ہمارے اندر عدم برداشت کیوں․․؟

کچھ لوگ وعدے کی پاسداری کے لیے اور کچھ لوگ فرمانبرداری کے لیے لڑتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگوں سے ہمیں انسیت ہوجاتی ہے، چاہے وہ لوگ سیاسی ہوں یا مذہبی۔ اس اُنسیت میں ہم کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ لوگ اسی کا فائدہ اٹھا کر ہمیں دھوکا دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ وعدے کئے جاتے ہیں جنہیں نبھانا آخری سانس تک ضروری ہوتا ہے اور انکی ناخلفی کا گویا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بڑے لوگ ایسے ہی کچھ لوگوں سے وعدے لیتے ہیں کہ وہ ہر حال میں انکا کہنا مانیں گے۔ اس طرح کہیں بھی حالات خراب کروانے ہوں یا لڑائی کروانی ہو انہیں آگے کر دیتے ہیں۔ یہ بڑے لوگ خود تو آرام و سکون سے رہتے ہیں اور اپنے کارندوں کو شہر بھر میں پھیلا دیتے ہیں جو ان کے لیے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر لڑتے ہیں۔ کہیں وہ اپنے عہد کی پاسداری کر رہے ہوتے ہیں اور کہیں فرمانبرداری۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ شہر کے حالات جب بھی خراب ہوئے تو وہ کسی بڑے کشادہ علاقے میں کم ہی ہوئے زیادہ تر تنگ اور چھوٹے علاقوں میں حالات خراب ہوئے جب بھی گاڑیاں جلیں وہ غریب لوگوں کی جلیں، جب بھی گھر ٹوٹے تو غریب عوام کے ٹوٹے۔ بڑے لوگوں کا کام صرف حکم دینا ، بیٹھ کر تماشہ دیکھنا، میڈیا پر بڑے بڑے بیانات دینا اور انجوئے کرنا ہوتا ہے۔ بس اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

مگر لڑائی جھگڑے جو ہمیں سڑکوں اور گلی کے کونوں میں نظر آتے اب انہوں نے ہمارے تعلیمی ادارں کا رخ کرلیا ہے۔ طلباء کی ہنگامہ آرائی کی خبریں بہت عام ہو گئی ہیں ہمارا اسٹوڈنٹس طبقہ جو ایک باوقار ،ایک عمدہ،ایک شاندار کام سے منسلک ہے جب وہ یہ کرے گا تو باقی اور لوگ کیا کریں گے؟ ان سے تو پھر کوئی گلا بنتا ہی نہیں۔

آئے روز شہرکی مختلف یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیموں میں ٹھن جاتی ہے۔ پس پردہ حقائق کیا ہوتے ہیں یہ سب جا نتے ہیں۔ دونوں تنظیموں کا تعلق کسی نا کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی سے ہوتا ہے۔ جو دراصل ان کی لڑائی کا سبب بنتی ہے۔ ایک پارٹی کے طلبہ چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کا جھنڈا لگے تو دوسری کہتی ہے کہ ان کی پارٹی کو اولین ترجیح دی جائے۔ جب بات نہیں بنتی تو پھر نوبت ڈنڈوں، پتھراؤ آخر کار گولی گالی پر ختم ہوتی ہے۔ پولیس اور رینجرز اپنی ڈیوٹی کے فرائض طلبہ کے جھگڑے پر سرانجام دیتی ہے اور یوں کچھ طلبہ زخمی تو کوئی شدید زخمی حالت میں ہسپتال کی زینت بن جاتے ہیں۔ کچھ تعلیم اداروں سے تھانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور باقی ان کے والدین کو اطلاع دینے کے لئے گھروں کو چل دیتے ہیں۔ والدین ہڑبڑائے ہوئے جب پہنچتے ہیں تو ہسپتال سمیت پولیس والے بھی برہم نظر آتے ہیں۔

والدین پریشانی کی حالت میں صبح اپنے بچوں کو گھر سے نکلتا دیکھتے ہیں کہ خدا خیر کرے کہیں آج پھر ان کا ’’لال‘‘ کوئی نیا گل کھلا کر نا آجائے۔ روز روز کی خبروں نے والدین کو انہیں خدشات میں گھیر رکھا ہے۔ ایک شہر کے سنگین حالات ہیں کہ جس سے کوئی شخص بھی محفوظ نظر نہیں آتا۔ رہی سہی کثر تعلیمی اداروں میں خانہ جنگی نے پوری کردی ہے۔

ایک لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ نوجوان طبقہ کو خریدنا مشکل کام نہیں ہے۔ غربت، بے روزگاری یاکسی اور مجبوری کے تحت جب نوجوان پہلی مرتبہ کوئی غلط کام کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس کے بعد وہ غلط کام نہیں کرے گا مگر اس کے بعد وہ غلط کام کروانے والے بلیک میل کر کے اس سے مزید غلط کام کرواتے ہیں۔ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ برائی کی مثال ایسی ہے جیسے آپ پہاڑ سے اتر رہے ہو ایک قدم اٹھایا تو باقی خود بخود اٹھتے چلے جاتے ہیں۔

آج ہمارے ملک کے حالات کی خرابی کی بڑی وجہ یہ ہی ہے نوجوان کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے غلط کام کرتے ہیں اور پھر کرتے ہی جاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ باقی انسانوں کا قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

ایک جگہ لکھا ہوا تھا ’’گنہگاروں کے شہر میں پرندے بھی گھونسلے نہیں بناتے‘‘ آج ہم اور بہت سارے گناہوں کے ساتھ ساتھ انسانوں اور انسانیت کا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اگر ایسا ہی چلتا رہا اور ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب ہمیں اس شہر ہی میں نہیں بلکہ ملک میں بھی کوئی پرندا نظر نہیں آئے گا۔

ناجانے میں ہمارے نوجوانوں کن کی نظر لگ گئی ہے۔ یہیں نوجوان ہوتے تھے جو کبھی غوری ہوتے تھے، تو کبھی غزنوی اور کبھی محمد بن قاسم ہوا کرتے تھے۔ قوم کو آج ان کی ضرورت ہے اور ان کو کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ نہ اپنی نہ والدین کی اور اس قوم کی جن کی قیادت انہوں نے کرنی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی تو یہ صفات ہوا کرتی تھیں ، علامہ اقبال نے بڑے درد دل کے ساتھ نوجوانوں کو ان کا مقام یاد دلایا ہے کہ
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالاتھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِدارا

ضرورت آج اس امر کی ہے کہ ہم باہم دست و گریباں ہونے کی اپنی تعلیم پر توجہ دیں ۔ آج ہم خود کے گریباں پکڑیں گے ، خود کو نشانہ تشدد بنائیں گے تو کل ہم دشمن کے مقابلے میں کمزور ہوں گے۔ ہم نہ تو اپنا دفاع کرسکیں گے اور ان اپنے وطن عزیز کا۔ ہمیں تو اس قوم کی قیادت کرنی ہے۔ ہمیں آپس میں شیریں و شکر ہونا گا۔ سیاست کے نام پر لڑائی جھگڑوں سے بچنا ہوگا۔ کوئی کسی بھی پارٹی کا ہو ہے تو وہ پاکستانی ، وہ مسلم ۔ تو کیوں نہ ہم بھائی بھائی بن کر رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کا ثبوت دیں۔ اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!

Safoor Nisar
About the Author: Safoor Nisar Read More Articles by Safoor Nisar: 11 Articles with 12016 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.