واضح حکمتِ عملی کی ضرورت

عیدالاضحیٰ کا پیغام

چند روز قبل تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اﷲ محسود نے طالبان کیجانب سے حکومت کیساتھ سنجیدہ مذاکرات پر آمادگی کا عندیہ دیا ۔دوسری جانب وزیر اعظم نوازشریف کا یہ بیان سامنے آیا کہ مذاکرات کی شروعات کی جا چکی ہیں اور امن کے لئے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے ۔ یہ صورتحال واقعتا خوش آئند ہے۔ درحقیقت وطن عزیز کو داخلی اور خارجی محاذ پر درپیش مسائل میں سنگین ترین مسئلہ دہشت گردی کاہے۔ بیشتر معاشی ، اقتصادی اور سماجی معاملات کی اصلاح احوال اور بہتری اسی مسئلہ کے حل سے منسلک ہے۔ اس معاملہ کے سلجھاو کی غرض سے حکومت کی جانب سے حال ہی میں اے پی سی کا انعقاد کیا گیاتھا۔ جس میں ملک کی تمام بڑی اور قابل ذکرسیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ حوصلہ افزاء امر یہ تھا کہ اس میں ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت ایک ہی صفحہ پر نظر آئیں ۔ قریبا سب کی جانب سے امن کو مزیدمو قع دینے اور مذاکرات کے ذریعے یہ معاملہ طے کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی جس سے اسکے حل کی امید پیدا ہو ئی۔ مگراس قدر مثبت پیش رفت کے باوصف یہ مذاکراتی عمل بر وقت شروع نہ ہو سکا۔ وفاقی حکومت کا اخلاص نیت قابل تحسین سہی مگر سیاسی اور فوجی قیادت کی واضح سپورٹ کے با وجودحکومت تذبذب اور سست روی کا شکار ، کوئی جامع حکمت عملی وضع کرنے اور لائحہ عمل تر تیب دینے میں نا کام رہی ۔ دوسری جانب حکومتی نرم روی اورمذاکرات کی پیشکش کے با وجود دہشت گردی کے واقعات تواتر سے رونماہوتے رہے اور بعض واقعات میں طالبان اور انکی ذیلی تنظیموں کی جانب سے اِنکی ذمہ داری بھی قبول کر لی گئی۔جس سے مذاکراتی عمل کو شدید دھچکہ لگااور طالبان کی غیر سنجیدگی کے تاثرکو تقویت ملی۔

درحقیقت طالبان کے پاس پرامن طریقے سے معالات طے کرنے اور تنازعات حل کرنیکا یہ انتہائی نادر موقع تھا۔ ہمیشہ سے طالبان ایشو کے حوالے سے دو نقطہ نظر موجود رہے ہیں۔ ایک مذاکرات کا حامی اور دوسرا فوجی آپریشن کا حمائتی ۔ مگر کچھ عرصہ سے مثبت پیش رفت یہ تھی کی مذاکرات کی حمایت کا پلڑا بھاری دکھائی دیتاتھا۔ بیشتر سیاسی قیادت بات چیت کے ذریعہ سے یہ معاملہ سلجھانے پر آمادہ تھی۔خود وزیر اعظم نواز شریف آغازکار سے ہی معاملات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کے پر زور حامی رہے ہیں۔ فوجی قیادت نے بھی اپنے مزاج اور افتاد طبع کے بر خلاف مذاکراتی عمل کی حمایت اور معاونت کا عندیہ دیا ۔علمائے کرام کیجانب سے بھی اپنی خدمات کی پیش کی گئیں۔ یہ انتہائی مثبت اور مثالی صورتحال تھی۔ درحقیقت ذاتی و شخصی معا ملات ہوں، یا ملکی و بین الاقوامی تعلقات و تنازعات ، تصادم، تشدد اور قوت کے استعمال کی پا لیسی کبھی کارگر ثابت نہیں ہوتی۔تصفیہ طلب معاملات کا مستقل اور طویل المدتی حل فقط مذاکرات میں ہی پو شیدہ ہو تا ہے ۔سو یہ مذاکراتی پیشکش قابل تائید تھی۔ مگر طالبان کی طرف ہونے والی دہشت گردی اور تشدد کے واقعات نے اس طرز فکر ااور نقطہ نظر کے حامل افراد کی سوچ کو بری طرح متاثر کیا۔مزید برآں مذاکراتی عمل کے آغاز کے لئے پیشگی شرائط نے بھی طالبان کی غیر سنجیدگی کا تا ثر دیا۔اول تو طالبان دستورِ پاکستان تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور اسکے تحت مذاکرات کرنے سے انکاری ہیں۔ دوئم انکی جانب سے تمام طالبان قیدیوں کی غیر مشروط رہائی ، فوجی آپریشن کی بندش اور قبائلی علاقوں سے افواج کی واپسی جیسی شرائط بھی نا قابل فہم اور نا قابل تا ئید ہیں۔ ان شرائط کا مانناحکومتی رٹ ختم کرنے کے مترادف ہے اور خاص طور پر اس صورت میں جب بدلے میں طالبان کچھ ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ امریکی ڈرون حملے بند کروانے کی شرط بھی نا قابل عمل ہے اور طالبان اس معاملے پر حکومتی بے بسی اور معذوری سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان شرائط سے تو یہ پیغام ملتا ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا نا چے گی۔

طالبان کے اس غیر لچکدار ، غیر سنجیدہ اور انتہا پسند انہ رویے کے باعث فوجی آپریشن کے حوالے سے حمایت بڑھ رہی ہے اور مذاکرات کے حامی کم ہو رہے ہیں۔ عمران خان جیسے سیاسی رہنما بھی قوت کے استعمال اور فوجی آپریشن کا تذکرہ کرنے لگے ہیں۔ ہفتہ عشرہ وقبل سید منور حسن نے بھی طالبان کے طرز عمل اور طرز فکر کو تنقید کانشانہ بنایااوردو ٹوک الفاظ میں کہا کہ بندوق کے زور پر شریعت اور اسلام کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا ۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے بیان میں طالبان کے تشدد پسند رویے کی مذمت کی۔ اس میں کو ئی دو رائے نہیں کہ اسلام امن پسند مذہب ہے اور برداشت ، رواداری ، احترام آدمیت اورحترام انسانیت کا درس دیتا ہے۔ اس قسم کے واقعات نہ صرف عوام الناس کی زندگی مشکل بنائے ہوئے ہیں۔ بلکہ ملک اور اسلام کی دنیا بھر میں بد نامی کا باعث ہیں۔ ملالہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس کو استعمال کرتے ہو ئے مغرب دنیا بھر میں پاکستان اور اسلام کا منفی تصور اجاگر کرنے میں مصروف ہے ۔طالبان کو اپنا طرز فکر تبدیل کرنا ہو گا۔ علمائے کرام اورطالبان حامی شخصیات کے توسط سے حکومتِ پاکستان سے کچھ لو اور دو کی بنیاد پر معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کا موقع غنیمت جاننا چاہیے۔ اس حوالے سے انکا حالیہ بیان خوش آئند ہے ۔

دوسری جانب حکومت کو بھی غیر ضروری تاخیر اور ابہام سے گریز کرنا ہو گا۔ مذاکرات کیواضح حمایت کے باوصف حکومت تذبذب کا شکار رہی ہے۔اسکی جانب سے وقتافوقتا یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ مذاکرات کی شروعات ہو چکی ہے اوریہ جاری ہیں۔ مگر معاملات کا ضرورت سے ذیادہ اخفاء ، طالبان کی جانب سے تردیدی بیانات اور خود حکومتی رہنماوں اور اراکین کے باہم متصادم بیانات کنفیوژن پھیلانے کا باعث رہے ہیں۔اب حکومت کو یکسوئی اور قوت فیصلہ کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔ اسے فیصلہ کرنا ہو گا کہ ان مذاکرات کی انجام دہی کن سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے ذریعے ہونی ہے۔ طالبان کی دو درجن سے زائد تنظیموں میں سے کون مذاکراتی دائرہ کار میں شامل ہونگی اور کون خارج ۔ مذاکرات کے لئے کیا حدود و قیود اور شرائط زیر عمل ہوں گی۔اس تمام معاملے میں عوام الناس کو کس حد تک اور کس طرح اعتماد میں لینا ہے۔ بالکل اسی طرح یہ پہلو بھی واضح ہونا چاہیے کہ مذاکرات میں ناکامی کی صورت ،بعد کی حکمت عملی کیا ہو گی۔ فوجی آپریشن کن علاقوں میں کیا جائے گا اور کن گروہوں کے خلاف ۔اس فوجی آپریشن کے لئے فوج اور سیاسی قیادت کس حد تیار ہے۔ آپریشن کی صورت عوام الناس کے جان و مال کا تحفظ کس طرح یقینی بنایا جائے گا۔ نقل مکانی جیسے عوامل کا کیا بندوبست کیا جائے گا۔ ان معاملات کے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح کام کرنااز حد ضروری ہے۔ تا کہ کسی بھی فیصلہ کے مثبت نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ اگر حکومت فیصلہ سازی میں مزید تاخیر کرتی ہے یاممکنہ نتائج سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کرنے میں نا کام رہتی ہے تو غارت گردی اور تباہی اسی طرح جاری رہے گی بلکہ خدانخواستہ معاملات کی مزیدخرابی اور بربادی کا باعث ہو گی۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25273 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.