داڑھی کی شرعی حیثیت

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے، واجب ہے یا سنت؟ اور داڑھی منڈوانا جائز ہے یا مکروہ یا حرام؟ جمہور محدثین ومحققین وفقہاء اور علماء کرام نیز چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ ؒ ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ ، امام احمد بن حنبلؒ) داڑھی کے واجب ہونے پر متفق ہیں۔ عصر حاضر میں بھی امت مسلمہ کے تقریباً تمام مکاتب فکر قرآن وحدیث کی روشنی میں وجوب کے ہی قائل ہیں۔

میں نے اس موضوع پر عربی واردو زبان کی متعدد کتابوں میں محدثین وفقہاء وعلماء کرام کے اقوال کا مطالعہ کیا ،سب نے یہی اعتراف کیا ہے کہ نبی اکرم اکے ارشادات سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ نبی اکرم انے امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا امر(حکم ) دیا ہے اور حکم وجوب کے لئے ہی ہوتا ہے اِلّایہ کہ نبی اکرم اکے کسی دوسرے ارشاد یا عمل یا صحابہ کرام کے عمل سے معلوم ہو کہ آپ ا کا حکم (امر) وجوب کے لئے نہیں بلکہ صرف تاکید کے لئے ہے۔ لیکن زیر بحث مسئلہ میں نبی اکرم ااور صحابہ کرام کی زندگیوں کے احوال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکا امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا حکم وجوب کے لئے ہی ہے، چنانچہ خیر القرون میں صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین میں سے کسی ایک محدث یا فقیہ یا عالم نے داڑھی کے عدم وجوب کا فتویٰ جاری نہیں فرمایا، بلکہ سب نے اس کے وجوب کا ہی فیصلہ فرمایا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلات کے لئے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی عربی کتاب"وجوب اعفاء اللحیۃ" کا مطالعہ کریں جو سعودی عرب کے ادارۃ البحوث العلمیۃ والافتاء والدعوۃ والارشاد سے شیخ عبد العزیز بن باز ؒ کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس کتاب کا اردو ترجمہ deeneislam.com پر موجود ہے۔

اگر داڑھی کے صرف سنت ہونے کو تسلیم کربھی لیا جائے تو یہ عام سنت نہیں ہوگی بلکہ داڑھی رکھنا سنت مؤکدہ اشد التاکید ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار بھی ہے اور تمام انبیاء کی سنت بھی ہے، نیز فطرت انسانی بھی ہے اور فطرت انسانی کو بدلنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۂ الروم آیت ۳۰ میں ارشاد فرمایا ہے۔ بر صغیر میں علم حدیث کی اہم وعظیم شخصیت حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب حجۃ اﷲ البالغۃ ۱۵۲/۱ میں تحریر کیا ہے کہ داڑھی کاٹنا اﷲ کی تخلیق اور بناوٹ کو بدلنا ہے۔۔۔۔۔۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ نبی اکرم انے داڑھی کاٹنے کو مشرکین اور مجوسیوں کا طریقہ قرار دیا ہے اور آپ انے داڑھی کاٹنے والوں کی طرف نظر اٹھاکر دیکھنا بھی پسند نہیں فرمایا۔
آئیے اولاً داڑھی کے متعلق نبی اکرماکے ارشادات کا مطالعہ کریں:

٭ عن عبداﷲ بن عمرؓ قال قال رسول اﷲ ا : خَالِفُوا الْمُشْرِکِےْنَ، وَفِّرُوا اللِّحَی، وَاَحْفُوا الشَّوَارِبَ۔ وفی روایۃ قال رسول اﷲ ا: اَنْہِکُوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا اللِّحٰی۔ (بخاری/ باب تقلیم الاظفار ، مسلم/ باب خصال الفطرۃ) حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ انے ارشاد فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔

٭ عن عبداﷲ بن عمرؓ قال ذُکر لرسول ِاﷲ ا المجوس فقال: اِنَّہُم ےُوْفُوْنَ سِبَالَہُمْ وَےُحْلِقُونَ لِحَاہُمْ فَخَالِفُوْہُم۔ (صحیح ابن حبان ۴۰۸/۸) حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ اکے سامنے مجوس (آگ کی پرستش کرنے والے) کا ذکر کیا گیا تو آپ انے فرمایا: یہ لوگ مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھیوں کو مونڈتے ہیں، پس تم ان کی مخالفت کیا کرو۔

٭ عن عبداﷲ بن عمرؓ عن النبی ا اَنَّہ اُمِرَ بِاِخْفَاء الشَّوَارِبِ وَاِعْفَاءِ اللِّحْےَۃِ ۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ)
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ا کو مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم احکم الحاکمین اﷲ جل شانہ کی طرف سے ہے۔ اَمَرَ کا لفظ بھی کتابوں میں آیا ہے، یعنی نبی اکرم انے مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم دیا ہے۔

٭ عن ابی ہریرۃ ؓ قال قال رسول اﷲ ا: اِنَّ اَہْلَ الشِّرْکِ ےُعْفُوْنَ شَوَارِبَہُمْ، وَےُحْفُوْنَ لِحَاہُمْ فَخَالِفُوہُمْ ، فَاعْفُوا اللِّحٰی وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ۔ (رواہ البزاز بسند حسن) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ انے ارشاد فرمایا: مشرک لوگ مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھیوں کو کاٹتے ہیں پس تم ان کی مخالفت کرو، اورداڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔

٭ عن ابی ہریرۃ ؓ قال قال رسول اﷲ ا: جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَاَرْخُوا اللِّحٰی خَالِفُوا الْمَجُوْسَ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ) حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ انے ارشاد فرمایا: مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

٭ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ انے دس خصلتیں فطرت میں سے قرار دی ہیں، جن میں سے پہلی خصلت مونچھو ں کو کاٹنا اور دوسری خصلت داڑھی کو بڑھانا ہے۔۔۔۔ (مسلم/ باب خصال الفطرۃ) یعنی داڑھی رکھنا فطرتِ انسانی اور اسلامی شعار ہے، نیز یہ تمام انبیاء کی سنت ہے، جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒنے بخاری کی شرح فتح الباری ۳۳۹/۱۰ میں اور علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے تنویر الحوالک شرح موطا الامام مالک ۲۱۹/۲ میں فطرت کی تشریح کے تحت تحریر کیا ہے۔

٭ رسول اﷲ انے جب مختلف ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خطوط لکھے، تو ان میں سے ایک خط کسریٰ شاہ فارس کے نام بھی لکھا۔ اُس کے پاس جب نامۂ مبارک پہونچا تو اس نے اس کو پھاڑ دیا اور یمن کے گورنر کو لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو جو اس شخص کو لے کر آئیں جس نے مجھے یہ خط تحریر کیا ہے۔ چنانچہ یمن کے گورنر نے شاہ فارس کسریٰ کے حکم سے دو فوجیوں کو رسول اﷲ اکے پاس بھیجا۔ وہ دونوں رسول اﷲ اکے پاس آئے، ان کی داڑھیاں مونڈی ہوئی تھیں اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں، آپ انے ان دونوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں فرمایا، پھر ان کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ تم دونوں کے لئے عذاب ہے، کس نے تم کو اس کا حکم دیا ہے؟ دونوں نے کہا کہ ہمارے رب یعنی کسریٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ آپ انے فرمایا: لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی رکھنے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۲۷۰/۴ ، تاریخ ابن جریر ۹۱/۳۔۹۰، کتاب الوفاء باحوال المصطفیٰ للحافظ ابن الجوزی) اس واقعہ کو مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی ؒنے اپنی مشہور ومعروف کتاب (حیاۃ الصحابہ /ج ۱ ص ۱۱۵)میں مختلف سندوں کے ساتھ تحریر کیا ہے۔

٭ جَاءَ رَجُل مِّنَ المَجُوسِ اِلَی النَّبِیِّ اوَقَدْ حَلَّقَ لِحْےَتَہُ وَاَطَالَ شَارِبَہُ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ا: مَا ہٰذا؟ قَالَ : ہٰذَا دِےْنُنَا۔ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ا: فِیْ دِےْنِنَا اَن نَّجُزَّ الشَّارِبَ وَاَن نُّعْفِی اللِّحٰی۔ (روی ابن ابی شیبہ ۳۷۹/۸) مجوسیوں میں سے ایک شخص رسول اﷲ اکے پاس آیا جس نے اپنی داڑھی مونڈی ہوئی تھی اور اپنی مونچھ بڑھائی ہوئی تھی۔ آپ انے فرمایا : یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ ہمارا دین ہے۔ آپ انے فرمایا: لیکن ہمارے دین میں تو یہ ہے کہ ہم مونچھیں کاٹتے ہیں اور داڑھیاں بڑھاتے ہیں۔

حضور اکرم کی داڑھی کا تذکرہ:
سید الانبیاء والمرسلین وخاتم الانبیاء وخیر البریہ حضرت محمد مصطفی اہمیشہ داڑھی رکھتے تھے، جیساکہ احادیث میں آپ اکی داڑھی مبارک کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔

عن جا بر بن سمرہ ؓ قال : کَانَ رَسُولُ اللّٰہ ا کَثِےْرَ شَعْرِ اللِّحْےَۃِ۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب شبیہ صلی اﷲ علیہ وسلم) رسول اﷲ کی داڑھی مبارک میں بہت زیادہ بال تھے۔

عن ہند بن ابی ہالہ ؓ قال : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ کَثَّ اللِّحْےَۃِ (رواہ الترمذی فی الشمائل والبیہقی فی شعب الایمان) نبی اکرم اکی داڑھی مبارک گھنی تھی۔ حضرت براء ؓ سے انہیں الفاظ کے ساتھ (نسائی ۵۲۳۲)میں روایت مذکور ہے۔ حضرت علیؓ سے انہیں الفاظ کے ساتھ (مسند احمد ۱۰۲/۲) میں روایت مذکور ہے۔

عن علیؓ ؓ قال : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ا عَظِےْمَ اللِّحْےَۃِ (مسند احمد ۱۲۷/۱) حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم اکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی۔

حضرت عائشہ ؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عمار بن یاسر ؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور دیگر صحابہ کرام سے نبی اکرم اکا وضو کے وقت داڑھی میں خلال کرنے کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔

غرضیکہ صحابہ کرام نے نبی اکرم اکی داڑھی مبارک کو مختلف الفاظ میں ذکر کیا ہے ، اُن الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ا کی داڑھی مبارک گھنی اور زیادہ بالوں والی تھی۔ آپ اوضو کے وقت داڑھی میں خلال بھی کیا کرتے تھے، اور کبھی کبھی اسمیں مہندی بھی لگاتے تھے۔ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام کی داڑھی مبارک کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے ان کا تذکرہ نہیں کررہا ہوں۔ کسی بھی صحابی سے داڑھی کا مونڈنا یا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا ثابت نہیں ہے۔

داڑھی کی مقدار:
نبی اکرم اکی واضح تعلیمات کی بناء پر جمہور محدثین، فقہاء اور علماء کرام داڑھی کے وجوب کے تو قائل ہیں، البتہ یہ داڑھی کتنی رکھی جائے اور کیا داڑھی کی حد نبی اکرم انے متعین کی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ اگرچہ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نبی اکرم اکی تعلیمات میں داڑھی کی حد کے متعلق خاص وضاحت نہیں ملتی ہے۔ ہاں ترمذی(کتاب الادب / باب ما جاء فی الاخذ من اللحیۃ ) میں ایک روایت ہے جو سند کے اعتبار سے یقینا کمزور ہے، اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ا اپنی داڑھی مبارک کے طول وعرض سے زائد بال کاٹ دیا کرتے تھے۔ نیز بعض صحابہ کرام مثلاً حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ سے ایک مشت کے بعد اپنی داڑھی کا کاٹنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ امام بخاری ؒ نے حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ کا عمل ذکر فرمایا ہے۔(بخاری، کتاب اللباس ج ۲ ص ۸۷۵)
غرضیکہ داڑھی کی مقدار کے سلسلہ میں تابعین،تبع تابعین اور اس کے بعد کے زمانے میں علماء کرام کی چند آراء ملتی ہیں، البتہ ایک مشت سے کم رکھنے کا جواز کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی یا کسی معتبر محدث یا فقیہ سے کہیں نہیں ملتا۔

داڑھی کی مقدار کے سلسلہ میں فقہاء کے اقوال:
٭ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیاجائے، یعنی کسی طرف سے کوئی بال نہ کاٹا جائے۔ امام شافعی ؒ کے دواقوال میں سے ایک قول، جس کو امام نووی ؒ نے راجح قرار دیا ہے، نیز امام احمد بن حنبل ؒ کی دو رائے میں سے ایک رائے یہی ہے۔

٭ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیاجائے، البتہ حج یا عمرہ سے فراغت کے بعد داڑھی کے دائیں اور بائیں جانب سے تھوڑا کاٹ لیا جائے۔ امام شافعی ؒ کے دواقوال میں سے دوسرا قول یہی ہے، جس کو حافظ ابن حجر ؒ نے راجح قرار دیا ہے۔

٭ داڑھی کے دائیں اور بائیں جانب جو بال بکھرے ہوئے ہیں، ایک قبضہ (مٹھی) کی شرط کے بغیر ان کو کاٹ لیا جائے۔ امام مالک ؒ کی رائے یہی ہے جس کو قاضی عیاض ؒنے راجح قرار دیا ہے۔

٭ ایک قبضہ (مٹھی) کے بعدداڑھی کے بال کاٹ لئے جائیں۔ امام ابو حنیفہ ؒ کی رائے یہی ہے کہ ایک مشت ہی داڑھی رکھنا سنت ہے اور ایک مشت (قبضہ) سے کم داڑھی کے بال کاٹنا جائز نہیں ہیں۔ اسی رائے کو تمام علماء احناف نے راجح قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے مشہور ومعروف شاگرد امام محمد ؒ نے اپنی تصنیف کتاب الآثار میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے روایت کیا امام ابوحنیفہؒ سے اور وہ روایت کرتے ہیں ہیثم ؒسے اور وہ حضرت عبداﷲ ابن عمر ؓسے کہ وہ یعنی حضرت عبد اﷲ ابن عمر ؓ اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر مٹھی بھر سے زائد کو یعنی جو مٹھی سے نیچے لٹکی ہوئی باقی رہ جاتی تو وہ اسے کاٹ دیا کرتے تھے۔ امام محمد ؒ نے فرمایا کہ ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے اور یہی قول امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی ہے۔۔۔ چنانچہ فقہ حنفی کی تمام مشہور ومعروف کتابوں میں یہی تحریر ہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا سنت ہے اور اگر داڑھی ایک مشت سے کم ہو تو اس کاٹنا جائز نہیں ہے۔

داڑھی کے متعلق نبی اکرم اکی واضح تعلیمات سب سے زیادہ مستند ومعتبر سندوں کے ساتھ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ کے واسطے سے ہی امت مسلمہ کو پہونچی ہیں اور حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ ان صحابہ کرام میں سے ہیں جن سے بڑے بڑے صحابہ کرام بھی مسائل میں رجوع فرماتے تھے، نیز وہ نبی اکرم اکے بڑے فدائی تھے اور آپ اکی سنتوں کی پیروی میں بہت زیادہ پیش پیش رہنے والے تھے، ان کے عمل کو بطور معیار پیش کیا جاتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ کے داڑھی سے متعلق ان کے عمل کو ترازو بناکر پیش کیا ہے کہ وہ حج وعمرہ سے فارغ ہونے کے موقع پر احرام کھولتے تو داڑھی کو مٹھی میں لے کر زائد حصہ کاٹ دیا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب اللباس ج ۲ ص ۸۷۵)

حافظ ابن حجر ؒ شرح بخاری میں طبری سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ داڑھی جب ایک مشت سے زائد ہوجائے تو زائد کو کتر دیا جائے، پھر طبری نے اپنی سند سے حضرت عبداﷲ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

حضرت جابر بن عبد اﷲ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ داڑھی کے اگلے اور لٹکنے والے حصہ کو بڑھا ہوا رکھتے تھے مگر حج اور عمرہ میں (یعنی حج اور عمرہ سے فارغ ہوکر) اسے کاٹ دیا کرتے تھے۔ (رواہ ابواداؤد باسناد صحیح ۴۱۹۸/۴)

داڑھی کے متعلق حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ کے بعد سب سے زیادہ روایات حضرت ابوہریرۃ ؓ سے مروی ہیں، ان کا عمل بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کاٹنے کا مذکور ہے۔ (نصب الرایہ ج ۲ ص ۴۵۸)

امام غزالی ؒ نے اپنی کتاب (الاحیاء ۱ /۱۴۳) میں تحریرکیا ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کے کاٹنے میں علماء کا اختلاف ہے لیکن اگر کوئی ایک مشت کے بعد داڑھی کے بال کاٹ دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ اور تابعین سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ علامہ ابن سیرین ؒ نے ایک ہی مشت داڑھی رکھنے کو مستحسن قرار دیا ہے۔
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ اپنی کتاب (اشعۃ اللمعات ج۱ ص ۲۲۸)میں لکھتے ہیں: داڑھی منڈانا حرام ہے اور ایک مشت کی مقدار تک اس کا بڑھانا واجب ہے۔

علامہ ابن تیمیہ ؒنے اپنی کتاب (شرح العمدۃ ۱ / ۲۳۶) میں تحریر کیا ہے کہ اعفاء اللحیہ کے معنی داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑنے کے ہیں، لیکن اگر کوئی ایک مشت کے بعد داڑھی کاٹتا ہے یا دائیں وبائیں جانب بکھرے ہوئے بال کو کاٹتا ہے تو وہ مکروہ نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ سے ثابت ہے۔

صفوۃ التفاسیر کے مصنف اور مسجد حرام کے مدرس شیخ محمد بن علی الصابونی ؒ کا ایک مقالہ سعودی عرب کے مشہور ومعروف اخبار (المدینہ) میں ۲۴ محرم ۱۴۱۵ھ کو شائع ہواتھا جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ داڑھی کے بالوں کو بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے بلکہ جو بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں ان کو کاٹ کر داڑھی کو سنوارا جائے اور اس کو اس طرح نہ چھوڑا جائے کہ بچے ڈرنے لگیں اور بڑے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں۔۔۔۔۔

﴿نوٹ﴾: عصر حاضر کے بعض علماء کرام نے ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، البتہ یہ علماء کرام بھی داڑھی کو کم از کم ایک مشت ہی رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ واﷲ اعلم بالصواب۔

ایک شبہ کا ازالہ:
بعض حضرات کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں داڑھی کا حکم کہا ں ہے؟ میں ان حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ قرآن کریم میں یہ کہاں ہے کہ جو قرآن میں ہو بس اسی پر عمل کرنا لازم ہے اور قرآن میں یہ کہاں ہے کہ رسول اﷲ اکے فرمان کو مت مانو، بلکہ قرآن کریم میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے بے شمار جگہوں پر رسول اکرم کی ااطاعت کاحکم دیا ہے، اور رسول اﷲ ا کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ (سورۂ النساء ۸۰) نیز اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنی اطاعت کے ساتھ رسول اﷲ ا کی اطاعت کو ضروری قرار دیا ہے، اگر قرآن کریم ہی ہمارے لئے کافی ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ رسول اﷲ اکی اطاعت کا حکم کیوں دیا ہے؟ اس موضوع پر تفصیل کے لئے میرے مضمون حجیۃ حدیث کو اس لنک پر پڑھیں:
https://www.deeneislam.com/ur/verti/dars/1534/article.php?CID=1534
میں نے حجیت حدیث کے مضمون میں دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ احادیث شریفہ کے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا ناممکن ہے، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے سورۂ النحل آیت ۴۴ اور ۶۴ میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم اہیں، اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ا پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ آپ اامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں ۔
پھر بھی ان حضرات کے اطمینان کے لئے ذکر ہے کہ داڑھی کاتذکرہ قرآن کریم (سورۂ طہ ۹۴) میں آیا ہے: ےَا ابْنَ اُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْےَتِیْ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی مبارک پکڑی تو حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی کو نہ پکڑو۔

داڑھی کو خضاب یا مھندی سے رنگنا:
اگر بڑھاپے کی وجہ سے داڑھی یا سر کے بال سفید ہوگئے ہیں تو نبی اکرم اکے ارشادات کی روشنی میں علماء کرام کا متفق علیہ فیصلہ ہے کہ بال کو خالص کالے رنگ سے رنگنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ا س میں تخلیق کو بدلنا ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے جوانی میں ہی کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بال سفید ہوگئے ہوں تو جوانی میں بالوں کو خالص کالے رنگ سے رنگنے کے متعلق علماء کرام کا اختلاف ہے، لیکن بچنے میں ہی خیر ہے۔ البتہ خالص کالے رنگ کے علاوہ مہندی یا سیاہی مائل کسی رنگ سے بالوں کا رنگنا سب کے لئے خواہ بوڑھے ہوں یا جوان نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔

٭ حضرت ابو قحافہ ؓ کو فتح مکہ کے دن نبی اکرم ا کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ ان کے بال بالکل سفید تھے، تو نبی اکرم ا نے فرمایا : ان کے بالوں کی سفیدی کو بدلو، البتہ کالے رنگ سے بچو۔ (مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد)
٭ نبی اکرم انے ارشاد فرمایا : بالوں کی سفیدی کو بدلنے کے لئے حناء اور کتم کا استعمال کیا کرو۔ (ابو داؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ) حناء مہندی کو کہتے ہیں جبکہ کتم بھی مہندی کی طرح ہی ہوتا ہے لیکن بالوں پر استعمال کے بعد اس کا رنگ سیاہی مائل ہوجاتا ہے۔
٭ نبی اکرم ا اپنی داڑھی کو زرد رنگ سے رنگتے تھے۔ (ابو داؤد / باب فی المصبوغ بالصفرۃ)
٭ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم انے فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ خالص کالے رنگ سے اپنے بالوں کو رنگیں گے، ان لوگوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی۔ (ابو داؤد، نسائی)

خلاصۂ کلام:
میرے عزیزو! داڑھی رکھنے میں رسول اﷲ ا کی اطاعت، آپ کی اتباع اور آپ سے محبت کا اظہار ہے۔ رسول اﷲ انے جو حکم دیا ہے اس سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں بعض لوگ رسول اﷲ اکے فرمان کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے اور نہ صرف داڑھی منڈواتے ہیں بلکہ داڑھی پر مختلف تبصرے کرنے شروع کردیتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ داڑھی نہ رکھنا گناہ ہے لیکن داڑھی پر غلط تبصرے کرنا یا داڑھی کا مزاق اڑانا کفر ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم اسے سچی محبت کرنے والا بنائے اور داڑھی رکھنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔

Muhammad Najeeb Qasmi
About the Author: Muhammad Najeeb Qasmi Read More Articles by Muhammad Najeeb Qasmi: 133 Articles with 153932 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.