پاکستانی مردوں میں فیشن کا بڑھتا ہوا رجحان

پاکستان میں اب مردوں میں بھی فیشن کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ میں جس ہیر کٹنگ والے کے پاس جاتا ہوں، وہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد صرف بال راشوانے کے لئے نہیں بلکہ جدید فیشن سے ہم آہنگ ہونے کے لئے آتی ہے۔ چند سال قبل سیلون میں مرد صرف حجامت کروانے یا شیو بنوانے آتھے تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ان کے پاس ایک بڑی تعداد بھنویں بنوانے سے لیکر ویکسنگ اور فیشل کروانے والوں کی بھی آتی ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں طالبانائزیشن کا خوف بڑھ رہا وہاں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں میں بھی فیشن سے رغبت بڑھتی جارہی ہے۔ اسلامی عسکریت کے بڑھتے رجحان کے ساتھ اسلامی نظریہ کے ساتھ جڑے اس ملک میں فیشن پسند مردوں کی تعداد میں ہونے والا خاموش اضافہ حیران کن ہے۔ اشتہارات کے شعبے سے متعلق سینرجی ایڈورٹائزنگ ایجینسی سے وابسطہ 30 سالہ ایسوسیئٹ کریئیٹو ڈائریکٹر حسن کیلدی باجوہ کے مطابق مردوں میں فیشن کے بڑھتے رجحان کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ بینکوں کی فراخ دلی اور ملک میں میڈیا کا بڑھتا ہوا اثر ہے۔ وہ کہتے ہیں،" اب لوگوں کی قوت خرید زیادہ ہوگئی ہے اور اس کی وجہ ہے گزشتہ 10 سے 15برسوں کے درمیان بینکوں میں لائی جانے والی وہ اصلاحات ہیں، جن کے ذریعے اب ہر کسی کے لیے قرضہ لینا ممکن ہو گیا ہے۔ یہ پاکستان میں پہلے ممکن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ملک تیزی سے ترقی کرتے ہوئی ابلاغ عامہ کی صنعت بھی اس رجحان کے پیچھے ایک بڑی حقیقت ہے۔" باجوہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان میں پھیلتی غربت اور تباہ کن معاشی صورتحال کے باوجود ملک کے امیر سے امیر تر ہوتے طبقے کے پاس خرچ کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ دولت موجود ہے۔ اس دولت کو اب وہ اپنے امیج کو بہتر کرنے پر خرچ کر رہے ہیں۔پاکستانی مردوں میں فیشن کے بڑھتے رجحان کی ایک بڑی وجہ مغربی کلچر کا اثر بھی ہے۔باجوہ کے مطابق مختلف اشتہاری مہم بھی لوگوں میں اپنا امیج بہتر بنانے میں بڑا کردار ادا کر رہی ہیں، جس کے باعث مرد خوبصورت نظر آنے کے مغربی رجحان کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ایسا ہی کچھ کہنا ہے محمد عباس کا بھی جو پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور شہر کے پْر رونق علاقے طارق روڈ پر مردوں کے ایک سیلون کے مالک ہیں۔ وہ اس فیلڈ سے گزشتہ دس برسوں سے وابستہ ہیں اور بتاتے ہیں کہ پاکستانی مردوں میں اپنے آپ کو بنا سنوارکر رکھنے کا رجحان پچھلے پانچ برسوں میں زیادہ دیکھنے میں آیا۔ ان کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ مغربی کمپنیوں کے علاوہ مقامی میڈیا کی جانب سے بھی مردوں میں آرائش حسن کا شعور بیدار کرنے کی مہم ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اب سے چند سال قبل ان کے سیلون میں مرد صرف حجامت کروانے یا شیو بنوانے آتھے تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ان کے پاس ایک بڑی تعداد بھنویں بنوانے سے لیکر ویکسنگ اور فیشل کروانے والوں کی بھی آتی ہے۔ ان میں سے کئی حضرات شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت سے پہلے اپنے آرائش حسن پر توجہ دینے میں دلچسپی دکھاتے ہیں۔پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ فیشن کی جانب مائل ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کا اندازہ اسلام آباد میں ہونے والے فیشن ویک میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت سے لگایا جا سکتا ہے۔ مردوں کے فیشن کا ایک عالمی رجحان بھی ہے۔ اس کا اندازہ لندن میں ہونے والے فیشن شو میں مردانہ کلیکشن سے ہوتا ہے۔ فیشن شو میں نت نئے منفرد انداز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس شو کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب فیشن کی دنیا میں مرد حضرات بھی کود پڑے ہیں، لندن کی سخت سردی میں بارش کے باوجود نوجوانوں کی بڑی تعداد فیشن شو دیکھنے پہنچی تھی اور تین دن تک جاری رہنے والے فیشن ویک میں اول جلول فیشن بھی دیکھنے کو ملے۔ کلر فل پرنٹس پر دلچسپ ڈیزائننگ نے نوجوانوں کو متوجہ کیا تو کہیں ہلکے رنگوں پر منفرد انداز نے داد پائی، فیشن شو میں بارشوں کے موسم اور سردی سے نمٹنے کے لئے بھی خوبصورت ملبوسات دکھائے گئے۔لندن میں فیشن ویک کے اختتام پر ڈریکولا بھی ریپم پرآئے، ماڈلز کے انوکھے انداز بھی سب کو بھائے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ خواتین کی جگہ مردوں نے لے لی ہے۔ کچھ عرصے پہلے کراچی فیشن ویک میں مردانہ ملبوسات نے دھوم مچادی تھی۔ کراچی فیشن ویک میں کراچی فیشن ویک میک میں خواتین موڈلز کی بجائے مرد موڈلز کو ریمپ پر جلوے دکھانے کا موقع دیا گیا۔ گہما گہمی والے اس رنگا رنگ فیشن ایونٹ میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور سب نے اس انعقاد کو خوب سراہا۔ کراچی فیشن ویک دو دن تک اپنی رونقیں بکھیرتا رہا۔

سجنا سنورنا‘ ہر عورت اپنا حق سمجھتی ہے اور سنور نے کا کوئی طے شدہ فارمولا بھی نہیں کہ کیسا لباس پہن کر‘ تیارہوکر خاتون کو تسلی ہو گی۔ خاص مواقعوں اور تہواروں پر سجنے اور سنوار نے کے لیے خواتین ہلکان رہتی ہیں۔ عیدالالضحیٰ کے بعد یوں بھی ہمارے یہاں شادیوں کا موسم ہوتا ہے، ایسے میں تیاری اور خرچا دونوں ہی دل کھول کر کیے جاتے ہیں۔ لیکن مرد بھی کیوں کسی سے پیچھے رہیں۔ فیشن چینلز کی بھرمار اور فیشن شوز نے ہر کسی کو فیشن کے نت نئے اور منفرد تقاضوں سے متعارف بھی کروا یا ہے۔ اکثر سوال اٹھتا ہے کہ کیسے فیشن میں خود کو اسٹائلش بنایا جاسکتا ہے؟ ایک بات تو واضح ہے کہ فیشن اور اسٹائل دو الگ چیزیں ہیں اسٹائل کا تعلق آپ کی شخصیت سے ہے جسے آپ فیشن سے سْدھار یا بگاڑ سکتی ہیں۔ لباس کے حوالے سے ڈیزائنرز کے تیار کردہ ملبوسات ہمارے یہاں بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈیزائنر شخصیت کو مد نظر رکھ کر لباس بناتے ہیں جس سے آپ کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا ہوتا ہے فیشن کے معاملے میں خواتین کی یاد داشت بڑی تیز ہوتی ہے اس لئے وہ نئے سے نئے ڈیزائن کی تلاش مین رہتی ہیں۔ فیشن میں اچھا پہننے کا مطلب مہنگا پہننا ہر گزنہیں ہے۔ اچھے سے مراد ایسا لباس، ایسا فیشن ہے جو آپ کو سنوار دے اور خوب صورتی میں اضافہ کردے۔ حال ہی میں لاہور میں منعقدہ فیشن شو میں پاکستان کے معروف ڈیزائنرز نے اپنے نئے ڈیزائنز زپیش کیے، لندن میں اب جو فیشن شو ہورہے ہیں ان میں مرد فیشن کے مظاہر بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ فیشن شو میں مرد ماڈلز بناؤ سنگھار اور نت نئے ملبوسات کے ساتھ ریمپ پر واک کر کے اپنی دھاک بٹھا رہے ہیں۔ اس فیشن شو میں مشہور برطانوی ڈیزائنر رچرڈ جیمز کے دیدہ زیب ملبوسات کو نمائش کیلئے پیش کیا گیا، رچرڈ جیمز مردانہ ملبوسات کی منفرد اور خوبصورت ڈیزائننگ کیلئے دنیا بھر مقبول ہیں۔ ماڈلز حضرات نے موسم سرما کے ڈیزائن کردہ ملبوسات کو پہن کر ریمپ پر واک کی۔ مردوں کے فیشن شو کے زیادہ تر شائقین بھی مرد حضرات تھے جنہوں نے ملبوسات کو بے حد پسند کیا۔آج کے فیشن کو آپ محض 50 سال پیچھے لے جائیں تو وہ لوگ اسے غیر انسانی کہیں گے۔۔ اور ممکن ہے کہ آنے والے 50 سالوں کے بعد یہی فیشن ہوں اور نئے فیشنوں کو غیر انسانی کہا جائے ۔ کسی بھی چیز کو جگہ بنانے میں وقت لگتا ہے۔۔ اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس پر تنقید کم ہونے لگتی ہے بالاآخر وہ معاشرے کا حصہ بن جاتا ہے۔ مردوں کے بالوں کے انداز بھی خوب ہیں۔ اب یہی "ٹریکٹر والے اسٹائل" (Crown Style) اور اسی سے ملتے جلتے اسٹائل پہلے عجیب لگتے تھے مگر اب انھوں نے خاصی شہرت حاصل کر لی ہے۔اسی کی دھائی میں آپ پینٹ کوٹ پہن کر کسی گاوں یا محلے کا رخ کر لتے تو کتے جان ہی نہ چھوڑتے تھے اب معاملہ یکسر مختلف ہے۔ کتے بھی نئے لباسوں سے آشنا ہوگئے ہیں۔

عالمی سطح پر فیشن اور ملبوسات اب ایک بہت بڑی صنعت ہیں۔ اب تک اس میدان میں، خاص کر مردانہ فیشن میں، مشرقِ وسطٰی کے مسلم ملکوں کا بہت زیادہ حصہ نہیں تھا لیکن اب آہستہ آہستہ یہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں دبئی فیشن انڈسٹری کے ایک بڑے مرکز کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ نوجوان اپنی مردانہ شخصیت کو مد نظر رکھیں زمانے کے ساتھ ساتھ ہر معاشرے میں رہن سہن کے ڈھنگ اور لباس کے انداز بدلتے رہتے ہیں۔ لباس کے انداز عموماً علاقے کی ثقافت کے زیرِاثر ہوتے ہیں لیکن انٹرنیٹ اور میڈیا کے دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے،دور دراز کے ثقافتی اثرات بھی ہمارے پہناوں پر اثرڈال رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ روایتی انداز میں تیزی سے تبدیلی جاری ہے۔ ہمارے نوجوان ثقافتی روایات سے انحراف کرتے ہوئے لڑکیاں، مردانہ لباس اور لڑکے زنانہ فیشن کے انداز اپنا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ذرائع ابلاغ ہیں کیوں کہ ذرائع ابلاغ سے ہی ہمارا نوجوان تیزی سے دوسروں کی تہذیب وثقافت سے واقف ہورہا ہے لیکن افسوس ناک بات صرف یہ ہے کہ نوجوان ہر شے کو اپنا تو رہے ہیں مگر اس بات سے ناواقف نظر آتے ہیں کہ ان اشیا کااستعمال ان کی شخصیت پر کیسا اثر ڈالے گا۔ اس وقت نوجوان لڑکے جدید فیشن کے تحت ہینڈ بینڈ، مختلف قسم کے بریسلٹ، رِنگز، گلے میں چین وغیرہ استعمال کررہے ہیں، جن سے اْن کی شخصیت نامناسب محسوس ہوتی ہے لیکن نوجوان اسے فیشن قرار دیتے ہیں۔ پہلے نوجوان لڑکوں کی پسندکا مرکز گھڑی ہوا کرتی تھی لیکن موبائل کی موجودگی میں اس کی اہمیت میں قدرے کمی واقع ہوئی۔ پوش علاقوں کے لڑکے برانڈڈ اشیااور متوسط علاقے کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں چین وغیرہ بھلی معلوم نہیں ہوتیں۔ زمانے کے ساتھ چلنا برائی نہیں ہے لیکن نوجوانوں کو اپنی مردانہ شخصیت کو مدنظر رکھ کر فیشن کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے تاکہ فیشن اِن کی شخصیت میں نکھار کا سبب بنے۔ سائنس کی ایجادات اور وقت کی رفتار کے ساتھ جدّت نے ہماری زندگی کے بہت سے اصول و قوانین تبدیل کر ڈالے ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ چیزیں آج بھی ماضی کی طرح قایم اور مسّلم ہیں۔تمام ترقی کے باوجودآج بھی انسان سکون کا اْسی طرح متلاشی ہے،جس طرح ماضی میں نظر آتا تھا۔اور تمام تر ترقی کے باوجود عورت آج بھی اپنی خوبصورتی میں چار چاند لگانے کے لئے چیزوں کی متلاشی نظر آ تی ہے۔

ایک معقولہ سْنا اور پڑھا بھی ہو گا۔آپ ساری دْنیا کا چکر لگا کر آ جائیں ،خوبصورتی اگر آپ میں نہیں ،تو آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔۔یعنی خوبصورتی کا تعلق انسان کے اندر موجود تمنّا،خواہش سے منسلک ہوتا ہے۔یہ رنگ ، روپ ، بال انداز، لباس یہ سب تو وہ سہارے ہیں جن سے انسان اپنی خواہش کی تکمیل کے اسباب تراشتا ہے ایسے میں جب ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور بم دھماکے عام ہیں، نئی طرز اور نہج کو رواج دینے کی فکر اور سعی کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ کراچی میں بھی ایسے ایونٹ ہوتے رہیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی کے ایک ہوٹل میں عالمی معیار کا ’فیشن پاکستان ویک‘ ہوا، جس میں کئی مختلف فیشن ڈیزائنرز نے اپنے اپنے ڈیزائن کئے ہوئے کپڑوں کی نمائش کی۔ ’فیشن پاکستان ویک‘ کی روح رواں، صنم چوہدری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیشن ویک میں کراچی اور لاہور کے تقریباً 30 ڈئزائنرز نے حصہ لیا۔ اس موقع پر دوسرے ممالک سے آیا ہوا میڈیا اور خریدار بھی موجود تھے۔

اس شو کے ڈائریکٹر اور مشہور ڈیزائنر حسن شہریار نے بتایا کہ یہ ان کا فیشن کی دنیا میں شرکت کا بیسواں سال ہے، اور ان کے خیال میں، پاکستانی فیشن انڈسٹری بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ شیری رحمان نے اس شو کے بارے میں کہا کہ آج فیشن پاکستان ویک ایک بڑا ایونٹ بن چکا ہے اور اس کو حکومتی اور نجی شعبوں کی حمایت حاصل ہے، جسے مزید فروغ دیا جانا چاہئے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس سے پاکستان کی ثقافت، فیشن اور ملبوسات کی صنعت کو بڑھاوا ملے گا۔مشہور فوٹوگرافر، ٹپو جویری نے کہا کہ پاکستان کی فیشن انڈسٹری، عالمی معیار کی ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ مغربی خریدار اس طرف متوجہ ہونگے۔پروگرام کے منتظمین میں سے ایک، نعمان عارفین ہیں۔ اْن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے پروگراموں سے دنیا کو یہ پتا چلتا ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں، اور اگر مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے ملک کا ایک برا امیج بن رہا ہے، تو باقی لوگوں کو چاہئے کہ اس طرح کے ایونٹس کر کے دنیا کو بتائیں کہ یہاں صرف دہشت گرد نہیں بستے۔ ان فیشن شو میں گلیمر‘ سے بھرپور فیشن شوز میں ریمپ پر سب کی نظروں کا مرکز بننے والی موڈلز فیشن شو والے دن صبح سے ہی ریہرسل میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اسٹیج کے پیچھے اور اسٹیج پر بہت زیادہ دباؤ کے عالم میں کام کرتے ہیں۔ لیکن، پاکستان کی صفہ اول کی ماڈلز میں سے ایک، نادیہ حسین کا کا کہنا تھا کہ، ’ٹیم ورک کی وجہ سے یہ مشکل آسان ہوجاتی ہے‘۔نادیہ حسین کے بقول، اس طرح کے فیشن ایونٹس ملک کی عزت کا سوال ہوتے ہیں اور جب دنیا کا میڈیا موجود ہو تو کراچی کے حالات کی وجہ سے کام رک نہیں سکتا، کیوں کہ فیشن کی دنیا میں پاکستان کا ایک اچھا امیج ہے، اور فیشن انڈسٹری اس طرح کے حالات کے سامنے جھکے گی نہیں۔ ہمارے مذہب اسلام عورت کے لباس اور فیشن کے معاملے میں بھی واضع ہدایات دیتا ہے تاکہ عورت اور مرد اپنے اپنے ستر پوشی کے اسلامی نکات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے خدا کی نعمتوں کوبھرپور استعمال کریں۔ فیشن اور لباس کے انتخاب میں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کس انداز و تراش خراش کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں مغربکی نقالی میں یہ وبا بڑی شدّت اختار کر چکی ہے کہ زنانہ و مردانہ لباس تقریباََ یکساں ہوتا جا رہا ہے۔ یہیں پر بس نہیں آج کل تنگ لباس ، بغیر آستین والی قمیض، تنگ پاجامے اور بغیر دوپٹے والے لباس کا فیشن عام ہوتا جا رہا ہے جبکہ یہ تمام انداز اسلامی تہذیب سے تعلق نہیں رکھتے۔ آج کل فیشن اور عریانی میں بھی فرق نہیں رکھا جا رہا۔بازاروں اور سڑکوں پر ننگی پنڈلیوں ، کھلے بازوں کے ساتھ اپنے چہرہ اور بالوں کی نمائش عام ہے۔ اجکل ٹی وی ڈراموں اور میڈیا نے نوجوانوں اورخواتین کے دماغ میں بس خوبصورت بننے کی دْھن سوار کر دی ہے۔ماضی میں مسلم خواتین نے با پردہ رہتے ہوئے بھی بہت اعلی امور انجام دیئے ہیں۔اور آج بھی با پردہ خواتین ڈاکٹر بھی ہیں اور پائلٹ بھی۔ اب یہ ہمارا انتخاب ہے کہ ہم اسلام کی راہ اپناکرمعاشرے میں اپنا احترام پیدا کریں۔یا پھر مغرب کی تقلید کر کے اپنے رب کی ناراضگی مول لیں۔ فیشن شو میں پہلے عورتیں ہی نمائش کا ذریعہ ہوتی تھیں لیکن اب مرد بھی حصہ لیتے ہیں۔ نامور گلوکار شہزاد رائے بھی اس راہ پر چل پڑے ہیں۔ انھوں نے کراچی فیشن ویک میں کیٹ واک کی اور حاضرین کی جانب سے زبردست داد سمیٹی ۔ نئی نسل کے مقبول گلوکار شہزاد رائے فیشن کی دنیا میں آگئے ہیں۔ انہوں نے ایکسپو سینٹر میں منعقدہ کراچی فیشن ویک کے آخری روز ریمپ پر کیٹ واک کر کے سب کو حیران کردیا، جیسے ہی وہ ریمپ پر آئے تالیوں کی گونج میں ان کا استقبال کیا گیا۔ شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ میں نے اس سے قبل بھی ایک دو فیشن شو میں کیٹ واک کی ہے۔ میری اصل شناخت گلوکاری ہے لیکن دوستوں کی محبت میں کبھی کبھی ماڈلنگ بھی کرلیتا ہوں۔مغربی فیشن انڈسٹری پر کئی برسوں تک راج کرنے والے پاکستانی نژاد فرانسیسی فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی کا فیشن کی دنیا میں بڑا نام ہے۔ لیکن اب انہوں نے فیشن کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا ہے۔ انھوں نے اپنی بقیہ زندگی فلاحی کاموں کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں میڈیکل کالج، اسپتال سمیت دیگر فلاحی کام کرنے کے لیے جلد ہی وطن واپس لوٹیں گے۔ 70 کی دہائی میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے فرانس جانے والے محمود بھٹی کو اپنے ابتدائی دور میں ایک اسٹور پر بطورہیلپر کام کرنے کا موقع ملا جہاں بعد میں انھیں پیکنگ کی ملازمت مل گئی، اس دوران تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اورپھر اسی جگہ انھیں بطورسیلزمین کام مل گیا۔ ایک طرف انھوں نے پیرس کی مقامی یونیورسٹی سے ’’ایم بی اے‘‘ کی ڈگری حاصل کی اوردوسری جانب وہ اپنی محنت، لگن اور ویڑن کی بدولت ترقی کی راہ پرگامزن رہے، انھوں نے ڈیزائن کردہ ملبوسات کا برانڈ متعارف کروایا جس نے فرانس سمیت یورپی ممالک میں شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔محمود بھٹی واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے دنیا کی سب سے بڑی فیشن انڈسٹری میں اپنے منفرد کام کی بدولت نام اور مقام حاصل کیا، انھیں فیشن کی دنیا میں قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کے معروف ٹی وی چینلز نے ان پر خصوصی ڈاکومنٹریاں بنائیں۔ دوسری جانب محمود بھٹی نے فلاحی کاموں کا سلسلہ بھی جاری رکھا، انھوں نے لاہور میں ایک جدید اسپتال قائم کیا جہاں پر غریب لوگوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے جب کہ معروف ہدایتکارہ شمیم آرا سمیت بہت سے فنکار اس اسپتال سے علاج کروا چکے ہیں۔اس وقت فیشن کی دنیا میں یہ رحجان بہت عام ہے کہ مغربی ملکوں کے صارفین کے لیے بہت مہنگی اور مشہور مصنوعات تیار کرنے والے بڑے بڑے ادارے اپنے اشتہارات اور بزنس شوز میں ایشیائی چہرے استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور ان میں عورتوں کے ساتھ ساتھ مرد بھی شامل ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 383706 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More