علم کیا ہے ؟

علم کی تعریف :
علم دراصل کسی بھی مادی یا غیر مادی چیز کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر وہ فیصلہ کن دسترس ہے جس سے اﷲ کی ذات اس کائنات کی ہر چیز پر مکمل اختیار حاصل کئے ہوئے ہے۔

اﷲ اور علم :
غور کیا جائے تو ایسے ہی علم کی بنیاد پر اﷲ تعالی نے انسان کو اپنی تخلیق میں سے نقص نکالنے کا ایک کھلا چیلنج دیا ہے : سورہ نمبر 67 ، سورہ الملک ، آیات نمبر 3 اور 4 : (۔۔۔۔ جس نے اوپر تلے سات آسمان بنائے ۔تو رحمان کی تخلیق میں کوئی نقص نہ دیکھے گا ۔دوبارہ نظر ڈال کیا کوئی شگاف ہی نظر آتا ہے ۔ ۔ پھر نظر ڈال تیری نظر ناکام واپس لوٹ آئے گی ۔۔۔ )

موجودہ دور میں جدید ترین Hubble Telescope کے باوجود انسان نے اﷲ تعالٰی کا یہ چیلنج قبول نہیں کیا ہے ۔ اﷲ تعالی کی ذات کو کسی بھی چیز کے مثبت اور منفی تمام پہلوؤں پر اتنی زبردست دسترس حاصل ہے کہ اﷲ کی ہر تخلیق بے مثال اور لا ثانی نہیں ۔ آزمائش کی خاطر ایک انسان کی آنکھوں کو درست بنانا اور کسی دوسرے انسان کی آنکھوں میں نقص ڈال دینا ایک بلکل مختلف بات ہے ۔

اﷲ کے علم کا نتیجہ :
اﷲ تعالی کے علم کا نتیجہ ہے کہ اﷲ تعالی کو اس پوری کائنات میں بلا شرکت ِ غیرے حا کمیت ِ اعلی حاصل ہے ۔سورہ نمبر : 9 3 ، سورہ الزمر ، آیت نمبر : 38 : (۔۔۔یہ بتاؤ جنہیں تم اﷲ کے سوا پکارتے ہو اگر اﷲ تعالی مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں ؟ یا اﷲ تعالی مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟ آپ کہ دیں کہ مجھے اﷲ کافی ہے ۔۔۔۔)

انسان اور علم :
انسان بھی اپنے طور پر کسی بھی چیز کے منفی اور مثبت تمام پہلوؤں پر فیصلہ کن دسترس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بعض صورتوں میں بغیر مانگے بھی ، اﷲ تعالی رفتہ رفتہ جس قدر چاہتے ہیں اپنی خاص حکمت عملی کے تحت مختلف چیزوں پر یہ دسترس انسان کو عطا بھی کر تے ہیں ۔سورہ نمبر 2 ، سورہ البقرہ آیت نمبر 255 میں اﷲ تعالی فرماتے ہیں : ( ۔۔۔۔اور وہ اس کے علم میں کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے ۔۔۔۔)

ہم نماز ، روزہ ، حج ، زکو ۃ و غیرہ کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کا علم بھی حاصل کرتے ہیں ۔ مثلاً نماز کے مثبت پہلوؤں سے مراد نماز کو مکمل کرنے والے عوامل اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد ہیں جبکہ نماز کے منفی پہلوؤں سے مراد وہ عوامل ہیں جن کے نہ ہونے سے نماز کے معیار میں کمی ہو سکتی ہے ان عوامل میں ایسے نقصانات بھی شامل ہیں جو نماز نہ پڑھنے سے ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح ہر بدنی ، مالی اور قولی عبادت کے اپنے اپنے مثبت اور منفی پہلو ہیں ۔ تمام مادی اور غیرمادی چیزوں کے علم کی حقیقت بھی اسی طرح سے ہے ۔

انسان کے علم کا نتیجہ :
حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں سے متعلق احکامات کو حضور پاک ﷺ کی طرح پورا کرنا عبادت کہلاتا ہے ۔ نتیجتاً علم کے بعد انسان کو اﷲ تعالی کی عبادت میں پاکیزگی حاصل ہو نا چاہئے ۔ یہاں پاکیزگی سے مراد اپنے مرضی یا دل و دماغ اﷲ تعالی کے سپرد اس طرح کرنا ہے کہ آئیندہ زندگی کا مقصد اپنے ہر عمل میں اﷲ تعالی کی ناراضگی سے بچنا اور اس کی رضا میں خوش رہنا بن جائے ۔ اس سطح کی سپردگی اﷲ کی معرفت کہلاتی ہے ۔ علم ایسی ہی سپردگی کا باعث بننا چاہئے ۔آئیے ایک حدیث ﷺ سے اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔

اپنی کتاب ، احیا ء العلوم جلد اول کے صفحہ نمبر 131 میں امام غزالی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں آیا اور سوال کیا کہ آپ ﷺ مجھے علم کی کچھ عجیب و غریب باتیں بتائیں ؟آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : تم نے اصل علم کے سلسلے میں کیا کام کیا ہے ؟ اس نے کہا : اصل علم کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اﷲ کی معرفت رکھتے ہو ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں ۔آپ ﷺ نے پوچھا : پھر تم نے اس کے لئے کیا کام کیا ؟ اس نے کہا : تھوڑا بہت کیا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا : تم موت کی معرفت رکھتے ہو ؟ اس نے عرض کی : جی ہاں ۔ تو آپ ﷺ نے پوچھا : تم نے موت کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟اس نے کہا کہ تھوڑی بہت تیاری کی ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ پہلے ان امور میں پختہ ہو کر آؤ تب میں تمہیں علم کے غرائب بھی بتاؤں گا ۔

کیا علم دینی یا دنیاوی ہوتا ہے ؟
صحیح بخاری کی پہلی حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اگر اس حدیث مبارکہ ﷺ کی روشنی میں دیکھا جائے تو انسانی حوالے سے علم نہ تو دینی ہے نہ دنیاوی ، علم اپنی کلیت میں ایک اکائی ہے ، انسانی نیت اسے دینی یا دنیاوی بناتی ہے۔

اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ایک شخص قرآن مجید کی تلاوت اور حفظ ِ قرآن کا علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس سے خانہء کعبہ یا مسجد ِ نبوی ﷺ کا امام بن کر مراعات حاصل کرے گا ۔ اس کا یہ علم دنیاوی معلومات ہیں جن کی بنیاد پر اس نے اﷲ تعالی کی سپردگی کے بجائے خواہش کی سپردگی میں ایک عمل کیا ہے ۔ ٰٓ

دوسری طرف ایک دوسرا شخص فزکس کا علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس سے وہ دنیا کے لوگوں پر یہ واضح کرے گا کہ اﷲ تعالی نے ایک چھوٹے سے ایٹم میں کیسے ایک نظام اور دنیا قا ئم کر رکھی ہے ۔ اس صورت میں فزکس کا یہ علم ، اس دوسرے شخص کا علم کہلائے گا کیونکہ اس علم کی بنیاد پر خود اپنے آپ کو اور دوسرے انسانوں کو اﷲ تعالی سے منسلک کرنے کی کوشش اچھی نیت کے ساتھ کر رہا ہے ۔ پہلے شخص کے مقابلے میں اس دوسرے شخص کا علم محض معلومات کے درجے میں نہیں آئے گا ۔

تنخواہ اور مراعات تو اس شخص کو بھی حاصل ہوں گی مگر اس کا بنیادی مقصد اﷲ تعالی کی تخلیقی خوبیاں لوگوں پر واضح کرنا تھا اس لئے اس شخص کو دنیا اور آخرت دونوں کا فائدہ ملے گا ۔صورت ِ حال ایسی بھی ممکن ہے کہ ایک شخص حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے جائز اور حلال ہنر کا علم حاصل کرتا ہے ۔ اس کی نیت کی بنیاد پر یہ اس کی عبادت ہے ۔

قرآن و حدیث ﷺ کے علم کے ذریعے معرفت اور حلال ہنر کے علم کے ذریعے معرفت ، دونوں انسانی حوالے سے قابل ِ مرتبہ ہیں ۔ایک معرفت بذریعہ حقوق اﷲ ہے جبکہ دوسری کا تعلق حقوق العباد سے ہے ۔ اور اس میں معرفت کے ان ذرائع میں فرق اﷲ تعالی کی حکمت کے پیش ِ نظر ہے ۔اگر سب ہی حقوق اﷲ ہی کے ذریعے معرفت حاصل کرتے تو پھر انسانی معاشرے میں خدمات انجام دینے کا ایک سلسلہ کیسے قائم ہوتا اور انسانی معاشرے کی متوازن تشکیل کیسے ممکن ہوتی۔؟

علم یا عمومی معلومات میں فرق ؟
اگر انسان اپنے علم کی بنیاد پر اﷲ کی عبادت میں مذکورہ پاکیزگی اور یقین نہیں لا سکتے تو پھر کسی بھی ایسے انسان کا موجودہ علم محض اس کی عمومی معلومات ہیں کیونکہ ان معلومات سے وہ اپنے اصل مقصد کے حصول میں کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکا کیونکہ انسان کو اﷲ تعالی نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انسان انجانے میں ایسا نہ کر پا رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کسی خاص وقت تک ان معلومات سے معرفت کی کوئی سطح حاصل نہ کر پائے مگر جونہی یہ معلومات اس کے لئے اﷲ تعالی کی معرفت کا باعث بنیں گی ، بظاہر یہ معلومات اس کا علم بن جائیں گی ۔ مثلا ً ایسا ہو سکتا ہے لڑکپن اور جوانی میں انسان کی معلومات محض معلومات ہی رہیں مگر اگلی عمر میں قدم رکھنے پر اس کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ معلومات علم کا درجہ حاصل کر جائیں ۔

علم کے مظاہر :
یہ سوال بھی اہم ہے کہ علم کن کن چیزوں میں پوشیدہ ہے ۔ قرآن ، حدیث ﷺ ، مادہ ؛ علم کے وہ بنیادی مظاہر ہیں جن میں اﷲ تعالی کی علمی اور تکنیکی دسترس پنہاں ہے ۔جوں جوں ان پر غور کیا جائے ایمان و عمل میں اضافہ ممکن ہے ۔

علم اﷲ تعالی کی حا کمیت ِ اعلی کا مظہر ہے ۔ جیسے قرآن ِمجید اﷲ تعالی کی صفت ہے ، غرور اﷲ کی چادر ہے ، اسی طرح علم اﷲ تعالی کی طاقت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالی کا کوئی بھی حکم پلک جھپکنے میں عمل آ جا تا ہے ۔ سورہ نمبر : 2 ، سورہ البقرہ ، آیت نمبر 117 : ( ۔۔۔۔اور وہ زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے وہ جس کام کو کرنا چاہے تو اسے کہ دیتا ہے کہ ہو جا تو بس وہی ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔)

سائینس بمقابلہ اﷲ ؟
ایک بات حتمی ہے کہ اﷲ تعالی کے پاس جو علم ہے وہ بالذات اس سے موسوم ہے جبکہ مخلوق کے پاس جو علم بھی ہے وہ اسے بالفیض اﷲ کی طرف سے ملا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالی نے سورہ طہ ، آیت نمبر : 114 میں حضورپاک ﷺ سے ارشاد فرمایا کہ کہیں ـ : (۔۔اے اﷲ میرے علم میں اضافہ فرما۔۔۔)

فی زمانہ کم آگہی کے باعث ہم نے سائینس اور اﷲ تعالی کو باہم مقابل لا کھڑا کیا ہے جبکہ سائینس اﷲ تعالی کے آگے سر جھکائے اس کے احکامات کی منتظر ہے ۔

قرآن مجید کے پارہ نمبر : 27 ، ، سورہ نمبر : 54 ، سورہ القمر ، آیت نمبر : 49 ، میں اﷲ تعالی نے ارشاد فرما یا کہ : بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کیا ہے ۔۔۔۔۔ اس اندازے کو ایک با قاعدہ طریقے سے جاننا سائینس ہے ۔ اﷲ تعالی کی بنائی ہوئی کسی بھی مادی یا غیر مادی اشیاء میں باقائدہ طریقے سے یہ جاننا ہے کہ اﷲ تعالی نے اپنی ان تخلیقات کو کس قدر منظم بنایا ہے ۔۔۔‘ سائینس کہلاتا ہے ۔

اﷲ کی تخلیقات کا نظم جاننا ، سائینس کے لئے ضروری کیوں ہے ؟ :
انسانی مشاہدے کی بنیاد پر سائینس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سورج مشرق سے کیسے طلوع اور مغرب میں کیسے غروب ہوتا ہے ، کیونکہ اﷲ تعالی نے سورج کی منزلیں اس طرح طے کرنا مقرر کر دیا ہے ، سائینس اﷲ کے مقابل آنے کی اہلیت تب رکھ سکتی تھی جب وہ سمتوں کی اس ترتیب کو الٹ سکتی ۔ سائینس نہ صرف اﷲ تعالی کی مقرر شدہ قائدے کے بیان کی محتاج ہے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر درست انسانی مشاہدے کی بھی محتاج ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سائینسی نظریات غلط انسانی مشاہدے کے نتیجے میں طرح طرح کی اوٹ پٹانگ قلابازیاں کھا چکے ہیں ۔

آنکھیں روشنی میں دیکھ سکتی ہیں ، اندھیرے میں نہیں ۔ کہنے کو کہا جاتا ہے کہ Night Vision Devices کے ذریعے انسان اندھیرے میں بھی دیکھ سکتا ہے ۔ سائینس نے یہاں یہ ترتیب الٹ کر دکھا دی ہے ۔Night Vision Devices میں Infra red light استعمال کی جاتی ہے ۔ Infra red light بھی روشنی کی ایک قسم ہے جو اﷲ تعالی نے بنائی ہے۔

اﷲ تعالی نے کچھ نہیں سے سب کچھ بنایا ہے ۔ سائینس کو خدائی مقام پر تب ہی کھڑا کیا جا سکتا جب وہ تخلیق میں اﷲ کی بنائی ہوئی کوئی چیز استعمال نہ کرے ۔ آج کل کی جدید ڈیجیٹل الیکٹرونکس کی بنیاد منفی اور مثبت چارج ہے ۔ منفی اور مثبت چارج اﷲ نے بنائے ہیں ، انسان نے انہیں محض دریافت کیا اور اس کو اﷲ تعالی کے دئیے ہوئے علم کے مطابق استعمال کیا ہے ۔ منفی اور مثبت چارج کی باری بعد میں آتی ہے اولاً انسانی عقل ہی اﷲ تعالی کی دی ہوئی ہے ۔ پارہ نمبر : 17 ، سورہ نمبر : 22 ، آیت نمبر : 65 : ( ۔۔۔کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اﷲ تعالی نے زمین کی تمام چیزیں آپ کے لئے مسخر کر دیں ہیں۔۔۔۔ـــ) اس کے علاوہ سورہ الزخرف ، آیت نمبر : 13 بھی یہاں یاد آتی ہے کہ جس میں ارشاد ہے کہ : (۔۔۔۔جب اس پر ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو کہو کہ پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے بس میں کردیا حالانکہ ہم میں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی ۔۔۔۔۔)

سائینس ، روحانیت اور مغرب :
ایک منظم طریقہ ء کار کے تحت جب سائینس ہمیں یہ بتائے کہ :

۱۔ اس کائنات کی ہر چیز کسی بنانے والے یعنی اﷲ تعالی کے بنائے ہوئے ایک باقائدہ نظم کے تحت بنی ہے ۔

۲۔ اس کائنات میں انسان سمیت ہر چیز نے اپنے فنا کے بعد اﷲ کی طرف جانا ہے ۔

۳۔ ہم اﷲ تعالی کی بنائی ہوئی کسی چیز کو دنیا کے تمام انسانوں کے لئے یکساں طور پر کیسے فائدہ مند بنا سکتے ہیں ۔

یورپ کے تمام نظام ہائے تعلیم بہت اچھے ہیں مگر ان میں چند ایک دوسری خامیوں کے ساتھ ساتھ ایک خامی یہ بھی ہے کہ وہ سائینس سے متعلق اوپر بیان کردہ پہلے دو نقاط پر مجرمانہ چپ سادھ جاتے ہیں جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کے پیش ِ نظر اپنی کی ہوئی ایجادات کو ہم تک آنے دیتے ہیں ۔

اہل ِ مغرب ، اﷲ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین ِ حرکت کو دریافت کر نے پر نیوٹن کو " Sir " کا خطاب تو دے سکتے ہیں ، مگر ان قوانین کے اصل بنا نے والے کو اس طرح ماننے سے انکار کر دیتے ہیں جیسے قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے ۔

اﷲ تعالی کی طرف سے اہل یورپ کو اشیاء کے متعلق First Hand Knowledge ملتا ہے ۔ باقی کم و بیش تمام دنیا کو اشیاء کا 2nd Hand Knowledge ملتا ہے ۔ اہل ِ یورپ کے لئے اتمام ِ حجت کے لئے اﷲ تعالی کی یہ ایک تدبیر ہے ۔ اﷲ تعالی نے یورپ کو مسلمانوں پر مخصوص علمی اور ٹیکنالوجیکل برتری تو دی ہے مگر اہل ِ مغرب کو برتری میں چھپی مصلحت پر بھی نظر رکھنا چاہئے ۔ سب کچھ جاننے والے اﷲ کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہو سکتا ہے ۔

سائینسی میدان میں تحقیقی سطح پر اوپر بیان کردہ تین بنیادی حقائق کے ہمراہ سائینس کا علم ہمیں روحانیت میں پاکیزگی اور حقیقی معرفت کا یقین دے گا اور فی الحقیقت ہم حضور پاک ﷺ کی طرح ہر طرف سے لا تعلق ہو کر سچے دل سے ایک اﷲ کو اپنے ہر مسئلے کا حل سمجھیں کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہونگے ۔ عملی اور نظریاتی طور پر اﷲ تعالی سے منسلک ہو کر علم کی اصل روح سے ہمکلام ہوں گے ۔ یوں اﷲ تعالی کی ossession p میں جانے کے بعد حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی درست ہو گی اور عبادت کا اصل لطف ملے گا ۔

اس طرح مجھ ناچیز کی رائے کے مطابق یہ بات کہنے ماننے لائق ہے کہ علم کی اصل حقیقت کا جاننا پورے کے پورے معاشرے میں حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے ۔ ہم ان گذارشات کی روشنی میں اپنے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں کر تے ہوئے اسے مزید حقیقت پسند بنا کر اپنی نئی نسل کو اﷲ تعالی سے منسلک کر سکتے ہیں ۔

اپنے آج اور کل کو محفوظ بنانے کا یہی ایک پائیدار اور کم خرچ طریقہ ہے ۔ ورنہ وقت بڑھنے کے ساتھ ساتھ نیب ، پولیس ، اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ اور سی سی ٹی وی کیمروں کا خرچ بڑ ھتا جائے گا ۔

( اختتام )

Farhat Ali Baig
About the Author: Farhat Ali Baig Read More Articles by Farhat Ali Baig: 4 Articles with 7437 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.