علم گریز ملائیت کی حقیقت

ملائیت ، اس کائنات میں اﷲ تعالی کی مرکزی حیثیت اور اﷲ کی علمی دسترس کے لامحدود امکانات سے بے تعلق ، انسانی زندگی کے مختلف متعلقات پر حدیث ﷺ کی اطلاقی صورتوں میں بھی بے علمی پر مبنی نظریات رکھتی ہے ۔ ملائیت انسانی ترقی کے مختلف امکانات سے خائف ایک سوچ ہے ۔ ملائیت اپنے علم گریز رجحان کے تحت ، قرآن مجید کی ہر آیت اور حدیث ﷺ کا ایک ایسا خاص مطلب پیش کرتی ہے جس میں اﷲ تعالی کی مرکزی حیثیت کا فقدان ہوتا ہے ۔

بظاہر ملائیت کے دو پہلو ہیں ایک ثقافتی اور دوسرا نظریاتی ، ان دونوں پہلوؤں سے اس کی علم گریزیت واضح ہے ۔ یہ مندرجہ ذیل طریقے سے اپنے وجود کا اظہار کرتی ہے :

۱۔ ہدایت اﷲ اور بندے کے درمیان ایک مسلسل کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو کم و بیش قبر تک جاری رہتا ہے ۔ ہدایت کی ابتدائی قدم پر ہی ملائیت مخصوص قسم کا رکھ رکھاؤ ، لباس اور وضع قطع کی شرط عائد کرتی ہے ۔ اگر ایسا درست ہے تو حضور پاک ﷺ اس قسم کی شرائط عائد کیوں نہیں کیا کرتے تھے ۔؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ امریکہ ، جرمنی یا دیگر ممالک کے ایسے افراد جنہیں اﷲ تعالی ہدایت عطا فرماتے ہیں اور وہ اسلام قبول کرتے ہیں ، وہ کوٹ پتلون ، اور مغربی ثقافت کے حامی ہوتے ہیں ، انہیں اسلام کی قبولیت کا شرف ملائیت کی وضع قطع کے بغیر کیوں مل جاتا ہے ؟

بات یہ ہے کہ ہدایت اور زھد کی اپنی اپنی شرائط اور لوازمات ہیں جو اﷲ تعالی طے کرتے ہیں ۔ ملائیت اپنی کم علمی کی بنیاد پر ہدایت اور زھد کے لئے اپنی شرائط متعین کرتی ہے۔اور اس طرح اﷲ تعالی کی علمی برتری کو ثانوی حیثیت دیتی ہے ۔اﷲ تعالی کا نظم یہ ہے کہ پہلے ہدایت اور پھر تدریجا ً زھد اختیار کیا جائے جبکہ ملائیت زھد کے بعد ہدایت کی الٹی ترتیب طے کرتی ہے ۔ہدایت کے بعد زھد تدریجا ً ایک نظم کے ساتھ آنا فطری ہے مگر ملائیت عین شروع میں آخری سیڑھی سے ابتدا ء کرتی ہے ۔ یہ اس کی علم گریزیت کی ایک مثال ہے ۔

۲۔ ملائیت کے نظریاتی پہلو بھی ہیں ۔ اﷲ تعالی کے قرآن مجید میں زیادہ تر آیات میں اﷲ تعالی نے غور اور تدبر کا جو درس دیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اﷲ تعالی کی تخلیقات کے اندر پوشیدہ علمی انکشافات میں انسان کو اﷲ تعالی سے براہ ِ راست منسلک کرنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔

انسان کو اﷲ تعالی سے براہ ِ راست منسلک کرنے کے حوالے سے ملائیت علمی انکشافات کے برعکس اﷲ کی تخلیقات کو با لذات ان کی ذاتی حیثیت میں اہم سمجھتی لیتی ہے اور اس حوالے سے ان کے اندر پوشیدہ علمی انکشافات کو ثانوی سمجھتی ہے ۔مثلاً اﷲ تعالی کی صفت ، قرآن مجید اپنی ذاتی حیثیت میں انسان کو اﷲ تعالی سے براہ ِ راست منسلک کرنے کے حوالے سے ملائیت کے لئے بڑا متبرک ہو گا مگر قرآن مجید کے اندر درج علمی اور عملی خزانہ اس حوالے سے اس کے لئے ثانوی ہے ۔ حضور پاک ﷺ کی ذات انسان کو اﷲ تعالی سے براہ ِ راست منسلک کرنے کے حوالے سے اس کے لئے بہت مبارک اور متبرک ہو گا مگر حضور پاک ﷺ کی حیات ِ طیبہ میں پوشیدہ عملی اور علمی انکشافات اس حوالے سے اس کے لئے ثانوی ہیں ۔ ملائیت کے عمل اور نظریات سے یہ سب آپ پر تدریجاً واضح ہوتا چلا جائے گا ۔

ملائیت اﷲ تعالی کی کائناتی علمی دسترس اور کمال کا احاطہ نہیں کر سکتی کیو نکہ اپنی مخصوص علم گریز رجحانات کے تحت یہ اس کے بس کی بات نہیں ۔ با وجوہ اپنی علم گریزیت کے ملائیت ہمہ جہت نہیں ہوتی ۔اس لئے دنیا میں سائینسی ترقی ہمیشہ سے اس کا درد ِ سر رہی ہے۔ ستم یہ ہوا ہے کہ اﷲ نے تدبیر کے تحت اہل ِ یورپ کو سائینس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں پر برتری دینا طے کر دیا ہے ۔

مثلاً غور کیا جائے تو اﷲ تعالی نے اپنے زبردست علم کی بنیاد پر انسان کو اپنی تخلیق میں سے نقص نکالنے کا ایک کھلا چیلنج دیا ہے : سورہ نمبر 67 ، سورہ الملک ، آیات نمبر 3 اور 4 : (۔۔۔۔ جس نے اوپر تلے سات آسمان بنائے ۔تو رحمان کی تخلیق میں کوئی نقص نہ دیکھے گا ۔دوبارہ نظر ڈال کیا کوئی شگاف ہی نظر آتا ہے ۔ ۔ پھر نظر ڈال تیری نظر ناکام واپس لوٹ آئے گی ۔۔۔ ) موجودہ دور میں جدید ترین Hubble Telescope کے باوجود انسان نے اﷲ تعالی کا یہ چیلنج قبول نہیں کیا ہے ۔

مگر ملائیت کے نزدیک اﷲ کی علمیت ثانوی تھی اسی لئے اس نے چاند کی تسخیر ماننے پر کفر کا فتوی عطا فرمایا ۔ بقول ملائیت کے لاؤڈ سپیکر کے استعمال سے اسلام شدید خطر ے میں پڑ گیا تھا ۔ کلونگ ، موبائیل ٹیکنالوجی اور دیگر سائینسی ایجادات سے ملاوؤں کو فکر لاحق ہے ۔

ملائیت سر پیٹتی رہ گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے اس سے بھی آگے بڑھ کر جانتے بوجھتے تمام تر ترقی اہل ِ یورپ کو عطا کی ۔ انٹرنیٹ اور تقریباً تمام تر دنیاوی وسائل پر انہیں دسترس دی ہے ۔دنیا کی تمام تر فوجی اور معاشی طور پر اہم گذرگاہوں پر بلا شرکت ِ غیرے ان کو حکمرانی حاصل ہے۔ سٹیلائیٹ کے ذریعے دنیا بھر کی خلاائی نگرانی کی صلاحیت دے دی گئی ہے ۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر ایک فون کال ٹیپ کر سکتے ہیں ۔تیل و گیس کی قیمتیں ان کے قبضے میں ہیں ۔ فرعون کی گز بھر کی خدائی کیا معنی رکھتی ہے اصل خدائی تو اہل ِ یورپ کو دور ِ حاضر میں اﷲ نے دی ہے ۔ عام مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ بے چارے دم سادھے حضرت عیسی ؑ کی راہ تک رہے ہیں !

ضرورت کے تحت مجھے یہاں دو طر یقہ ء علاج کا ایک تقابلی جائزہ پیش کرنا ہے ۔ ایک کو ہم حکمت کہتے ہیں جبکہ دوسرے کو انگریزی طریقہء علاج کہتے ہیں ۔ حکمت نے دور ِ جدید کے تقاضوں کو یک سر رد کرتے ہوئے تحقیق اور تنوع کو بر ا سمجھا لہذا وہ اپنی افادیت کھو بیٹھا ۔ دوسری طرف انگریزی طریقہء علاج نے جدید تقاضوں کو خوش آمدید کہا اور تحقیق اور ترقی کا عمل جاری رکھا ، اسے پے در پے کامیابیاں ملتی چلی گئیں ۔حالانکہ ایکس ریز مشین ، ایم آر آئی مشین ، سٹی سکین مشین ، سٹیتھو سکوپ ، انجیکشن ٹیکنیک وغیرہ وغیرہ سب کی سب فزکس کے ماہرین یا دوسرے علوم کے ماہرین نے بنائیں ہیں ان میں ڈاکٹر صاحبان نے ایک ڈ ھیلے کا کام نہیں کیا مگر چونکہ ڈاکٹر صاحبان نے ان چیزوں کو خوش اسلوبی سے اپنایا اور تبدیلی اور ترقی سے اپنے آپ کو ہم آہنگ رکھا لہذا اس طریقہء علاج نے خوب ترقی کی ہے ۔

تقریباً اس سے ملتی جلتی کہانی مسلمانوں اور یورپ کی ہے ، جو حکمت کا حال ہوا ہے وہی ہم مسلمانوں کا ہوا ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے مدرسہ اور سکول دونوں ہمہ جہت Pluralistic سوچ کے حامی نہیں رہے ہیں ۔ مدرسہ صرف عبادات اور فقہ میں گم ہو کر رہ گیا اور اس سے آگے ترقی کا جہاں اس سے اوجھل رہا جبکہ ہمارے معاشرے کا سکول ، سائینسی اور مشینی ترقی سے خالی ایک کنوئیں پر کولہو کے بیل کی طرح چکرا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ مدرسے پر ملاازم اور سکول کے ماتھے پر سیکولرزم کا ٹیکہ سج گیا ۔

بات یہ ہے کہ ہمیں سائینس اور مذہب کے مابین قائم رشتے کو دریافت کرنا ہے ۔یہ ممکن نہیں کہ اﷲ تعالی کا پیش کردہ دین اس اہم انسانی ضرورت سے خالی ہو ۔ قرآن مجید کے پارہ نمبر : 27 ، ، سورہ نمبر : 54 ، سورہ القمر ، آیت نمبر : 49 ، میں اﷲ تعالی نے ارشاد فرما یا کہ : بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کیا ہے ۔۔۔۔۔ اس اندازے کو ایک با قاعدہ طریقے سے جاننا سائینس کہلاتا ہے ۔ اﷲ تعالی کی بنائی ہوئی کسی بھی مادی یا غیر مادی اشیاء میں باقائدہ طریقے سے یہ جاننا ہے کہ اﷲ تعالی نے اپنی ان تخلیقات کو کس قدر منظم بنایا ہے ۔۔۔‘ سائینس کہلاتا ہے ۔ یوں تحقیقی اور علمی انکشاف کے بعد ایک طالب ِ علم کا اﷲ تعالی کی ossession p میں جانے کا امکان بڑھ جائے گا نتیجتاً حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی درست ہو گی ۔

اسی ملائیت کی طرح کے خاص طرز ِ فکر کے نتیجے میں عمومی کم آگہی کے باعث فی زمانہ سائینس اور اﷲ تعالی کو باہم مقابل لا کھڑا کر دیا گیا ہے ، اگر کوئی درست سائینسی علم سے آگاہ ہو تو صاف دیکھ سکتا ہے کہ سائینس اﷲ تعالی کے آگے سر جھکائے اس کے احکامات کی منتظر ہے ۔

انسانی عقل یا طریقہء کار کو رفتہ رفتہ اﷲ تعالی کے قائم کردہ نظم کے مطابق باقائدہ ہونا پڑا ہے تب کہیں جا کر انسان اﷲ کی ان تخلیقات سے مستفید ہو سکا ہے اور وہ ان کے مثبت یا منفی پہلوؤں پر کسی حد تک دسترس حاصل کر سکا ہے نہ کہ یہ ہوا ہے کہ اﷲ تعالی کی تخلیقات کے اندر نظم انسان کے اس باقائدہ طریقہء کار کے مطابق پیدا ہوا ہے جسے حضرت ِ انسان سائینس کا نام دیتا ہے ۔

دوسرے انداز میں کہا جائے تو بات یوں ہو گی کہ تسخیر ِ کائنات کے لئے سائینس کا یہی وہ طریقہء کار تھا جو اس دور کے انسان کو اﷲ تعالی نے اپنی تخلیقات کا مطالعہ کر نے کے لئے دیا ہے جبکہ اس سے پہلے کے انسان جو کسی بھی سطح پر تسخیر ِ کائنات میں مصروف تھے چونکہ اﷲ تعالی کی تخلیقات کے نظم کے مطابق کوشش نہیں کر رہے تھے ، ناکام رہے ۔ بلکہ آج بھی جہاں جہاں انسان کا so called باقائدہ طریقہ ء کار اﷲ تعالی کی تخلیقات کے نظم کے مطابق نہیں ہوتا وہاں ہمیں اکثر Noise Pollution, Air Pollution, Land Pollution , وغیرہ وغیرہ کی اطلاع ملتی ہے۔

سائینس نہ صرف اﷲ تعالی کی مقرر شدہ قائدے کے بیان کی محتاج ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ درست انسانی مشاہدے کی بھی محتاج ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سائینسی نظریات غلط انسانی مشاہدات کے نتیجے میں طرح طرح کی اوٹ پٹانگ قلابازیاں کھا چکے ہیں ۔

اﷲ تعالی کی طرف سے اہل یورپ کو اﷲ تعالی کی بنا ئی ہوئی اشیاء کے متعلق First Hand Knowledge ملتا ہے ۔ باقی کم و بیش تمام دنیا کو اشیاء کا 2nd Hand Knowledge ملتا ہے ۔ اہل ِ یورپ کے لئے اتمام ِ حجت کے تحت اﷲ تعالی کی یہ ایک تدبیر ہے ۔ اﷲ تعالی نے یورپ کو مسلمانوں پر مخصوص علمی اور ٹیکنالوجیکل برتری تو دی ہے مگر اہل ِ مغرب کو برتری میں چھپی مصلحت پر بھی نظر رکھنا چاہئے ۔ سب کچھ جاننے والے اﷲ کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہو سکتا ہے ۔

اﷲ تعالی نے مسلمانوں کے لئے بھی راستہ بند نہیں کیا ہے ، میدان کھلا ہے ، کوئی آئے تو ؟ مگر یہ صراط ِ مستقیم اسے نظر آئے گا جو اﷲ تعالی کے مقرر کئے ہوئے اندازے کے مطابق عمل کر کے دکھائے گا ۔ محض استحقاقیہ انداز میں دعاؤں سے کام نہیں بنے گا ۔ اس کے لئے دلوں کو بدلنا پڑے گا ۔

سائینسی ترقی کا یہی کام اﷲ تعالی حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ یا حضرت علی ؓ یا کسی اور صحابی ؓ سے بھی لے سکتے تھے ۔ اﷲ تعالی نے ان حضرات ؓ کو معاونت ِ رسول ﷺ اور اخلاقی ترقی میں کمال کے لئے چنا اور یہ حضرات عشرہ ء مبشرہ میں شامل ہوئے جبکہ اﷲ تعالی نے اتمام ِ حجت کے لئے Physical Sciences میں ترقی اہل ِ یورپ کو دی تاکہ وہ خود اﷲ تعالی کی تخلیقات میں اﷲ کا قائم کردہ نظم تلاش کریں اور possess ہو کر اگر چاہیں تو اس کی معرفت پائیں ۔ حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ یا حضرت علی ؓ یا دوسرے صحابی ؓ تو اﷲ کے ہاں کامیاب ہوئے ، اہل ِ یورپ کی کامیابی دیکھنا باقی ہے ۔

جیسے اﷲ تعالی نے گھر یعنی معاشرے کی ایک اکائی میں روز مرہ کے نظام کو بہتر طور پر کام کرنے کے لئے باپ کو ماں اور بچوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے اسی طرح اخلاقی ترقی کو سائینسی اور تکنیکی ترقی پر ایک درجہ فوقیت ہے ۔

اہل ِ یورپ کو اﷲ تعالی اپنی آنکھ کا اتار چڑھاؤ دکھاتے رہتے ہیں کبھی برف باری کی صورت تو کبھی سیلابوں کی شکل اور اﷲ کے پاس تو ایسے لشکر ہیں جنہیں اﷲ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا اور اسے لشکروں کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔اﷲ تعالی کے لئے اپنی مرضی اور اپنے پیارے نبی ﷺ کے دین کو بچانا کچھ بھی مشکل نہیں ۔ اگر حضرت عیسی ؑ نے ہی آکر حضرت محمد ﷺ کے دین کو بچانا ہے تو کم از کم آپ اتنا تو کریں کہ ملائیت کے اس لبادے کو ہی اتار پھینکئے کہ حضرت عیسی ؑ پہچان پائیں کہ آپ محمد ﷺ کے امتی ہیں ۔ علم گریز روش نے آپ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے ۔ علامہ اقبال نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ :
باقی نہ رہی وہ تیری آئینہ ضمیری
اے ! کشتہ ء سلطانی و ملائی و پیری

( اختتام )

Farhat Ali Baig
About the Author: Farhat Ali Baig Read More Articles by Farhat Ali Baig: 4 Articles with 7396 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.