جرمن شاعر وولف گانگ گو ئٹے کی نظم ’ نغمہ ٔ محمدیؐ ‘ کے تین تراجم

جان وولف گانگ گوئٹے GOETHE, JOHANN WOLFGANG عیسوی سنہ 1749 میں جر منی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوا اس نے اہل ِ علم کے خاندان میں آنکھیں کھو لیں وہ یوں کہ اس کا باپ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور اس کی ماں حا کم ِ شہر کی بیٹی تھی۔ گوئٹے جرمن ادب کا سب سے عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ ابتداء ہی سے، بلکہ اپنی نو جوانی ہی سے گوئٹے کو اسلام اور مشرق سے بے حد دلچسپی تھی۔ اسی لئے اس نے عربی زبان بھی سیکھی تھی۔ گوئٹے کے خیال میں نئی ثقافتوں کی دریافت کے لئے ادب اور مذہب سے زیادہ کار آمد کو ئی اور ذرائع نہیں ہوسکتے اس لئے اس نے مشرقی ادب میں رومی ؔ اور حافظؔ کی شاعری کا اور ساتھ ہی ساتھ مذاہب کے ذیل میں زرتشت کی تعلیمات اور دینِ اسلام کا مطا لعہ کیا ۔مشرق اور اسلام سے گوئٹے کی دل چسپی اور مطالعہ کا دورانیہ ۱۸۱۴ سے ۱۸۲۷ عیسوی تک محیط ہے ۔ گوئٹے کی معر کۃالآرا ء کتاب ’ دیوانِ مغرب ‘ جس کا جرمن نام Divan West-östlicher ہے، اسے جرمن ۔فارسی عہد کا ایک آغاز ہی کہا جاسکے گا جس کی ابتداء ۱۸۱۴ میں ہوئی جب اسے دیوانِ حافظؔ کی جرمن زبان میں آسٹر یائی مستشرق جوزف وون ہیمار پرگستال کی ترجمہ کردہ دو جلدیں مو صول ہوئیں۔جوزف کے تراجم اور تبصروں نے جرمن عوام کی دلچسپی مشرق کے مطالعہ میں بڑھانے میں بے حد اہم کردار ادا کیا۔ دیوانِ حافظ کے مطالعے نے جہاں ایک جانب گوئٹے کے جوش میں اضافہ کیا وہیں اس نے مشرق کے ساتھ فکری transaction and dialogues کی راہیں بھی ہموار کیں۔ گوئٹے نے اپنی اس کتاب کے کئی عنوانات بدلے لیکن ہر عنوان میں اس نے لفظ ’دیوان‘ بر قرار رکھا، یہ اس کی علمیت اور شخصیت پر حافظؔ کے اثرات کا عکاس ہے۔ اس دیوان میں سو نظمیں ہیں جو جرمن زبان میں لکھی گئی ہیں کہ یہی گوئٹے کی مادری اور تخلیقی زبان تھی۔ گوئٹے کے اس دیوان کو مشرق و مغرب کے ادب کا حسین امتزاج کہا جاتاہے۔ اس کتاب میں کئی ابواب شامل ہیں اور ہر باب کے لئے فارسی اور جرمن ، دونوں زبانوں میں متبادلات دئے گئے ہیں۔ زیرِ مطالعہ نظم ’ نغمہ ٔ محمدیؐ ‘ گوئٹے کی شہرہ ٔ آفاق نظم ہے جس نے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ چونکہ گوئٹے کو جر منی کے قومی شاعر جیسی اہمیت حاصل تھی، اور اسے سارے عالم میں بڑی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اس لئے اس کی اس نظم نے ایک بڑے طبقے کو اپنے دام ِ اثر میں لے لیا۔ اس نظم کے کئی زبانو ں میں تراجم ہوئے ۔ یہ نظم گو ئٹے نے غالباً ۱۷۷۲؁ یا ۱۷۷۳؁ میں لکھی تھی جوسب سے پہلے Göttinger Musenalmanach میں ۱۷۷۴؁ میں شائع ہو ئی تھی۔ اس نظم میں ایک نا بغہ ٔ روزگار شخصیت، حضرت محمد ؐ کے لئے ایک’ جوئے آب‘ کی علامت اور استعارہ استعمال کیا گیا ہے جسے دھیرے دھیرے ایک عظیم دریا کی شکل اختیار کر تے دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم در اصل آپ ؐ کی سیرت پر گوئٹے کے ایک غیر مطبوعہ ڈرامے کا حصہ تھی جسے پلے کر نے کا اس کا ارادہ تھا۔ لیکن وہ ڈرامہ اسٹیج ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، نظم نے ٖضرور گوئٹے کے اخلاص کو شرف ِ قبولیت بخش دیا۔ اور اسے نہ صرف یہ کہ عالمگیر شہرت عطا کردی بلکہ اگلے وقت میں اسے عموماً مشرق اور خصو صا ً علامہ اقبال ؔ سے نزدیک کر دیا۔ وولف گانگ گو ئٹے جرمنی کا وہ عظیم شاعر ہے جس کی تصنیف ’ پیغامِ مغرب‘ کے مطالعے نے اقبالؔ کو غور و فکر پر مجبور کیا اور پھر جواباً اقبالؔ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’ پیامِ مشرق‘ تخلیق کی۔اقبال ؔ نے گو ئٹے کے بارے میں کہ مشہور جملہ بھی کہا ہے کہ گو ئٹے ’’ نیست پیغمبر ولے دارد کتاب‘‘۔ اقبال نے گوئٹے کی نظم ـ ’ Mohamet's Gesang‘ کا آزاد ترجمہ بعنوان ’ جوئے آب‘ کیا ہے۔ پھر دوسرا ترجمہ اردو میں شان الحق حقی ؔ نے کیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم آ پ کو جر من زبان کے فورا ً بعد انگریزی میں لیسلی نو رِس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں تا کہ آپ اس شہرہ ٔ آفاق نظم کا لطف چار زبانوں میں لے سکیں۔ سب سے پہلے اصل جرمن زبان میں یہ نظم ملاحظہ کیجئے۔
MAHOMAET'S GESANG
Johanne Wolfgong van Goethe.

Seht den Felsenquell,
Freudehell,
Wie ein Sternenblick;
Über Wolken
Nährten seine Jugend
Gute Geister
Zwischen Klippen im Gebüsch.
Jünglingsfrisch
Tanzt er aus der Wolke
Auf die Marmorfelsen nieder,
Jauchzet wieder
Nach dem Himmel.
Durch die Gipfelgänge
Jagt er bunten Kieseln nach,
Und mit frühem Führertritt
Reißt er seine Bruderquellen
Mit sich fort.
Drunten werden in dem Tal
Unter seinem Fußtritt Blumen,
Und die Wiese
Lebt von seinem Hauch.
Doch ihn hält kein Schattental,
Keine Blumen,
Die ihm seine Knie umschlingen,
Ihm mit Liebesaugen schmeicheln:
Nach der Ebne dringt sein Lauf
Schlangenwandelnd.
Bäche schmiegen
Sich gesellig an. Nun tritt er
In die Ebne silberprangend,
Und die Ebne prangt mit ihm,
Und die Flüsse von der Ebne
Und die Bäche von den Bergen
Jauchzen ihm und rufen: Bruder!
Bruder, nimm die Brüder mit,
Mit zu deinem alten Vater,
Zu dem ewgen Ozean,
Der mit ausgespannten Armen
Unser wartet
Die sich, ach! vergebens öffnen,
Seine Sehnenden zu fassen;
Denn uns frißt in öder Wüste
Gierger Sand; die Sonne droben
Saugt an unserm Blut; ein Hügel
Hemmet uns zum Teiche! Bruder,
Nimm die Brüder von der Ebne,
Nimm die Brüder von den Bergen
Mit, zu deinem Vater mit!
Kommt ihr alle! -
Und nun schwillt er
Herrlicher; ein ganz Geschlechte
Trägt den Fürsten hoch empor!
Und im rollenden Triumphe
Gibt er Ländern Namen, Städte
Werden unter seinem Fuß.
Unaufhaltsam rauscht er weiter,
Läßt der Türme Flammengipfel,
Marmorhäuser, eine Schöpfung
Seiner Fülle, hinter sich.
Zedernhäuser trägt der Atlas
Auf den Riesenschultern; sausend
Wehen über seinem Haupte
Tausend Flaggen durch die Lüfte,
Zeugen seiner Herrlichkeit.
Und so trägt er seine Brüder,
Seine Schätze, seine Kinder
Dem erwartenden Erzeuger
Freudebrausend an das Herz.

حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر قارئین کا جرمن زبان کو سمجھ پانا نا ممکنات میں سے ہے لیکن میں نے صرف اس لئے جر من زبان کو بھی شامل کر دیا ہے تاکہ اصل بھی موجود رہے اور کسی صورت اس مضمون کے ذریعے محفوظ ہوجائے۔چونکہ جرمن زبان کے بہت سے الفاظ کو انگریزی الفاظ سے مناسبت ہے اس لئے جر من زبان میں اس اصل نظم کی پیش کش اتنی غیر متعلق بھی نہیں ہے جتنی ہم میں سے کو ئی صاحب اسے تصور کر تے ہوں۔

اب اس نظم کا انگریزی تر جمہ حاضر ہے جو مشہور عالمی شخصیت لیسلی نورِس نے کیا ہے۔ یہ انگریزی ترجمہ میں نے انگریزی میں اس نظم کے بہت سے اچھے تراجم میں سے منتخب کیا ہے۔ میں ان تینوں زبانوں میں اس نظم کے تر جمہ کو اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ نظم کا موضوع ہمارے لئے جتنا اہم ہے، اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ تین مختلف زبانوں کے معنوی ابعاد کے باوجود وہ روانی، اور خیالات کا وہ تسلسل جو اصل جرمن نظم کا خاصہ ہے، وہ ان تراجم میں پایا جاتا ہے یا نہیں۔
Mahomet’s Song
ؒLeslie Norris
See the mountain spring
Sparkle with joy,
Like the light of stars!
Above the clouds
Generous spirits
Nourished his freshets
In thickets among crags.
Brisk with young vigor
From the clouds he dances
Down to marble boulders,
Exultant, he leaps again
Up toward heaven.
Through gaps between peaks
He rolls his bright pebbles,
And with a leader’s strides
Carries his sibling streams
Onwards and downwards.
And then, in the valley,
Flowers blaze in his footsteps,
And the green fields breathe
With the life of his breath
No dark valley can hold him,
Nor can flowers
Bent at his knees
Contain him with adoring glances;
He bursts his way to the flat land
Like a snake uncoiling.
Little streams nestle,
Flocking to his side; and now
He enters, glittering,
Into his meadows
And the land shines with his light,
The lowland rivers
The mountain brooks
Cheer for him, shouting: Brother,
Brother, take us with you,
Take us to your ancient Father,
To the everlasting ocean,
Who waits for us
With open arms;
Open, alas, in vain
To embrace his eager ones:
For in the avid desert
Dry sand eats us,
The sun above us
Will suck our blood, a hill
Dams us to a pond! Brother,
Take your lowland brothers with you,
Take your brothers from the mountains
With you, with you, to your father!
Come, all of you!
Majestically
He rises; a noble family,
They bear aloft this royal lord,
And on he rolls, triumphant,
Naming whole countries, the cities
Which come to life at his feet.
Unstoppable now, he rides in thunder,
Leaving behind him turrets tipped
With flame, marble palaces,
Evidence of his abundance
Like Atlas, he carries great ships
On his giant shoulders. The flutter
Of a thousand whistling sails
Testify to his might and majesty.
So he carries his brothers,
His children, his treasures,
In roaring tides of joy
To their father’s waiting heart

انگریزی زبان میں یہ ترجمہ ایک نئے فکری زاویہ کو دعوت دیتا ہے۔ اس ترجمہ نے اپنی حتی الامکان کو شش کی ہے کہ وہ اصل سے قریب تر ہوجائے اور لیسلی نورِس کافی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔
اب ا س مشہور ترجمہ کی طرف آئیے جسے ایک عالمی شاہکار کا درجہ حا صل ہوا۔ یہ تر جمہ علامہ محمد اقبال ؔ نے کیا ہے ، جو آزاد تر جمے کی بہترین مثال ہے ۔ یہ ترجمہ پیام ِ مشرق میں ’ جو ئے آب ‘ کے عنوان سے شامل ہے۔

جوئے آب
از : علامہ اقبال ؔ

بنگر کہ جوئے آب چہ مستانہ می رود
ما نندِ کہکشاں بہ گریبانِ مرغزار
در خواب ناز بود بہ گہوارۂ سحاب
وا کرد چشمِ شوق بہ آغوشِ کوہسار
از سنگریزہ نغمہ گشاید خرامِ او
سیمائے او چو آئینہ بے رنگ، بے غبار
زی بحرِ بے کرانہ چہ مستانہ می رود
در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود
در راہِ او، بہار پری خانہ آفرید
نر گِس دمید و لالہ دمید و سمن دمید
گُل عِشوہ داد و گفت یکی پیش ما با است
خندید غنچہ و سَرِ دامانِ او کشید
نا آشنائی جلوہ فروشانِ سبز پوش
صحرا برید و سینۂ کوہ و کمر درید
زی بحرِ بے کرانہ چہ مستانہ می رود
در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود
صد جو ئے دشت و مرغ و کہستان و باغ و راغ
گفتند اے بسیط زمیں با توسازگار
ما را کہ راہ از تنک آبی نبردہ ایم
از دست بُردِ ریگِ بیا با ں نگاہ دار
وا کر دہ سینہ را بہ ہوا ہائے شرق و غرب
در بر گرفتہ ہمسفراں زبون و زار
زی بحرِ بے کرانہ چہ مستانہ می رود
در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود
در یائے پُر خروش زِ بند و شِکن گذشت
از تنگنائے وادیٔ کوہ و دَ من گذشت
یکساں چوں سیل، کردہ نشیب و فراز را
از کاخ و بارہ و کشت و چمن گذشت
بیتاب و تند و تیز و جگر سوز و بے قرار
در ہر زماں بہ تازہ رسید از کہن گذشت
زی بحرِ بے کرانہ چہ مستانہ می رود
در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود

اقبال ؔ کے اس تر جمہ کے بعد اردو میں کافی عر صہ بعد شان الحق حقی ؔ نے رواں آزاد نظم میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ نظم بھی حقی ؔصا حب کی دو زبانوں کے فطری بعد کو دور کر نے کی ایک کامیاب کو شش کی طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔

’نغمہ ٔ محمدیؐ ‘

ترجمہ اردو۔ شان الحق حقی۔

وہ پاکیزہ چشم
جو ، اوجِ فلک سے چٹانوں پر اُترا
درخشاں ستاروں کی تھی جوت جس کے بدن میں
سحابوں سے اوپر ، بلند آسماں میں پُر افشاں ملائک کی
چشمِ نگہدار کے سائے سائے
چٹانوں کے آغوش میں عہدِ بر نائی تک جوئے جولاں بنا
چٹانوں سے نیچے تھے اترے
وہ کتنے رنگا رنگ انگھر، خزب ریزے
دامانِ شفقت میں اپنے سمیٹے
بہت سے سسکتے ہوئے، رینگتے ہوئے، سست، کم مایہ سوتوں کو
چونکاتا، للکار تا، ساتھ لیتا ہوا خوش خراماں چلا
بے نمو وادیاں جاگ اٹھیں، لہلہا نے لگیں
جس طرف اس کا رُخ پھِر گیا
اس کے فیضِ قدم سے بہار آگئی
اس کے آگے ابھی اور صحرا بھی تھے
خشک لہریں بھی تھیں، اترے دریا بھی تھے
سب اسی سیلِ جاں بخش کے منتظر
جوق در جوق پاس اس کے آنے لگے
شور آمد کا اس کی اُٹھانے لگے
راہ بر ساتھ ہم کو بھی لیتے چلو
کب سے تھیں پستیاں ہم کو جکڑے ہوئے
راہ روکے ہوئے ، پاؤں پکڑے ہوئے
یاد آتا ہے مَسکن پرانا ہمیں
آسمانوں کی جانب ہے جانا ہمیں
ورنہ یوں ہی نشیبوں میں دھنس جائیں گے
جال میں اُن زمینوں کے پھنس جائیں گے
اپنے خالِق کی آواز کانوں میں ہے۔
اپنی منزل وہی آسمانوں میں ہے۔
گرد آلود ہیں ، پاک کر دے ہمیں
آ ! ہم آغوشِ افلاک کر دے ہمیں
وہ رواں ہے، رواں ہے رواں اب بھی ہے
ساتھ ساتھ اس کے اک کارواں ایسا بھی ہے۔
شہر آتے رہے، شہر جاتے رہے
اس کے دم سے سبھی فیض پاتے رہے
اُ س کے ہر موڑ پر ایک دنیا نئی
ہر قدم پر طلوع ایک فردا نئی
قصر اُبھرا کئے، خواب ہو تے گئے
شاہ اور شاہیاں خواب ہوتی گئیں
عظمتیں کتنی نایاب ہو تی گئیں
ہے وہ رحمت کا دھارا مسلسل رواں
از فلک تا ز میں
از زمیں تا فلک
از ازل تا ابد، جاوداں، بے کراں
دشت و در گُلشن و گُل سے بے واسطہ
فیضیاب اس سے
اور خود، کَل سے بے واسطہ۔

یہاں تک تو ایک شہرہ ٔ آفاق تخلیق کے تین مختلف زبانوں میں تراجم ہم نے پیش کئے ہیں تا کہ آپ اس نظم کی تین مختلف ثقافتی اور ادبی جہتوں سے متعارف ہوسکیں ۔ ہم اس معاملے میں آپ کو غور و فکر کے لئے آزاد چھوڑتے ہوئے اپنی جانب سے کسی رائے کا اظہار نہیں کر نا چاہتے۔ یہ کام آپ خود کریں اور اگر مناسب محسوس کریں تو ا س مو ضوع پر مکالمہ قائم کریں تاکہ لکیر پر لکیر پیٹنے والی ذہنیت سے بچا جاسکے اور ادب میں نئے رویوں کو فروغ دیتے ہوئے تحقیق کو نئی سمتوں سے متعارف کر وایا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع :
۱۔ پیام ِ مشرق : علامہ اقبال۔ اقبال اکیڈمی۔ پاکستان۔
۲۔ قند ِ پارسی۔ رایزنی فر ہنگی جمہوری اسلامی ایران۔ نئی دہلی۔ شمارہ ۔۹۱۔ ستمبر۔دسمبر ۲۰۰۲۔
۳۔ عالمی نعتیہ انتخاب۔ اطیب اعجاز۔ حیدر آباد۔

Hasnain Aaqib
About the Author: Hasnain Aaqib Read More Articles by Hasnain Aaqib : 2 Articles with 1682 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.