چوتھی تراویح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اس تراویح میں چوتھے پارے لن تنالو البر کے بارہویں رکوع سے پانچویں پارے والمحصنات کے سترہویں رکوع تک تلاوت کی گئی۔ سب سے پہلے اللہ سے ڈرتے رہنے کی ہدایت، جس نے سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا- تمام مرد و عورتیں ایک ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں- اسی وجہ سے خدا اور رحم یعنی خون کا رشتہ سب کے درمیان مشترک ہے۔ انہی بنیادوں پر اسلامی معاشرہ کی عمارت قائم ہے- یتیموں کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی۔ اس معاملہ میں کسی قسم کی ہیر پھیر اور ردو بدل کو سختی سے منع کیا گیا۔ اس موقع پر حقوق کے تحفظ کے نقطہ نظر سے ان( یتیموں) کی ماؤں سے نکاح کی اجازت دی۔ عربوں میں بیوییوں کی تعداد کی پابندی نہیں تھی- اس موقع پر تعداد کو چار تک محدود کردیا گیا اور یہ شرط لگائی گئی کہ ان کے حقوق کی ادائیگی اور مہر میں کمی نہیں ہونی چاہیے- وارثت کی تقسیم کےضابطے کی تفصیل بتائی، تاکہ سب کے حقوق متعین ہوجائیں اور کوئی طاقتور فریق کمزور کو اس کے حق سے محروم نہ کرسکے اور آپس میں ظلم و حق تلفی کے جھگڑوں کو روکا جاسکے۔ اس بات کا اعلان کیا کہ عورت مال وارثت نہیں ہے عربوں میں یہ دستور تھا کہ سوتیلی ماں بیٹے کو ورثہ میں مل جاتی تھی- اس سے منع کیا گیا اور یہ بھی بتایا کہ عورتوں کو دیا ہوا مال واپس لینے کے لیے تنگ نہ کرو۔

پھر ان عورتوں کی تفصیل جن سے نکاح ناجائز ہے اور نکاح کی شرائط کا بیان ہے تاکہ معاشرہ بدکاری، بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے پاک رہے، یہ بھی واضح کیا کہ اصلاح و ہدایت اور معاشرہ کے استحکام و پاکیزگی کےان احکامات اللہ نے وہ سہولت بھی ملحوظ رکھی ہے جو کہ طبعی کمزوری کے پیش نظر ضروری تھی اس لیے خبردار نفس پرستوں کے بہکاوے میں نہ آجانا وہ تمہیں پاکیزگی کے راستے سے ہٹا کر نفس پرستی کے اندھیروں میں بھٹکانا دینا چاہتے ہیں۔

مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقوں سے کھانے اور ایک دوسرے کا خون بہانے کی ممانعت کی اور بتایا کہ اللہ خود رحیم ہے۔ اس لیے چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحیم ہوں۔ جو لوگ معاشرے میں ظلم و زیادتی کا بیج بوئیں گے وہ سب جہنم میں جھونک دئے جائیں گے۔ البتہ جو لوگ بڑے گناہوں سے جنہیں عرف عام میں گناہ کبیرہ کہتے ہیں، بچے رہیں گے ان کے چھوٹے چھوٹے گناہوں سے اللہ درگزر فرمائے گا۔

فرمایا شریعت میں عورت اور مرد دونوں کے لیے جو حدود اور حقوق متعین کردیئے گئے ہیں سب کو ان کے اندر رہنا چاہئے- اپنی اپنی حد کے اندر کی ہوئی ہر محنت کا اجر ہر ایک اللہ کا ہاں پائے گا- خاندان اور معاشرے میں سربراہی اور قوامیت کا مقام مرد کو دیا گیا- کیونکہ اپنی پیدائشی صفات اور خاندان کی کفالت کا ذمہ دار ہونے کی وجہ وہی اس کے لیے موزوں ہے۔ نیک بیبیاں اس کا احترام کریں اور جن عورتوں سے سرکشی کا اندیشہ ہو تو ان کے شوہر انہیں نصیحت کریں۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو مناسب تنبیہہ بھی کی جاسکتی ہے اور اختلاف بہت بڑھ جائے تو ایسی صورت میں میاں اور بیوی دونوں کے خاندانوں میں ایک ایک بنچ مقرر کیا جائے جو حالات کی اصلاح کی کوشش کریں۔

اللہ، والدین، اقرباء، یتامٰی، مساکین، پڑوسی، ( رشتہ دار، ہوںیا نہ ہوں یا عارضی اور وقتی ) مسافر اور ماتحت سب کے حقوق پہچاننے اور ادا کرنے کی تاکید کی۔ اللہ کو وہی بندے پسند ہیں جو متواضع اور نرم مزاج ہوں- وہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو اکڑنے والے، کنجوس، اور کنجوسی کا مشورہ دینے والے ہوں۔ اس طرح وہ بھی پسند نہیں جو اللہ کی خوشنودی کے بجائے لوگوں کو دکھانے اور نام آوری کے لیے خرچ کریں۔ یاد رکھو لوگوں کے حقوق ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کبھی گھاٹے میں رہنے والے نہیں ہیں۔ ان کے لیے اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے-

ان لوگوں کے لیے بڑے افسوس کا اظہار کیا جو آخرت سے بالکل بے پرواہ ہوکر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی پر اڑے ہوئے تھے۔ ایمان و عمل صالح کی راہ نہ خود اختیار کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دینا چاہتے تھے- پھر تنبیہہ کی کہ اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ تبلیغ کا حق ادا ہوچکا ہے۔ جو اب بھی نہیں سنیں گے وہ سوچ لیں کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جس دن اللہ سب رسولوں کو ان کی صفوں پر گواہ ٹہرا کر پوچھے گا کہ تم نے اپنی امتوں کو کیا دعوت دی اور انہوں نے کیا جواب دیا۔ پھر یہی سوال اس آخری امت سے متعلق آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ہوگا۔ وہ دن ایسا ہوگا کہ نہ کسی کے لیے کوئی جائے پناہ ہوگی اور نہ کوئی شخص کوئی بات چھپا سکے گا۔

اس تنبیہہ کے بعد اللہ سے سب سے بڑے حق نماز کے بعض آداب و شرائط بتائے- یہودیوں کی بعض شرارتوں کا ذکر کیا۔ خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایسے الفاظ بولنے کی عادت جن کے دو دو معنی نکلتے ہوں کہ مسلمان جو مطلب سمجھیں وہ اس سے الٹ مطلب مراد لیں- بتایا کہ یہ حرکتیں وہ حسد کے سبب کرتے ہیں لیکن اللہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہوسلم اور آپ کی امت کو کتاب و حکمت اور عظیم الشان سلطنت عطا فرمائے گا اور یہ حاسد ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔
چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ عرب کے بدو اٹھے، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن تھاما اور ٨٠ برس دنیا کی امامت کی۔ یہ طویل حکومت و سلطنت اسلامی معاشرہ قائم کرنے کا نتیجہ تھا۔ مسلمانوں کو نصیحت کی کہ جب یہ امانت یہود سے لیکر تمہیں دی جارہی ہے تو تم ان کی طرح امانت میں خیانت نہ کرنا بلکہ اس کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کرنا اور ہر حال میں عدل پر قائم رہنا۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جو تم میں سے حکمران ہوں انکی اطاعت کرتے رہنا اور اگر تم میں اور حکمرانوں میں اختلاف ہوجائے تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف معاملہ کو لوٹانا تاکہ جھگڑے کا صحیح فیصلہ ہوسکے اور تمہارا شیرازہ نہ بکھرے۔

منافقین کو ملامت کی کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت پر جمع ہونے کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے میل جول رکھتے ہیں اور اس کو اپنی عقلمندی سمجھتے ہیں حالانکہ اس وقت تک ایمان معتبر ہی نہیں، جب تک وہ پورے طور پر اپنے آپ کو پیغمبر علیہ الصلوٰت و السلام کے حوالہ نہ کردیں اور ہر معاملہ میں ان کی اطاعت کرنے لگیں۔

مسلمانوں کو اپنی مدافعت اور دارالکفر میں گھرے ہوئے مظلوم مسلمانوں کی آزادی کے لیے جہاد کی تاکید کی اور ان کو ملامت کی جو جہاد سے جی چراتے ہیں-مسلمانوں کی ہمتیں پست کرتے ہیں اور جہاد کے فائدوں میں تو حصہ دار بنتے ہیں مگر کوئی خطرہ مول لینےکو تیار نہیں ہیں۔ منافقوں کی اس حالت پر بھی ملامت کی کہ جب جہاد کا حکم نہیں تھا تو بڑھ چڑھ کر جہاد کا مطالبہ کرتے تھے مگر جب جہاد کا حکم آگیا تو اسلام کے دشمنوں سے ایسا ڈرتے ہیں جیسا کہ اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ حالانکہ موت سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا اسی طرح اس بات کو بھی ناپسند کیا گیا کہ فائدہ پہنچ جائے تو اسے اللہ کا کرم قرار دیا جائے مگر نقصان پہنچ جائے تو اسے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنوں کی بے تدبیری قرار دیا جائے، حالانکہ خیر و شیر سب اللہ کی طرف سے ہے۔ ہاں شر کا برا حصہ اہل نفاق کے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دی کہ جو تمہاری اطاعت کرنے والے ہیں وہی اللہ کی اطاعت کرنے والے قرار پائیں گے اور جو تمہاری اطاعت سے گریز کریں گے ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کردو تم پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں۔

اس موقع منافقین کی اس شرارت کا بھی ذکر کیا کہ اگر ان کو خطرہ کی خبر پہنچتی ہے تو سنسنی پیدا کرنے کے لیے فوراً اس کو پھیلا دیتے ہیں حالانکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسکو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ذمہ دار لوگوں تک پہنچایا جائے تاکہ غور و فکر کر کے اس کے تدارک کا سامان کرسکیں ۔منافقین کی ان ساری حرکتوں کے باوجود مسلمانوں کو ہدایت دی کہ معاشرہ کے اندر ان کو نکو بنانے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ ان کے ساتھ عام مسلمانوں کا سا ہی سلوک کیا جائے یعنی سلام و کلام جاری رکھا جائے تاکہ ان کے لیے اپنی غلطیوں کی اصلاح کا موقع باقی رہے-

جہاد کے لیے ہر وقت تیار رہنے کا حکم دیا گیا اور خطرہ کی حالت میں نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا-ان مسلمانوں کو تنبیہہ کی کی گئی کہ جو کھلے ہوئے منافقین کے معاملے میں بھی مداہنت برتتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات منافقین کی حمایت کرنے لگ جاتے تھے۔ فرمایا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کے خلاف منافقین کی سرگوشیاں اور سرگرمیاں اسلام کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرنا کوئی معمولی جرم نہیں ہے یہ چیز اپنی فطرت کے لحاظ سے شرک ہے اور شرک اللہ تعالیٰ کبھی بھی معاف نہیں کرے گا۔ اللہ کے ہاں جھوٹی آرزوئیں کام آنے والی نہیں ہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کام آنے والا ہے۔ آخر میں سختی سے آگاہ کیا کہ منافقت اتنا بڑا جرم ہے کہ منافقین اور کفار دونوں کو ٹھکانہ جہنم ہے۔

آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا- اللہ تعالٰی ہم سب کو قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین اللہ اس قرآن کی برکتوں سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات تبدیل فرمائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1443134 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More