قحط : عذاب یا آزمائش

گذشتہ روز ایک تعلیمی ورکشاپ کے دوران یہ سوال اٹھا کہ جب ہم طلباءکو سونامی کا سبق پڑھاتے ہیں اب مشکل یہ پیش آتی ہے کہ طلباو طالبات کو یہ کیسے بتایا جائے کہ سونامی ( جو کہ انڈونیشیا میں آیا تھا ) وہ اللہ کا عذاب تھا یا آزمائش؟ اسی طرح 8 اکتوبر 2005 میں آنے والے زلزلے اور تھر کی حالیہ صورتحال کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پایا جاتا تھا۔ مختلف شرکاءنے اس کے مختلف جوابات دیئے، راقم الحروف نے بھی اس کا مختصر اور جامع جواب دینے کی کوشش کی اور الحمد اللہ تمام شرکاءاس سے متفق ہوئے اور اس کی تائید کی۔ اگرچہ ورکشاپ کے محدود وقت کے باعث تفصیلی جواب کا موقع نہ تھا لیکن خواہش تھی کہ اس بارے میں کچھ تفصیل سے بات کی جائے اور قارئین کو اس میں شریک کیا جائے۔

حقیقتالوگ اللہ کے عذاب اور اللہ کی طرف سے آزمائش یا WAKE UP CALL میں فرق محسوس نہیں کرتے اور ان کے ذہن ابہام کا شکار ہوجاتے ہیں۔سب سے پہلے تو ہمارے ذہنوں میں یہ حدیث مبارکہ رہنی چاہئے ”حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لئے خیر ہی خیر ہے۔ خوشی اور راحت ملنے پر وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے تو یہ اس کے لئے خیر ہی خیر ہے۔ اور اگر وہ کوئی دکھ اور رنج پہنچنے پر صبر کرے تو یہ صبر بھی اس کے لئے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے۔(مسلم)۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر حا ل میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے ، اللہ کی مصلحتوں کو ہم نہیں سمجھ سکتے لیکن یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اللہ مخلوق پر ظلم نہیں کرتے۔

اب ہم دوبارہ اپنے موضوع پر آتے ہیں کہ سونامی، 2005کا زلزلہ ، پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں آنے والے سیلاب اور یہ قحط کیا ہیں؟

عذاب اور عذاب زدہ قومیں:
قرآن پاک میں کئی ایسی قوموں کا ذکر ملتا جن پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، مثلاً قومِ نوح ؑ، قوم عاد، قومِ ثمود، قومِ لوطؑ ،بنی اسرائیل کے وہ لوگ جنہوںنے سبت کا قانون توڑا۔ان تمام قوموں کے حالات کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جب ان قوموں کے سروں پر عذاب منڈلانے لگا اس وقت ان کی کیفیت یہ تھی کہ یہ لوگ اللہ کے معاملے میں بحیثیت مجموعی جری ہوگئے( معدودے چند نیک اشخاص کے ) ، اللہ نے ان کے دلوں کو سخت کرلیا اس لیے یہ لوگ عذاب کو دیکھ کر بھی نہ سمجھ پائے ۔ عذاب کے بعد ان کی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، یا اگر کوئی بچا بھی تو اس سے کسی نے کوئی ہمدردی نہیں محسوس کی بلکہ لوگ ان کے سائے سے بھی دور بھاگنے لگے، ان کو دیکھ کر عبرت پکڑنے لگے،یہاں تک کہ لوگ ان عذاب زدہ بستیوں سے بھی دور بھاگنے لگے۔

اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے جب کسی پر کوئی آزمائش بھیجی تو ان کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا تھا۔ ان کے دل مزید گداز ہوجاتے تھے، ان کی عبادت اور رجوع الی اللہ میں اضافہ ہوجاتا تھا، لوگ ان سے محبت کرتے اور ہمدردی محسوس کرتے۔ یہاں حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ یاد رہنا چاہئے کہ جب ان پر اللہ کی طرف سے آزمائشیں آئیں تو وہ اللہ کے مزید قریب ہوگئے، لوگ ان سے ہمدردی محسوس کرتے ، اگرچہ جذام ( کوڑہ ) کی آزمائش میں لوگوں نے انہیں بستی سے نکال دیا لیکن درحقیقت یہ اس دور کے مطابق کوئی انہونی بات نہیں تھی بلکہ ماضی قریب میں بھی لوگ جذام کے مرض میں مبتلا لوگوں اپنی بستیوں سے نکال دیا کرتے تھے کہ کہیں دوسروں کو بھی یہ مرض نہ لگ جائے۔ بالکل یہی معاملہ حضرت ایوب علیہ السلام کے ساتھ تھا کہ ان کو بستی سے نکالنے کی وجہ صرف یہی تھی ۔ تاریخ میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ معاذ اللہ حضرت ایوب علیہ السلام سے لوگ نفرت کرنے لگے ہوں۔

مذکورہ بالا مثالیں سامنے رکھیں تو ہم مختصراً یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو چیز ہمیں اللہ کے قریب کردے، آپس میں جوڑ دے، لوگوں کو ہمارے قریب لے کر آئے اور ہمیں سنبھلنے کا موقع دے وہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے حدیث مبارکہ ہے کہ ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً منقول ہے کہ ” اجروثواب کی زیادتی تکالیف برداشت کرنے کے بقدر ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو آزمائش میں مبتلا فرما دیتے ہیں تو جو اس پر راضی ہو جاتا ہے اس کے لیے اللہ کی رضا ہے او رجو ناراض اس کے لیے اللہ کی ناراضگی ہے۔“ اور جو چیز ہمیں اللہ دور کردے، منتشر کردے، اور لوگ ہمارے قریب آنے کے بجائے ہم سے دور ہوجائیں اور لوگ ہمارے معاملے کو عبرت کی نظر سے دیکھیں تو وہ اللہ کا عذاب ہے۔ ( اس سے بڑا عذاب اور کیا ہوگاکہ اللہ بندے کو خود سے دور کردے اور اس سے اپنی نظرِ کرم پھیر لے)۔

یہ تو معاملہ آفت ارضی و سماوی تھا۔ اب ہم بات کرتے ہیں سیلاب اور قحط کی صورتحال کی۔ پاکستان میں گذشتہ چند برسوں سے یہ صورتحال ہے کہ برسات کے موسم میں درمیانے درجے کے اور کبھی کبھی اونچے درجے کے سیلاب آتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے پر اس کی بساط سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تو پھر یہ سیلاب اور قحط کیوں؟ سورہ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ” جوبھی مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال ہی کی بدولت ہوتی ہے اور اللہ پاک کتنی ہی باتیں تو معاف فرما دیتے ہیں۔“ اس آیت مبارکہ کو سامنے رکھیں اور غور کیجیے ، ہر سال سیلاب کے بعد جب اس کی وجوہات پر تحقیقات ہوتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیلاب اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی لوگوں کی بد انتظامی کی وجہ سے آتا ہے، بارشیں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور ہمارے لیے زحمت اس لیے بن جاتی ہیں کہ ہم اس کو درست انداز میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کرتے، ہمارے ڈرینج سسٹم بوسیدہ ہوچکے، ڈیم ہم نہیں بناتے، برساتی نالوں پر قبضہ کرکے ہم نے پلازے اور مکانات بنا لیے ایسی صورت میں اللہ رحمت بھی جب برستی ہے تو وہ ضائع ہوجاتی ہے اور ہمارے لیے زحمت کا باعث بنتی ہے لیکن یہ اللہ کی طرف سے تو نہیں بلکہ ہماری ہی غلطیوں کی وجہ سے ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور اور ایسے وسائل عطا کیے ہیں جن کی بدولت وہ بارشوں کو حقیقتاً رحمت بنادیتے ہیں ، ہم لوگ اپنی نااہلی اور بد انتظامی کو اللہ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔

تھر کے حالیہ قحط کو دیکھیں تو یہاں بھی یہی بات ہے کہ بالکل درست ہے کہ وہاں خشک سالی ہے اور لوگ بھوک سے مرر ہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تھر اور ریگستانی خطوں میں عموماً خشک سالی ہی تو ہوتی ہے۔وہاں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اسی لیے ریگستانی خطوں میں رہنے والے لوگ بارشوں پر انحصار نہیں کرتے بلکہ پانی کے چشموں اور کنوﺅں پر انحصار کرتے ہیں، وہاں رہنے والے ایسے حالات کے لیے تیار رہتے ہیں، جبکہ متمدن دور میں حکومتیں ایسے معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہیں کہ وہ اپنے عوام کے جان و مال کی حفاظت کی کوشش کرتی ہیں اورریگستانی خطوں میں رہنے والے عوام کے لیے خوراک و پانی کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔ تھر میں ہونے والی ہلاکتوں اور نقصانات دراصل اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ یہ بھی ہماری ہی بد انتظامی اور نا اہلی کی وجہ ہے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ میں یہ بات آچکی ہے کہ خوراک موجود تھی لیکن اس کو تقسیم نہیں کیا گیا اگر یہ خوراک بروقت تقسیم ہوجاتی تو یہاں ہلاکتیں نہیں ہوتیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ ”اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ “ (: البقرہ) اس لیے ہمیں اپنی نا اہلی اور بد انتطامی کا ذمہ دار اللہ کو نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کونسی چیز اللہ کا عذاب ہے اور کون سی چیز آمائش

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1443118 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More