کیا عورت کی ملازمت سے معاشرہ ترقی کر رہا ہے؟


اللہ تعالی نے نوعِ انسانی کو دو جنسوں میں پیدا کیا ہے۔ ایک مرد تو دوسری عورت۔ارشاد باریِ تعالی ہے:
و انہ خلق الزوجین الذکر و الانثیٰ ۔(ٰالنجم:۵۴)
اور یہ کہ اسی نے نَر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا۔
اس جوڑے کا باہمی گہرا تعلق ہے اور دونوں ایک دوسرے کا لازمی جز ہیں۔زندگی کے استحکام کے لیے ان میں ہم آہنگی کا ہونا ناگزیر ہے۔دونوں دنیا کی آباد کاری میں ایک دوسرے کے مدد گارہیںاور دونوںکو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔
اللہ تعالی نے اسی لیے مرو وعورت کو ہر معاملے میں برابر کی حیثیت دی ہے۔تاہم جہاں دونوں کی فطرت نے فرق کا تقاضا کیا تووہاں فرق بھی رکھا۔نماز، زکوٰة، روزہ اور حج وغیرہ دونوں پر واجب کیا لیکن ایامِ حیض میں عورت کی فطرت نے آسانی اور تخفیف کا تقاضا کیا تو اللہ تعالی نے اس میں اس کو چھوٹ بھی دی۔دونوں دینی ذمہ داریوں اور جزا و سزا میں برابر ہیں۔جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
من عمل صالحاً من ذکر او انثیٰ و ھو مومن فلنحیینہ حیٰوة طیبة۔(النحل:۷۹)
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا،خواہ وہ مرد ہو یا عورت،بشرط یہ کہ وہ مومن ہو،اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔
قرآن کریم میں ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:
انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر اوانثیٰ۔(اٰل عمران:۵۹۱)
میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں،خواہ مرد ہو یا عورت۔
اسی طرح نیکی کرنے پر دونوں کو برابر کے ثواب کا حق دار ٹھیرایا:
ومن یعمل من الصٰلحٰت من ذکر اوانثیٰ و ھو مومن فاولٰئک یدخلون الجنة و لا یظلمون نقیرا۔(النسائ:۴۲۱)
اور جو نیک عمل کرے گا،خواہ مرد ہو یا عورت،بشرط یہ کہ وہ مومن ہو،تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔
اسی طرح سزا میں بھی مرد عورت دونوں کو برابری پر رکھا ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
الزانیة و الزانی فاجلدوا کل واحد منھما مائة جلدة ۔(النور:۲۰)
زانیہ عورت اور زانی مرد،دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔
چوری کی سزا کے سلسلے میں اللہ تعالی نے برابری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
و السارق و السارقة فاقطعوا ایدیھما ۔(المائدة:۸۳)
اور چور،خواہ عورت ہویا مرد ،دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔
شرک ومنافقت کی سزا میں بھی دونوں کو برابر رکھا۔ارشاد باری ہے:
لیعذب اللہ المنٰفقین و المنٰفقٰت و المشرکین و المشرکٰت و یتوب اللہ علی المومنین و المومنٰت۔ (الاحزاب:۳۷)
تاکہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں، اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرے۔
اسی طرح عزت و تکریم اور قدر و قیمت کی بات کی تو اس میں بھی دونوں کو برابر کا درجہ دیا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ولقد کرمنا بنی اٰدم و حملنٰھم فی البر و البحر و رزقنٰھم من الطیبٰت و فضلنٰھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا۔ً(بنی اسرائیل:۰۷)
اور ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔
اسی طرح دونوں کا مذاق اڑانے اور بے عزتی کرنے سے منع کیا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یا ایھا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیراً منھم و لا نسآءمن نسآءعسیٰ ان یکن خیراً منھن۔(الحجرات:۱۱)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو،نہ مرد دوسرے مرد کا مذاق اڑائیں،ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ،اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں،ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔
ازدواجی زندگی میں بھی اللہ تعالی نے مرد و عورت دونوں کو برابر قرار دیا۔فرمایا:
و لھن مثل الذی علیھن بالمعروف۔(البقرة:۸۲۲)
عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں،جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔
لیکن اگر کہیں مرد و عورت میں برتری کا معیار ہے تو وہ صرف اور صرف تقوی کی بنیاد پر ہے۔جیسا کہ ارشاد باری ہے:
ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم۔ (الحجرات:۳۱)
درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادی عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
اللہ تعالی نے عبادات و احکام میں تو مرد عورت کو برابری پر رکھا لیکن ضرورت کے مطابق دونوں کی جسمانی ساخت اور فطری روحانی کیفیت میں فرق کیا ۔اسی لیے مردعورت سے زیادہ قوی اور مضبوط جسمانی طور پر ہوتا ہے اور عورت مرد سے زیادہ جذبات میں قوی ہوتی ہے۔وہ جذباتی رجحان ہی کی وجہ سے صبر کے ساتھ چھوٹے بچوں اور گھر کی دیگر ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے پاتی ہے۔ مرد اپنی جسمانی مضبوطی سے ہی گھر کے باہر کے کام کو سنبھالتا ہے۔اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں الگ الگ کام کے لیے بنائے گئے ہیں اور قدرت ان سے الگ الگ میدان میں کام لینا چاہتی ہے اور یہی انصاف کا تقاضا ہے۔
ایک ٹیچر بھی طالبات سے ان کی جداگانہ صلاحیت کے مطابق ہی کام لیتی ہے۔جیسے اسکول کے سالانہ تعلیمی مظاہرے میں خوش کن قاریہ سے ہی تلاوت کلام کرائی جائے گی ، تقریر بھی وہی لڑکی کرے گی جس میں خطابت کی صلاحیت ہو اور جرات مندی کے ساتھ بول سکے۔ایسا نہیں ہوتا کہ کسی سے اس کی صلاحیت کے برخلاف کام لیا جائے ۔اس میں کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ناانصافی کی بات کہی جاتی ہے اورسب کے باہمی تعاون سے ہی پروگرام کام یاب ہوتا ہے۔بالکل ایسے ہی اللہ تعالی نے اس دنیا میں مرد وعورت کو ان کے مزاج کے مطابق کام سونپ دیا ہے۔لیکن انسانوں نے خصوصاً مغرب نے ان اصولوں کے خلاف بغاوت کر دی ۔
1800ءصدی کے آس پاس یورپ میں تحریکِ آزادیِ نسواں کا آغاز ہوا۔اس سے پہلے وہاں بھی عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہی سمجھا جاتا تھااورکنبے کی معاشی کفالت کی اصل ذمہ داری مرد پر تھی ۔عورت کا بنیادی فریضہ گھریلو ا ±مور کی انجام دہی، بچوں کی نگہداشت اور اپنے خاوندوں کے آرام و سکون کا خیال اور فارغ وقت میں عمومی نوعیت کے کام کاج کرنے تک محدود تھا۔ تحریک ِآزادی نسواں کے علم برداروں نے اسے مرد کی ’حاکمیت‘اور عورت کی بدترین ’غلامی‘ سے تعبیر کیا اور اس کا حل پیش کیا کہ انہیں بھی گھر سے باہر نکالا جائے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ معاشرت، تعلیم، سیاست، صنعت و حرفت، ملازمت، غرض ہر شعبے وغیرہ میں حصہ لے سکیں ۔
امریکہ میں 1960ءکی دہائی میں تحریک ِآزادیِ نسواں کا دوسرا دور شروع ہوا۔بیٹی فرائیڈن (Betty Friedan,1921-2006) کی کتاب (Feminine Mystique,1963)نے اس میں اہم کردار ادا کیاچناں چہ عورتوں میں بغاوت اور تصادم کے نظریات رواج پانے لگے اور اس کے نتیجے میں گھر اور معاشرے سے سکون کاخاتمہ ہوگیا۔
رہی سہی کثرمغرب کے صنعتی انقلاب (1760)نے پوری کر دی ۔اس کے علاوہ جنگ عظیم اول (1914-1918)نے مردوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے ایک ایسا خلا پیدا کر دیا جسے پ ±ر کرنا آسان نہ تھا۔ چنانچہ آزادی اور حقوق نسواں کا نعرہ مزید بلند ہوا اورخواتین کو گھر سے باہر نکل کر معاشی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا، انہوں نے اپنے لیے اجرتوں میں مساوات اور ووٹ دینے کا حق طلب کیا، تاکہ انہیں اپنے مطالبات منوانے کے لیے آواز اٹھانے کا موقع مل سکے، پھرانہوں نے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا حق بھی چاہا، تاکہ وہ مساوات کو بجا ثابت کرسکیں۔مساوات کے لیے پہلی آواز میری وولسٹن کرافٹ (Mary Wollstone Craft,1759-1797)نے اپنی کتاب (Vindication Of The Rights Of Women,1972)کے ذریعہ اٹھائی اور اس میں اس نے لکھا:
”تعلیم،روزگار اور سیاست کے میدانوں میں عورتوں کی وہی حیثیت تسلیم کی جائے جو مردوں کو حاصل ہے۔ مزید یہ کہ دونوں صنفوں کے لیے اخلاقی معیار بھی یکساں ہونا چاہیے۔(ثریا بتول علوی،جدید تحریک نسواں اور اسلام،ص23)
خواتین کے اس نئے کردار کو متعین کرنے میں تین اصطلاحات نے بھی اہم رول ادا کیا ۔حقوقِ نسواں(Rights Of Women) ،مساواتِ مرد و زَن ( Gender Equality)اورآزادی (Liberty)۔ ان اصطلاحات سے آگاہی، ترغیب وتعلیم اور اس کے اطلاق میں اقوام متحدہ(1945) کا بہت بڑا کرداررہا ہے۔اس نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے مختلف جگہوں پر کانفرنس منعقد کرائیں۔جیسے:
سیڈاکنوینشن1979ء(تعلیم، ملازمت کا حق اور مواقع)،ویاناکانفرنس 1993ئ(خواتین کے انسانی حقوق ) ، قاہرہ کانفرنس 1994ء(آزادانہ جنسی و ہم جنسی معاملات) ،بیجنگ 1995اور بیجنگ پلس2000 (عورتوں کی معاشی آزادی، خود مختاری اور معاشی ترقی)۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی ہی تقریباً135 سے زائد بین الاقوامی غیر ملکی ایجنسیاں(NGOs) اس مقصد کی تکمیل میں لگی ہوئیں ہیں۔
موجودہ دور میں مغرب نے ’نیو ورلڈ آڈر‘ کا نعرہ بلند کیا اور دنیا کو ’سرمایہ دارانہ نظام‘ سے متعارف کرایا،جس کاسودی معاشی نظام، روایتی خاندانی نظام رکھنے والے خاص کر مسلم ممالک میں غربت،بے روزگاری،مہنگائی اور فی کس آمدنی(D.G.P) میں کمی کرنا، پھر ان کو مختلف مطالبات اور شرائط کے ساتھ عالمی بینک،آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ذریعے قرض دے کر لوٹنا وغیرہ خاص حصہ ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی ایک شکل ’مادہ پرستانہ طرز زندگی‘ ہے۔جس میں انسان فضول اخراجات کو لازم بنا لیتا ہے اور مارکیٹ میں آئی ہوئی غیر ضروری اور شان و شوکت والی چیزوں کے حصول کو زندگی کا مقصد سمجھنے لگتا ہے۔
ان سب سے متاثر ہو کر عورت گھر کے مخصوص دائرے اور ذمہ داریوں کو چھوڑ کر مرد کی طرح محنت و مزدوری اور کسبِ معاش کے لیے باہر نکلی اور اس نے سیاسی، معاشی، تعلیمی ،سائنسی اور دیگر تمام شعبہ جات میں اپنی ذمہ داریاں نبھائی اور مردوں کی برابری کرنے کی کوشش کی۔ Kirsten Amundsenکے مطابق:
Infact, more than 31 million adult women are now at work. They constitute at this time about 40% of our total work force.
”درحقیقت 13 ملین سے زیادہ نوجوان خواتین اس وقت (امریکہ میں) کام پر لگی ہیں، وہ اس وقت ہمارے کام کی طاقت کا 40% ہیں“۔
بیسویںصدی کے اخیر میں روس ایک ایسا ملک تھا، جہاںنوکری کرنے والی عورتوں کا تناسب دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہا ۔ "Tatyana Mamonova" لکھتے ہیں کہ:
The U.S.S.R has the highest female labour force participation rate of any modern industrial society. The percentages of women in such profession as medicine, law and engineering for exceed comparable western rates. Similarly, the percentages of women engaged in agriculture, construction and metal working remain high.
”جدید صنعتی معاشروں میں روس ایک ایسا ملک ہے جہاں جاب کرنے والی خواتین کا تناسب طب، قانون اور انجینئرنگ کے پیشوں میں تمام مغربی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔اسی طرح زراعت، تعمیرات اور میٹل ورکس میں بھی ان کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے“۔
بقول "Jacob Young"
One of the biggest problems that soviet women face is the double burden of holding down, a full time job and carrying for a house hold for many, a typical day begins with an early morning, bus ride to the office and includes stavding in long times at lunch time for the daily shopping, then dinner must be prepared, the children put to bed, the house cleaned. Few husbands pitch into held with these chores. According to a recent government reports, the average wife spends thirty four hours a week in work a round the home, while her husband puts in just six.
”ایک بڑا مسئلہ جس سے روس عورتیں دوچار ہیں، وہ ان پر دوہرا بوجھ ہے، یعنی ملازمت میں سارا وقت صرف کرنا اورساتھ ہی گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانا۔ عورتوں کے دن کا آغاز ایک مخصوص طریقے سے ہوتا ہے، صبح کو دفتر کے لیے بس پکڑنا اور ساتھ ہی روز مرہ ضروریات کے لیے دوپہر کے کھانے کے وقت لمبی قطار میں ٹھہرنا، کام کے اختتام پر مزید خریدوفروخت کرنا، پھر رات کا کھانا تیار کرنا، بچوں کو سلانا اورگھر کی صفائی کرنا ہے۔ اگر بعض خاوند ان چیزوں میں تھوڑا بہت ہاتھ بٹا دیتے ہیں۔ روسی حکومت کی حالیہ رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ بیوی ہفتے میں چونتیس(34) گھنٹے کام کرتی ہے جب کہ خاوند صرف چھ(6)گھنٹے کام کرتا ہے“۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین کی طرف سے دوہری ذمہ داریوں کے ادا کرنے اور مردوں کے کام میں ہاتھ بٹانے کے باوجود، انہیں ایک ہی قسم کے کام پر معاوضہ مردوں سے نسبتاً کم ملتا ہے، یعنی ایک ہی ملازمت یا عہدہ پر مامور ایک مرد اور عورت کی تنخواہوں میں فرق کیا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں ہے۔
Women also earn less than men in the same kind of job. For example, the medium pay of women workers in the U.S.A was 59% that of men in 1970.
”ایک ہی قسم کی ملازمت میں خواتین مردوں کے مقابلے میں کم آمدنی حاصل کر پاتی ہیں، مثال کے طور پر1970ءمیں عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کی اوسطاً تنخواہ 59%تھی“۔
عورت کو اپنے اس موجودہ کردار سے کتنا اور کیا فائدہ ہوا؟ایک رپورٹ کی درج ذیل الفاظ خود حقیقت بیان کر رہے ہیں:
دنیا کی آبادی میں عورتوں کی تعداد 51% ہے۔ ان میں سے 66% ملازمت کرتی ہیں، مگرصرف10% ہی آمدنی حاصل کرپاتی ہیں اور01% سے بھی کم جائیداد کی مالک ہوتی ہیں۔ (اقوام متحدہ: جنوبی ایشیا21ویں عالمی کانفرنس2001ئ)
آج امریکہ کے سلیم الطبع دانشوران 1950ءکی دہائی کو امریکی معاشرے کے لیے ماڈل قرار دیتے ہیں۔ ان کا فلسفہ یہی ہے کہ گھر عورت کے لیے جنت کی طرح ہے۔ معاشرے کا اجتماعی سکون گھریلو ماحول کو پرسکون رکھے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے عورت کا گھر پر رہنا ضروری ہے۔ ایک امریکی خاتون سلویا این ہیولٹ (Sylvia Ann Hewlett,1946) جو اکنامکس میں پی ایچ ڈی ہیں اورامریکہ کی 'اکنامک پالیسی کونسل' کی ڈائریکٹر ہیں۔ان کی ایک کتاب "A Lesser life: The Myth of Women's Liberation"
یعنی ”حیاتِ کمتر: عورتوں کی آزادی کا واہمہ “ میںایک باب کا عنوان "Ultra-domesticity: The return to Hearth and Home" ہے،یعنی ”بے تحاشا خانہ داری؛ گھر کی طرف مراجعت“ہے ۔اس میں وہ ایک جگہ لکھتی ہیں:
"In the United States the picture was dramatically different. In the 1950's Women with college degrees in the child-bearing group had a lower rate of employment than any other group of Women, for the plain fact was Women with college degrees were ofien married to pros- perous men. And in America in the fifties, if the family could afford it, the wife stayed at home."
”ریاست ہائے متحدہ کا منظر ڈرامائی طور پر مختلف تھا۔ 1950ءکی دہائی میں کالجوں سے فارغ التحصیل وہ نوجوان خواتین جو بچے پیدا کرنے کی عمر رکھتی تھیں ، ان میں ملازمت کی شرح عورتوں کے کسی بھی دوسرے گروہ سے کم تھی۔ اس کی سادہ سی و جہ یہ تھی کہ کالجوں سے فارغ التحصیل عورتوں کی شادیاں اکثر خوشحال مردوں سے ہوجاتی تھیں۔ پچاس کے عشرے میں اگر خاندان اس بات کا متحمل ہوتا تو بیوی گھر ہی میں رہتی تھی“۔ (صفحہ:153)
اسی طرح سوویت یونین کے آخری صدر ’میخائل گوربا چیو‘ (Mikhail Sergeyevich Gorbachev,1931)نے اپنی کتابPerestroika میں عورتوں کے بارے میں ایک باب Status of Womenکے نام سے قائم کیا ہے ۔اس میں اس نے لکھا :
”ہماری مغرب کی سو سائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا۔اس کے نتیجے میں ہم نے بے شک کچھ معاشی فوائد حاصل کیے اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوا، اس لیے کہ مرد اور عورت دونوں کام کر رہے ہیں لیکن پیداوار کے زیادہ ہونے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا اور اس کے نتیجے میں ہمیں جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں وہ ان فوائد کے مقابلے میں زیادہ ہیں جو ہمیں پروڈکشن میں اضافے کی وجہ سے حاصل ہوئے۔لہٰذا میں اپنے ملک میں ’پروسٹرائیکا‘ نام سے ایک تحریک شروع کر رہا ہوں۔جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے،اس کو کیسے گھر میں واپس لایا جائے؟اس کے طریقے سوچنے پڑیں گے،ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو چکا ہے،اسی طرح پوری قوم تباہ ہو جائے گی“۔
قومی ترقی کے لیے کیا عورتوں کا ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ناگزیرہے؟ یہ ضروری نہیں ہے۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔1990ءسے پہلے وہاں کی انڈسٹری ،صنعتی ترقی اور اشیا ءنے امریکہ اور یورپ کی مارکیٹ کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔کیوں کہ اس وقت تک وہاں کا معاشرہ مغرب کی Feminism تحریک کے فاسداثرات سے محفوظ تھا۔ حیران کن صنعتی ترقی کے باوجود جاپانی معاشرے نے اپنی قدیم روایات اور خاندانی اَقدار کو قابل رشک انداز میں برقرار رکھاتھا۔ امریکہ اور یورپی ممالک جاپان کے ’مینجمنٹ ‘کے اصولوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی نصابی کتب میں جاپان کے ا ±صولوں کو شامل کیا۔
1996ءمیں ہفت روزہ 'ٹائم' میں ٹویوٹا کمپنی کے چیئرمین کا ایک انٹرویو تھا جس میں امریکی صحافی نے ٹویوٹا میں عورتوں کی تعداد نہایت کم ہونے کی وجہ دریافت کی تھی۔ اس کے جواب میں ٹویوٹا کے چیئرمین کا جواب نہایت دلچسپ تھا، اس نے کہا تھا:
"We have already enough decoration flowers in our company"
”ہمارے ہاں پہلے ہی سجاوٹی پھول کافی ہیں“۔
آخر کار امریکہ اور یورپی ممالک جب جاپانیوں کا مقابلہ نہ کرسکے تو1990ءکے عشرے میں انہوں نے مسلسل جاپانی حکومتوں پر اپنے ملک کو Open کرنے،معاشرے میں امریکی فلمیںاور ثقافتی پروگرام عام کرنے اور ملازمتوں میں ’مساوی حقوق‘دینے کا دباؤ ڈالا۔ صدر ریگن (Ronald Reagan,1911–2004)اور جارج بش(George W. Bush,1946) نے جاپانی رہ نماؤں سے ہر ملاقات میں اس شرط کا اعادہ کیا کہ جاپان سے ہر سال ایک مخصوص تعداد میں اَفراد امریکہ اور یورپی ممالک کی سیر کریں۔ معروف صنعتی فرموں کو مجبور کیا گیا کہ و ہ اپنے ایگزیکٹوز کو یورپ اور امریکہ کی سیر پر جانے کی ترغیب دیں۔ سینئر مینیجرزکے لئے دیگر سفری الاؤنس کے ساتھ ایک نوجوان دوشیزہ کو اپنے ساتھ رکھنے کے الاؤنس بھی منظورکرائے گئے۔ امریکی ہوٹلوں نے جاپانی سیاحوں کو رعایتی نرخ پر سہولیات اور شباب و کباب کی تعیشات مہیا کیں۔ان عنایتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ1990ءکے بعد جاپان کی صنعتی ترقی کی رفتار پر بریک لگ گیا اوراب اس کی مایہ ناز ثقافتی اَقدار کا جنازہ نکل رہا ہے۔ نوجوانوں میں جنسی جرائم میں اضافہ ہوااوران میں محنت کی بجائے فیشن پرستی، آزاد روی اور آوارگی میں اضافہ ہو تاجا رہا ہے۔اس سے ہم لوگوں کو سبق لینا چاہیے۔ہندوستان میں بھی عورتیں ملازمت کے حصول کے لیے ہر ممکن کو شش کرتی ہیں۔
گلوپ ایجنسی (Gallup Agency)کی 2010کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں عورتوں کی کل تعداد586 میلین ہے۔ان میں سے 112میلین عورتیں کسی نہ کسی طرح کی جاب کرتی ہیں۔زراعت میں68.5% ،تمباکوپروڈکٹس اور کپڑوں کی صنعت میں10.8% ،کنسٹریکشن میں5.1% ، ٹیچنگ میں3.8% ،تجارت میں2.1% ، گھریلو کاموں میں 01.6%،ذاتی نوکری میں01.5%،ہیلتھ کیر میں01.1% اور بیوروکریسی میں01% عورتیں جاب کر رہی ہیںاور اس میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔
عورتوں کی ملازمت کے نقصانات
ایسے ممالک جہاں سیاست اور ملازمت میں عورتوں کا تناسب پوری دنیا کے مقابلے میں زیادہ ہے، وہاں خاندانی اَقدار کی تباہی نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔ وہاں عورتیں گھر کو’جہنم‘ سمجھتیں ، ماں بننے سے گریز کرتیں اور بچوں کی نگہداشت پر توجہ نہیں دیتی ہیں۔انہیں گھر سے باہر کی زندگی کا ایسا چسکا پڑا ہوا ہے کہ وہ گھریلو زندگی کو اَپنانے کے لیے تیار نہیں۔ بے نکاحی ماؤں اورلاولد بچوں کا سب سے زیادہ تناسب مغرب میں ہے اور جو لگاتار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔پروفیسر ثریا بتول کے مطابق:
”(مغرب میں) اسقاط حمل جائز قرار پانے کے باوجود ناجائز اور غیر قانونی بچوں کی کثرت ہو رہی ہے۔وہاں بچوں کی کم از کم 30% تعداد غیر قانونی ہے۔ یہی صورت حال فرانس میں ہے کہ اس کا ہر پانچواں بچہ ناجائز ہے۔ جب کہ برطانیہ میں ہر چوتھا بچہ غیر قانونی ہے“۔
مغربی ممالک میں طلاق کی شرحوں میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔1012کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 54.4%،جرمنی میں39.4% ، روس میں43.3%،ڈنمارک میں44.5% اوربرطانیہ میں42.6% طلاق کا تناسب تھا۔
طلاق کو بچانے کے لیے برطانیہ میں ہونے والے1997ءکے انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے اپنے ووٹرو ںکے لیے جن مراعات کا اعلان اپنے انتخابی منشوروں کیا۔ان میں یہ بھی تھا کہ:
۱۔ جو لوگ اپنے بزرگوں (والدین وغیرہ) کو اولڈ ہاوسز کی بجائے اپنے گھروں میں رکھیں گے، ان کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے گی۔
۲۔ جو شادی شدہ جوڑا اپنی رفاقت کے دس سال مکمل کرے گا اسے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔
تحریک ِآزادی نسواں اور مساوی حقوق کے خوب صورت نعرے مغربی ممالک کو معاشی طور پر بھی متاثر کیا۔1990ءکے بعد سے یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ برطانیہ، ناروے، سویڈن وغیرہ فلاحی اخراجات کے بجٹ میں مسلسل کمی کر رہے ہیں کیوں کہ اس سے ان کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔اس بجٹ کا بیشتر حصہ بچوں کے Child Care Centreکاقیام، بے نکاحی ماؤں کی مالی امداد اور ذہنی بیماری پر خرچ ہوتا ہے۔یہاں شیزوفینیا (Schizophrenia)نامی بیماری عام ہے جو خراب خاندانی حالات کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔اسی وجہ سے لائف انشورنس کے لیے ریاست کو عورتوں پر نسبتاً زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق مغربی ممالک میں عورتوں پر اٹھنے والے مجموعی اخراجات کا حجم قومی ترقی میں ان کے شراکتی حصہ سے کہیں زیادہ ہے اوریہ بھی کہ جاب کرنے والی خواتین اپنی آمدنی کے علاوہ مردوں کی آمدنی کا بھی خاصا حصہ خرچ کر ڈالتی ہیں لیکن ان کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ کسی تعمیری کام میں لگنے کی بجائے بناؤ سنگھار اور نمودونمائش پرہی خرچ ہوتا ہے۔
اگر ترقی کی اس دوڑ میں عورت اپنا کردار پسِ پردہ کرلے تو کیا شرح ملازمت میں کمی آجائے گی؟ نہیں، تاہم یہ ضرور ہوگاکہ فیشن کی چکاچوند دنیا ماند پڑ جائے گی اور10 /ارب ڈالر سے زائد میک اپ اور فیشن کی صنعت سرد ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ تعلیم اورملازمت میں آئیں تو فیشن کا کاروبار بڑھا۔ اس سے گھر کی معیشت پر بوجھ بڑھا اور معاشرے میں مصنوعی مسابقت کا رجحان بڑھا،ساتھ ہی خواتین جسمانی کمزوریوں اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ اعصابی مسائل کا شکار ہوئیں اورخوف و ہراس اور عدم تحفظ کے سبب نفسیاتی مسائل سامنے آئے۔ساتھ ہی عورت سے جنسی زیادتی،چھیڑ چھاڑاوران کافطرت کے خلاف کام کرکے اپنی نسوانیت اور جاذبیت کو کھو دینا،بچوں کا ماں کی شفقت و محبت سے محروم رہ جانا اور شوہر کو وقت نہ دے پانا وغیرہ جیسی مشکلات بھی پیش آتی ہیں۔
عورت کی ملازمت کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ مردوں کی بے روزگاری میں خطرناک اِضافہ ہوگیا ،ساتھ ہی بچوں کی تعلیم وتربیت بھی متاثر ہوئی اور بچوں میں جرائم کا تناسب بڑھ گیا کیوں کہ مائیں جس طرح بچوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتی ہیں ، مرد وہ توجہ نہیں دے پاتے ہیں۔
بعض حضرات عورت کی ملازمت کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم اپنی نصف آبادی کو’ عضوِ معطل ‘رکھ کر ترقی نہیں کر سکتے ہیں۔یہ بات ایسے کہی جاتی ہے گویا ملک کے تمام مردوں کو نوکری دے دی گئی ہے اوراب بھی کام بچا ہوا ہے جس کو کرنے والا کوئی نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ پہلے مردوں کی ’نصف آبادی‘ کو ہی نوکری مہیا کرا دی جائے پھر سوچا جائے کہ باقی نصف آبادی’ عضوِ معطل ‘ہے یا نہیں۔
بعض لوگ عورتوں کی ملازمت کے تعلق سے ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ آج کل مہنگائی کے دور میں میاں بیوی دونوں کابرسر روزگار ہونا گھر کے مجموعی وسائل میں اضافہ کا سبببنتا ہے لیکن بحیثیتِ مجموعی یہ مفروضہ مغالطہ پر مبنی ہے۔ ایک ملازم خاتون اپنی تنخواہ سے کہیں زیادہ یا کم از کم اِس کے قریب قریب اپنے لباس کی تیاری، میک اَپ، ٹرانسپورٹ، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا کے بندوبست، گھر میں نوکرانی کی تنخواہ وغیرہ پر خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ گھر میں عدمِ سکون، بے برکتی اور بدنظمی کا سامنا الگ کرنا پڑتا ہے۔ ایک ملازم پیشہ عورت خود بھی پریشان ہوتی ہے اور اپنے خاوند اور بچوں کو بھی پریشان کرتی ہے۔ وہ دعویٰ تو ’برابری‘ کا کرتی ہیں، لیکن انہیں دفتر لے جانے اور لے آنے کی ذمہ داری ان کے گھر کے مردوں ہی کو نبھانی پڑتی ہے۔ گویا ان کی ملازمت کی وجہ سے دیگرافراد بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ایسی صورت میں وہ قومی ترقی میں کوئی مثبت کردار کیسے اَدا کرسکتی ہے؟
ملک کی ترقی میں عورت کا شاندار کردار یہ ہے کہ وہ خاندانی نظام کو اس انداز میں سنبھالے کہ اجتماعی طور پر معاشرہ مستحکم ہو۔ورنہ گھر کو اجاڑ کر دفتروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوںکے ماحول کو’ رونق‘ بخشنے سے ترقی نہیں کی جا سکتی ہے ۔ عورتیں اعلیٰ تعلیم ضرور حاصل کریںمگر ان کی پہلی ترجیح خاندانی زندگی ہو۔ اگر وہ تعلیم حاصل کریں تو ان کا مقصد کسی کی پرائیوٹ سیکریٹری،اسٹینو ٹائپسٹ،سیلز گرل ،ایر ہوسٹس اور ماڈل گرل بننا نہ ہو بلکہ اپنے گھر کو بجٹ کے مطابق مناسب ڈھنگ سے چلانا، اپنے والد،بھائی ،شوہر کا حق ادا کرنا اور اپنے بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت کرنا اوران کو علم سے منور کرناہو۔ گھر معاشرے کا ایک بنیادی یونٹ ہوتا ہے توکیا اگر گھرمیں ترقی ہو رہی ہے تو معاشرہ ترقی نہیں کرے گا؟اور اس میں عورت کا کردار نہ ہوگا؟
بعض لوگ حضرت خدیجہؓ کی تجارتی سرگرمیوں کو بطور مثال پیش کرتے ہیں کہ آپؓ بھی تو تجارت کیا کرتی تھیں۔یہ درست ہے کہ حضرت خدیجہؓ کا اپنا کاروبار تھا۔اسلام نے بھی خواتین پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے کہ وہ اپنا ذاتی بزنس یا جاب نہیں کر سکتی ہیں،لیکن شرط یہ ہے کہ ان کے اعمال شریعت کی نگاہ ناجائز نہ ہو ں جیسے نامحرم کے ساتھ خلوت میں رہنا،ان سے اختلاط ہونا،نامناسب لباس کے ساتھ نکلنا،خاندان سے غافل ہونا اور ذمہ داریوں کا نہ ادا کرنا،شوہر بچوں کے حقوق نہ ادا کرنا اور اہلِ خانہ کی مرضی کے خلاف نوکری کرنا وغیرہ۔
ایک فرق یہ بھی تھا کہ حضرت خدیجہ بذات خود آج کی طرح اپنے کاروبار کے لیے گاو ¿ں اور شہروں میںنہیں گھوما کرتیں تھیں اور نہ ہی آفس میں آزادنہ مردوں سے گفتگو کیا کرتی تھیں، بلکہ انھوں نے اس مقصد کے لیے نبوت سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سیرت کی کتب کے مطالعے سے ان کی تجارتی سرگرمیوں میں اخلاقی قواعد و ضوابط نظر آتے ہیں۔اس لیے حضرت خدیجہ کی مثال لانا کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔قرآن و سنت نے چار خواتین کا تذکرہ امتِ مسلمہ کی خواتین کے لیے بطور نمونہ پیش کیا ہے:
۱- حضرت مریم بنت عمران:جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
و اصطفٰک علیٰ نساءالعٰلمین۔(اٰل عمران ۲۴)
اور آپ کو چن لیا گیا دنیا کی تمام قوموں کی عورتوں میں۔
۲-حضرت خدیجہ بنت خویلد : جن پر اللہ تعالی نے بذاتِ خود سلام بھیجا:
حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین پر اترے اور فرمایا کہ اللہ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اپنا سلام بھیجا ہے“۔(المستدرک علی الصحیحین:۳۰۸۴)
۳-حضرت آسیہ بنت مزاحم:جن کی مثال اللہ تعالی نے مومنوں کو دی:
و ضرب اللہ مثلاً للذین آمنوا امرات فرعون ۔(التحریم:۱۱)
اوراہلِ ایمان کے معاملہ میںاللہ فرعون کی بیوی(آسیہؓ) کی مثال پیش کرتا ہے ۔
۴- حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم:جن کو اللہ تعالی نے جنت میں عورتوں کا سردار بنایا:
”حضرت فاطمہ جنت میں عورتوں کی سردار ہیں“۔(اتحاف المھرة:۴۳۲۵)
معاشی ترقی میں ان کا کتنا اور کیا کردار تھا؟ ان کے کون کون سے معاشی کارنامے تھے جن کی بنیاد پر ان کو مثالی قرار دیا گیا ہے؟اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔
٭٭٭٭
 
Osama Shoaib Alig
About the Author: Osama Shoaib Alig Read More Articles by Osama Shoaib Alig: 65 Articles with 190088 views Osama Shoaib Alig is a Guest Faculty of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia, New Delhi. After getting the Degree of Almiya from Jamiatul Falah, Az.. View More