آخر قومی سلامتی پالیسی میں دینی مدارس کے بارے میں ہے کیا؟

ان دنوں قومی سلامتی پالیسی اور دینی مدارس کا معاملہ زیر بحث ہے ۔اور اکثر ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آخر مجوزہ قومی سلامتی پالیسی کے عنوان سے مدارس دینیہ کے بارے میں کیا نیا منصوبہ اور عزائم سامنے آرہے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے پہلے قومی سلامتی پالیسی کے مجوزہ مسودہ میں سے بعض اقتباسات ملاحظہ فرمائیے

’’12……مدرسہ بطور ایک تعلیمی ادارہ کے ، برصغیر اور پاکستان میں طویل تاریخ اور روایت کا حامل ہے ۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ سارے مدرسے مسائل پیدا نہیں کرتے ۔لہذا انہیں مجموعی طور پر منفی نکتہ سے نہیں دیکھنا چاہیے ۔مقامی ماحول میں ان میں سے اکثر غیر سرکاری اداروں کے طور پر کام کر رہے ہیں جو ان بچوں کو خوراک اور شیلٹر کی فراہمی میں مصروف ہیں مہنگی تعلیم نہیں برداشت کر سکتے ۔

13……تاہم کچھ مدارس میں مسائل تھے جنہوں نے انتہا پسندی کو پھیلایا ہے ۔ان مدارس کے کچھ تکلیف دہ پہلو ہیں جو قومی سلامتی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔جس میں نامعلوم ذرائع سے مالی اعانت ،نفرت انگیز مواد کی تشہیر وتقسیم شامل ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے نہ صرف موجودہ نصاب بلکہ ان میں سے بعض نے عدمِ برداشت اور پرتشدد مذہبی رویوں میں خطرناک صورت حال اختیار کر لی ہے ۔ان مدارس کے طلباء کے لیے روزگار میں کم مواقع ہونے کی وجہ سے ان میں مایوسی پھیل جاتی ہے اور ایسے نوجوان تعصب اور تصادم کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے انتہاپسندی جنم لیتی ہے ۔اس سے قبل یہ لڑکوں کے مدارس تک محدود تھا لیکن جامعہ حفصہ ؓ کے واقعہ نے خواتین کے مدارس کو بھی سلامتی کے جائزہ کاروں کی خورد بین نظر کے نیچے لایاہے ۔یہ مدارس زیادہ تر حکومت کے مقررکردہ ڈھانچہ کے دائرہ کار سے باہر کام کرتے ہیں ۔
14……مدارس میں بنیاد پرستی کے مواد کا تصور جس سے دیگر عقائد کی مکمل نفی ہوتی ہے اور فرقہ وارانہ تعلیم معاشرہ کو تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور معاشرہ میں موجودہ تقسیم سے اس کو ہوا دی جارہی ہے ۔کثیر تعداد میں دہشت گرد جو یاتو ان مدارس کے طلباء تھے یا ہیں جہاں ان کی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے برین واشنگ کی گئی۔لہذا پاکستان میں شدید انتہاپسندی کو پھیلانے میں کسی حکومت کی پالیسی کے لیے مدارس اور مساجد توجہ مرکوز کرنے کا اہم نکتہ ہے ‘‘
اس قومی سلامتی پالیسی میں ذرا آگے جا کر دوبارہ مدارس کو زیر بحث لایا گیا ہے اور لکھا ہے کہ

’’62 ……نظام ِمدارس کو ملک کی اندرونی سلامتی کی حدود سے نہیں نکالا جا سکتا ۔تمام مدار س کا تعلق کسی نا کسی مسلک سے ہوتا ہے ایسا نظر آتا ہے کہ مدارس اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں ۔

63 ……یہ ادارے جو غرباء کو تعلیم اور پناہ فراہم کرنے کے اہم ذرائع ہیں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے رجسٹریشن کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔اب تک کی تمام کوششیں مقداری پہلوؤں تک محدود تھیں ۔ان اداروں کو قومی دھارے میں لانا بہت ضروری ہے تاکہ ا س بات کا اہتما م کیا جاسکے کہ مدرسے بیرونی اور زیر زمین فنڈنگ کے ذریعے قائم نہ ہوں……

64 ……ان کے پھیلاؤ کی ایک دوسری وجہ بھی ہے یعنی مدرسوں کے نام پر ملکی اور غیر ملکی ذرائع سے فنڈ اکٹھا کرنا،ملک کے فرقہ وارانہ اور دہشتگرد گروپ اس میں غیر رسمی ذرائع سے فنڈ وصول کرتے ہیں اور آگے منتقل کرتے ہیں ۔دہشت گردوں کی فنڈنگ پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے خاص کر ان مدرسوں میں پڑھایا جانے والا نصاب نوجوانوں کو کام کے لیے تیار نہیں کرتا ۔بینکوں ،فیڈرل بورڈ آف ریونیواور ٹیکس کے محکموں کو شامل کرکے غیر سرکاری تنظیموں اور مدرسوں والی فنڈنگ پر قابو پایا جا سکتا ہے اور ان پر قوانین کا اطلاق کیا جا سکتاہے تاکہ رقم کے قانونی اور غیر قانونی بہاؤ کے درمیان امتیاز کیا جا سکے ۔‘‘
قومی سلامتی کی مجوزہ پالیسی کے یہ چند منتخب حصے پڑھنے اور ان پر غور وخوض کرنے سے آدمی کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دراصل وہی پرانے جال اور نئے شکاری والا معاملہ ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ پرانی شراب قومی سلامتی پالیسی کے خوش نما عنوان اور لیبل والی نئی بوتل میں پیش کی جا رہی ہے اوردہشت گردی ،انتہا پسندی اور دیگر تمام مسائل کا تما م تر ملبہ اٹھا کر مدارس دینیہ پر ڈالنے اور انہیں ایسے محور ومرکز کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جس کے گرد پوری قومی سلامتی پالیسی گردش کرے گی ۔ پالیسی مسودہ کے الفاظ میں ’’حکومتی پالیسی کے مدارس ومساجد توجہ مرکوز کرنے کا اہم نکتہ ہیں ‘‘سے کسی بڑی ساز ش کی بو آرہی ہے۔

اس سلامتی پالیسی میں سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ بڑے مبہم انداز سے بار بار’’ بعض مدار س، بعض مدارس‘‘ کی رٹ لگائی جارہی ہے ۔وفاق المدارس کی قیادت ہر فورم پر بار بار کہہ چکی کہ ان بعض مدارس کی نشاندہی کی جائے بلکہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلی ٰ مولانا محمد حنیف جالندھری نے ایک دفعہ ایک ذمہ دار حکومتی شخصیت سے کہا کہ آپ براہ مہربانی ایسے ایک دو مدارس کی تو نشاندہی کردیں تو وہ کہنے لگے ان مدارس کے بارے میں تو ہمیں بھی علم نہیں البتہ ایسے مدارس ہیں ضرور ۔یوں مبہم انداز سے بات کر کے وفاق المدارس اور پاکستان کے تمام مدارس کو مشکوک بنانے کی سعی کی جاتی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔

جہاں تک دہشت گردی کا مسئلہ ہے تو اس کا جب بہ نظر انصاف جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مدرسہ تو صدیوں سے ہماری تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ دہشت گردی کے بیج ناقص حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں گزشتہ دو تین عشروں میں بو ئے گئے ۔اگر مدرسہ اور دہشت گردی ا ور انتہا پسندی لازم وملزوم ہوتے تو پہلے بھی دہشت گردی ہوتی اس لیے حکمران اپنی عاقبت نااندیشی پر مبنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کے بجائے بار بار لٹھ لے کر مدارس دینیہ کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں ۔

ہماری دانست میں مدارس پر ان الزامات کی وہی حیثیت ہے جس طرح اس وقت دنیا بھر میں ہر جرم کا کھرا پاکستان تک لایا جاتا ہے۔ ملائشیا کے جہاز کی گمشدگی کا معاملہ ہو یا ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے ،امریکی شکست خوردگی ہو یا ایٹمی اور دیگر مہلک ہتھیاروں کی ترسیل…… ہر معاملے میں امریکا اور اس کے حواری جس طرح پاکستان پر پل پڑتے ہیں اور پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ہمارے حکمران اور ادارے بھی پاکستان میں دینی مدارس کے ساتھ وہی سلوک رو ا رکھے ہوئے ہیں ۔تمام تر تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ نائن الیون کے واقعات سے لے کر ملائشیا کے جہاز کی گمشدگی تک کسی واقعے کا پاکستان کے ساتھ کسی بھی اعتبار سے کوئی تعلق واسطہ نہیں لیکن استعماری قوتیں اس کے باوجود پاکستان کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں اور کبھی اجمل قصاب جیسے کسی اکا دکا معاملے میں کھینچ تان کر اس واقعے کے ڈانڈے پاکستا ن سے جوڑ بھی دئیے جائیں تب بھی ہم کندھے اچکاتے ہوئے ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز ‘‘کی ایک خوبصورت اصطلاح گھڑ لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے جب مدارس دینیہ مجموعی طورپر دہشت گردی کی مذمت کر رہے ہیں اورپاکستان کے لاکھوں بچوں کا قلم کتاب سے اس طرح رشتہ جوڑے ہوئے ہیں کہ اگر مدارس حکومت کے حصے کا یہ بوجھ نہ اٹھائیں تو یہ لاکھوں طلباء کہاں جائیں ؟ اس بارے میں کوئی بھی نہیں سوچتا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مدارس اور مدارس کے طلباء کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں لیکن اگر خدانخواستہ کسی معاملے میں کوئی آدمی اپنی ذاتی حیثیت میں ایسے کسی واقعے میں ملوث پایا بھی جائے تو اسے ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز ‘‘کی طرح ’’نان مدارس ایکٹر ز ‘‘ قرار دینے کی بجائے قومی سلامتی پالیسی کے مسودے میں غلط بیانی اور مبالغہ آرائی کی تما م حدود تجاوز کرتے ہوئے یہ درج کیا جاتا ہے کہ ’’کثیر تعدا میں دہشت گرد جو ان مدارس کے طلباء تھے یا ہیں جہاں ان کی ریاست کے خلاف ہتھیاراٹھانے کے لیے برین واشنگ کی گئی ‘‘ایک تو کثیر تعداد کے دہشت گردوں کو مدارس کے کھاتے میں ڈالنا اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ قرار دینا کہ مدارس میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے ذہن سازی کی گئی ۔مدارس میں ریاست کی حمایت کر کے اور حب الوطنی کے درس دے دے کر ہمارے گلے خشک ہو گئے اور مدارس کو تمغہ یہ دیا جارہا ہے کہ مدارس میں ریاست کے خلاف ہتھیا ر اٹھانے کے لیے ذہن سازی کی جاتی ہے ۔یاد رہے کہ اگر مدارس میں ایسا ذہن دیا جاتا تو آج یہاں کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ۔

قومی سلامتی پالیسی میں بار بار مدارس کی فنڈنگ اور مالیاتی سسٹم کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ یہ دراصل وہی فارمولہ ہے جو قرآن کریم کی سورہ منافقون میں کفار ومنافقین کی طرف سے مسجد نبوی میں قائم صفہ کے پہلے مدرسے کو اجاڑنے کے لیے پیش کیا گیا تھا ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ہم الذین یقولون لاتنفقواعلی من عند رسول اﷲ حتی ینفضو ا( کہ وہ لوگ کہتے ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جو (دین کے طلباء)لوگ موجود ہیں ان پر خرچ نہ کیا کرو تاکہ یہ نبی اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس سے منتشر ہو جائیں )اس فارمولہ کے جواب میں اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا’’وﷲ خزائن السموات والارض والکن المنافقین لایفقہون‘‘(کہ زمین وآسمان کے خزانے اﷲ کے لیے ہیں لیکن منافقین اس بات کو نہیں سمجھ پاتے )ہمارے لیے بھی سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی جرح ،سروے اور جاسوسی کرنے والے دینی مدارس میں آتے ہیں تو ان کی سوئی بھی مدارس کے مالیاتی سسٹم پر آکر اٹک جاتی ہے ۔ایک ایسے دور میں جب بنے بنائے ادارے ڈیفالٹر ہو رہے ہیں ،کرپشن کا دوردورہ ہے ،قومی اداروں کو اونے پونے بیچنے کے منصوبے بن رہے ہیں ،بجلی گیس سے لے کر پی آئی اے تک ہر طرف خسارہ ہی خسارہ ہے ایسے مدارس کا توکل اور دیانت پر قائم مالیاتی سسٹم کسی کو کیوں کرسمجھ آسکتا ہے؟ایک دفعہ مجھے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک لیکچر کے لیے جانا ہوا جہاں سول بیوروکریسی اور تمام عسکری اداروں کی’’ کریم‘‘ موجود تھی وہاں سوال وجواب کے سیشن میں ایک نوجوان نے یہی سوال پوچھا کہ’’ بعض مدارس میں غیر ملکی فنڈ نگ ہوتی ہے‘‘ ۔میں نے ان سے کہا کہ ریاست کے پاس تمام وسائل موجود ہیں اور آج کل ہمارے تمام تر جاسوسی سسٹم کا مدارس دینیہ کے گھیراؤ کے سوا اور کوئی کرنے کا کام نہیں۔ براہ مہربانی ایسے کسی مدرسہ کی نشاندہی فرما دیں جو دہشت گردی یا منفی مقاصد کے لیے کسی بھی ملک سے امداد لیتا ہو تو وفاق المدارس اس کے خلاف خود ایکشن لے گا ۔میں نے انہیں بتایا کہ مدارس دینیہ اپنی حکومت سے امداد نہیں لیتے تو بیرونی ممالک سے کیا امداد لیں گے بلکہ اب تو کئی برسوں سے یہ ہو رہا ہے کہ تلاشِ معاش کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانی مسلمان بھائی اگر مدارس کے ساتھ کبھی کوئی معمولی سا تعاون بھی کردیں تو ان کے لیے جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے ۔

مالیاتی سسٹم کے حوالے سے ایک اور چیز کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کی ایک طرف مالیاتی سسٹم پر اتنی حساسیت اور دوسری طرف عملی طور پر یہ ہو رہا ہے کہ وفاق المدارس کی طرف سے مدارس دینیہ کے نام ہدایا ت جاری کی گئیں کہ الحمد ﷲ اکثر مدار س کا مالی سسٹم بہت عمدہ ہے لیکن بقیہ مدارس بھی موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اپنا مالی سسٹم زیادہ سے زیادہ صاف وشفاف اور منظم کرنے کی کوشش کریں اور آڈٹ کروانے کا اہتما م کریں۔ جب ان مدارس نے اس پر کام شروع کیا تو عملی طور پر بینکوں نے مدارس کے اکاؤنٹ کھولنے سے اعراض والی روش اپنا لی ۔پہلے’’ ڈاکومنٹس اور ریکوائرمنٹس ‘‘ کے نام پر مدارس دینیہ کے ذمہ داران کو بینکوں کے اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ تھک ہار کر بیٹھ جائیں لیکن اس کے باوجود اگر کوئی جملہ تقاضے پورے بھی کر دے تو آخر میں تیکھی سی مسکراہٹ کے ساتھ کرسی پر بیٹھے بابو لوگ ہیڈ آفس سے ’’اپرووَل‘‘ نہ آنے کا عذر لنگ کر کے مدار س کا اکاؤنٹ نہیں کھلنے دیتے۔یہی حال رجسٹریشن کا ہے کہ ایک طرف حکمران ’’رجسٹریشن ،رجسٹریشن‘‘ کی گردان پڑھتے ہیں لیکن عملی طور پر برسوں بیت جاتے ہیں اور رجسٹریشن کی فائل ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل تک نہیں پہنچ پاتی ۔’’ویریفکیشن ‘‘ کے نام پر مدارس کی منتظمہ کمیٹی کے ممبران کو جس اذیت سے گزارا جاتا ہے اور پھر رجسٹریشن کے دفتری امور بھگتانے کے لیے ادارے کے مدیر اور ناظم کو جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اگر قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ قلمبند کرنے والے’’ ارباب علم ودانش ‘‘ رجسٹریشن کے ایسے دوچار کیسوں کے K2 سر کرنے والوں سے ملاقات کر لیتے تو انہیں یہ گلہ نہ رہتا کہ ’’رجسٹریشن کی جتنی کوششیں کی گئیں اب تک وہ تمام کوششیں مقداری پہلوؤں تک محدود رہیں ……‘‘وفاق المدارس بلکہ اتحاد تنظیمات مدارس نے حکومت کے ساتھ چھے سات برس پہلے معاہدہ کرکے تمام مدارس کے لیے رجسٹریشن کو لازمی قراد دے رکھا ہے لیکن اپنے دفتری سسٹم کا کیا کریں جہاں فائلوں کو’’ پہیوں‘‘ اور صاحب لوگوں کو’’ چائے پانی‘‘ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قومی سلامتی کے ذمہ دارن ذرا ایک نظر ادھر بھی ڈال لیں تو نواز ش ہوگی۔

جہاں تک نصاب نصاب کی مالا جپنے کا تعلق ہے تو یہ بھی دراصل اسی عالمی منصوبے اور ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت ہمارے بعض تعلیمی اداروں میں سیکس اور موسیقی کے گر سکھائے جاتے ہوں ،جہاں آرٹ کے نام پر بے حیائی کو رواج دیا جاتا ہو ،جہاں کو ایجوکیشن سسٹم نے گھروں کے گھر اجاڑ کر رکھ دئیے ہوں ،جہاں نصاب موم کی ناک بن کر رہ گیا ہو ،جہاں چاروں صوبوں میں الگ الگ نصاب رائج ہو ،جہاں تعلیمی اداروں کے نصاب کا اہم ترین اور حساس ترین معاملہ مغرب کے دانے دنکے پر چلنے اور پلنے والی این جی اوز کی بیگمات کے حوالے کر دیا جاتا ہو ،جہاں امریکہ کے اشارے پر نصاب میں سے قرآنی آیات نکال دی جاتی ہوں ،جہاں کے وزیر تعلیم کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ قرآن کریم کے پارے چالیس ہوتے ہیں یا تیس وہاں ہر دوسرے دن مدارس دینیہ کے نصاب( جو خالصتا ً قرآن وسنت کی تعلیمات پر مبنی ہے) کے بارے میں مہم جوئی ،منصوبہ بندی اورہرزہ سرائی کی روش سے اب تو باز آہی جانا چاہیے ۔جہاں تک وقت کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں مثبت تبدیلیوں کی بات ہے اس سے نہ کبھی انکار کیا گیا اور نہ ہی اس کی مخالفت کی گئی بلکہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی سربراہی میں کام کرنے والی نصابی کمیٹی وقتا فوقتا نصاب میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہے لیکن خوش نما نعروں کی آڑ میں مدارس کا حلیہ بگاڑنے کی اجازت تو ہر گز نہیں دی جاسکتی ۔

قومی سلامتی پالیسی میں بار بار مدارس دینیہ کوقومی دھارے میں لانے کی بات گئی ۔یہ سب سے زیادہ ناقابل فہم بات ہے ۔اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مدارس دینیہ اس وقت حقیقی معنوں میں قومی دھارے میں ہیں ۔جن اداروں میں رنگ نسل اور زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ،جہاں کراچی سے لے کر خیبر تک کے بچے اور نوجوان ایک چھت تلے ایک خاندان کی مانند رہتے اور تعلیم حاصل کرتے ہیں ،جن اداروں کے ساتھ ہر ہر معاملے میں لوگوں کا رابطہ اور واسطہ ہے اس کے باوجود انہیں بار بار قومی دھارے میں لانے کے عزائم کا سلیس اردو میں ترجمہ’’ امریکی اور مغربی دھارے ‘‘میں لانے کے عزم کا اظہار ہی ہو سکتا ہے ورنہ اسلام اور پاکستان کے قومی دھارے میں تو مدارس اور اہل مدارس پہلے سے شامل ہیں ۔

اس مسودہ میں یہ بھی کہا گیا کہ دینی مدارس کا نصاب نوجوانوں کو کام کے لیے تیار نہیں کرتا ۔مدارس نے دینی تعلیم وتہذیب کی حفاظت ،اشاعت اور درس وتدریس کے جس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے اس میں تو اﷲ کا شکر ہے کہ مدارس دینیہ اس حد تک خود کفیل ہیں کہ ایک ایسے دور میں جب ہمارے ملک کے بچے اور نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے پورا پورا دن غیرملکی سفارت خانوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں اور بیرون ملک کے تعلیمی ویزے دلوانے والے ادارے ایک مستقل صنعت کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں جبکہ ادھر سے دنیا بھر کے کسی غریب سے غریب اور پسماندہ ترین ملک کے باشندوں کے دل میں پاکستان کے اربوں روپے کے بجٹ سے چلنے والی جامعات میں تعلیم وتربیت کے لیے آنے کا خیال نہیں جاگتا ایسے میں پاکستان کے دینی مدارس کا وہ واحد نظام ہے جو پوری دنیا کے بچوں کے لیے اپنے اندر ایسی کشش رکھتا ہے کہ دنیا کہ ہر ملک کے بچے یہاں دینی تعلیم کے حصول کے لیے آنا چاہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہم انہیں جس توہین آمیز اور تذلیل آمیز سلوک سے دوچار کرتے ہیں ،ان کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں اور انہیں مکمل کاغذات ودستاویزات کے باوجود جس طرح گرفتار تک کرلینے سے نہیں چوکتے اس سے وہ مجبورا ً انڈیا،برطانیہ اور ساؤتھ افریقا کے مدارس دینیہ کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔اس لیے ہمارے پالیسی تشکیل دینے والوں کو سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اسلامی سروسز مہیا کرنا سب سے اہم اور بنیادی کام ہے اور دینی مدارس نے قوم کی دینی ضروریا ت کو پورا کرنے کے جس عظیم کام کا بیڑہ اٹھایا ہے اس کام میں نہ لوڈ شیڈنگ ہے اور نہ ہی کسی اور قسم کا مسئلہ ……باقی جس کام کی طر ف پالیسی میں اشارہ کیا گیا ان کاموں کی طرف بھی مدارس دینیہ کے فضلاء کی ایک بڑی تعداد رخ کرتی ہے اور اپنے اپنے شعبے میں کامیابی کے پرچم گاڑھتی ہے ۔جامعہ الرشید ،جامعہ الخیر ،جامعہ اشرفیہ ، مدارس فاؤنڈیشن سمیت کئی ادارے دینی مدارس کے فضلاء اورطلباء کے لیے کئی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں اور دینی مدارس اپنے فضلاء کو زندگی کے تمام شعبوں میں بھیجنے کی ضرورت کا پوری طرح ادراک رکھتے ہیں اس کے لیے منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے لیکن کسی کی ڈکٹیشن پر دینی مدارس کے پورے سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی روش اپنانے کا تو کسی طور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

اسی طرح قومی سلامتی پالیسی میں بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے مدارس دینیہ میں صرف غریب طلباء زیر تعلیم ہیں یہ تاثر بالکل زمینی حقائق کے منافی ہے اگر کسی کو توفیق ملے تو وہ اس پر بھی تحقیق کر لے کہ نائن الیون کے بعد کیسے کیسے خاندانوں کے بچوں نے مدارس دینیہ کا رخ کیا ہے اور مدارس دینیہ کی طرف رجحان میں کسی طرح اضافہ ہوا ہے ؟یقین جانئے کہ مدارس دینیہ کی طرف رجحان کی بالکل وہی کیفیت ہے جو مغرب میں اسلام قبول کرنے کے حوالے سے کچھ عرصے سے دیکھنے میں آرہی ہے ۔

ویسے تو پہلے ہی ارباب مدارس اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اس وقت ملک دشمن سرگرمیوں ،جرائم پیشہ عناصر اور ڈاکوؤں لٹیروں اور کرپشن کے بادشاہوں پر اس طرح نظر نہیں رکھی جاتی جس طرح مدارس دینیہ کے ذمہ داران کی ہر نشست وبرخاست پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے ،مدارس کے ذمہ داران کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں ،سرکاری دوستوں کو ٹوپیاں ،دستاریں پہنا کر اور ڈاڑھیاں رکھوا کر مدارس اور مذہبی حلقوں میں داخل کیا جاتا ہے لیکن یہ قومی سلامتی پالیسی تو اس سے آگے کے قدم کا اظہار کرتی ۔پالیسی کے الفاظ ملاحظہ کیجیے’’ان مدارس کے طلباء کے لیے روزگار میں کم مواقع ہونے کی وجہ سے ان میں مایوسی پھیل جاتی ہے اور ایسے نوجوان تعصب اور تصادم کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے انتہاپسندی جنم لیتی ہے ۔اس سے قبل یہ لڑکوں کے مدارس تک محدود تھا لیکن جامعہ حفصہ ؓ کے واقعہ نے خواتین کے مدارس کو بھی سلامتی کے جائزہ کاروں کی خورد بین نظر کے نیچے لایاہے ۔یہ مدارس زیادہ تر حکومت کے مقررکردہ ڈھانچہ کے دائرہ کار سے باہر کام کرتے ہیں ۔‘‘

الغرض یہ کہ قومی سلامتی پالیسی کے خوش نما عنوان پر مدارس دینیہ کے نصاب ونظام میں نام نہاد اصلاحات کا جو بیڑہ اٹھایا گیا ہے اس کے بارے میں مولانا فضل الرحمن نے اسمبلی فلور پر جو جراتمندانہ اور حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہماری دانست میں وہی ملکی اور قومی خیر خواہی کا تقاضہ ہے ۔مولانا نے بالکل بجا فرمایا کہ یہ سب مسلم لیگ ن کا نہیں بلکہ کسی اور کا ایجنڈہ ہے ‘‘۔قومی سلامتی ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے لیکن قومی سلامتی کے نام پر مدارس دینیہ کے خلاف مذموم ایجنڈے کی تکمیل دراصل اسی طرح کی کوشش ہے جسے اﷲ رب العزت نے پہلے پارے میں منافقین کے تذکرہ میں فرمایا کہ’’ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت مچاؤ تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح (اصلاحات) کرنے والے ہیں ‘‘اﷲ رب العزت فرماتے ہیں ’’آگاہ رہو وہ فساد مچانے والے ہیں لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے ‘‘یہی حال مدارس دینیہ کے حوالے سے وقفے وفقے سے اٹھنے والے اصلاحات کے شور کا ہے کہ دراصل امریکی اور مغربی مقاصد کی تکمیل کے لیے اس وقت مدرسہ استعمار کا ہدف ہے اور مدرسہ کا سسٹم تہہ وبالا کرنے اور اس میں اصلاحات کے نا م پر فساد برپا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں جو کبھی بھی کسی کے لیے بھی قابل قبول اور قابل برداشت نہیں ۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ملک گیر اجتماعات کی شکل میں رابطہ عوام مہم کے دوران جہاں قوم کو مدارس دینیہ کے کردار وخدمات سے آگاہ کیا جائے گا وہیں ان اجتماعات میں مدارس دینیہ کے حوالے پنپنے والی سازشوں ،مدارس دینیہ کے خلاف بننے والے منصوبوں کے تانے بانوں اورقومی سلامتی پالیسی کی آڑ میں مدار س دینیہ کے نصاب ونظام کے حوالے سے مہم جوئی ،مدارس دینیہ کے مالیاتی سسٹم پر نقب لگانے اور مدارس دینیہ کو قومی دھارے کے نام پر مغربی اور امریکی دھارے میں ڈالنے کی مذموم کوششوں کی مذمت کی جائے گی اور اگر خدانخواستہ مدارس دینیہ کے خلاف مہم جوئی کی اس روش کو ترک نہ کیا گیا تو اگلے مرحلے پر احتجاجی تحریک بھی برپا کی جاسکتی ہے ۔

Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 129582 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.