مجتہد العصر حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی

اگر 20ویں صدی کے آغاز میں دیکھا جائے تو سرکل بکوٹ میں جو شخصیت سماج، مذہب اور لوگوں کے دل و دماغ پر چھائی نظر آتی ہے وہ حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی ہیں،انہوں نے سرکل بکوٹ میں نہ صرف نماز جمعہ کا آغاز کیا بلکہ بہت سی ایسی مہلک ترین رسومات کا بھی قلع قمع کیا جنہوں نے یہاں کے سماج کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ، انہوں نے ایک ایسی باطنی تحریک کی بھی بنیاد رکھی جو آگے چل کر قیام پاکستان کی مہمیز بننے کے علاوہ کشمیری حریت پسندوں کیلئے بھی آکسیجن ثابت ہوئی، انہوں نے یہاں کے لوگوں کو ایک امنگ، تمنا اور جینے کی اس وقت آرزو سے آشنا کیا جب وہ انگریز کے جبر اور ہندو مظالم میں کراہ رہے تھے، ان کی جان ، مال اور عزت و آبرو بھی دائو پر لگی ھوئی تھی اور ان میں 1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مرگ کی کیفیت طاری تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کی صدی کے بعد بھی اہلیان سرکل بکوٹ کی چوتھی نسل اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ "پیر بکوٹی"ہمارے ہیں۔
حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کےوالدین انیسویں کے آغاز میں خاکی مانسہرہ سے بسلسلہ تبلیغ دین کنڈان شکریاں، پجہ شریف، آزاد کشمیر میں آکر آباد ہوئے، آج بھی وہاں ان کی قبریں اور ان سے منسوب گھر اور مسجد کے نشانات موجود ہیں، آپ کا سلسلہ نسب بقول صاھبزادہ پیر محمد زاہر بکوٹی اور صاحبزادہ پیر عبدالماجد بکوٹی خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان سے ملتا ہے اس لئے ان کا اصرار ہے کہ انہیں عثمانی تسلیم کیا جائے جبکہ ان کے بڑے بھائی اور آستانہ حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کے سجادہ نشین اعوان مورخ محبت حسین اعوان کے اس موقف سے متفق ہیں کہ وہ قطب شاہی آعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں، حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کے پوتوں میں اپنے شجرہ نسب کے بارے میں اختلاف غالباً اس وجہ سے بھی ہے کہ خود ان کے اپنے وصیت ناموں اور دوسری تحریروں میں وہ خود کو قریشی لکھتے ہیں اور بعد کے اپنے آخری سالوں میں انہوں نے قریشی کے بجائے بکوٹ کی جائے سکونت کی نسبت سے"بکوٹی" لکھنا شروع کر دیا تھا، وہ ذات پات کے بکھیڑوں میں پڑنا ہی نہیں چاہتے تھے تاہم ان کے دونوں پوتے اپنے حسب و نسب کے حوالے سے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، صاحبزادہ زاہر بکوٹی کا کہنا ہے کہ ان کے برادر بزرگ کے ہاتھوں کا تصدیق شدہ شجرہ نسب ان کے پاس ہے جس میں انہوں نے اپنے "عثمانی" ہونے کو تسلیم کیا ہے۔

حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی ابھی چند سال کے ہی تھے کہ ان کے والدین داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، جس پر پجہ شریف میں شادی شدہ بڑی ہمشیرہ انہیں اور دیگر بہن بھائیوں کو اپنے ہاں لے گئیں اور ان کی پرورش کرنے لگیں،15سال کے ہوئے تو انہیں ان کے ایک چچا اپنے ساتھ خاکی مانسہرہ لے گئے مگر وہ وہاں ٹھہر نہ سکے اور وہاں سے وہ رجوعیہ حویلیاں آ گئے جہاں انہوں نے تکمیل علم کی کئی منزلیں طے کیں، ان دنوں ہزارہ گلاب سنگھ کے ایک جرنیل ہری سنگھ نلوہ کے ظلم اور جبر کے ہاتھوں کراہ رہا تھا جبکہ لوگ ہزارہ سے اپنی جان مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کیلئے راہ فرار اختیار کر رہے تھے، ان حالات میں پیر بکوٹی سوات کی طرف عازم سفر ہوئے جہاں حضرت عبدالغفور المعروف اخوند صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا اور سلوک کی منازل بھی یہاں ہی سر کیں، ان دنوں سوات سمیت قبائیلی علاقوں میں بھی سیاسی انارکی کا دور دورہ تھا جس نے قبائیلیوں کی زندگیاں بھی حرام کر رکھی تھیں، ایسے میں اخوند صاحب نے سکھ فوج کیخلاف اور سید احمد شہید کی سربراہی میں جہاد کا حکم جاری کر دیا، پیر بکوٹی نے اپنے مرشد اخوند صاحب کی اجازت سے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے ہاتھوں پر بیعت کی اور بالا کوٹ تک آپ کی سرکردگی میں جہاد میں پروانہ وار حصہ لیا اور داد شجاعت دی، آپ نے مسلمان خواتین کی سکھوں کے ہاتھوں بیحرمتی اور شاہ اسماعیل شہید کے کردار عظیمت کا اتنا گہرا اثر لیا کہ اپنے اہل خانہ کیلئے پردہ لازمی قرار دیا جو آج بھی چلا آ رہا ہے اور شاہ اسماعیل شہید کے اثر کے تحت آپ کی وصیت کے تحت آپ کے صاحبزادوں نے دارالعلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی، سید احمد شہید کی مقدس صحبتوں کے زیر اثر آپ عمر بھر آل رسول کیلئے احترام کے جذبات سے سرشار رہے، وہ سواری پر ہوتے تو سید کے احترام میں اس سے اتر جاتے، معرکہ بالا کوٹ کی ناکامی کے بعد آپ دو بارہ اپنے مرشد اخوند صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تاہم اب کی بار آپ کو حکم ملا کہ وہ تبلیغ دین اور اصلاح امت کیلئے کشمیر اور کوہسار (سرکل بکوٹ اور مری) کو اپنا مرکز بنا لیں اس پر آپ اپنے مرشد سے ہمیشہ کیلئے وداع ہوئے اور پھر ان کی ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔اپنے مرشد کے حکم پر آپ واپس مانسہرہ آئے، کچھ روز وہاں رہنے کے بعد آپ اپنے ایک استاد کی قدم بوسی کیلئے رجوعیہ تشریف لائے، اتفاق سے یہ عیدالاضحیٰ کا دن تھا، اس موقع پر قربانی بھی کی جا رہی تھی مگر ایک بیل قابو میں نہیں آ رہا تھا، یہ منظر آپ کے سامنے تھا، آپ بھی آگے بڑھےاس بیل کو گردن سے پکڑا اور بچھاڑ دیا، ان کےاستاد اس موقع پر بولے کہ تو واقعی پیر ہےکیونکہ یہ کام کسی پیر کی طاقت کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اس کے بعد آپ کی کرامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں اور آ پ کو پیر بکوٹی کہا جانے لگا۔

پیر بکوٹی ایک مصلح، رواحانی رہبر، عالم دین اور اخلاق و اعتقادات بد کو ختم کرنے والے تو تھے ہی، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ اور مشن صلوٰۃ جمعہ کا قیام تھا، جس زمانے میں آپ نے یہ مشن شروع کیا اس وقت کے علما نماز جمعہ کا انعقاد شہر سے مشروط کئے ہوئے تھے اور دور دراز کے لوگوں کو زندگی میں ایک آدھ بار حج کی طرح نماز جمعہ نصیب ہوتا تھا، آپ نے اس سلسلے میں اجتہاد کیا اور دو مقتدی اور ایک امام کی موجودگی میں نماز جمعہ کی اقامت کا فتویٰ جاری کر دیا، اس سے کشمیر سمیت کوہسار بھر میں ایک طوفان آ گیا، علما نے خود ان کی تکفیر کی اور اس اجتہاد کو بدعت قرار دے کر مسترد کر دیا، انہوں نے اپنے مشن کا آغاز پوٹھہ شریف کی مسجد سے کیا اور اس سے قبل انہوں نے اس کی تعمیر نو کرائی، 1870 کے رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع سے کوہسار میں آپ کی امامت میں پہلی نماز جمعہ ادا کی گئی، دوسری نماز جمعہ اگلے سال رمضان المبارک میں ہی اوسیا کی جامعہ مسجد میں ادا کی گئی، بیروٹ میں نماز جمعہ کا آغاز 1894کے رمضان کریم میں کیا گیا جب آپ نے یہاں امامت کے فرائض سنبھالے، 1905 میں بیروٹ کی دوسری جامع مسجد کھوہاس میں اپنی امامت میں نماز جمعہ پڑہائی ، بکوٹ میں نماز جمعہ کا آغاز آپ نے 1912کے رمضان میں کیا، ان کی سب سے زیادہ مخالفت کوہسار کے پہلے دیوبندی عالم مولانا میاں محمد دفتر علوی نے کی اور ان کے خلاف تکفیر پر مبنی کلمات بھی کہے اس کے جواب میں پیر بکوٹی نے صرف اتنا کہا کہ اگرچہ یہ بات قرآن و سنت میں تو نہیں مگر جس کام سے تبلیغ و اشاعت دین مزید بہتر انداز میں ہو ، مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کا جذبہ پیدا ہو وہ بدعت نہیں اجتہاد ہے، آج کوہسار کے ہر گائوں کی ہر مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی ہو رہی ہے اور اس کا ثواب بھی پیر بکوٹی کو خلد بریں میں پہنچ رہا ہے۔

حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کے نماز جمعہ کے مقدس مشن کے آغاز کے بارے میں مختلف نظریات رائج ہیں، ان کے اس مشن کے بارے میں سب سے زیادہ زور اہلیان بکوٹ دے رہے ہیں اور اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ جب پیر بکوٹی نے پوٹھہ شریف میں حضرت پیر ملک سراج خان کی مسجد کی تعمیر اور اس میں اقامت صلوٰۃ جمعہ کے بارے میں فتویٰ جاری کیا تو اپنے نام کے ساتھ بکوٹی بھی لکھا تھا، اس کا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے نماز جمعہ کا آغاز بکوٹ سے کیامگر مصدقہ دستاویزات، ہم عصر لوگوں کی روایات اور دیگر آزاد ذرائع سےاس بات کا پتہ چلا ہے کہ پوٹھہ شریف اور اس میں محو خواب حضرت پیر ملک سراج خان سے پیر بکوٹی کی عقیدت کی متعدد اور نا قابل تردید وجوہات تھیں،پیر بکوٹی ایک مجدد کی حیثیت سے حضرت پیر ملک سراج خان کو کشمیری نژاد کوہسار کا سب سے بڑا صوفی تسلیم کرتے تھے۔پیر بکوٹی کے علاقے پجہ شریف کی زلیخا نامی ایک خاتون پوٹھہ شریف میں بیاہی ہوئی تھی اور آپ اسے بہن کی نسبت سے "بووو" کہتے تھے، اپنی اس منہ بولی بہن سے ان کے انس کا یہ عالم تھا کہ وہ جب بھی اس علاقے سے گزرتے تو اپنی اس بہن کیلئے تحفے تحائف بھی لاتے جسے مقامی زبان میں "سنبھال" کہتے ہیں مگر ان کا قیام حضرت پیر ملک سراج خان کی مسجد میں ہوتا ۔ مقامی لوگوں نے بھی آپ کی اس دلچسپی کو محسوس کیا اور آپ سے پوٹھہ شریف میں قیام کی درخواست کی جبکہ آپ نے اس قیام کا آغاز اس مسجد کی تعمیر نو اور نماز جمعہ کے کوہسار میں پہلی بار آغاز سے کیا۔ اسی منہ بولی بہن کے کہنے پر آپ نے اپنی بیروٹ والی سب سے چھوٹی صاحبزادی راحت نور کا رشتہ پوٹھہ شریف کے ڈاکٹر عبدالخالق منہاس کو دیا تا کہ اس علاقے سے قرابت داری کے تعلق کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔
حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کے اہلیان کوہسار کے ساتھ احترام اور عقیدت کے تعلقات تھے، پوٹھہ شریف میں ایک دو سال قیام کے دوران ان کے کوہسار بھر کے دورے رہے، ان کے مشورے سے ہی اہلیان اوسیاہ نے مسجد بھی تعمیر کی اور یہاں پر آپ نے 1871میں پہلی بار نماز جمعہ کی امامت کی، معروف دانشور اور حکیم ڈاکٹر محمود جدون قادری اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں کہ پیر بکوٹی کے ان کے دادا سے بہت اچھے مراسم تھے اور وہ جب بھی اوسیاہ آتے ان کے گھر ہی قیام کرتےمگر عبیداللہ علوی کہتے ہیں کہ پیر بکوٹی کی اوسیاہ میں دلچسپی کی ایک وجہ جدید اور قدیم تعلیم کے اس علاقے میں بانی حضرت مولانا ہاشم علوی کا خانوادہ بھی تھا، پیر صاحب عبدالمجید المعروف پیر صاحب دیول شریف اپنی ایک کتاب میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے پڑ دادا مولانا ہاشم علوی نے 1835میں سکھوں سے جہاد میں جام شہادت نوش کیا تھا، سیڈا سکول سسٹم بیروٹ کے بانی افتخار عباسی کہتے ہیں کہ اوسیاہ میں ان کے خسر ریاض عباسی کے دادا کی پیر بکوٹی سے اتنی عقیدت تھی کہ انہیں انہوں نے اپنے گھوڑے کی کاٹھی اور عصا بھی عطا کیا تھا-

حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی 1860 کے لگ بھگ وسطی بکوٹ تشریف لائے، مگر انہوں نے مولیا میں قیام کو پسند کیا، اس کی وجوہات بکوٹ کی سیاسی و سماجی شخصیت سردار الیاس خان یوں بیان کرتے ہیں۔ پیر بکوٹی تنہائی پسند تھے، وہ عبادت و ریاضت میں ہمہ وقت مصروف رہتے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی وجہ سے کسی کے آرام و سکون میں خلل واقع ہو نہ انہیں کوئی تنگ کرے۔ جتنے وہ شب زندہ دار تھے اتنے ہی وہ مجالس روحانی کے دلدادہ بھی، عصر سے عشا تک ان کی تمام مصروفیات عام لوگوں کیلئے ہوتیں، وہ حالات سے مایوس لوگوں کی ڈھارس بندھاتے، ضرورت مندوں کی مدد کرتے اور مریضوں کا علاج بھی کرتے۔ ایک روز کسی شخص نے ان کی خدمت میں انگور بھیجے، انہوں انگور کا دانہ اپنے منہ کی طرف پھینکا مگر وہ منہ کے اندر جانے کے بجائے دوسری طرف گر گیا، اس پر آپ اٹھ کھڑے ہوئےاور فرمایا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتا ، یہاں سے اب میرا رزق ختم ہو چکا ہےاور پھر وہ پوٹھہ شریف کی طرف چلے آئے۔ ان کے ساتھ قاضی عبداللہ بھی تھے مگر انہیں بکوٹ میں ہی قیام کی ہدایت کی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پیر بکوٹی نے اپنی عمر کی پانچویں دہائی میں مولیا میں قیام کے دوران اپنے نام کے ساتھ لاحقہ "بکوٹی"لگایا اور اسے زندگی بھر خط و کتابت میں بھی استعمال کرتے رہے تاہم اپنے نام کے ساتھ "قاضی"کے سابقے کے استعمال کی وجہ یہ تھی کہ اپ کا بچپن پجہ شریف کے قاضیوں کے ساتھ گزرا تھا مگر بعد میں انہوں نے قاضی کا سابقہ اپنے نام سے حذف کر دیا۔

اوسیاہ کے بعد پیر بکوٹی کا قیام بیروٹ کی تاریخ کا بھی اہم واقعہ ہے، بیروٹ کی پہلی اور مرکزی مسجد کا انتظام یہاں کے بنکال، حاجیال، للیال,فقیرال اور مرتال خاندان کے پاس تھا، 1840میں لورہ سے بیروٹ آ کر پناہ لینے والے سید جیون شاہ اور ان کا خاندان مذہبی فرائض ادا کرتا تھا مگر واجبی سے، اس لئے اس مسجد میں امامت و خطابت کے لئے اہلیان علاقہ کو ایک جید عالم دین کی ضرورت تھی، اہلیان بیروٹ کی درخواست پر آپ مستقل طور پر 1893کے اواخر میں بیروٹ آئے، مسجد کی تعمیر نو کروائی اور 1894کے رمضان کریم میں یہاں پہلی بار نماز جمعہ کا ّغاز کیا، آپ کے کہنے پر مسجد کے ٹرسٹیوں نے یہاں ایک مسافر خانہ بھی بنایا جہاں پر عوام علاقہ کے تعاون سے لنگر بھی جاری کیا، خانوادہ پیر بکوٹی کی ایک روایت کے مطابق ایک رات پیر بکوٹی کو خواب میں دربار رسالت مآب میں دو یتیم بچے دکھائے گئے اور نبی پاک نے آپ سے فرمایا کہ یہ بچے تمہارے لنگر میں آتے ہیں اور واپس بھوکے چلے جاتے ہیں، آپ اسی وقت پسینے سے شرابور اٹھے اور اس روز لنگر کی نگرانی خود کی، مگر رات کو پھر دربار رسالت میں آپ کی طلبی ہوئی یہ سلسلہ تیسرے روز بھی ہوا اور اس روز پیر بکوٹی ایک ایک آدمی کو خود دیکھتے رہے، انہوں نے دیکھا کہ دوردو بچے دھکم پیل کی وجہ سے سہمے ہوئے بیٹھے ہیں، بچوں کے جسم پر صرف قمیض تھی، آنکھوں اور چہرے سے بھوک کی وجہ سے نقاہت نمایاں تھی، آپ لپک کر ان بچوں کے پاس پہنچے، دونوں کو اٹھایا اور اپنے کمرے میں لیکر آئے، انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان بچوں کے چھ بہن بھائی اور بھی ہیں مگر کبھی گھر میں کھانا پکتا ہے اور کبھی نہیں، انہوں نے بچوں کو تکید کی کہ وہ روزانہ ان کے پاس آئیں خود بھی کھانا کھائیں اور گھر والوں کیلئے بھی لے جائیں، انہوں نے بچوں کے بارے میں معلومات کیں تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ کاملال ڈھونڈ عباسیوں کی مسجد کے امام مولانا میاں عبدالعزیز علوی کے نواسے اور مولانا میاںاکبردین علوی کے پوتے ہیں، اس پر پیر بکوٹی بنفس نفیس خود مولانا میاں عبدالعزیز علوی کے پاس آئے، دونوں نے کھل کر باتیں کیں اس دوران یہ معلوم ہوا کہ پیر بکوٹی اور مولانا میاں عبدالعزیز علوی ایک ہی خاندان کی دو شاخیں ہیں، پھر ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا، پیر بکوٹی نے ان یتیم بچوں کی بیوہ ماں کے رشتہ کیلئے مولانا میاں عبدالعزیز علوی سے درخواست کی اور یہ سعادت مند خاتون ستر جان پیر بکوٹی کے عقد میں آ کر حیات جاوداں پا گئیں، یہ پیر بکوٹی کی سب سے پہلی شادی تھی، پیر بکوٹی اس کے بعد کھوہاس منتقل ہو گئے اور یہاں پر ہی امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دینے لگے۔نهوں نے بگلوٹیاں مسجد میں سید نور حسین شاه كا خادم سے سٹیٹس اپگریڈ كروا كر اپنی جگه امام اور خطیب مقرر كرنے كیلئے ٹرسٹیوں سے بات كی جو انهوں نے قبول كر لی، صرف یهی نهیں بلكه پیر بكوٹی سید نور حسین شاه كے صاحبزادے سید فضل حسین شاہ كی علمی فضیلت، پاكیزه كرداراور ان كے اپنے اطوار سے اتنے متاثر هوئے كه اپنی سوتیلی بیٹی زلیخا كو ان كے عقد میں دیدیا مگر سید فضل حسین شاه كے بڑے اور سوتیلے بهائی میر جی شاه كو اپنے بهائی كی یه عزت افزائی كسی طور پر هضم نه هو سكی اور اس نے اس مثالی جوڑے كا جینا حرام كر دیا، 1919میں هونے والی یه شادی 1923میں اسی شخص كی وجه سے اختتام پذیر هوئی مگر پیر بكوٹی كی عزت كو كمتر سمجهنے والا یه میر جی شاه برساله میں ایك ٹریفك حادثه میں هلاك هوا اور اس كی شكل بهی مسخ هو گئی، اس كی نسل كے خاتمه كی وجه سے آج اس بے نام و نشاں شخص كی برادری كو بهی اس كا نام یاد نهیں۔(جاری ہے)
 

Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 58786 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More