آؤ تمہیں بتاؤں چاول کی کہانی

قران مجید فرقان حمید کا عظیم پیغام :فَبِاَیِّ اٰلَآء ِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ (پ٢٧،الرحمن ،آیت١٣)
ترجمہ ئ کنزالایمان:تو اے جن و انس تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ! جو مالک ہے !ہر خشک و ترکا ۔جو خالق ہے بحرو برکا۔مَظاہرِ عالم کو دیکھ کر آنکھیں حیراں و خیرہ رہ جاتی ہیں اور زبان سے بے اختیار نکلتاہے ۔سبحان تیری قدرت !!سبحان تیری قدرت۔

اللہ عَزَّوَجَل َّکی بے شمار نعمتیں ساری کائنات کے ذرے ذرے پر بارش کے قطروں کی گنتی سے بڑھ کر، درختوں کے پتوں سے زیادہ، دنیا بھر کے پانی کے قطروں سے زیادہ ، ریت کے ذروں سے زیادہ ہر لمحہ ہر گھڑی بن مانگے طوفانی بارشوں سے تیز تر برس رہی ہیں۔ جن کو شمار کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور اس کا اعلان خودخدائے حنان ومنان عَزَّوَجَلَّ نے اپنے پیارے کلام قرآن پاک میں اس طرح فرمایا ہے:
ترجمہ: کنزالایمان : اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے۔ (پارہ14، سورۃ النحل :18 )
پھر اس کائنات میں جو شرف وفضیلت انسان کو حاصل ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ بندہ کسی بھی وقت ، کسی بھی لمحے، کسی بھی حالت میں بلکہ کسی بھی صورت میں اپنے خالق ومالک عزوجل کی بے حد وبے شمار نعمتوں سے بے تعلق نہیں ہوسکتا، اس کا اندازہ محض ایک لقمے سے لگایاجاسکتا ہے جو نہ صرف خود ایک نعمت ہے بلکہ اس کے دامن میں بے حد و بے حساب نعمتیں موجود ہیں۔ کن کن مراحل سے گزرکر وہ لقمہ اس قابل بنتا ہے کہ اس سے غذا حاصل ہوسکے۔ ان پر غور کیجئے!

کائنات ِ عالم میں جو کچھ ہے اللہ عزوجل کی تخلیق ہے ۔جسے دیکھ کر عقلِ انسان حیراںرہ جاتی ہے ۔ایک مثال ہی سے سمجھ لیجیے کہ لقمہ دو چیزوں کا مجموعہ ہے، روٹی اور سالن ، روٹی بنتی ہے۔ آٹے سے، آٹا بنتا ہے گندم سے اور سالن سبزی اور گوشت سے تیار ہوتا ہے۔ جن جانوروں کے گوشت سے سالن بنایا جاتا ہے۔ ان کی نشوونما گھاس وغیرہ سے ہوتی ہے۔ سبز اور گھاس کی پیداوار زمین سے ہوتی ہے۔ المختصر روٹی اور سالن کا حصول زرعی پیداوار پر موقوف ہے اور زرعی پیداوار میں زمین اور آسمان کا بڑا دخل ہے۔ کیونکہ اناج اور سبزیوں اور ان کے ذائقوں کے لیے سورج کی حرارت۔۔۔۔۔۔ چاند کی کرنوں۔۔۔۔۔۔ ہواؤں۔۔۔۔۔۔ بادلوں۔۔۔۔۔۔ بارشوں۔۔۔۔۔۔ دریاؤں۔۔۔۔۔۔ اور سمندروں کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ سمندروں سے بخارات اٹھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ بادل بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ان سے بارش برستی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ کھیتیوں کو سیراب کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ کھیتیاں پک کر تیار ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر انہیں کاٹا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور ہیوی مشینری سے چاول کو چھلکے سے علیحدہ کیاجاتا ہے۔۔گندم کے چھلکے کو علیحدہ کیاجاتاہے۔۔۔۔۔۔۔ پھر اسے پیسنے کے لیے ٹرکوں وغیرہ کے ذریعے چکیوں اور فلور ملز تک پہنچایاجاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور گندم پیسنے کے لیے لوہے کی مشینوں اور سالن پکانے کے لیے برتنوں نیز ایندھن کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔ خدائے مہربان عزوجل نے زمین میں لوہے کے معدنیات رکھے۔۔۔۔۔۔ ایندھن کے حصول کے لیے زمین میں کوئلہ رکھا۔۔۔۔۔۔ قدرتی گیس اور تیل پیدا کیا۔۔۔۔۔۔ جنگلات میں درخت اگائے۔ الغرض! زمین وآسمان ، چاند و سورج ، ستارے و بادل ، سمندر و دریا، بارشیں و ہوائیں اور اناج وسبزیاں سب چیزیں اس ایک لقمہ کی تیاری میں اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ اگر ان میں سے ایک چیز بھی نہ ہوتو زرعی پیداوار بند ہوجائے۔ پھر بندہ اس لقمہ کو منہ میں رکھتا ہے تو اس سے لطف اندوزی کے لیے زبان میں ذائقہ کی حس پیدا فرمائی۔ زبان میں ایک ایسا لعاب رکھا جو اس کو ہضم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ اسے چبانے کے لیے دانت بنائے۔

سُبْحَانَ اللّٰہ!اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!کی کس کس نعمت کا شکر اداکیاجائے ۔یوں تو اللہعَزَّوَجَلَّ کی بیش نعمتیں ہیں ۔انہی بے پایاں عظیم نعمتوں میں ایک نعمت ''چاول ''جسے انگریزی میں ''rice''کہتے ہیں ۔

چاول ایک دالیہ بیج ہے جو کہ گھاس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ توانائی کا بڑا ذریعہ ہے اور عالم انسانی میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی غذا ہے۔ خاص طور پر مشرقی، جنوبی، جنوب مغربی ایشیاء ، مشرق وسطٰی اور لاطینی امریکہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مکئی کے بعد دنیا میں دوسری عظیم پیداواری فصل کی حیثیت رکھتا ہے۔

چونکہ مکئی کی پیداوار انسانی استعمال کی بجائے کئی دوسرے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے اس لیے ایک اندازے کے مطابق چاول انسانی خوراکی ضروریات اور توانائی کے حصول میں سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ انسان اپنی تمام تر توانائی کی ضروریات کا پانچواں حصہ چاول سے پورا کرتے ہیں۔

افریقہ میں یہ روایتی خوراکی پودے کی حیثیت رکھتا ہے جس کی بنیاد پر خوراک کی کمی، خوراکی ضرورت اور دیہی علاقوں کی ترقی میں چاول کو کلیدی کردار عطا ہوا ہے۔ اسی نظریہ کی بنیاد پر چند سال سے افریقہ میں بڑے پیمانے پر چاول کو اہمیت دی جارہی ہے۔

چاول عام طور پر سال میں ایک بار کاشت کیا جاتا ہے۔ چاول کا پودا اپنی قسم اور مٹی کی خاصیت کی بنیاد پر1 سے 1 اعشاریہ 8 میٹر بلند ہوسکتا ہے۔

چاول کی پیداوار ان ممالک میں زیادہ منافع بخش ثابت ہوتی ہے ۔جہاں افرادی قوت سستی اور سالانہ بارشوں کا تناسب زیادہ ہو۔ افرادی قوت اور پانی اس کی دو بنیادی ضروریات ہیں جو کہ انتہائی لاگت کی حامل ہیں۔ گو چاول جنوبی ایشیاء اور افریقہ کی مقامی پیداوار ہے لیکن یہ کہیں بھی اگایا جاسکتا ہے۔ صدیوں سے جاری اس پر تحقیق اور تجارت نے اسے عالمی اہمیت دلائی ہے اور یہ تقریباً دنیا میں پہچانا اور استعمال کیا جاتا ہے۔

روایتی طریقہ کاشت میں چاول کے کھیتوں میں بڑے پیمانے پر آبپاشی کی جاتی ہے جس کے بعد اس کی پنیری کاشت ہوتی ہے۔ سادہ ترین طریقوں میں اس کی کاشت کے دوران پانی کی فراہمی اور طریقہ کاشت نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جنگلی بوٹیوں اور کیڑوں کے حملوں سے بچاؤ کے لیے بھی بعض اقدامات نہایت اہم ہیں۔
(چاول کی کاشت کا موسم )
خریف:اِس سے مراد موسم گرما کی فصلیں ہیں جن کی کاشت موسم گرماکے آغاز میں مارچ تاجون جبکہ کٹائی موسم گرما کے اختتام اورخزاں میں اگست تانومبر ہوتی ہے۔
(خریف کی اہم فصلیں)
کپاس،جُوار،دھان(چاول)،باجرہ، مُونگ پھلی،مکئی،کماد(یعنی گنّا)اور سورج مُکِّھی خریف کی اہم فصلیں ہیں دالوں میں دال مونگ ، دال ماش اور لوبیا خریف میں کاشت ہوتی ہیں۔

چاول بلڈ پریشر میں مفید ہیں:''فِشارُالدَّمْ''یعنی ہائی بلڈ پریشر ، دل کے مرض اور مِعدہ کی خرابی کے دو ہزار مریضوں پر ڈاکٹروں نے دس سال تک تجرِبات کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے کہ ا ن اَمراض میں ''چاول کی غذا'' بہترین علاج ہے۔ بِالخصوص بلڈ پریشر کے مرض کے آغاز میں چاول زِیادہ مفید ہیں۔

چاول سے جہاں بریانی ،پلاؤ ،کھیر پکائی جاتی ہے وہاں اس سے بننے والی بیسیوں مصنوعات پاکستان اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں تیار اور استعمال کی جارہی ہیں ۔جن کے استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ۔

سُبْحانَ اللّٰہ !ایک چھوٹاسا دانا چاول پھر اس کی کاشت ، کاشت سے لیکر اس کی کٹائی ،صفائی کے مراحل سے گزرکر صارف تک پہنچنے والے تمام مرحلے

رزق کی بے قدر
چاول بھی ایک نعمت ہے جس سے ہم غذائی فائدہ اُٹھاتے ہیں جو ہماری صحت و تندرستی ،طاقت و توانائی کا بہترین ذریعہ ہے ۔لیکن بدقسمتی سے ہم اس نعمت کی ٹھیک سے قدر نہیں کرتے ۔جس کی وجہ سے منّوں ٹنوں یہ خوراک ِ انسانی کچراکا ڈھیر بن جاتی ہے ۔جو کسی طورپر بھی کام کے قابل نہیں رہتی ۔اس ضیاع کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔

(١)جب چاول کاشت کے بعد کٹائی کیاجاتاہے اس وقت بے احتیاطی کی وجہ سے دھان کے دانے نیچے گرتے رہتے ہیں ۔جھنیں انسان کی خوارک بننا تھا اب وہ پاؤں تلے روندھے جارہے ہیں ۔اگر ایک کھیت میں ٢ کلو دھان بھی ضائع ہوںتو آپ خود حساب کرسکتے ہیں ۔ہزاروں میلوں پر مشتمل خطہ کاشت پر کتنا چاول ضائع ہوتاہوگا۔
(٢)دھان صفائی کے بعد چاول کی صورت میں آتاہے تو ایسے میں بوریوں میں ڈالتے وقت غیرذمہ دارانہ انداز کی وجہ سے کئی دانے نیچے گرتے ہیں ۔ جنھیں بعد میں صفائی کرتے ہوئے کچرے میںپھینک دیاجاتاہے جوکہ ایک قابل تشویش امر ہے ۔کہ قحط کے دنوں میں جس نے قحط دیکھاہواس سے پوچھیے کہ وہ ایک ایک بوند پانی اور ایک ایک ذرہ رزق کے لیے ترستے ہیں ۔
(٣) افسوس !مختلف واسطوں سے ہوتے ہوئے چاول جب دوکاندار کے پاس پہنچتاہے تو وہاں بھی تولتے ہوئے ۔گاہک کو دیتے ہوئے کچھ دانے نیچے گر جاتے ہیں ۔جس غافل لوگ اُٹھانا بھی گوارانہیں کرتے اور وہ دانے پھر جھاڑو کے ساتھ دھکیل کر کچراکی نظر کر دیے جاتے ہیں ۔نہ جانے کتنے اسی دانے کی حسرت لیے قحط و فاقہ کی وجہ سے اس دنیاسے چل بستے ہیں ۔ہمیں خیال بھی آیا؟
(٤) چاول جب گھروں میں پکانے کے لیے گھروں میں استعمال ہوتے ہیں تو عام مشاہدہ ہے کہ دھوتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے دانے پانی کے ساتھ گندی نالی میں جاگرتے ہیں ۔
(٥)آہ!افسوس صد افسوس!سادگی و عاجزی تو ہماری زندگی سے روٹھ ہی گئی ۔جب تک ہم سادگی و عاجزی کو اپنائے رکھا۔قناعت سے کام لیتے رہے ۔ زندگی آسان تھی ۔آج لاکھوں کماکر کر بھی تنگی کارونارویاجاتاہے ۔ہمارے دسترخوانوں پر کھانے کے ذرات گرے رہتے ہیں ۔کبھی گوارہ نہیں کرتے کہ صاف کرکے کھالیں ۔
(٦)پلیٹوں ،تھالیوں میں اپنی بھوک سے زیادہ کھانا ڈال لیتے ہیں ۔جسے نہ ختم کرنے پر ڈسٹ بن میں ڈال دیتے ہیں ۔اپنے ہی ہاتھوں رزق کی بے حرمتی کررہے ہوتے ہیں ۔
(٧)شادی بیاہ کی تقاریب میں تو حد کردی جاتی ہے کہ ڈھیروں ڈھیر کھانا ضائع ہوتاہے۔بدقسمتی سے ایک یہ فیشن بھی چل پڑاہے کہ تھالی یاپلیٹ میں زیادہ کھانا،یاکم ہی ڈالنالیکن اس میں سے کچھ باقی چھوڑدینا،شرفاء نے اپنا طریقہ بنالیاہے ۔جوکہ سراسر قابل مذمت ہی نہیں قابل تشویش بھی ہے کہ جس شادی ہال میں شرفاء مرغن کھانوں،بریانی و پلاؤ کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں اسی سے علاقہ میں کئی غریبوں کے چولہے سرد پڑے ہوتے ہیں ۔تقاریب کے اختتام پر وہ کھانا،ضائع ہوجاتاہے۔
(٨)کچن جہاں کھانے پکائے جاتے ہیں اور ریستو رانوں میں بھی اس کا کچھ خیال نہیں کیاجاتا۔وافر مقدار میں پکنے والے بریانی ،پلاؤ وغیرہ کو پانی میں بھگوتے وقت ،دھوتے وقت چاولوں کے کثیردانے گھر جاتے ہیں جنھیں اُٹھانے کی زحمت نہیں کی جاتی ۔
(٩)محافل و اجتماعات میں کھاناتقسیم کرنے والے بھی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ رزق کی بے حرمتی ہوتی ہے وہ اس طور پر کہ وہ زیادہ کھانا برتن ڈال دیتے ہیں یا پھر تقسیم کرتے ہوئے جلدی میں ذرات زمین پر گِر جاتے ہیں ۔جنھیں اُٹھانے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ یوں رزق کا کافی حصّہ ضائع ہوجاتاہے ۔جو کسی کے حلق سے اُتر جاتاتو اس کے لیے باعث تقویت ہوتا۔کسی بھوکے کی بھوک مٹاسکتاتھا۔
ایسے ہی بہت سے مواقع ہیں۔جہاں رزق کی ناقدری کی یا ہوجاتی ہے ۔

ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ یہ اجناس اللہ عزوجل کی عطاکردہ نعمتیں ہیں ۔جو ہمارے لیے پیداکی گئیں ہم ان کی قدر نہیں کریں گئے تو یہ رزق کی فراوانی تنگدستی ،فقر و فاقہ میں بھی بدل سکتی ہے ۔

سبحان تیری قدرت۔۔یہی غذائیں جب انسان خوراک کے طور پر استعمال کرتاہے اور جب لقمہ حلق سے اُتارتاہے تو اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے انسانی جسم کے نظام پر غور کریں تو عقل حیران ہوجاتی ہے ۔اسی لقمہ یا غذاکو معدہ لقمے کو پیستا ہے۔۔۔۔۔۔ جگر اس سے خون بناتا ہے۔۔۔۔۔۔ فضلہ انتڑیوں اور مثانے میں چلا جاتا ہے اور یوں اس لقمے سے انسان کے جسمانی اعضاء کی نشوونما ہوتی ہے۔ آنکھ ، ناک، ناک، ہاتھ اور پیر سب کو اسی سے غذائیت ملتی ہے۔ اسی سے چربی بنتی ہے۔ اسی سے گوشت بنتا ہے۔ اسی سے ہڈیاں بنتی ہیں۔ اسی سے خون بنتا ہے اور انسان زندہ رہتا ہے۔ ۔اس قدر نعمتوں کے ہجوم کا تقاضا ہے کہ بندے کی ہر ساعت ، ہر سانس رب تعالیٰ کے لیے صرف ہوکھائے تو رب تعالیٰ کے لیے۔۔۔۔۔۔ پئے تو رب تعالیٰ کے لیے۔۔۔۔۔۔ چلے تو رب تعالیٰ کے لیے۔۔۔۔۔۔ دیکھے تو رب تعالیٰ کے لیے۔۔۔۔۔۔ سنے تو رب تعالیٰ کے لیے۔۔۔۔۔۔ بولے تو رب تعالیٰ کے لیے۔۔۔۔۔۔ سوئے تو رب تعالیٰ کے لیے الغرض ! اس کا جینا اور مرنا اپنے کریم رب تعالیٰ کے لیے ہو۔
قران مجید فرقان حمید کا عظیم پیغام :فَبِاَیِّ اٰلَآء ِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ (پ٢٧،الرحمن ،آیت١٣)
ترجمہ ئ کنزالایمان :تو اے جن و انس تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے۔

ہمیں چاہیے کہ ہرہرلمحہ اپنے ربّ کی رحمتوں کا شکر اداکرتے رہیں ۔اللہ عزوجل ہمیں اپنے شاکر بندہ بنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین ۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 543503 views i am scholar.serve the humainbeing... View More