بس اسٹاپ

ایک لڑکی روز اپنے گھر سے نکلتی تھی وہ ہی کرنے جو دنیا میں بہت سی لڑکیا ں کرتی ہیں ،اپنے آپ کو ایک اونچی جگہ اور بلندیوں کوچھونے کی خواہش میں،اپنے والدین کو بھروسہ دلاتی ہوئی اس خیا ل میں کہ وہ ان کا اور خاندان کا نام روشن کرے گی ،تیزی سی روز اپنی زندگی کا سفر گزارتی ،صبح جلدی اُٹھ جاتی ،اپنے والدین کو ناشتہ بنا کر کھلاتی اور پھر بعد میں خود کھاتی پھر دوڑتی ہوئی اپنے خوابوں اور خواہشوں کا بستہ اٹھاتے ہوئے بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوجاتی نہ اسکو کوئی ڈر تھا نہ ہی گھبراہٹ، بہت دیر تک وہاں بس کا انتظار کرتی جیسے ہی بس آتی ہوئی دیکھا ئی دیتی تو ایسے مسکراتی جیسے زندگی کی تمام خوشیاں اس نے اپنے دامن میں سمیٹ لی ہوں

بس اسٹاپ پر ایک لڑکا روز اُسکو وہا ں دیکھتا اور دیکھتا ہی رہ جاتا تھا اس میں کچھ بات ہی ایسی تھی اس لڑکی کی آنکھیں ایسی کے جو کوئی اُسے دیکھتا تو اسکو اپنانے کی خواہش میں اپنا سب کچھ بھول کر اسکی زندگی میں شامل ہونے کی خواہش کرتا ،اس لڑکی کا ایک انداز اس لڑکے کو بہت پسند تھا، اُسکا اپنی زلفوں کو اپنے چہرے سے بار بار ہٹانا،بس کی طرف نظریں جمائے رکھنا، اُسکے معصوم سے نرم و مُلائیم ہونٹو ں کو دیکھ کروہ لڑکا ایک نشے میں کھو جاتا اورگُم ہوجاتا ،اسکے چہرے میں ایک ایسی کشش تھی جو کسی کو بھی اُسکے خیا ل سے غافل نہیں ہونے دیتی تھی وہ ہر کسی کے دل میں اپنا ایسا اثر پیداکردیتی تھی کہ اُسے یاد کئے بغیر زندگی کا ایک لمحہ بھی گزا رنا کسی کو گوارہ نہیں ہوتا ،جیسے زندگی تھم سی گئی ہو،اور وہ لڑکا اپنے آپ کا وجود بھول کر اسکے وجود میں کھو جاتا ،جیسے دُو جسم اور ایک جان ہوں ،

اس بات کو کافی عرصہ گزرا وہ لڑکا اسکے پاس تو کھڑاہوجاتا پر اس میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کے وہ بات کر سکے ،بس وہ یہ چاہتا تھا کہ جب تک وہ وہاں کھڑی ہے اسکے چہرے سے اُس کی نظر نہ ہٹے ،وہ لڑکی کبھی بے دہانی میں اسکی طرف نظر کرتی تو وہ لڑکا خوشی سے پھولے نہیں سماتا تھا اتنا خوش کے جیسے جنت مل گئی ہو

ایک دن اس لڑکے نے ہمت کر کے ایک خط لکھا اور اسکے بیگ میں ڈال دیا ، بیگ سے کتابیں نکالتے ہوئے اسکے ہاتھ میں جب وہ خط آیا تو اس سے سارا کمرہ خوشبو سے مہکنے لگا کیوں کے اس خط میں گلاب کی خوشبو لگی تھی جسے سونگتے ہی اسکا دل مچلنے لگا جب اُسنے خط پڑھا تو لکھا تھا

'' مجھے اپنا کر اپنی زندگی کو پیار اور محبت کی آگوش میں سلالو، میرے جذبات میرے قابو میں نہیں ،مجھے اپنا بناکر سنواردہ، میرے خواب تمہاری یاد سے غافل نہیں رہتے ،میرے خو ابوں کو بہانا بناکر مجھے اپنی آنکھوں میں بسا لو ، میرے کپکپاتے ہچکچاتے ترستے ہوئے لہجے کو اپنے الفاظ کا سہارا دُو، دیکھو میں صرف تمہارا ہوں اب تم بھی اپنی سانسو ں کو میرے حوالے کرکے زندگی کو آسان بنالو ، اپنی زلفوں کے آنگن میں مجھے ایک آشیانہ بنانے دہ، میرے مچلتے ہوئے جذبات کو اپنا کر مجھے تم میں کھو جانے دو ، کیا سوچ رہی ہو چلو اب ' ہاں' کہ کر میرے لبوں کو مسکراہٹ کا اشارہ تو دُو،

یہ پڑھ کے وہ مسکرائی اوران الفاظوں کی گہرائیوں میں کہیں کھو گئی کے کسی نے وقت کو روک دیا ہو کچھ لمحوں تک وہ سوچتی رہی اور مدہوش ہو کر اپناعکس اسکے خیالوں میں دیکھنے لگی جیسے اُسکو کسی نے اپنی آغوش میں بھر لیا ہو اور اپنے آپ کو اُسکے حوالے کردیا ہو ،پھر اچانک اُسنے اپنے آپ سے پوچھا ! کیا یہ سب کرنا سوچنا ابھی ٹھیک ہوگا ،کیا میں اپنی خواہشات کو پورا کر سکتی ہوں، کیا یہ ہی میری منزل ہے !

اور اُسنے اپنے خوبصورت نر م وملائیم ہاتھوں سے اس خط جان ہی لے لی اور اسکی روح کو کچرے کی نظر کر دیا اور وہ خط اُسکی طرف دیکھ کر خون کے آنسوں اور سسکیوں کے ساتھ روتا ہوا اِدھراُدھر بِکھر نے لگا

اس لڑکی نے اپنی زندگی کو اُسی طرح قائم رکھا ،اس خط کے لفظوں نے اس کے کچھ لمحوں کو بظاہر اپنی طرف مائل کیا لیکن اس کی خواہشات نے اُس کواپنے وجود کو کسی کا ہونے نہیں دیا-

وہ لڑکی اپنے ماں باپ کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی،اُن کی زندگی کو باغ میں لگے پھولوں کی مانند خوبصورت اور خوشگوار بنانا چاہتی تھی اور اسکے والدین کو بھی اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ تھا کے ایک دن وہ یقینا کامیاب ہوگی وہ روز صبح یونیورسٹی جاتی اور شام کو آفس میں پارٹ ٹائم کام کرتی اور اپنا گھر چلاتی تھی-

وہ لڑکا اُسکے خط کا انتظار کرتا رہا وہ روز صبح بس اسٹاپ سے آفس جایا کرتا تھا اور اُسنے ایک آخری خط لکھا اور اپنا نمبر اور ایک تصویر اُسکے بیگ میں ڈال دی اور لکھا ' میری آخری سانس تمہاری سانس کے تابع ہے کم از کم اس وقت میرے ساتھ ہونا اور اس سے پہلے کے آخری سانس آئے میں تمہیں پا لونگا یہ وعدہ رہا ایک عاشق کا معاشوق کے لئے '

اور آخر وہ دن بھی آگیا کے اس لڑکی کو ڈگری کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی اچھے عہدے کی نوکری ملی اور ترقی ہو کر وہ اس کمپنی کی مینیجربن گئی ،پھر اس نے وہ نمبر ڈائل کیا اور جب اس لڑکے نے فون اٹھایا تو کہا 'اب کتنا انتظار اور، آجاؤ ہم ایک ہوجائیں لڑکی سُن کر ہنسی اور کہا ہم دونوں ایک ہی تھے ہاں ایک ہونے کا وقت اب آیا ہے ـ '

زندگی صبر کا نام ہے جسنے صبر کیا اس نے وہ ہی پایا جو صرف اسکے خیالوں میں تھا اور جو چیزجس کی ہوتی ہے وہ اُسکی ہو کر ہی رہتی چاہے کوئی جتنی کوشش کرے پر اُسے پانے کے لئے اپنے جذبات ، خیالات ،احسا سات اوردل ودماغ پر قابو رکھنا شرط ہے۔

HAFIZ SHOAIB KHAN
About the Author: HAFIZ SHOAIB KHAN Read More Articles by HAFIZ SHOAIB KHAN: 6 Articles with 11023 views I TEACH QURAN E PAK AND ACADEMIC EDUCATION TO CHILDREN AS HOME TUTOR, IF ANYONE WANTS TO LEARN AND NEED A TEACHER FOR THEIR CHILDREN SO CONTACT ME,, A.. View More