اسلام آباد اور دھماکے۔۔۔۔

شہر اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ 9 200 میں کی گئی مردُم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی 673, 766 تھی۔اس شہر کو 1964 میں پاکستان کے دارالحکومت کا درجہ دیا گیا۔اس سے پہلے کراچی کو یہ درجہ حاصل تھا۔اسلام آباد کا شمار دُنیا کے چند خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے۔سیکورٹی کے لحاظ سے بھی اسلام آباد، پاکستان کا سب سے محفوظ شہر مانا جاتا ہے۔2008 سے پہلے اسلام آباد میں دہشت گردی کا کوئی واقع پیش نہیں آیا تھا۔لیکن کس کو خبر تھی کہ اس خوبصورت شہر کو بھی کسی کی نظر لگ جائے گی۔آخر وہی ہوا جو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا۔20 ستمبر2008 کی شام کو پہلی بار اسلام آباد میں قیامت کا منظر اُس وقت دیکھنے کو ملا جب میرٹ ہوٹل آگ بگولہ بن گیا اور لوگ کھڑکیوں میں سے چھلانگیں لگانے پرمجبور ہوگئے۔میرٹ ہوٹل وفاقی دارالحکومت کے حساس ترین ریڈ سیکورٹی زون میں پارلیمینٹ ہاوس سے صرف ایک کلو میٹر کے فاصلے اور وزیر اعظم ہاوس کے قریب واقع ہے۔اس دھماکہ میں 60 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 300 سے ذیادہ افراد زخمی ہوئے تھے اور پورا ہوٹل آگ کے لپیٹ میں آنے کی وجہ سے تباہ ہوا تھا۔

تقریبا ایک سال بعد اسلام آباد کے باشندے اُس دھماکہ کو بھولنے ہی والے تھے کہ دہشت گردوں نے ایک بار پھربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو نشانہ بنا دیا۔

20 اکتوبر9 200 ، سوا تین بجے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادکے نیو کیمپس میں2 خودکش حملے ہوئے۔جس کے نتیجہ میں 2 طلبات سمیت 5 افراد جاں بحق جبکہ 40 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

اس دھماکہ کے تقریبا ایک سال اور آٹھ مہینے ہوگئے تھے کہ اسلام آباد میں ایک بار پھر خوف وہراس اس وقت پھیلنے لگا جب دارالحکومت کے پوش سیکٹر آئی ایٹ کے تجارتی مرکز میں نجی بینک پر خودکش دھماکہ ہوا۔اس دھماکہ میں بنک کا سیکورٹی گارڈشہید ہوا تھا جبکہ 6 افراد شدید زخمی ہوئے تھے اور بنک کی عمارت کو کافی نقصان پہنچا تھا۔

03 مارچ، 2014کو ایک بار پھر صبح ہوتے ہی قیامت کا منظر اُس وقت دیکھنے کو ملا جب اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع کچہری میں فائرنگ اور 2 خودکش دھماکوں کی اواز نے لوگوں میں خوف وہراس پیدا کر دیا۔ 15سے 20 منٹ تک فائرنگ کے بعد 2 خودکش دھماکے ہوئے جس میں سیشن جج اور 4 وکلاء سمیت 11افراد شہید جبکہ 25 سے ذیادہ افرادزخمی ہوئے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنی حساس علاقے میں جہاں سیکورٹی کی سخت انتظامات کی گئی ہو، کوئی کلاشنکوپ کیسے لا سکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ پندرہ سے بیس منٹ تک فائرنگ ہوتی ہے اور پھر بھی سیکورٹی گارڈز اور پولیس خودکش بمبار کو مارنے میں ناکام رہے ہیں۔۔

یہ تھی اسلام آباد میں دھماکوں کی داستان۔۔۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس کیا کر تے ہیں اور سیاستدان کیا کہتے ہیں۔۔

اسلام آباد ڈسٹرک بارکے صدر نصیر کیانی نے بتایا کہ چند روز قبل ضلعی پولیس اور انتظامیہ کے حکام کی سیشن جج اسلام آباد سے میٹنگ ہونا تھی تاکہ عدالتوں اور مقامی کچہری کے سیکورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی جا سکے ، تاہم پولیس حکام نے اس اجلاس میں شرکت کے بجائے وزیرداخلہ کا میچ دیکھنے کو ترجیح دی۔

پولیس بھی اپنا کام بخوبی انجام دیں رہے ہیں اور ہر مرتبہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرتے ہیں۔صدر اور وزیراعظم صاحب بھی افسوس کا اظہار کرنے پر التفاء کرتے ہیں اور وزیرداخلہ چودھری نثار صاحب تو کچھ اور کہتے ہیں۔اس کا ماننا ہے کہ دہشت گردوں کے ضلع کچہری حملے کے دوران جج رفاقت اعوان کے گارڈ سے بد حواسی میں گولیاں چل گئیں جسکی وجہ سے وہ جاں بحق ہوگئے۔کیا نا معلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنا کافی ہے؟ کیا افسوس کا اظہار کرنے سے دھماکے کم ہو سکتے ہیں ؟

2008 کے بعد اسلام آباد میں دھماکے بڑھ رہے ہیں اور کسی کے پاس بھی اس کو روکھنے کیلیے وقت نہیں ہیں۔ اگر ان کو روکا نہ گیا تو لوگ ایسے کٹتے مرینگے، ذلیل ہوتے رہینگے اور اگر یہی حال رہی تو شاہد مستقبل قریب میں اسلام آباد میں کراچی جیسا صورتحال پیدا ہوگا جس کا حل کسی کے پاس نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔