انسان یہ مت بھولے کہ اﷲ جس وقت چاہے جو چاہے چھین سکتا ہے۔ اسی لیے اس سے ہر وقت تو بہ کرتے رہنا چاہیے اور شکر ادا کرتے رہو۔

یہ جسے تُم تو جوانی کہتے ہو یہ اﷲ نے تمہیں اس لیے نہیں دی کہ تُم لڑکیوں کیلئے ضائع کردوایسے سہنری دن۔ کبھی تُم انہیں بے وقوف بناؤ اور کبھی لڑکیاں تمہیں الو بنا جائیں۔

تمہیں پتہ ہے بہترین جوانی وہ ہے جس میں بڑھاپے کے آثار ہوں اور بدترین بڑھاپاوہ ہے جس میں جوانی کے آثار ہوں۔ نوجوانی کی عبادت کا ثواب بھی زیادہ ہے ۔

انسان کو نہ جانے کیوں اﷲ کی عبادت کرتی کیوں مشکل لگتی ہے ۔ اور اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اﷲ کو راضی کرتا بڑا مشکل ہے لیکن میں کہتی ہوں کہ اﷲ کو خوش کرنا ہی آسان ترین کام ہے ۔

ہم دن رات اس کو شش اور سخت محنت کرتے ہیں کہ ہمارے رشتے ہم سے خوش رہیں (ماں باپ ،شوہر ، بیوی بچے وغیرہ)لیکن کوئی آپ سے خوش نہیں ہوتا لیکن اﷲ کی ہم ٹوٹی پھوٹی عبادت کرلیں اور اﷲ کی مخلوق کا دل نہ دُکھائیں اﷲ کے بندوں کے ساتھ کچھ بُرانہ کریں تو اﷲ خوش اور کوئی غلطی ہو بھی جائے تو سچے دل سے معافی مانگو تو معافی بھی فوراًمل جاتی ہے لیکن آپ کے اپنے آپ کو کس بھی قسمت پر معاف نہیں کرتے ۔

رشتوں کا بھی خیال کیجیے اور صرف اپنوں کا ہی خیال نہ کریں بلکہ اﷲ نے جو کہا ہے اُسے بھی یاد رکھیں۔
تُم آج کل کے بچے تو 18 سال میں یا میڑک کے تے ہو یا ایف ۔اے لیکن پہلے زمانے میں بچہ 18سال کی عمر میں ریاضی فلکیات قرآن حدیث ،فقہ ، ترجمہ،تفسیر، تلوار بازی ، نیز ہ بازی گھوڑا سواری وغیرہ غرض اپنے زمانے کے رابئع علوم وہنر سب سیکھ لینا تھا اور پھر اُس کی شادی بھی ہوجاتی تھی اور اس طرح وہ پھر معرکے سر کرنے کیلئے نکل پڑتا تھا ۔ تاریخ میں اپنا نام زندہ رکھنے کیلئے وہ بڑے سے بڑا کارنامہ کرنا چاہتا تھا ۔

آج ہم لوگوں نے دوسروں کو کارنامے انجام دینے کیلئے کھل میران دیا ہوا ہے کہ جاؤ اور نئی نئی ایجاد کرو۔ ہم تمہاری بنائی ہوئی چیزیں استعمال کرے گے ۔ اور ساری رات سارا دن بیٹھے فون کریں گے اور اگر باپ امیر ہے تو کمپیوٹر وغیرہ پریہ اپنے قیمتی سا ل ضائع کریں گے ۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم دوسروں کے ہیرو کی نقل کرتے ہو اور انہی کی طرح لباس، بال ،بولنا ،چال غرض ہر چیز کی ویسی ہی نقل کرتے ہوکہ لوگ کہیں کہ دیکھو وہ اُس ہیرو کی طرح لگتا ہے ۔ لیکن صدافسوس کی بات ہے کہ ہمارے طور طریقو ں سے کسی طرح بھی نہیں لگتا کہ ہم مسلمان ہیں۔ ویسے ہم حضورﷺ سے محبت کے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کی کوئی بات نہیں اپنا تے جِسے دیکھ کر کوئی کہہ سکے کہ یہ حضورﷺ کے چاہنے والے ہیں۔ یہ کیسی محبت ہے۔ اگر کوئی کسی کو یہ کہے کہ یہ بُرا انسان فلاں کا بیٹا ہے تو آپ کو دُکھ ہوگا کہ لوگ میری وجہ سے میرے باپ کو برُا کہہ رہے ہیں تو آپ اچھا بنے کی کوشش کروگے ۔

لیکن جب لوگ مسلمانوں کو دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ کیسے مسلمان ہیں جو جھوٹ ،دغا ، فریب ، دیتے ہیں عورتوں پر ظلم کرتے ہیں چاہے ان پر تیزا ب پھینک دو یاگھر سے باہر نکال دیتے یا کسی بہانے سے قتل کردیتے ہیں۔ یہ اسلام ہے یہ کیسا دین ہے ۔ تو ذرا سوچو ہمارے پیارے نبیؐ پر کیا گزرتی ہوگی۔

ہم اُن کے لائے ہوئے اسلام کی کیسی تصویر دُنیا کو دکھا رہے ہیں میں اکثر کہتی ہوں کہ غزوہ اُحدمیں صحابہ کرام ؓ نے حضورؐ کی ایک بات نہیں مانی تھی۔ تو ان کو کتنا نقصان ہو ا تھا ۔

لیکن ہم تو حضوؐر پاک کی کوئی بات مانتے ہی نہیں اور تمنا یہ ہے کہ دُنیا ہمارے تابع ہوجائے جیسے پہلے مسلمانوں کو تابع تھی ۔

اگر ہم حضوؐر پاک کے بتائے راستے پر چلنے لگیں جو اﷲ نے ان کو بتایا اور انہوں نے ہم تک پہنچایا ۔ تو پھر ہوائیں بھی ہمارے تابع ہو جائیں گی۔

ہم تو ایسے ناشکرے ہیں کہ اﷲ نے جو ہمیں ایک مکمل صحت مند انسان بنایا ہم اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔
اچھے انسان بنے کی کوشش کرو ۔ اس سہنرے زمانے کو یوں ضائع نہ کرو اِدھر اُدھر نہ گھومو۔

تُم کو پتہ ہے کہ اﷲ نے انسان کو مٹی سے کیوں بنایا ۔

اس لیے کہ مٹی میں خزانے چھپے ہیں یہ تو حقیقت ہے لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ اگر مٹی پر محنت نہ کرو تو اس سے کچھ نہیں ملتا۔ وہ بنجر ویران اور خار دار چھاڑیوں ہی سے بھری رہتی ہے اور جو اُس کسے پاس سے گزر بھی جائے تو وہ اُس کا دامن بھی تار تار کردیتی ہیں انسا ن بھی مٹی سے بنا ہے اس لیے اُس پر بھی محنت کرنی پڑتی ہے ہم جتنی محنت اپنے آپ پر محنت کریں گے اُنتے ہی اچھے انسان بنے گئے اور لوگوں کو نفع دیں گے ۔
زمین پر بھی جتنی محنت کروگے اتنی اچھی فصل ہوگی اور اتنا نفع ہوگا ۔

لیکن اب ہم لوگ نہ تو اولادپر محنت کرتے ہیں اور نہ ہم خود اپنے کردار کو سنوارنے پر محنت کرتے ہیں۔ ہم سارا قصور والدین کے سر لگا کر خود کو بے قصور نہیں کہہ سکتے ۔ جب تُم نوجوانوں کو ہر بات کا پتہ ہے جو کچھ دُنیا میں ہوتا ہے تو اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور نہ جانے کی تمنا کرتے ہو۔یہ جو تُم کھوئے کھوئے بکھرے بکھرے پھرتے رہتے ہو اور ان شیطانی آلات (کمپیوٹر ، موبائیل C.Dوغیرہ) میں سکون تلاش کرتے ہو۔

تو سچ سچ بتانا کیا سکون جیسی دولت ملتی ہے نہیں بالکل نہیں۔ بلکہ اور زیادہ بے چین ہوجاتے ہو اور برائیوں کی دلدل میں گز جاتے ہو ۔ کیونکہ دلوں کو سکون تو صرف اﷲ کی یاد ہی سے ملتا ہے ۔ اور اﷲ کو یاد کرنا ہم لوگوں کو بڑا مشکل لگتا ہے ۔ تو ویسے ہی بیٹھے اﷲ کا نام لے لیا کرو ۔ درود شریف پڑھ لیا کرو۔ تیسراکلمہ نہیں آتا تو پہلا کلمہ ہی بڑھ لیا کرو۔

جو بھی قرآن کی سورۃ زبانی آتی ہے وہ پڑھ لو۔ بس اﷲ کو دن میں اتنی بار تو یاد کرلو۔ جتنی بار اُس کا دیا ہوا رزق کھاتے ہو اور جتنی دیر اُسے کھانے میں لگاتے ہو۔ اُتنی دیر اﷲ کا ذکر کر لیا کرو۔ اور بعد میں دُیا ضرو ر کیا کرو کہ اﷲ مجھے سیدھے رستے پر چلا اور میرے گناہ معاف کردے اور تیری ہر نعمت کا ہزار بار شکر ہے ۔

تُم دیکھو گے کہ تمہیں کتنا سکون ملے گا اور کچھ ہی عرصے میں تُم خود وضو کر کے نماز کی طرف جاؤ گے ۔

تُم آہستہ آہستہ دین کی طرف آؤ ۔ جیسے آہستہ آہستہ اسلام کے احکام نازل ہوئے تھے ۔

مجھے اکثر سہلیاں کہتی ہیں کہ تُم بچوں کو یہ کیوں کہتی ہوں کہ ٹی وی گانے کمپیوٹر وغیرہ سب کھیلو لیکن نماز بھی پڑھو۔

اسلام میں گانا یہ ڈانس دیکھانا سب منع ہے ۔ تُم انہیں اسلام میں پورا پورا لے کر آؤ ۔

تو میں کہتی ہوں ۔ بچوں کو اﷲ کی طرف آنے تو دو۔ اﷲ کی طرف ایک ہاتھ بڑھانے تو دو۔ پھر اﷲ تعالیٰ خود ہی ان کو سیدھے راستے کی طرف لے جائیں گے ۔

جب ان کو سکون ملے گا بے چینی ختم ہوگی تو وہ اﷲ کو اور یاد کریں گے ۔ یہ بچے بے چین ہی ہوتے ہیں تو پھر ان شیطانی آلات میں اپنا سکون تلاش کرتے ہیں سارا سارا دن کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہنا اور اپنا دل لگانا ۔ہم ان کو سیدھا رستہ نہیں دکھاتے ۔ آسان راستہ ۔ مشکل راستے بناتے ہیں ایسے جسیے اسلام تفریح کرنے سے روکتا ہے ۔

ایسی بات نہیں ہے ۔ تُم نوجوانوں خود اسلام کو پڑھو ۔ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھو۔ حدیث کی کتابیں پڑھو یا ویب سائٹ دیکھو 24 گھنٹوں میں ایک گھنٹہ اسلام کے بارے میں جانے کی کوشش میں لگا دو ۔ مجھے اپنے اﷲ پر یقین ہے کہ وہ ہمارے دل سے اِن ساری فضول چیزوں کا شوق نکال دے گا اور تمہیں سیدھے اور آسان راستے کی طرف لے جائے گا۔

تُم اسلام کو مشکل نہ سمجھو ۔ اور مسلم گھرانے میں پیدا ہوکر اپنے آپ کو مسلمان نہ سمجھو ۔ ہم تو غیر مسلم لوگوں سے بھی زیادہ گناہ گار ہیں ۔ نہیں یقین آتا تو دیکھ لو ۔ کیا ہمارے ملک جیسا کوئی غیر مسلم ملک ہے۔ ظلم کی انتہا ہے۔ ان ظلموں کو لکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔

ہمارے ہاتھ سے کسی کی جان ،مال ، عزت ، محفوظ نہیں۔ تُم نیک بن جاؤ اور تاریخ میں اپنا نام سہنرے حروف سے لکھوا جاؤ۔

آنے والے لوگ (ہمارے دور میں جو کچھ ہو رہا ہے ) ہمیں بہت برُے الفاظ میں یا د کریں گے ۔

ہم امریکا کی بات کرتے ہیں وہاں لوگ 18-18 گھنٹے کام کرتے ہیں اور بے ایمانی نہیں کرتے۔ اسی لیے وہ حکمرانوں کو بھی بے ایمانی نہیں کرنے دیتے ۔

ہم ہر وقت آرام کرتے ہیں اور اگر کا م کرنا پڑ ہی جائے تو بے ایمانی شروع۔ ہم کوئی کام ایمان داری سے نہیں کرتے اور ہر وقت ہر دور میں حکمرانوں کو بے ایمان کہتے ہیں ۔

ہمارے ملک میں 60 سال کے بعد مرد عورت کا م نہیں کرتے ۔بچے کام نہیں کرتے نوجوان فارغ ، لڑکیاں فارغ بس گھر کا سر براہ کا م کرتا ہے یا ماں گھر کے کام کرتی ہے ۔ باقی سب آرام کرتے ہیں تفریح کرتے ہیں ۔ ایسی قوم کیا ترقی کرے گی ۔

ہم کام کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔ اپنے گھر کی صفائی کرنے سے ہماری شان میں کمی آتی ہے ۔ دن رات ہماری نوجوان نسل ٹی ۔وی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی بیٹھی نہیں تھکتی ۔ ہم مسلمان ہیں مسلمان یو ں بے کا رزندگی نہیں گزارتا ۔

اب ہم کو یہ راگ الاپنا چھوڑ دینا چاہیے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں بلکہ اب ہر ایک کو یہ کہنا چاہیے کہ ہم ہی سب کچھ کر سکتے ہیں۔

امیر نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا ۔ یہاں بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہو۔ کیا آخرت کیلئے جنت میں کوئی گھر نہیں بنانا۔ لوگوں کے کام آؤ لوگ تمہیں رہتی دُنیا تک یاد رکھیں گے۔

جہاز کا حادثہ ، بم دھماکے کسی قیامت سے کم تو نہیں ۔پھر پتہ نہیں کب قیامت آجائے 80 فی صج قیامت کی نشانیاں پوری ہوچکی ہیں جنتی جلدی ہوسکتے نیک کام کر لو ۔

ذرا سوچو یہاں امیر ہو یا غریب گھر کتنی مشکل سے بناتے ہیں ۔ ہر وقت سر پر کھڑے ہونا پڑتا ہے دھیان رکھنا پڑتا ہے ۔ یہاں یہ لگانا ہے وہاں یہ کرو ۔ کتنا مشکل کام ہے ہر کسی کیلئے ۔ بس فرق اتنا ہے کہ امیر کو روپے کا مسلہ نہیں ہوتا باقی مسلے سارے وہی لیکن آخرت میں جنت میں بنا بنایا گھر ملے گا اور اس کیلئے یہاں صرف اتنا کرنا پڑے گا کہ اﷲ کی دی ہوئی دولت سے اس کے بندوں کو دے دو۔ اگر کھانا دے سکتے ہو تو دے دو۔ اگر کپڑے دے سکتے ہو تو وہ لے کر دے دو اور اگر ایک یاد و کمرے کا گھر بنا کر دے سکتے ہو تو کسی ایسے غریب کو گھر بنا دو جو ماں باپ کو بھی پال رہا ہو ۔ جس نے اپنی بہنوں کی بھی شادی کرنی ہو اور اس کے اپنے بھی بچے ہوں ۔ کیونکہ میں بھی ایسے ہی لوگوں کو دینے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں اپنے نوعمر لڑکے اورلڑکیوں سے مویوس نہیں۔ اگر وہ فلاحی کاموں کی طرف آگئے اور ایمان دار سچے پکے مسلمان بن گئے تو اُن کی دُنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گے ۔ اپنے یہ جوش ولولے کے دن ہوش سے گزارو۔ لڑکے اور لڑکیاں کوبے وقوف بنانے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرو ۔ دُنیا بھر کی معلومات تمہارے پاس ہیں ۔بس اپنے دین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ اپنے دین کو جانو پھرہی دُنیا تمہیں جانے گی پہچانے گی۔ نہیں تو تم بھی اپنے سے پہلے لوگوں کی طرح یونہی سو کھے پتوں کی طرح اِدھر اُدھر اڑتے رہو گے کبھی اُس ملک کبھی اِس جگہ لیکن عزت کی جگہ دُنیا میں کہیں نہیں ملے گی ۔ جب تک تم اپنے ملک کو اور اپنے ملک کے لوگوں کو عزت واحترام کی نگاں سے نہیں دیکھوگے۔ لوگوں کو حقیر اور ذلیل سمجھنا چھوڑ دو۔ اپنے ملک کو برُ ا کہنا چھوڑ دو ۔ ورنہ تمہیں لوگ برُے ملک کا برُ ا شہری ہی کہیں گے ۔

تُم ہی اس ملک کیلئے کچھ کر سکتے ہو ۔ ہم تو تمہارے لیے بہتر تعلیم ، نوکری شادی اور گھر کے اخراجات ہی میں الجھے ہوئے ہیں۔ تُم ہر فکر سے آزاد ہو۔ تمہاری فکر تمہارے والدین کو ہے ۔

اسی بے فکری کے زمانے میں ملک کی فکر کر لو ۔ جو کر سکتے ہے ۔ جلدی کر لو ۔ پھر تُم بھی اپنی اولاد اور گھر کی فکر میں لگ جاؤ گے ۔

یہی زمانہ ہے جب تُم ہر چوٹی سر کر سکتے ہو۔ لیکن افسوس تم اپنی خواہشوں کو پورا کرنے میں دن رات مصروف ہو۔ ایک بات کے پیچھے نہ لگ جاؤ ۔ اپنی تمناؤں کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال کرو ۔ صرف اپنے لیے نہ جیو ۔ بلکہ دوسروں کیلئے بھی جیتنے کا سامان کرو۔ اور ایک بات جو کبھی نہ کرو۔
ماں کے سامنے زبان نہ چلاؤ یہ گناہ کبیرہ ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہر وقت ہر گھر میں ہوتا ہے۔ ماں سے بدتمیزی نہ کرو۔ گناہ سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ ہر وقت باوضو رہو۔ باوضو انسان پاک بھی رہتا ہے ۔ ہر قسم الائش سے ۔ اور پھر آپ جیسے ہی اذان ہوگی نماز پڑھ لیں گے اس لیے کہ وضو سے ہوں گے اور اگر وضو ہو تو انسان فوراً نماز پڑھ لینا ہے ۔

یہ دُنیا فانی ہے 100 سال کی زندگی ہو تب بھی جانا ہے جہاں سے جانا ہو۔ وہاں اتنا دل نہیں لگائے۔
جو یہاں کرو گے وہ یہی رہ جائے گا اور جو وہاں کیلئے کرو گے وہی ساتھ جائے گا ۔ اور ہمیشہ پاس رہے گا لیکن یہاں کیلئے جو جمع کروگے پتہ نہیں کب کوئی لوٹ کرلے جائے ۔ سو چو سمجھو گھاٹے کا سودانہ کرو۔
اسلام کے اصولوں کواپنا کر آج ساری قومیں عروج پر ہیں۔ قانون سب کیلئے برابر ہے۔ صفائی ،جس کا نام ونشان ہمارے ملک میں نہیں ۔کیا ان کے صاف ستھرے شہر دیکھ کر تمہارے دل میں یہ اُمنگ پید ا نہیں ہوتی کہ ہم بھی اپنے ملک شہر گلی ،محلہ ، پارک اسکول ملک کے چپے چپے کو صاف کردیں ۔

میں تو ان کے صاف ستھرے شہر اور ریلوے اسٹیشن دیکھ کرجہاں کتنے آرام سکون سے وقت پر ریل گاڑی آتی ہے اور لوگ آرام سے اترتے ہیں اور سکون سے ریل میں سوار ہوجاتے ہیں میں حسرت بھری نگاہ سے دیکھتی ہوں اور دُعا کرتی ہوں اﷲ ہمارے ملک کوبھی ایسا بنا دے ۔ کیوں کہ میں صرف دُعا ہی کرسکتی ہوں یا لکھ سکتی ہوں ۔ آپ جو اچھا کام کرسکتے ہیں کر دیں ۔ اب آپ لوگوں کو آگے آنا ہوگا ۔ امیر اور کھاتے پیتے نوجوانوں کو اس ملک کیلئے کا م کرنا ہوگا ۔ سیاست سے دور رہ کر بھی آپ اپنے خاندان محلے اسکول کالج آفس ۔کہیں بھی بس کچھ اچھا کام کرنا ہے جو دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرلے۔ پتہ نہیں کب دُنیا ختم ہو جائے اور نہ جائے کب (اﷲ نہ کرے اﷲ نہ کرے ) ہم مشرقی پاکستان کی طرح اس پاکستان کو گنوا بیٹھیں ۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پاکستان کو بچانے کیلئے اور اپنی آخرت سنوارنے کیلئے سیدھی راہ پر آجاؤ۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم اسلامی ملک میں رہتے ہوئے نہ صبح سویرے اُٹھ کر نماز پڑھتے ہیں اور نہ اپنے لباس کی طرف کچھ دھیان کرتے ہیں ۔ امریکا اور یورپ سے آنے والے لوگ ہمیں رات رات بھر جاگتے دیکھ کر اور دن بھر سوتا دیکھ کر حیران ہوتے ہیں اور لباس دیکھ کر تو پریشان ہوجاتے کہ ہم وہاں حجاب کیلئے لڑ رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں اس کی اجازت دیں اور یہاں لوگ غیر مسلم لوگوں جیسا لباس پہن رہے ہیں۔

باہر سے آنے والے اکثر پاکستانی لوگوں کے بچے (جو بڑے ہوکر پاکستان آنے جانے لگے ہیں) پوچھتے ہیں کہ کیا امیر لوگ نماز نہیں پڑھتے یا غریب لوگوں کو نماز معاف ہے۔ ہر وقت بیٹھے باتیں کرتے ہیں۔ شکوے گلے کبھی اپنوں سے کبھی اﷲ۔ یہ فارغ بیٹھے بیٹھے تھکتے نہیں۔ جب اسلام آیا تھا امیر مسلمان بھی اﷲ کو یاد کرتے اور وہ مسلمان بھی جو 3-4 دن کے فاقے میں ہوتے وہ بھی نماز پڑھتے لیکن ہم کیا ہیں۔ جن کو اﷲ نے ہر نعمت دی ان کو تو ہر وقت اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اﷲ تو نے ہمیں دُنیا کی آزمائشوں سے اس دولت کی وجہ سے بچایا ہوا ہے۔

ورنہ غریب کی زندگی تو ہمارے پاکستان میں کیسی ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں۔

اور نہ غریب شکر ادا کرتاہے کہ اﷲ تیرا شکر ہے تو نے صحت اور ہاتھ پاؤں دیے ہوئے ہیں میں محنت کرکے روکھی سوکھی کھاتو لیتا ہوں۔

ہم لوگ تو کہتے ہیں کو ٹھی کار ملے گی تو شکر کریں گے حالانکہ شکر ہم تب بھی نہیں کرتے بلکہ غرور کرتے ہیں۔

اﷲ کی طرف لوٹ آؤ ۔ جہیز لعنت ہے ۔ تم لڑکے اپنے گھر والوں کو روک سکتے ہو اور اتنی بڑی نیکی کرسکتے ہو۔ لوگ جہیز لیتے ہیں اور دوسرے ہی دن ڈاکہ میں نے کہا کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ بھائی کے سسرال سے جہیز نہ لو لیکن تم نہ مانی اورآج ڈاکو سب لے گئے۔ آج کل تو دُعا کرو اپنا حق حلال کا سامان ہی ہم استعمال کریں۔ ہر طرف لوٹ مار کربازار گرم ہے نہ گھر میں محفوظ نہ گھر سے باہر ۔ عجیب خوف کا زمانہ ہے کبھی بیماری کا خوف ، لوٹ مارکا خوف، دھماکوں کا خوف نہ جہاز محفوظ نہ ریل نہ بس میں اورنہ پیدل چلنے والے ذرا سوچو ہم کہاں غلط ہیں ۔ مجرم ہیں۔ گناہ گار ہیں۔

ہرکام کیلئے ہمارے پاس وقت ہے بس اﷲ کی یاد کیلئے ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہم ہر ایک کی بات مانتے ہیں۔ نہیں مانتے تواﷲ کا فرمان نہیں مانتے ۔

زندگی اتنی سستی اور غیر اہم نہیں کہ اسے موج میلے میں گزار دو ۔ ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ ہماری ایک ایک حرکت ریکارڈ کی جارہی ہے۔ وہ فلم ہمیں قیامت کو دکھادی جائے گی۔ گناہ کرناہے تو وہاں کرو جہاں اﷲ نہ دیکھ رہا ہو اور جب تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ اﷲ تو ظاہر باطن کو جانے والا ہے تو پھر چھت کر بھی برُے کام نہ کرو کہ اس طرح تم دنیا کو قانوں سے تو بچ جاؤ لیکن اﷲ کو سزا سے نہ یہاں بچ پاؤ گے اور نہ ہان اسی نوجوانی ہی میں تو بہ کرکے ۔ سیدھے راستے پر آجاؤ۔ جس طرح صحابہ کرام ؓ اور ان کے بعد کے نیک لوگوں نے اپنی نوجوانی کے دن گزارے ویسے ہی تم گزارو میں نے پہلے بھی کہا کہ اسلام تفریح سے نہیں روکتا لیکن ایسی تفریح جو گنا ہ سے پاس ہو۔ اپنی خوشیوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کیلئے بھی خوشیوں کا سامان کرو۔

یاد رکھو نوجوانی تو بہ اور عبادت اﷲ کو زیادہ پسند ہے اوراس کا ثواب بھی زیادہ ہے ورنہ بڑھاپے میں تو پھر اﷲ اﷲ کرنے کے علاوہ اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا ۔ بس غصہ نہ کرو کہ یہ حرام ہے ۔ اگر نوجوانی میں غصے سے بچ گئے تو سمجھ ہر گناہ سے بچ گئے ۔
 

Humera Sajid
About the Author: Humera Sajid Read More Articles by Humera Sajid: 8 Articles with 5386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.