احساس زیاں جاتا رہا

5 مارچ کے اخبارات پر نظر پڑی۔ ایک خبر پڑھ کر جیسے دل کو دھچکا سا لگا۔ پورے وجود میں خبر کی ہیبت سی محسوس ہونے لگی۔ ـ’’مظفر گڑھ میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی‘‘۔ واقعہ اس قدر آسان نہیں تھا جیسے وہ اخبارات کی زینت بنایا گیا تھا۔ خیر آگے لکھا تھا کہ ’’پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار بھی کر لیا ہے۔ ‘‘ ملزمان کی گرفتاری سے کچھ اطمینان سا ہوا ۔ مگر یہ اطمینان بھی شاید کچھ دن کا تھا۔ وہ ہوا جس کی امید تو کی جاسکتی ہے مگر توقع کرنا شایدبیچاری زیادتی کا نشانہ بننے والی طالبہ آمنہ کے لئے مشکل تھا۔ اسے ہمیشہ یہیں کہا گیا تھا کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کو جن قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا وہاں صرف اسلامی قوانین ہوتے ہیں، اسے یہ بھی پڑھا یا گیا تھا کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے اور یہاں پر رہنا والا ہر شخص دوسرے کی عزت کو اپنی عزت سمجھتا ہے، بہن اور بیٹی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ایک دن پھر ٹی وی نے بریکنگ نیوز دی کہ ملزمان کی رہائی پر آمنہ نے خود سوزی کرلی۔ عزت تو وہ گنوا ہی چکی تھی اب اسے یہ ملک بھی عبس لگنے لگا تھا۔ اس نے احتجاج کا انوکھا انداز اپنایا اور اپنی جان دے کر ملک و قوم کا نام اپنی ہی آگ سے روشن کردیا۔ اس خبر کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے نوٹس لے لیا، جو کہ ان وزراء کا ہمیشہ سے ایک وطیرہ رہا ہے۔

اس طرح کی خبریں آئے روز پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اب تو یہ خبریں اتنی عام ہو گئی ہیں کہ کوئی بھی پرواہ نہیں کرتا نہ دلچسپی لیتا ہے۔ گزشتہ روز میڈیا پر ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال میں درج ہونے والا یہ 150واں مقدمہ ہے۔ مگر کسی ایک کو بھی انصاف نہیں ملا۔ وہ تو درج شدہ مقدمات کی تعداد بتا رہے تھے مگر اس انصاف نہ ملنے سے کتنی معصوم لڑکیاں اس ظلم کا نشانہ بنی اور مقدمات درج نہیں ہوئے ان کی تعداد کسی کو معلوم نہیں۔ اس طرح تو لوگ اپنی عزت کو مزید نیلام ہونے سے بچانے کے لیے مہر بلب ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

جہاں پر صورتحال یہ ہو کہ ظلم کا نشانے بھی بنے اور پھر مجرم کو سزا کی بجائے الٹا سرزنش بھی مظلوم پر ہو تو ایسے میں مظلوم کہاں جائیں ․․․․؟ انصاف کے لئے کس کا در کھٹکھٹائیں ․․․․․؟ جب انصاف مہیا کرنے والے خود غدار ہوں۔ جب کشتی کا محافظ ہی اسے ڈبونے پہ تلا ہو تو کوئی اور اسے کیسے بچا سکتا ہے؟ آج ہم بھی ایسے ہی محافظوں کے درمیان ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے ہمیں خود کو محفوظ سمجھنا چاہیے تھا مگر ان ہی سے لوگ خود کو زیادہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔

عدالتوں کا کام صرف فیصلے سنانا ہے ، ان پر عمل دراآمد کرنے والے ہمیشہ ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی غریب لا چار بے بس شخص ان کے شکنجے میں آ جائے تو اسے ہی کس کر پکڑتے ہیں اور با اثر افراد ہمیشہ قانون کے شکنجے سے بچ جاتے ہیں۔

عدالتوں کے از خود نوٹس کے بعد جب ایسا ہوتا ہے تو اس سے اس طرح کے لوگ مزید دلیر ہو جاتے ہیں۔ ویسے اس طرح کے عوامی مسائل کے لئے کسی کے پاس بھی وقت نہیں ہوتا۔ مشرف کیس اور اس طرح کے اور بھی کئی کیسز کو طول دیا جا رہا ہے۔ مشرف کو سیکورٹی کی بہتات میں عدالت بلایا جاتا ہے بیماری کے بہانے تسلیم کر کے مزید وقت برباد کیا جا رہا ہے مگر غریب عوام کے لئے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ غریب عوام کی عزت نفس کا جو مسئلہ ہوتا ہے اسے پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

ایک سال میں درج شدہ150مقدمات میں سے اگر ایک دو کو بھی سزا ملتی اور وہ سزا اسلامی شریعت کے مطابق ہوتی تو اس طرح کے واقعات میں خاطر خواہ کمی رونما ہوتی۔مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ان ملزمان کہ معمولی سزائیں بھی نہیں دی گئیں جو پاکستانی قانون میں ہیں۔جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہیں۔ ہمارا آزاد میڈیا بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ وہ سب دکھا رہا ہوتا ہے، جو دیکھنا بھی چاہیے یا نہیں․․․․؟ رہا سوال اعلیٰ حکام کا تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور اس طرح کے ظلم کرنے والوں کی ہمت اور حوصلے مزید بڑھتے ہیں۔ اگر کسی ایک شخص کو بھی شرعی سزا دی جائے تو کوئی دوسرا بنتِ حوا کی عزت پامال کرنے جرات نہ کرے۔

ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ صرف نام کی حد تک ہے یہاں کے کسی قانون میں اسلام کا نفاذ نظر نہیں آتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اور بہت سارے جرائم اور مظالم کے ساتھ ساتھ آئے روز بنتِ حوا کی عزت نیلام ہوتی رہتی ہے۔
آج جو کچھ ایک غریب کسان کی بیٹی آمنہ کے ساتھ ہوا ہے اگر کسی تاجر، سرمایا دار، چوہدری ، وڈیرے ، وزیر یا جاگیر دار کی بیٹی کے ساتھ ہوتا تو کیا ملزمان بھاگ سکتے؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہونا تھا۔ اگر ان میں سے کسی کی بیٹی ہوتی تو سارا ملک ہل جاتا۔ مگریہاں تو چند سکوں کے بدلے اس خاندان کو خاموش کرا دیا گیا۔

آج ایک اخبار کے اداریہ میں پڑھا کے شہباز شریف نے بذات خود جا کر اس لڑکی کی والدہ سے نہ صرف اظہار تعزیت کیا بلکہ داد رسی کے لیے پانچ لاکھ روپے کا چیک دینے کے علاوہ جاں بحق ہونے والی طالبہ کے بھائی کو ملازمت دینے کا اعلان کیا۔

میرا ان اعلیٰ حکام سے سوال ہے۔ کیا دولت عزت کا نعم البدل ہے؟ کیا وہ بھائی اپنے ضمیر کو مار کر وہ ملازمت کر پائے گا جو اسے اسکی بہن کی عزت کے عوض تھما دی گئی․․․․․․․․؟ کیا یہیں انصاف ہے․․․․․․․․․؟

اگر ایک منٹ کے لیے ان سب باتوں کو ہم چھوڑ دیں ۔ یہ ہی فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ہی انصاف ہے۔ مگر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ متاثرہ خاندان کو اعلان ہونے کے بعد یہ سب ملے گا؟ یہ اعلانات صرف میڈیا کے سامنے ہوتے ہیں اس کے بعد یہ اعلانات محض اعلانات ہی رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ تین پولیس افسران کو گرفتار، ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور تفتیشی افسر کے خلاف فرائض سے غفلت برتنے کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت بھی فرمائی۔

مگر کیا یہ سب ہونے کے بعد وہ پولیس والے اس خاندان کو سکون سے جینے دیں گے؟ یہ لوگ تو اس خاندان کا جینا مزید دو بھر کر دیں گے۔کسی نہ کسی بہانے سے انھیں ذلیل و خوار کرتے رہیں گے یہ ہی نہیں بلکہ اہل خانہ میں سے کسی اور کے ساتھ بھی یہ ظلم کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

اگر یہ انصاف ہے تو اس سے( لوکل ) روائتی جرگے اچھے ہیں جو دلیرانہ فیصلے کرتے ہیں۔ اس قانون سے تو لوگ طالبان کو ترجیح دینا پسند کریں گے۔ جن کے ہوتے ہوئے ان کی عزت محفوظ رہے اور اگر کہیں ایسا کوئی واقعہ ہو تو صحیح معنوں میں ظالم کو سزا مل کے مظلوم کو انصاف فراہم ہو سکے۔

اگر اعلیٰ حکام انصاف ہی دینا چاہتے ہیں تواسلامی قانون کے مطابق سزا عمل میں لائی جائے۔اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ان افراد کو خاندان کے حوالے کیا جائے اور انھیں اختیار دے دیا جائے کہ وہ خود سزا دیں۔
اگر آج بھی ہمارے ملک میں قرآن و سنت پر عمل کیا جائے تو وہ وقت دور نہیں جب برصغیر کا یہ خطہ بھی امن کا گہوارہ بن جائے گا اور بنت آدم و حوا کی عزت محفوظ ہو گی۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

Safoor Nisar
About the Author: Safoor Nisar Read More Articles by Safoor Nisar: 11 Articles with 12008 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.