مظفر گڑھ کی آمنہ ۔

آج وزیر اعلٰی پنجاب مظفر گڑھ فوٹو سیشن کے لیئے آمنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ قوم کی اس بچی کے ساتھ ٣ جنوری ٢٠١٤ کو زیادتی ہوئی مگر اس مظلوم و غریب بچی کا مقدمہ تک درج نہ ہونے دیا گیا ، ملزمان باثر و طاقت ور تھے۔ آمنہ ایف آئی آر کے اندراج کے لیئے کبھی تھانے اور کبھی ڈی پی او کے دفاتر کے چکر لگاتی رہی۔ پر مقدمہ درج نہ ہو سکا آخرکار میڈیا نے اس ایشو کو ہائی لائٹ کیا تو پولیس نے خانہ پری کے لیئے ایسی دفعات کے تحت ملزمان سےبھاری رشوت لے کر مقدمہ داخل دفتر کیا اور ملزم کو عدالت سے ضمانت مل گئی۔ آمنہ انصاف کے لیئے در بدر کی خاک چھانتی رہی بے حس و بے غیرت حکمرانوں کو جنجھوڑتی رہی ۔ ستم بالائے ستم پنجاب کا وزیر قانون کہنے لگا کہ یہ سب ڈرامے بازی کر رہے ہیں اور آمنہ کا والد اسے اپنی دشمنی کے لئیے استمعال کر رہا ہے ۔ جب ضمیر مردہ ہو جائے تو انسان ایسے ہی بیان دیتا ہے۔ یہ وہ بے ضمیر وزیر قانون ہے جو ہزاروں انسانوں کی قاتل لشکر جھنگوی کالعدم جماعت کی حمایت کھلے عام کرتا ہے۔ فیصل آباد میں میلادالنبی کے جلوس پر گولیاں برسانے والے لشکریوں کو اس نے پناہ دی اور انکے خلاف مقدمات نہ بننے دیے اور بھی پنجاب کے جس حصے میں اسکے لشکری قانون کی گرفت میں آتے ہیں یہ انکی مدد کو پہنچ جاتا ہے اگر نہیں پہنچتا تو غریب کی داد رسی کو نہیں پہنچتا۔ اس کے ہوتے ہوئے بچیوں کی عزتیں نیلام ہو رہی ہیں اور اسکو عجیب بیان سوجھ رہے ہیں۔ جب بے بسوں کو انصاف نہیں ملتا ، تھانے جب بک جاتے ہیں عدالتیں اور جج جب انصاف بیچ دیتے ہیں پھر سائل کے سینے میں جو لاوا ابلتا ہے مجھے اسکا اندازہ با خوبی ہے ،جس سائل کو انصاف نہیں ملتا اسکا دل چاہتا ہے کہ وہ ساری دنیا کو آگ لگا دے یا خود جل کر مر جائے۔ آمنہ حالات کے جبر کی چکی میں پس کر مجبور و لاچار ہو گئی۔ آخر صنف نازک تھی ، یہ جورو جفا کی چکی تو بڑے بڑے سورماؤں کے پتے پانی کر دیتی ہے۔ آخر کار بنت حوا انصاف کے دلالوں سے انصاف کی بھیک مانگتے ہوئے تھک گئی اور گہری نیند سونا چاہتی تھی۔ پھر چند دن پہلے انصاف سے مایوس و نا امید ہو کر اس نے تھانے کے سامنے اپنے اوپر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا لی اور قانون حرکت میں آیا اور اس بچی کے خلاف خود سوزی کے جرم میں پرچہ درج کر دیا گیا واہ پنچاب پولیس تیرے کیا کہنے۔ پھر آمنہ کو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں آج اس نے زندگی کی بازی ہار دی لیکن میرے لیئے اور میری مردہ قوم کے لئیے کئی سوالات چھوڑ گئی جن کے جواب تلاش کرتے کئی گھنٹے گذر گئے ہیں لیکن میں جواب تلاش کرنے سے قاصر رہا، شائد آپ میری مدد وراہنمائی کر سکیں اس نے جو پہلا سوال چھوڑا وہ یہ ہے کہ میں بھی کسی باپ کی ملالہ تھی ، ملالہ کے ساتھ بھی ظلم ہوا اسکو گولی لگی جسمانی اذیت ملی ، پر میرے تو جسم کے ساتھ ساتھ میری روح کو بھی تار تار کیا گیا، کہاں تھیں این جی اوز۔ دوسرا سوال کہاں تھے اسلامی نظریاتی کونسل والے ملاں ؟ کیا انکا کام صرف دوسری شادی کے پرمٹ دینا ہے۔ قوم کی بیٹی جاگیر داروں کی بربریت کا نشانہ بنتی رہی اور یہ شادی کے پرمٹ بانٹتے رہے۔ تیسرا سوال کہاں تھے گڈ گورنس کے دعویدار شہباز شریف ؟ آج میری میت پہ فوٹو سیشن کے لیے آگئے ہیں کاش خدا مجھے اٹھنے کی مہلت دے دیتا تو میں اس مداری کو دھکے دے کر نکالتی اور الله سے قوت گویائی منگ کے کہتی کہ ظالم تو اس وقت کہاں تھا جب بربریت اور جور و جفا کے لق ودق صحرا میں برہنہ سر و ننگے پاؤں انصاف کے حصول کے لئے پھر رہی تھی۔ اور کہاں تھا اسلامی معاشرہ ؟ میرے قاتلوں میں ایک میرا معاشرہ بھی ہے ، شائد میں ظلم و زیادتی کو برداشت کر کے معملات الله کے حوالے کر دیتی مگرمیرے معاشرے کے لوگوں نے میرا جینا محال کر دینا تھا اور ایسی زہریلی و گندی زبان استعمال کرنی تھی کہ روز میری روح کانپ اٹھنی تھی ۔ اس معاشرے میں جینے سے مجھے مرنا آسان لگا۔ آخرمیں اپنی مردہ قوم سے پوچھنا چاہتا ہوں کب تک آمناؤں کی عزتیں تارتار ہوتی رہیں گی۔ آخر کب تک لوگ انصاف کے حصول کے لئیے خودسوزی کرتے رہیں گئے ۔ کب اپنے حقوق چھینو گئے وڈیروں و جاگیرداروں سے۔ الله کرے قبر اس بچی کے زخموں پہ مرہم رکھ دے۔

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 171610 views System analyst, writer. .. View More