آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

عالمی تبلیغی مرکزکے روحِ رواں سرپرستِ اعلیٰ حضرت مولانا انعامْ الحسنؒ کے جا نشین عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین مقبول بزرگ حضرت مولانا زْبیر الحسن صاحب کل گذشتہ صبح نئی دہلی کے رام منوہر لوہیا اسپتال میںطویل علالت کے بعد مولائے حقیقی جاملے۔

مولانا بے پناہ صفات اور خوبیوں کے حامل تھے تقویٰ اور پرہیزگاری آپ کی ذات گرامی کا نمایاں وصف تھا۔ آپ کے سینے میں ملت کا درد بھی تھا اور قوم کی اصلاح کا جذبہ بھی ۔ دعوت وتبلیغ کے ذریعہ آپ نے ہزاروں انسانوں کو صراط مستقیم پرچلنے کی دعوت دی آپ کی مقبولیت کادائرہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکرکے ساتھ ساتھ غیر مسلموں تک بھی پھیلا ہوا تھا۔ مولانا کی رحلت سے بلاشبہ ملت اسلامیہ ایک عالم دین، بزرگ، محسن وہمدرد، اور قومی یکجہتی کی علامت رکھنے والی شخصیت سے محروم ہوگئی ہے .

1995 میں والدمولانا انعام الحسن کاندھلوی کی وفاتکے بعد ہندوستان کے نامور علماکرام نے متفقہ طور پر مولانا زبیر الحسن کاندھلوی کو امیر منتخب کرلیاجبکہ میوات والے مولانا محمد سعد کاندھلوی کی امارت پر اصرار کرتے رہے۔

یہ صورتحال دیکھ کر علما نے نظام امارت کو تحلیل کرکے شورائی نظام بنایا جس میں ہندوستان سے مولانا محمد سعد کاندھلوی اور مولانا زبیر الحسن کاندھلوی اور پاکستان سے عبد الوہاب صاحب کو منتخب کیا گیا۔ اس طرح تبلیغی جماعت میں شورائی نظام کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد سے تبلیغ کے وفودیاجماعتوں میں جو امیر بنائے جاتے ہیں ان کو بھی امیر کی بجائے ذمہ دار کہا جاتا ہے-

حضرت مولانا عرصہ دراز سے ذیابیطس کی تکلیف برداشت کررہے تھے۔ بستی حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ میں واقع بنگلہ والی مسجد سے وابستہ ہونے کے باوجوداپنے والد کی طرح تبلیغی اجتماعات و مرکز نظام الدین زیادہ بیان نہیں کرتے تھے لیکن آپ کی دعا کے بغیر کسی اجتماع کی تکمیل بھی نہیں ہوتی تھی مرکز نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ سے سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ جماعتیں روانہ ہوتی ہیں اور ان کی روانگی سے قبل آپ ہی کی مختصر مگر جامع نصیحت اور دعا ہوتی تھی۔روزانہ وہی الفاظ اور وہی انداز لیکن ہر روز ایک الگ اثرایک الگ کیفیت۔ ایک الگ نور ایک فضا جس کا اعتراف ہر شریک محفل کو ہے۔

ولادت:مولانا زبیرالحسن صاحب کی پیدایش1950میں ہوئی ۔
والد:حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ الله علیہ ۔
تعلیم:حفظ القرآن پاک کی بسم الله حضرت اقدس راے پوری کے پاس ہوئی ۔
حفظ قرآن کے بعدعربی کی تعلیم مختلف اساتذه سے حاصل کی 1971میں مظاہرالعلوم وقف سہارنپورسے فراغت حاصل کی۔
نکاح:15جنوری 1969میں مولانا حکیم محمد الیاس صاحب کی صاحبزادی اور حضرت شخ الحدیث کی نواسی سے ہوا۔
اولاد:مولوی زہیرالحسن ، مولوی محمد شعیب، حافظ خبیب اور تین صاحبزادیاں ۔
دعوت وتبلیغ کے سلسلےمیں سب سے پہلی تقریرآپ نے9اگست 1947میں جمعہ کے دن مدرسہ قدیم مظاہر علوم وقف سہارنپورکی مسجد میں کی۔
تکمیل علوم کے بعدآپ حضرت مولانامحمد زکریا صاحب سے بیعت ہوے۔
10فروری 1978بروز جمعہ حضرت شیخ نے آپکو اجازت بیعت وخلافت سے نوازا۔
آپ کو حضرت مولانا الیاس صاحب کے سلسلے میں اپنے والد سے بهی اجازت وخلافت حاصل تهی۔
آپ کے اساتذہ میں مولانامحمداسعداللہ ،مفتی مظفرحسین، مولانامحمدیونس اور مولانامحمدعاقل لائق ذکرہیں۔
آپ نے فراغت کے بعدکاشف العلوم نظام الدین میں درس دیناشروع کیااورتقریبا25سال تک بخاری شریف پڑھانے کاشرف حاصل کیا۔ 18مارچ 2014کو تقریبا دن کے 12 بجے آپ کی روح قس عنصری سے پرواز کرگئ ۔رات 10بجے نمازجنازہ ہوگئی لاکھوں فززندان توحید نے نمازہ جنازہ ادا کی ور اپنے والدکے جوارمیں ہمیشہ ہمیش کے لئے محو خواب ہوگئے فرحمہ اللہ رحمہ واسعہ
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی كرى
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163560 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More