اف یہ برفباری

میں اور بچے ساری رات کھڑکی سے لگ کر دم بخود ہوکر برف باری کا حسین منظر دیکھتے رہے - ایک سحر سا طاری تھا آسمان سے دھنکی ہوئی سفید روئی کے پھوے چپ چاپ خاموشی سے گرتے جارہے تھے اسکی شدت کبھی ہلکی اور کبھی تیز ہو جاتی- پوری کائنات ایک دبیز سفید چادر اوڑھ چکی تھی- حد نظر تک دودھیا سی چکا چوند, پھیلی ہوئی چاندنی کیا حسن اورسکون پیڑ پودے ، شاخ، ڈالیاں، کرسمس ٹریز Christmas trees کے پتے سب سفید براق برف سے ڈھک چکے تھے مکانوں کی چھتیں ، منڈیریں اور ہر چیز کو سفیدی نے ڈھانپ لیا تھا -سبحان اللہ !
برگ و بار پہ ڈالی ڈالی پہ
دھنکی ہوئی روئی کے یہ پھوے
اسماں سے اترتے ہوئے گرتے ہوئے
ہر شے کو ڈھانپتے ہوئے
اک حسیں منظر جیسے حسیں خواب ہے یہ
سبحاناللہ تری قدرت کا کمال ہے یہ
چاندی سی سفیدی ہر سو پھیلی
اجلی اجلی نکھری نکھری
مشین کونسی فیکٹری کیسی
لاجواب ہے اس قادر کی صناعی
سوچا کچھ تک بندی ہی ہوجائے-

بچوں کے اسکول کرسمس کی وجہ سے بند تھے - اسد تھکے ماندھے آکر سو چکے تھے -
پچھلے سال جب سب مری برفباری دیکھنے جارہے تھے اماں نے مجھے روک لیا " کیا بچے کو نمونیہ کروانا چاہتی ہو- اب وہاں جاکر اپنے ارمان پورے کرنا" ارسل بری طرح کھانسے جا رہاتھا -کسقدر میرا دل برفباری دیکھنے کے لئے مچل رہا تھا---

بڑی مشکل سے بچے سونے پر تیار ہوئے - سعد کہنے لگا مما صبح پارک میں جاکر سنو مین snow man بنایئنگے--- اس روز اسٹور جاکر برف کی جیکٹ ، پتلون اور جوتے خرید لایا تھا -قیمت اتنی زیادہ لیکن مجبوری -پڑوس والی مسز اکرم سالویشن آرمی کے اسٹور سے اتنے سستے لے آئی - میں نے ڈرتے ڈرتے اسد سے کہا کہ باقی بچوں کے لئے اور اپنے لئے میں بھی وہاں دیکھ لوں - اف میرے خدایا، لنڈے سے میں ایک مرتبہ سوئیٹر لائی تھی تو دو دن مارے غصے کے مجھ سے بات نہیں کی-" کیا میں مر گیا ہوں کہ اب لنڈے سے خریداری کی نوبت آگئی ہے ؟" لیکن اب اتنے آرام سے کہہ دیا" ہاں ہاں جاکر دیکھ آؤ -بس حالت بری نہ ہو- ڈالر پانی کی طرح خرچ ہو رہے تھے- تو بے چارے کیا کہتے---

اٹھ اٹھ کر میں کھڑکی سے اس منظر سے لطف اندوز ہوتی رہی -ٹی وی پر خوشیاں منائی جارہی تھیں کہ ابکے کرسمس سفید ہوگا - بچے صبح ہی صبح اٹھ کر تیار ہوئے ہمارا اپارٹمنٹ 21ویں منزل پر تھا اوردور دور تک کے مناظر نظروں کے سامنے تھے- برفباری اب بھی وقفے وقفے سے جاری تھی - اسد اپنے موٹے جیکٹ اور برف کے جوتے ، دستانے پہن کر جانے لگے " باہر جانے سے پہلےٹمپریچر ٹی وی پر دیکھ لینا -باہر بے حد سردی ہے اندر بلڈنگ گرم ہے اسلئے تم لوگوں کو اندازہ نہیں ہو رہا ہے-

بچے سب تیار ہوئے ، جیکٹ ، ٹوپی ، دستانے ، برف کے جوتے ، میں نے شلوار قمیض کے اوپر ہی کوٹ چڑھالیا سنومین کی ناک کیلئے گاجر ایک پرانا مفلر اور آنکھیں؟-باہر نکلے تو سخت سردی تھی برف میں مشکل سے چلتے ہوئے پارک تک پہنچے ہمارے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں لگتا تھا سارے بچے کہیں دبک گئے ہیں- تھوڑی دیر برف میں کھیل کر بچے سردی سے پریشان ہوگئے جلدی جلدی سب نے ملکر تھوپ تھاپ کر ایک ہیولا بنا دیا - میری ٹانگیں تو لگتا تھا جم گئی ہیں - جلد ہی واپس آئے گرم بلڈنگ کے اندر داخل ہوکر سکون ملا-میرا اوربچوں کا شوق پورا ہو چکا تھا -

شام کو اسد تھکے ہارے گھر آئے "لایسنس کا امتحان پاس کرلوں تو ایک پرانی گاڑی خرید لوں اس برف میں بس اسٹاپ تک آنا جانا بہت مشکل ہے"-

اگلے دو روز دھوپ نکل آئی اور برف قدرے پگلنا شروع ہوئی -سڑکوں اور پاتھوں پر نمک اور برف پگھلانے کا مادہ ڈالاگیا تھا -مشینیں سڑکوں کو اور فٹ پاتھوں کو صاف کرکے قریب کے میدان میں برف کے ڈھیر لگا چکی تھی - اب برف کچھ کیچڑ نما ہو چکی تھی-

اسد بس سے اترے تو پاتھ کو صاف سمجھ کر بری طرح پھسلے پگھلی برف شیشے کی طرح جم گئی تھی ( بعد میں پتہ چلا کہ اسکو بلیک آئس کہتے ہیں ) وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ کوئی ہڈی نہ ٹوٹی لیکن جگہ جگہ نیل پڑے تھے - میں نے تیل میں ہلدی ڈالکر تیل ملا اور گرم گرم دودھ ہلدی پلایا اور دو گولی ٹایلینول کھلائی ---
رفتہ رفتہ ہم برف کے عادی اور برف بیزار ہوتے گئے --

اگلے برس بنک کے قرضے سے ایک مکان اور ایک گاڑی خرید لی تو اللہ کا شکر ادا کیا - اسد کو کام پر آنے جانے کی اور مجھے سودا سلف اور بچوں کو گھومنے پھرنے کی آسانی ہوگئی-

بہار، گرمی ، خزاں کے موسم تیزی سے گزر گئے اور یہ برف کا موسم کمبخت پھرسے شروع ہوا-

گاڑی برف میں دب چکی تھی اسکو پہلے مشکلوں سے صاف کیا اور گیراج میں لے آئے -بچے بھی سخت بیزار دکھائی دے رہے ہیں - اڑوس پڑوس میں لوگوں نے اپنی ڈرائیو وے بیلچے لے صاف کرنی شروع کی تو ہمیں بھی جوش آیا ورنہ گا ڑی کیسے نکلتی-میرا تو دوچار بیلچے چلا کرہی کمربری طرح دکھنے لگی اسد بیچارے لگے رہے اتنے میں برف صاف کرنیوالی گاڑی آئی - ہماری سائیڈ واک صاف کرتے ہوئے پھر ڈرائیو وے پر ڈہیر لگا دیا اسد نے کہا اوئے بدبخت! وہ ہاتھ ہلاتا ہوا مسکراتا ہوا چلا گیا-

فون کی گھنٹی بجی اماں تھیں " خبروں میں دیکھ رہی تھی تمہارے ہاں برف کا طوفان آیا ہوا ہے -ارے اب بھی جی بھرا کہ نہیں؟ "دکھتی ہوئی کمر کے ساتھ میں نے روہانسی آواز میں کہا ،" ہاں اماں یہ کمبخت تو اب چار مہینے تک جان نہیں چھوڑیگی -میں تو سخت بیزار آگئی ہوں - اماں وہاں آپلوگ کتنے مزے میں ہیں نا -کاش کہ ہم بھی وہیں ہوتے"------

Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 234390 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More